Actions

Difference between revisions of "تقدیر"

From IQBAL

(Created page with "<div dir="rtl"> (۱)’’میرے نزدیک اس نظریے سے اور کوئی چیز قرآنی تعلیم کے زیادہ خلاف نہیں جو کائنات کو پہل...")
 
(Blanked the page)
(Tag: Blanking)
Line 1: Line 1:
<div dir="rtl">
 
(۱)’’میرے نزدیک اس نظریے سے اور کوئی چیز قرآنی تعلیم کے زیادہ خلاف نہیں جو کائنات کو پہلے سے سوچی سمجھی تجویز کی ہوبہو نقل قرار دے۔قرآن کی رو سے کائنات کے اندر بڑھنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک ارتقا پذیر کائنات ہے نہ کہ تکمیل یافتہ شے جسے بناکرخدا صدیوں سے الگ بیٹھ گیا ہو‘‘
 
  
(دوسرا خطبہ)
 
(۲)’’ اس میں کوئی کلام نہیں کہ مستقبل خدا کی نامیاتی تخلیقی زندگی میں پہلے سے موجود ہے لیکن یہ ایک واضح امکان کے طور پر موجود ہے نہ کہ محضوص خدوخال رکھنے والے واقعات کے  متعینہ نظام کی حیثیت سے‘‘
 
(تیسرا خطبہ)
 
(۳)’’ اگر ہم تاریخ کو پہلے سے متعین واقعات وحادثات کے نظام کی ایک ایسی تصویر خیال کریں جو بتدریج ظہورپذیر ہوتی ہو تو پھر اس میں جدت اور تازہ کاری کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی‘‘
 
(تیسرا خطبہ)
 
(۴)’’ اس قسم کی تقدیرپرستی خودی کی نفی نہیں جیسا کہ اسپنگلر کا خیال معلوم ہوتا ہے ‘اس کے علی الرغم یہ ایسی زندگی اور بے پایاں قوت ہے جو کسی رکاوٹ کو تسلیم نہیں کرتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان بڑے سکون کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہے جبکہ اس کے اردگرد گولیوں کی بوچھاڑ ہورہی ہو‘‘
 
(چوتھا خطبہ)
 
تقدیر کا مسئلہ صدیوں سے فلسفہ، الٰہیات اور اخلاقیات کا اہم موضوع رہا ہے۔ ہر دور میں مفکرین، اہل دانش اور اخلاق وتصوف کے میدان کے شہسواروں نے اپنے اپنے مخصوص نظریہ زندگی اور اپنی سمجھ کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی کہ آیا ایک انسان اپنے کاموں میں مجبور ہے یا مختار ۔ جبر واختیار کا مسئلہ ابھی تک حل طلب اور موضوع بحث ہے۔ جبر وقدر کی بحثوں سے اسلامی لٹریچر اور مسلم تصوف کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔اشاعرہ اور معتزلہ کے نظریات جبر وقدر سے کون واقف نہیں۔جبر پسند حکما اور قدرت واختیار کے حامی اپنے اپنے دلائل کے حق میں قرآن وسنت کے حوالہ جات پیش کرتے ہیں۔مسلم حکما کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ انسان اپنے افعال کا خود ذمہ دار ہے کیونکہ خدا نے اسے قوت عمل اور آزادی انتخاب کی نعمت سے نوازا ہے۔اس کے برعکس مسلمان مفکرین اور متصوفین کا دوسر ا گروہ اس امر میں ایمان رکھتا ہے کہ انسان بالکل مجبور ہے کیونکہ جو کچھ تقدیر میں روزِ ازل سے لکھا گیا ہے ۔وہ اُسے کرنے پر مجبور ہے۔اگر غور سے دیکھا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ یہ دونوں مکاتب فکر انتہا پسندی کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہ افراط وتفریط کسی طرح بھی مناسب اور مفید نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان مجبور بھی ہے اور مختار بھی۔ وہ نہ تو ہر کام میں کلیتہً مجبور ہے اور نہ ہی وہ مکمل طور پر مختار ہے۔اس لحاظ سے انسانی زندگی جبرا ور اختیار کامجموعہ ہے۔
 
علامہ اقبالؒ کے تصور تقدیر کا ایک اہم عنصر جدت کوشی،تازہ آفرینی،ارتقا پذیری اور مسلسل تخلیقی عمل ہے۔اُن کی رائے میں یہ کائنات کوئی پہلے سے تیار شدہ یا تکمیل یافتہ سکیم نہیں ہے بلکہ یہ آج بھی ترقی اور تکمیل کے مراحل سے گزر رہی ہے۔اُنھوں نے بجا ہی کہا تھا:۔
 
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید        کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
 
(بال جبریل،کلیات اقبال)
 
علامہ اقبالؒ کائنات کے عمل کو خدا تعالیٰ کی سابقہ تجویز کی ہوبہو نقل قرار نہیں دیتے کیونکہ اس طرح یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ خالق ارض وسماوات اسے بنا کر الگ بیٹھا ہوا ہے اور اب اس کا تخلیقی عمل ختم ہوگیا ہے۔علاوہ ازیں اس نظریہ کائنات کی رُو سے یہ کارخانہ قدرت ایک مشین کی مانند بن جاتا ہے۔میکانکی عمل ایک دفعہ شروع کردینے کے بعد خودبخود جاری رہتا ہے۔ یہ اسی وقت ختم ہوتا ہے جب اسے روکنے کے لیے اس کا بٹن دبادیا جائے۔ یہ میکانکی طریق کار مادیت اور جبریت کی علامت ہے۔یہ ایک ایسے خط مستیقم کی طرح ہے جو ابھی تک تشکیل پارہا ہے۔مفکر اسلام ہونے کی حیثیت سے علامہ اقبالؒ کا تصور کائنات بھی قرآنی تعلیمات پر مبنی ہے۔قرآن حکیم کا ارشادہے: ’’کل یوم ھو فی شان‘‘(الرحمن ۵۵:۲۹) ،(خدا تعالیٰ ہر روز نئی جلوہ گری کرتا رہتا ہے)۔ اس لحاظ سے دنیائے رنگ وبو میں ہر روز نئے نئے واقعات اور حادثات پر دہ عدم سے معرض ظہور میں آتے  رہتے ہیں۔ اگر ہم کائنات کو خدا کے سابقہ تخلیقی عمل کی ہوبہو کاپی قرار دیںتو پھر اس میں سعی پہیم،عمل مسلسل اور ارتقا پذیری کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ قرآن مجید کی ایک اور آیت میں کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے تخلیقی عمل میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔علامہ اقبالؒ تو زندگی کو ’’جوئے رواں‘‘ اور’’ مے جواں‘‘ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں :۔
 
  ؎  زندگی جوئے رواں است ورواں خواہد بود    ایں مئے کہنہ جوان است وجواں خواہد بود
 
(پیام مشرق،کلیات اقبال،ص ۳۶۲)
 
وہ چشم بصیرت رکھنے والوں کو زندگی اور کائنات کی تعمیر وترقی کا بنظر غائر مطالعہ ومشاہدہ کرنے کی یوں تلقین کرتے ہیں:۔
 
؎  چشم بکشاے اگر چشم تو صاحب نظر است      زندگی درپئے تعمیر جہاں دگر است
 
(ایضاً)
 
خدا تعالیٰ کی تخلیقی صفت اس امر کی واضح دلیل ہے کہ کائنات میں بھی یہ عمل تخلیق ابھی تک جاری ہے۔ اس لیے علامہ اقبالؒ نے بجا ہی کہا ہے’’قرآن کی رُو سے کائنات کے اندر بڑھنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت موجود ہے‘‘کیاموجودہ زمانے کی نئی نئی اور حیرت انگیز سائنسی ایجادات واکتشافات ،فضائی تسخیر اور بحری دریافتوں نے قرآن حکیم کے اس ارتقائی اور انقلابی نظریے کی توثیق نہیں کردی ہے؟
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ کائناتی تبدیلیوں اور زمانی تبدیلیوں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ارتقائی تصور کے مخالفین کی رائے میں حال اور ماضی محض گذشتہ واقعات کی تکرار کے سوا کچھ بھی نہیں۔اس طرح وہ جدت طرازی اور تازہ آفرینی کی اہمیت کے منکر بن جاتے ہیں۔اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ماضی پرستی دراصل جبریت کی ہی ایک شکل ہے۔علامہ اقبالؒ کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ زمانہ ہر لمحہ تغیر پذیر ہوکر نئے نئے حوداث کو جنم دیتا رہتا ہے۔تاریخ پہلے سے متعین واقعات کے نظام کا نام نہیں جو آہستہ آہستہ منصہ شہود پر آتے رہتے ہیں بلکہ یہ تو ہر آن بدلنے والے حوادث کے ارتقائی عمل کی مظہر ہے۔ مفکر اسلام مستقبل کو خدا کی تخلیقی زندگی میں پہلے سے موجود ایک واضح امکان کے طور پر تو تسلیم کرتے ہیں مگر وہ اُسے مخصوص خدو خال رکھنے والے واقعات کے متعینہ نظام کی حیثیت سے قبول نہیں کرتے ۔وہ اپنی نظم’’ زمانہ‘‘ میں وقت کی تغیر پذیری کو زمانے ہی کی زبان سے یوں بیان کرتے ہیں:۔
 
جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہوگا،یہی ہے اک حرف محرمانہ
 
قریب تر ہے نمود جس کی، اسی کا مشتاق ہے زمانہ
 
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
 
میں اپنی تسیج روز وشب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
 
(بانگ درا،کلیات اقبال،ص ۴۲۱)
 
تقدیر کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام آنے والے حالات وواقعات کو’’لوح محفوظ‘‘ پر درج کردیا تھا اور اب ہر واقعہ اس مقررہ پروگرام کے مطابق آہستہ آہستہ رونما ہورہا ہے۔ جب دنیا میں ہونے والے واقعات اسی طرح’’لوح محفوظ‘‘ میں تھے تو اُن کا ظہور بھی لازمی قرار دیا جاتا ہے۔اس نظریے کی رُو سے جبر پرست انسان اپنے تمام کاموں خصوصاً برے اعمال اور بدحالی کا ذمہ دار خدا کوٹھہراتے ہیں اور وہ خود بری الذمہ ہونے کا جواز پیش کرتے ہیں۔اس مکتب فکر کے حامیوں کے چند خیالات ملاخطہ ہوں۔
 
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی    چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
 
(میر تقی میر)
 
درکوئے نیک نامی مارا گذرند اوند      گر تو نمی پسندی، تغییر کن قضارا
 
( حافظ شیرازی)
 
          در گردش است بعتُ ولعاب درکمیں      در حرکت است خامہ ونقاّش درقضا 
 
(قآنی)
 
اس نظریہ تقدیر سے انسان قوت واختیار کے مالک نہیں رہتے بلکہ وہ اُن کٹھ پتلیوں کی مانند بن جاتے ہیں جنہیں بازی گر اپنی مرضی سے حرکت میں لاتا ہے۔ جبر پرست اس نظریے کی تائید میں اکثر اوقات یہ قرآنی آیت پیش کرتے ہیں۔’’ اِنّ اﷲ علیٰ کلّ شی ء قدِیر ‘‘  (بیشک اﷲ ہر ایک چیز پر قادر ہے) ۔
 
تقدیر پرستوں کے برعکس انسانی اختیار وقوت کے حامی بھی اپنے اپنے دلائل بیان کرتے ہیں جن کا خلاصہ یہاں ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے۔وہ انسانی اختیار کے حق میں یہ کہتے ہیں :۔
 
(۱) خدا تعالیٰ نے ہمیں ہاتھ پائوں اور عقل کی نعمت دی ہے تاکہ ہم کوئی کام کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ یہ کام غلط تونہیں ۔ اس کام کو کرنے کے لیے ہمیں ہاتھ پائوں دئیے گئے ہیں۔خدا کا کوئی بھی فعل چونکہ حکمت سے خالی اور بے کار نہیںہوتا اس لیے اس نے ہمیں ہاتھ اور پائوں بھی استعمال کرنے کے لیے دئیے ہیں۔
 
(۲) خدا تعالیٰ نے ’’لوح محفوظ‘‘ میں مستقبل کا خاکہ تو بنایا تھا مگر خاکے میں اچھا یا برا رنگ بھرنے کے لیے اس نے ہمیں اختیار بھی دیا ہے۔
 
(۳)خداتعالیٰ آئین پسند ہے اس لیے اس نے اس وسیع وعریض کائنات کو بطریق احسن چلانے کے لیے کچھ قوانین بنائے ہیں تاکہ یہاں بگاڑ اور فساد رونما نہ ہو۔ یہ خاص اُصول اور قاعدے خاص نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔وہ بلاتمیز مذہب وملت سب انسانوں کے لیے یکساں نتائج پیدا کیا کرتے ہیں مثلاً آگ کی خاصیت جلانا ہے۔جوشخص بھی آگ میں ہاتھ ڈالے گا،اُس کا ہاتھ جل جائے گا مگر معجزات کا ظہور قوانین فطرت کا پابند نہیں ہوتا۔
 
(۴)اگر دنیا میں سب کچھ خدا کررہا ہے تو پھر کفار کا کفر اور فاسقین کا فسق قابل اعتراض کیوں؟ اس کے علاوہ پھر دنیا میں انبیائے کرام کی بعثت اور آسمانی کتابوں کا نزول عبث ٹھہرتے ہیں کیونکہ جب یہ بد کار انسان اور کفار بدکاری اور کفر کرنے پر مجبور ہیں تو پھر تبلیغ وہدایت کا کیا فائدہ؟
 
(۵) جب ہم کتے کو پتھر مارتے ہیں تو وہ کتا پتھر کی طرف نہیں دوڑتا بلکہ پتھر مارنے والے کو ذمہ دار خیال کرتے ہوئے اس کی جانب جاتا ہے۔گویا کہ ایک جانور بھی اس حقیقت کو جانتا ہے کہ پتھر مجبور ہے اور انسان مختار ہے۔
 
(۶) کسی ناکامی پر ہمارا احساس ندامت اس امر کا ثبوت ہے کہ ہم جو کچھ کرسکتے تھے وہ ہم سے ہماری کوتاہی کے سبب نہ ہوسکا۔ یہ احساس غم ہمارے اختیار کی دلیل ہے۔
 
(۷) قرآنی احکام سے بھی انسانی اختیار کا ثبوت ملتا ہے مثلاً نماز پڑھنے‘زکوٰۃ دینے‘نیکی کرنے اور بدی سے دور رہنے کا حکم دیا گیا۔اگر ہم بالکل مجبور ہوتے تو پھر حکم دینے کی کیا ضرورت تھی؟
 
(۸) تقدیر کا مادہ ’’قدر‘‘ ہے۔اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے’’لوح محفوظ‘‘ میں مختلف اعمال کے لیے خاص اقدار مقرر کی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں وہاں اچھے اور برے کاموں کا پیمانہ مقرر کیا گیا تھا نہ کہ متعین کاموں کا لازمی ظہور۔
 
(۹) اگر انسان بالکل مجبور ہے تو پھر اسے جزا اور سزا دینے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔جزا اور سزا سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں اکتساب عمل کی قوت اور آزادی انتخاب کی دولت سے نوازا گیا ہے۔
 
(۱۰) خدا تعالیٰ خالق کائنات ہے اور وہ ہر وقت تخلیقی عمل میںمصروف رہتا ہے اس لیے کائنات بھی مختلف مراحل سے گزرتی جارہی ہے۔انسان کو چونکہ خلیفتہ اﷲ علی الارض کہا گیا ہے‘اس واسطے یہ نائب کوئی کٹھ پتلی نہیںبلکہ خاص اختیارات کا حامل ہے۔
 
علامہ اقبالؒ انسانی جبر کی نسبت انسانی اختیار کے زیادہ قائل ہیں۔ اگر وہ انسان کو صاحب اختیار ہستی نہ سمجھتے تو اُسے نائب حق کا فریضہ سرانجام دینے اور سعی وعمل کی بار بار تلقین نہ کرتے۔وہ  اُس زندگی کو موت کے مترادف خیال کرتے ہیں جس میں ذوق انقلاب نہ ہو۔وہ خود فرماتے ہیں:
 
ع: جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی    (بال جبریل)
 
علامہ اقبالؒ تقدیر کا ایک مفہوم وہ قانون قدرت بتاتے ہیں جس کی پابندی تمام جمادات‘نباتات اور حیوانات کررہے ہیں۔ یہ مخلوقات خدا کے مقرر کردہ قوانین کے تحت عمل کرنے پر مجبور ہیں۔چاند‘ سورج‘ستارے اور دیگر اشیاء اسی قسم کی’’ تقدیر ‘‘ کے پابند ہیں۔اُن کی نگاہ میں تقدیر کا دوسرا مفہوم خدا تعالیٰ کے احکام کے مطابق اپنے ارادہ و اختیار سے کام لینا ہے۔ وہ اپنی ایک نظم’’ احکام الہٰی‘‘ میں تقدیر کے ان دو پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہیں:۔
 
پابندی  تقدیر  کہ  پابندی  احکام؟      یہ  مسئلہ مشکل  نہیں  اے  مرد خرد مند
 
اِک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر      ہے  اس کا مقلد ابھی ناخوش ابھی خورسند
 
تقدیر کے  پابند  نباتات  وجمادات      مومن  فقط  احکام الہٰی  کا  ہے  پابند
 
(ضرب کلیم ‘کلیات اقبال‘ ص۵۲۶)
 
خدا تعالیٰ کے مستند احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اس کی رضا چاہنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ مسلمان حرکت و عمل کو چھوڑ دے ۔قرآن حکیم نے تو ہمیںیہ انقلابی درس دیا ہے:’’ و اِنّ یس للانسان الا ماسعٰی‘ ‘(النجم ۵۳:۳۹)،(انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے اس نے کوشش کی ہو)۔اس قرآنی درس عمل کی رو سے ہماری سعی ضرور نتیجہ خیز ہوگی۔کیا ہمارے ہادی اعظمؐ نے اپنی تمام حیات طیبہ اپنے اعلیٰ مقاصد کے حصول میں صرف نہیں کردی تھی؟ کیا اُنھوں نے حصول مقاصدکے لیے عمل مسلسل ‘سعی پیہم اور ان تھک جدوجہد سے کام نہیں لیا تھا؟ کیا خدا تعالیٰ نے اُن کی حیات طیبہ کو ہمارے لیے اُسوہ حسنہ قرار نہیں دیا؟ نبی آخرالزمان  ﷺ کا سچا عاشق اور اُمتی اور جمود وتساہل؟ قدرت نے نہ صرف انسانوں بلکہ نباتات تک میں نشو ونما اور ترقی کی امکانات رکھ دئیے ہیں۔ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ بیج کو زمین کی تاریکی میں دبایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی قوت نمو کا اظہار کرتے ہوئے’’ظلمت کدہ خاک‘‘ سے اپنا سر باہر نکالتا ہے۔اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے انسان میں تو جذبہ نمود کا شدید ترین اظہار ہونا چاہیے۔علامہ اقبالؒ اس موضوع کی طرف بڑا بلیغ اشارہ کرتے ہوئے اپنی نظم’’ تسلیم ورضا‘‘ میں کہتے ہیں:۔
 
ہر  شاخ سے  یہ نکتہ  پیچیدہ ہے پیدا      پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا
 
ظلمت کدہ  خاک  پہ شاکر نہیں  ر ہتا      ہر لحظ ہے  دانے کو  جنوں  نشو ونما  کا
 
فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہ عمل بند      مقصود ہے  کچھ  اور  ہی تسلیم ورضا کا
 
جرأت ہو نموکی تو فضا تنگ  نہیں ہے      اے مرد خدا ! ملک خدا  تنگ  نہیں ہے
 
(  ضرب کلیم ‘کلیات اقبال‘ ص ۵۱۴۔۵۵۱)
 
جرمنی کے ایک مشہور فلسفی اسپنگلر(۱۸۸۰۔۱۹۳۶) نے انسانی تہذیب وتمدن کے بارے میں ایک اہم کتاب The Decline of the West لکھی تھی جس میں اس نے مختلف تہذیبی اور ثقافتی تاریخی واقعات کو بیان کرکے اسلامی تہذیب وثقافت کے متعلق بحث کی تھی۔اس بحث کے دوران اس نے مسلمانوں کے تصورِ تقدیر کو ہدف تنقید بنایا اور اسے نفی خودی کے مترادف قرار دیا تھا۔علامہ اقبالؒ کو اس کی اس تنقید سے مکمل طور پر اتفاق نہیں۔وہ یہ تو مانتے ہیں کہ غلط نظریہ تقدیر نے مسلمانوں کے زوال میں نمایاں حصہ ادا کیا ہے لیکن وہ تقدیر کے اسلامی اور صحیح نظریے کو اس زو ال کا باعث نہیں سمجھتے۔ابھی بتایا گیا ہے کہ علامہ اقبالؒ مومن کو فقط’’احکام الٰہی کاپابند‘‘ خیال کرتے ہیں ۔ احکام ا لہٰی کی اس پابندی کو وہ جبر اور تقدیر پرستی نہیں کہتے بلکہ وہ اسے تقدیر کی اعلیٰ اور تعمیری قسم تصور کرتے ہوئے اس کی یوں تعریف کرتے ہیں:۔
 
ہر کہ  از  تقدیر  دارد  ساز  و  برگ    لرزد ا  ز یزوئے  اُو  ابلیس  و  مرگ
 
جبر دین  مرد صاحب ہمت  است    جبر مرداں  از  کمال  قوت    است
 
پختہ  مردے  پختہ تر  گر د ر  ز  جبر    جبر مر د    خام      را    آغوش قبر
 
جبر خالدؓ      عالمے    برہم    زند    جبر ما  بیخ  و  بن    ما    بر  کند
 
کار  مردان  است  تسلیم  و  رضا    بر  ضعیفاں  راست  ناید  ایں  قبا
 
(جاوید نامہ‘کلیات اقبال‘ص۷۰۹)
 
کمزور اور بے عمل کا نظریہ جبر تو اس کے لیے موت کا پیغام لاتا ہے مگر مضبوط‘ بلند ہمت‘ اور باعمل انسان ہر بات میں خدائے قادر کے احکام کی پابندی کرکے خود صاحب قدرت بن جاتا ہے۔ جب وہ کسی کام میں خدا کی اطاعت کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے تو پھر خدا ایسے عاشق صادق پر خود فریفتہ ہوکر اس کی رضا کا خواہش مند ہوجاتا ہے۔ایسے مقام پر خدا اپنے اس بندے سے پوچھتا ہے کہ کس چیز میںتیری رضا ہے۔پہلے پابندی احکام کرکے انسان خدا کی رضا کا طالب ہوتا ہے بعد میں خدا اس کی اطاعت سے خوش ہوکر اس کے مطابق اپنا طریق بدل لیتا ہے۔اس بات کو مدنظر رکھ کر شاعر مشرقؒ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کے جبر یعنی کامل اطاعت خداوندی کو ہنگامہ آفرین اور انقلاب خیز قرار دیاہے اور ہمارے جبری نظریات کو ہماری برباری کا پیش خیمہ بتایا ہے۔وہ ایک جگہ انسانی جبر وقدر کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:۔
 
نہ مختارم تواں گفتن‘نہ مجبور      کہ خاک زندہ ام‘ در انقلابم           
 
</div>
 

Revision as of 22:40, 11 July 2018