Actions

تغزل

From IQBAL

Revision as of 18:02, 9 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> اقبال بھی دیگر ہم عصر شعرا کی طرح ابتدا میں ایک غزل گو شاعر تھے اور داغؔ سے باقاعدہ اصلا...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

اقبال بھی دیگر ہم عصر شعرا کی طرح ابتدا میں ایک غزل گو شاعر تھے اور داغؔ سے باقاعدہ اصلاح لیتے تھے ۔ رفتہ رفتہ ان کی طبیعت غزل سے ہٹ کر نظم کی طرف مائل ہو تی گئی۔ فنی اعتبار سے غزل اور نظم میں واضح فرق ہے ۔ مگر اقبال نے غزل گوئی سے دست کش ہونے کے باوجود غزل کی روح کو اپنی نظموں میں بھی برقرار رکھا۔ اقبال کی طبیعت کا شاعرانہ مزاج جسے غزل اور تغزل کے ساتھ ایک فطری مناسبت اورطبعی لگاؤ ہے، اس نظم میں بار بار اپنی جھلک دکھاتا ہے ۔ بعض مقامات پر اس کا اظہار بہت بھر پور ہے: تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے

شب کی آہیں بھی گئیں، صبح کے نالے بھی گئے دل تجھے دے بھی گئے، اپنا صلہ لے بھی گئے

آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے آئے عشاق ، گئے وعدۂ فردا لے کر اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر بعض اشعار کو اگر نظم کے سیاق و سباق سے الگ کرکے دیکھا جائے تو وہ خالص غزل کے اشعار معلوم ہوتے ہیں: کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے

بات کہنے کی نہیں، تو بھی تو ہرجائی ہے بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب ِ جُو بیٹھے

سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کوکو بیٹھے وادیِ نجد میں وہ شورِ سلاسل نہ رہا

قیس دیوانۂ نظارۂ محمل نہ رہا ٭ایجاز و بلاغت: ’’شکوہ‘‘ کے بعض حصے ، اشعار اور مصرعے ایجاز و بلاغت کا شاہ کار ہیں ۔ تاریخ کے طول طویل ادوار، اہم واقعات و روایات اور مختلف کرداروں کی تفصیلی خصوصیات کو بڑ ے بلیغ انداز میں نہایت ہی اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، چند مثالیں: دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں

کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خیبر کس نے؟

شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سُر کِس نے؟ بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے ______ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز ______ مور بے مایہ کو ہم دوشِ سلیماں ؑکر دے