Actions

تصوف

From IQBAL

Revision as of 19:37, 24 June 2018 by Tahmina (talk | contribs)

(۱)’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کے مذہبی تجربات کے ارتقا کی تشکیل کرنے اور اُسے درست نہج پر چلانے کے لیے تصوف کے حقیقی مکاتب فکر نے بہت اچھا کام کیا ہے لیکن دور حاضر کے صوفیا جدید افکار و نظریات سے لاعلمی کی بنا پر جدید تصورات وتجربات سے اکتساب فیض کرنے کے اہل نہیں رہے‘‘۔ (دیباچہ) (۲)’’ حقیقت مطلقہ کے کلی ادراک اور رویت کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں حسی علم کے علاوہ علم باطن بھی سیکھنا چاہیے۔قرآن اس علم باطن کا سرچشمہ’فواد‘ یا’قلب‘ یعنی دل کو قرار دیتا ہے۔ یہ باطنی علم بھی اتنا ہی ٹھوس اور حقیقی ہوتا ہے جتنا کہ کوئی خارجی علم،تمام بنی نوع انسان کا الہامی اور متصوفانہ ادب اس حقیقت کا شاہد ہے کہ تاریخ انسانیت میں مذہبی تجر بات کو اس قدر دوام اور غلبہ حاصل رہا ہے کہ ہم اُنھیں محض دھوکہ اور باطل تصور کرکے رّد نہیں کرسکتے۔مذہبی تجربات و مشاہدات بھی دیگر انسانی تجربات کی طرح مبنی بر حقیقت ہوتے ہیں‘‘ (پہلا خطبہ) (۳)’’صوفیانہ مشاہدہ حقیقت کے کلی علم کے حصول کا باعث بنتا ہے‘‘ (ایضاً) (۴)’’ چونکہ صوفیانہ تجربے کی خاصیت کا براہ راست تجربے سے تعلق ہے اس لیے یہ امر بالکل واضح ہے کہ ا سکا ابلاغ ناممکن ہے‘‘ (ایضاً) (۵)’’ محمد ؐ عربی عرش معلی پر پہنچ کر واپس آگئے تھے لیکن اگر میں اس مقام تک پہنچتا تو خدا کی قسم میں ہرگز واپس نہ آتا‘‘ (عبدالقدوس گنگوہیؒ کا قول ،پانچواں خطبہ) (۶)’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی تجربات ومشاہدات ناقابل بیان ہوتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مذہبی آدمی کی یہ تلاش بے فائدہ ہے۔درحقیقت مذہبی واردات کی اس صفت کی بدولت ہم خودی کی ماہیت کا سراغ لگا تے ہیں۔ مذہبی زندگی کا نقطہ عروج خودی کا انکشاف ہے…انکشاف ذات کا پتہ دینے والا تجربہ ایک ایسی عقلی حقیقت ہے جسے تصورات میں قابو نہیں کیا جاسکتا ہے۔یہ طریق عمل باطنی حیاتیاتی انقلاب پر منتج ہوتا ہے جسے منطقی مقولات کاپابند نہیں بنایا جاسکتا‘‘۔ (ساتواں خطبہ) (۹) ’’قدیم قسم کا تصوف،قومیت اور لادین اشراکیت مایوس انسانیت کی بیماریوں کا علاج کرنے سے قاصر ہیں‘‘ (ایضاً) (۸) یہ مذہبی تجربات ومشاہدات ہمارے دیگر عام تجربات کی مانند بالکل قدرتی ہیں‘‘۔ (ایضاً) تصوف انسانی زندگی کے اُن اہم موضوعات میں سے ہے جن کے بارے میں زمانہ قدیم اور دور حاضر میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے۔ایک گروہ انسانی تصوف کی اہمیت کے بارے میں بے حد مبالغہ آرائی سے کام لیتا ہے اور اسے دیگر علوم اور ذرائع معرفت الٰہی پر ترجیح دیتا ہے۔ اس کے برعکس انسانوں کا دوسرا گروہ اس کی تنقیدمیں انتہا پسندی کا مرتکب ہوگیا ہے۔ یہ دونوں مکاتب فکر افراط وتفریط کا شکار ہوکر حقیقت کی منزل سے دور ہوگئے ہیں۔ جہاں تک مسلم تصوف کا تعلق ہے اس کے بارے میں بھی دوجداگانہ نقطہ ہائے نگاہ پائے جاتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ صحیح اسلامی نظریہ حیات کے علم بردار ہونے کی حیثیت سے اعتدال کی راہ پر گامزن دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ہر اُس تصور کی تعریف کرتے ہیں جس کی اساس قرآنی تعلیمات اور نبی اکرمؐ کے اُسوہ حسنہ پر استوار کی گئی ہو۔جو نظریہ اُنھیں اس معیار کے مطابق درست نظر نہیں آتا وہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ مسلم اورغیر مسلم اہل علم اور مفکرین کی آراء کو قرآنی معیار پر پرکھنے کے عادی ہیں۔وہ اپنے اس مسلک حق گوئی اور حق بینی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:۔ کہتا ہوں وہی بات،سمجھتا ہوں جسے حق نے ابلہ مسجد ہوں ،نہ تہذیب کا فرزند

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش      میں  زہرہلاہل کو کبھی کہہ  نہ سکا قند

(بال جبریل ،کلیات اقبال،ص۳۱۳)

وہ اس بات کے تو معترف ہیں کہ’’اسلام کے مذہبی تجربات کے ارتقا کی تشکیل کرنے اور اُسے درست نہج پر چلانے کے لیے تصوف کے حقیقی مکاتب فکر نے بہت اچھا کام کیا ہے‘‘مگر اُنھیں اس امر کی شکایت ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان صوفیا اپنی لاعلمی کی بنا پر نئے نئے تصورات سے فیض حاصل کرنے کے لائق نہیںرہے۔ہم اس حقیقت سے با خبر ہیں کہ تصوف کے حقیقی مکاتب فکر کی چونکہ قرآن اور اُسوہ رسول ؐ پر بنیاد تھی اس لیے وہ ہر دور میں اسلامی روح کے مطابق انقلاب آفریں، حیات ساز، اور ظاہر وباطن کی پاکیزگی کا مظہر تھے۔ ان نیک روحوں نے دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں دیرپا انقلاب پید اکرنے سے قبل اپنی زندگی کو اسلام کے موزوں ترین سانچے میں ڈھالا اور صحیح انداز میں مرد مومن کا کردار ادا کیا تھا۔ان کی زندگی محض ذہنی پاکیزگی اور روحانی بالیدگی کی آئینہ دار نہیں تھی بلکہ وہ علمی ترفع کے بھی مالک تھے۔اُن کے مرشد اعظم اور ہادی اکبر یعنی رسولؐ خدا نے حصول علم کی اہمیت وافادیت پر زور دیتے ہوئے یہ فرمایا تھا: ’’اُطلبواُلعلم منِ المھد الیِ اللحد ‘‘( ترجمہ: تم پنگھوڑے سے لے کر قبر تک علم حاصل کرتے رہو)۔ ان سچے اور جاں نثار صوفیائے کرام نے اس حدیث پر پوری طرح عمل کرکے علم حاصل کیا اور اسے دوسرے متلاشیان حق تک بڑے خلوص کے ساتھ پہنچایا۔ ان بزرگوں کی عملی وجاہت اور عملی سرگرمیوں سے متاثر ہوکر لاتعداد انسان حلقہ بگوش اسلام ہوگئے تھے۔اُنھوں نے اپنے اپنے دور کے مروجہ علوم سے پوری آگاہی حاصل کرکے باطل پرستوں کے غلط اور غیر اسلامی افکار و نظریات کی بھی پرزور تردید کی اور لاکھوں انسانوں کے دماغ سے باطل کا زنگ دور کرکے انھیں حقیقت شناس بنادیا تھا۔ اس نقطہ نگاہ سے وہ ذکر وعمل کی اہمیت کے ساتھ ساتھ فکر کی افادیت کے بھی زبردست قائل تھے۔کیا قرآن حکیم نے’’ذکر‘‘ کے ساتھ ساتھ فکر وتدبر پر بھی بار بار زور نہیں دیا؟کیا ہمیں یہ آیت قرآنی ’’رب زدنی علما‘‘(طٰہٰ ۲۰:۱۱۴)(اے میرے پروردگار!میرے علم میں اضافہ فرما)۔اضافہ علم یاد نہیں دلاتی؟ علامہ اقبالؒ ’’ذکر وفکر‘‘ کے اس قرآنی اختلاط کی طرف واضح اشارہ کرکے نظم’’ ذکر وفکر‘‘ میں ان دونوں کو سالک کی حستجو کا ایک ہی مقام قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:۔
  یہ ہیں سب ایک ہی سالک کی جستجو کے مقام         وہ جس کی شان میں آیا ہے علم الاسما
  مقام    ذکر  ،  کمالات  رومیؒ  و   عطارؒ         مقام   فکر ،  مقالاتِ   بو علی  سیناؒ 
  مقام فکر  ہے  پیمائش   زمان    و   مکاں         مقام  ذکر  ہے  سجان ربی الاعلی
(ضرب کلیم،کلیات اقبال،ص۴۸۵)

ایک اور جگہ وہ موجودہ دور میں حقیقی تصوف کے زوال اور بے عمل نام نہاد صوفیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں:۔ ’’قم باذن اﷲ‘‘ کہہ سکتے تھے جو،رخصت ہوئے خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن (بال جبریل،کلیات اقبال،ص ۴۵۳) علامہ اقبالؒصدق دل سے اس بات کے خواہش مند تھے کہ موجودہ زمانے کے پیران طریقت اور دعوے داران معرفت دور حاضر کے علوم سے آشنا ہوکر اسلامی تعلیمات اور قرآنی نظریات کی روشنی میں لوگوں کے دلوں سے وہ شکو ک وشبہات دور کریں جو لادین نظام حیات اور مادہ پرستانہ نظریات نے پید اکردئیے ہیں۔مومن کا وظیفہ حیات تو قبر تک علم حاصل کرتے رہنا ہے۔ اس لیے صوفیا کے لیے بھی جدید افکار ونظریات سے آگاہی لازم ہے۔ اُن کا یہ قول بھی اُنکے دل کی گہرائیوں اور خلوص نیت کا آئینہ دار ہے۔وہ پرانی طرزکے تصوف کے بارے میں بھی یہ کہتے ہیں:’’قدیم قسم کا تصوف،قومیت اور لادین اشتراکیت مایوس انسانیت کی بیماریوں کا علاج کرنے سے قاصر ہیں‘‘۔ قوم پرستی کی بیماری نے انسانوں کو رنگ،نسل،زبان اور جغرافیائی حد بندی کے سبب مختلف متحارب گروہوں میں تقسیم کرکے انسانی زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔آفاقی تصور اُخوت اور عالمگیر ملت کے تصور کے حامل مسلمان بھی عہدحاضر میں آپس میں برسر پیکار ہیں۔ اس لیے قومیت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ مایوس اور منقسم انسانیت کے دکھوںکا مداوا کرے۔اسی طرح لا دین اشتراکت مذہب کو افیون قرار دیتی ہے۔وہ بھی پریشان حال اورسکون دل سے محروم انسانوں کے روحانی اضطراب اور ذہنی انتشار کا علاج کرنے سے قاصر ہے۔اس نے بھی انسانوں کو دو فحاصَمَت پسند گروہوں… بورژوا اور پرولتاری میں تقسیم کرکے غریبوں اور امیروں کے درمیان نفرت کی خلیج پید اکردی ہے۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں قدیم قسم کا یک طرفہ تصوف بھی موجودہ زمانے کے مایوس اور پریشان انسانوں کی جملہ بیماریوں کا علاج کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا کیونکہ محض گوشہ نشینی،ترک دنیا اور ذکر سے یہ کارنامہ سرانجام نہیں دیا جاسکتا۔موجودہ زمانے میںتصوف کو موثر،دل نشین اور مفید بنانے کے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کی طرف رجوع کرکے نبی نوع انسان کے اقتصادی، نفسیاتی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کاصحیح اور تسلی بخش حل پیش کیا جائے۔اس مقصد کے لیے انسانوں کے موجودہ مسائل کا علمی ادراک بھی بے حد لازم ہے۔علامہ اقبالؒ کے مندرجہ ذیل اشعار اُن کے نظریہ تصوف کے مختلف گوشوں کو بے نقاب کرسکیں گے۔وہ قدیم غیر اسلامی تصوف کے چند عناصر مثلاًرقص،سرور اور جذب ومستی پر تنقیدی نگاد ڈالتے ہوئے قرآنی فقر و تصوف کو یوں بیان کرتے ہیں:۔

فقر قرآں،  احتساب ہست  وبود        نے  رباب ومستی ورقص وسرور

فقر مومن چیست ؟ تسخیر جہات بندہ از تاثیر اُو مولاصفات

فقر کافر،  خلوت ِدشت  و دراست         فقر مومن  لرزہ  بحر وبراست
(پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق، کلیات اقبال،ص۸۱۸) 
قرآنی فقر وتصوف تو تسخیر کائنات،لرزہ بحر وبر ا ور خدائی صفات میں رنگنے کا دوسرا نام ہے۔اگر صوفی کی ذات میں خدائی صفات کا پرتو نظر نہیں آتا تو وہ انقلاب خیز اور معرکہ آرا ثابت نہیں ہوسکتا۔خدا خالق،علیم،حکیم اور مالک ہے۔اگر تصوف واقعی صفات ایزدی کا عکس ہو تو لازمی طور پر صوفی بھی خلاقی صفت،علم، حکمت اور تسخیر کا حامل ہوکر مایوس اور مضطراب انسانیت کی بیماریوں کا علاج کرسکے گا۔

علامہ اقبالؒ کے مندرجہ بالا اقوال میں علم باطن کی اہمیت، اس کے اثبات اور اس کی آفاقیت کے علاوہ باطنی مشاہدات اور قلبی واردات کے ابلاغ کے عدم امکان کو بھی بیان کیا گیا ہے۔حقیقت مطلقہ یعنی ذات خداوندی کے کلی ادراک اور دیدار کے لیے حسی علم اور علم باطنی دونوں لازمی ہیں۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ مادی کائنات اور دنیائے محسوسات کا علم حاصل کرنے کے لیے ہمیں حواس خمسہ سے کام لینا پڑتا ہے۔ یہ حسی علم ہمیں قدرت کے خارجی حقائق سے روشناس کرواتا ہے۔یہ علم بھی ہماری زندگی کے لیے بہت زیادہ ضروری اور مفید ہے۔ علامہ اقبالؒ کی رائے میں ہمیں علم باطن بھی سیکھنا چاہیے کیونکہ’’ قرآن اس علم باطن کا سرچشمہ’’فواد‘‘ یا’’قلب‘‘ یعنی دل کو قرار دیتا ہے۔ یہ باطنی علم بھی اتنا ہی ٹھوس اور حقیقی ہوتا ہے جتنا کہ کوئی خارجی علم‘‘ ۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے :’’ سنر یھم ایا تنا فی انفسھم وفی الاٰفاق‘‘ (فُصِلت:۴۱:۵۳)( عنقریب ہم اُن کو اپنی نشانیاں ان کے انفس اور آفاق میں دکھائیں گے)۔اس قرآنی آیت کے مطابق خدا تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ،حکمت بالغہ اور ہستی کی نشانیاں عالم محسوسات میں بھی ظاہر کرتا ہے اور ہمارے باطن میں بھی۔اس لحاظ سے ہمارا دل بھی حصول علم کا ایک اہم ذریعہ ہے۔جس طرح زنگ آلودہ آئینے میں ہماری شکل اچھی طرح دکھائی نہیں دیتی اسی طرح ہمارے معصیت آلود دل میں بھی نور الہٰی کا عکس نظر نہیں آسکتا۔خدا ئی انوار واسرار کا حامل ہونے کے لیے پہلے دل سے حسد ،بغض،شرک،نفرت اور دیگر برائیوں کی کدورت کو صاف کرنا ہوگا۔اس زاویہ نگاہ سے پہلے تزکیہ نفس ضروری ہوا کرتا ہے۔ کسی نے اس سلسلے میںکیا خوب کہا ہے:۔ ؎ فانّ العلم نور منِ اِلٰہ ونوُر اﷲ لایعطیٰ لعاِصی (ترجمہ:’’بے شک علم خدا کا نور ہے اور یہ خدائی نور کسی گناہگار کو عطا نہیں کیا جاتا‘‘) علم باطن کو حقائق ومعارف کا آئینہ دار بنانے کے لیے دل سے گناہوں کا پردہ چاک کرنا ہوگا۔ جب دل صاف وشفاف آئینے کی مانند ہوجائے گا تو پھر اس میں حقائق اور اسرار منعکس ہوسکیں گے۔ علامہ اقبالؒ کے مرشد مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں دل کے چشمے سے مختلف حقائق خودبخود اُبھر آئیں گے۔ ان کے یہ اشعار قابل توجہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں:۔ خویش را صافی کن از اوصافِ خود تابہ بینی ذاتِ پاکِ صافِ خود بینی اندر دِل علوم انبیا بے کتاب وبے معید و اوستا

پس   چو  آہن گرچہ  تیر ہ ہیکلی           صیقلی کن، صیقلی کن ،   صیقلی

علامہ اقبالؒظاہری علم پر باطنی علم کی ترجیح کے قائل ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ظاہری علم کا مقصد عقل وخرد کی پاکی ہے مگر فقر وتصوف کا مقصود قلب ونگاہ کی پاکیزگی ہے۔ وہ ظاہری علم کو حقیقت کا متلاشی اور فقر کو دانائے منزل قرار دیتے ہیں۔خارجی علم اور باطنی علم کا یہ موازنہ ومقابلہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ وہ فرماتے ہیں: علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد فقر کا مقصود ہے عفت قلب ونگاہ

علم فقیہہ  و  حکیم،  فقر  مسیح  ؑ و کلیمؑ          علم ہے جویائے راہ،فقر ہے دانائے راہ 

( بال جبریل،کلیات اقبال،ص۳۶۹) وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر تم دین وشریعت کے اسرار ورموز کو جاننے کے خواہش مند ہو تو پھر تم اپنے دل کی گہرائیوں میں اُتر کر دیکھو۔وہ تصوف وطریقت کو شریعت کی گہرائیوں سے آگاہی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے یوں نغمہ سرا ہوتے ہیں:۔

پس طریقت چیست اے والاصفات!      شرع  را  دیدن بہ اعماقِ حیات
فاش  می   خواہی  اگر  اسرارِ  دیں       جز بہ  اعماقِ  ضمیر  خود  مبیں

تو یکے در فطرت خود غوطہ زن مرد حق شو، برظن وتخمیں متن (پس چہ باید کرداے اقوام شرق،کلیات اقبال،ص۸۲۷) تصوف اور علم باطن کے مخالفین کی رائے میں صرف خارجی اور حسی علم ہی حقیقی اورقابل اعتماد ہے۔وہ علم باطن کی اہمیت وافادیت کے منکر ہونے کی حیثیت سے اس کے مطالعہ کی طرف توجہ نہیںدیتے۔ یہ لوگ صوفیا اور اولیا کی کرامات اور کشف کو محض مشق اور مہارت تجربہ کا نتیجہ خیال کرتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کو اُن کی اس رائے سے اتفاق نہیں ہے کیونکہ وہ خارجی علم کی طرح باطنی علم کو بھی ٹھوس ،حقیقی اور لائق مطالعہ قرار دیتے ہیں۔اُن کا استدلال یہ ہے کہ مختلف زمانوں میں مختلف قوموں کا الہامی اور صوفیانہ لٹریچر اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ انسانی تاریخ میں مذہبی تجربات اور روحانی مشاہدات کو ہمیشہ ہی غلبہ حاصل رہا ہے، اس لیے ہم انھیں محض دھوکہ کہہ کر ردّ نہیں کرسکتے۔ علامہ اقبالؒ تو اس باطنی علم کو خارجی علم پر ترجیح دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں: ’’صوفیانہ مشاہد ہ حقیقت کے کلی علم کے حصول کا باعث بنتا ہے‘‘ وہ اس موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے اپنی ایک اور فلسفیانہ کتاب میں لکھتے ہیں:۔ "Besides sense and reason,however,there is another source of knowledge called "Dhauq" the innerperception which reveals non-temporal and non-spatial planes of being." (The Development of Metaphysics in Persia: p.111)

اس زاویہ نگاہ سے وہ اس باطنی احساس کو ہستی کے غیر فانی اور غیر زمانی مدارج کے انکشاف کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ آخر میںوہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں :’’یہ مذہبی تجربات ومشاہدات ہمارے دیگر عام تجربات کی مانند بالکل فطری ہیں‘‘۔

صوفیانہ تجربات اور قلبی واردات کے بارے میں علامہ اقبالؒ کی یہ رائے ہے کہ اُن کی نوعیت بالکل ذاتی تجربے کی ہوتی ہے اس لیے اُن کا ابلاغ اور بیان ممکن نہیں۔ ہر انسان کی قلبی واردات اور صوفیانہ تجربات یکساں نہیں ہوتے ۔یہی وجہ ہے کہ اُن کو صحیح طور پر بیان کرنا اور اُنھیں دوسروں کے فہم کے قریب لانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ان تجربات کی نوعیت ہر انسان کی اپنی استعداد اور تزکیہ نفس کے درجے کے مطابق ہوتی ہے۔کوئی اعلیٰ تجربات کا حامل ہوتا ہے اور کوئی ادنیٰ مقام کا سالک ہوتا ہے۔جذب وسلوک کی یہ منزلیں اور درجے برابر نہیں ہوتے۔ اختلاف مدارج کے سبب اُن کے تجربات بھی مختلف ہوتے ہیں اوراُن کے بیان وابلاغ کے ذرائع بھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔کیاہم ایک ہی چیز کی لذت سے بہرہ ور ہونے کے بعد اُسے یکساں انداز میں بیان کرسکتے ہیں؟ایسا ہرگز نہیں ہوتا کیونکہ ایک ہی چیز سے لطف اندزو ہونے کی سب میں ایک جیسی طاقت اور استعداد ممکن نہیں۔یہی حال صوفیانہ تجربات اور روحانی مشاہدات کا بھی ہے۔علامہ اقبالؒ کے خیال میں اگرچہ مذہبی تجربات ومشاہدات ناقابل بیان ہوتے ہیں تاہم ہم مذہبی انسانوں کی اس تلاش حقیقت کو بے کار تصور نہیں کرسکتے۔اکثر اوقات ہم اپنی روز مرہ زندگی میں اپنی خوشی اور اپنے غم کی تمام کیفیات کو دوسروں تک کماحقہ منتقل نہیں کرسکتے۔اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہوتا کہ ہمارے یہ باطنی تجربات اور ذہنی کیفیات عبث ہیں۔اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں:’’مذہبی تجربات ومشاہدات ناقابل بیان ہوتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مذہبی آدمی کی یہ تلاش بے فائدہ ہے‘‘۔ خودی کا نظریہ علامہ اقبالؒ کے نظام فکر کا محورو مرکز ہے جس کے گرد اُن کے باقی تصورات گردش کرتے ہیں۔اس لحاظ سے خودی کی یہ مرکزی حیثیت اُن کے نثر پاروں اور منظومات میں پوری طرح اجاگر ہے۔اُن کی رائے میں بلاشبہ خودی ہر ایک چیزکے لیے کسوٹی کا کام دیتی ہے۔ جو چیز خودی کو کمزور کرے وہ اُسے برا خیال کرتے ہیں اور جو چیز اس کے استحکام کا باعث ہو وہ اُسے اچھا سمجھتے ہیں۔وہ مذہبی واردات کو بھی اسی معیار پر پرکھتے ہیں۔وہ باطنی علم کے ذریعے حاصل شدہ تجربات اور مشاہدات کو اس لیے بھی مستحن،اہم اور مفید کہتے ہیں کہ یہ ہمیں خودی کی ماہیت کا سراغ دیتے ہیں۔اُن کے الفاظ میں’’مذہبی زندگی کا نقطہ عروج خودی کا انکشاف ہے‘‘۔ عرفان ذات کے اس تجربے اور باطنی انقلاب کو فلسفہ ومنطق کی ترازو میں نہیں تولا جاسکتا کیونکہ قلبی واردات اور روحانی مشاہدات عقل وخرد کی گرفت سے باہر ہیں۔حوا س ظاہری کی مانند حواس باطنی بھی حقیقت کے ان پہلوئوں کو منکشف کرتے ہیں جو حواس ظاہری کے قابو میں نہیں آتے۔ بقول مولانا رومیؒ ؎ پنج حسیّ ہست جز اِیں پنج حسِ آں چوں زرّ سرُخ وایں حس چومسِ

  آئینہ دِل چوں شود صافی وپاک         نقش ہا  بینی  بروں  از آب وخاک

ًً(ترجمہ:پانچ ظاہری حواس کے علاوہ پانچ باطنی حواس بھی ہیں۔ یہ باطنی حواس سرخ سونے کی مانند ہیں اور خارجی حواس تانبے کا درجہ رکھتے ہیں۔جب دل کا آئینہ پاک اور صاف ہوجائے تو توُ مٹی اور پانی(جسم)سے کئی نقوش باہر آتے ہوئے دیکھے گا)۔ یہ اسرار خارجی حواس کی پیداوار نہیں ہوتے کیونکہ جب انسانی قلب مقام خدا ٹھہرا تو پھر وہاں بھی نورانی کرنیں لازماًموجود ہوں گی۔قرآن حکیم میں ارشادخدا وندی ہے:’’ اِن اﷲ یحول بین المرئِ وقلبہ‘‘(الانفال۸:۲۴)(ترجمہ: بیشک اﷲ انسان اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہے)۔علامہ اقبالؒ خودی کو بھی انسانی جسم میں ایک’’نوری نقطہ‘‘ اور’’زندگی کا شرار‘‘قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:۔

نقطہ نورے کہ نامِ اُو خودی است        زیر خاک ماشرار ِزندگی است

(اسرار خودی، کلیات اقبال ص۱۸) جب خودی ہمارے پیکر خاکی میں شرارے کی حیثیت رکھتی ہے تو پھر اس کی اصل عالم باطن پر منحصر ہے۔اس امر کو پیش نظر رکھ کر علامہ اقبالؒ نے یہ کہا ہے:’’ درحقیقت مذہبی واردات کی اس صفت کی بدولت ہم خودی کی ماہیت کا سراغ لگاتے ہیں‘‘ وہ تصوف کو خودی کی بیداری اور اسکی حفاظت کا ذریعہ خیال کرکے فرماتے ہیں:۔ یہ ذکر نیم شبی یہ مراقبے یہ سجود تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں ( کلیات اقبال ص۴۹۶)

صوفی اور ولی کی مذہبی واردات اور اُن کے روحانی مشاہدات کا منتہائے مقصود ذات خداوندی کا وصل ہوتا ہے۔اُن کی یہ زبردست خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت ذکر الٰہی اور تزکیہ نفس میں مصروف رہ کر خداوندتعالیٰ کا قرب حاصل کرلیں اور اپنی ذات کے قطرے کو ذات ایزدی کے بحر بیکراں میں مدغم کردیں۔وہ عموماً خلوت اور ذاتی نجات کے طالب ہوتے ہیں۔اس کے برعکس نبی یا پیغمبر ذات خداوندی سے مضبوط رابطہ قائم کرنے کے باوجود انسانی سوسائٹی میں بھی حیات ساز انقلاب کا خواہاں ہوتاہے کیونکہ اس کا فریضہ ہی بنی نوع انسان کو صراط مستقیم دکھا نا اور ایک مثالی معاشرہ قائم کرنا ہوتا ہے ۔ نبی کی مذہبی واردات اس لحاظ سے اجتماعی بہبود اور اجتماعی فلاح و   فوز کا باعث بنا کرتی ہیں۔علامہ اقبالؒ نے یہاں برصغیر پاک وہند کے ایک مشہور صوفی اور ولی کا قول نقل کیا ہے۔عبدالقدوس گنگوہیؒ نے عرش معلی پر جاکر واپس نہ آنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔اس قول سے علامہ اقبالؒ صوفیانہ شعور اور پیغمبرانہ شعور کا فرق واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نبی کی قلبی واردات کا نتیجہ معاشرتی سدھار،اجتماعی زندگی کے نکھار اور وحی والہام پر مبنی بے مثال نظام اقدار کی ہمہ گیری کی شکل میں رونما ہوتا ہے جبکہ ایک صوفی کی مذہبی واردات سے یہ نتیجہ اخذ نہیں ہوتا۔ وہ رسالت ونبوت محمدی  ﷺ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں:۔

از رسالت در جہاں تکوین ما از رسالت دین ما آئین ما زندگی قوم از دم اُو یافت است ایں سحر از آفتابش تافت است

فرد ازحق،ملت از وے زندہ است         از شعاع مہر  اُو تا  بندہ است

(رموز بے خودی، کلیات اقبال،ص۱۰۱)

وہ صوفی کو بھی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ حجرے اور خانقاہ سے باہر آکر بیرونی حالات کا نہ  صرف مشاہدہ کرے بلکہ وہ یہاں فعال اور انقلاب آفرین کردار بھی ادا کرے۔اگر کوئی صوفی اپنے آپ کو خدا اور اس کے رسول  ﷺ کا سچا عاشق کہتا ہے تو پھر وہ ہادی اعظم محمدؐ کے نقش قدم پر چل کر موجودہ باطل نظام کو مٹانے اور صالح اقدار حیات کو فروع دینے کے لیے عملی ثبوت دے۔اسلام میں صرف خلوت ہی نہیں جلوت بھی ہے کیونکہ اجتماعیت ہی سے اس کی شان وشوکت نمایاں ہوتی ہے۔اس بات کوملحوظ خاطر رکھ کر علامہ اقبالؒ صوفی کو یوں دعوت عمل دیتے ہیں:۔

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؓ کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ ودلگیری (ارمغانِ حجاز،کلیات اقبال،ص۶۸۰)