Actions

Difference between revisions of "اپنے بارے میں"

From IQBAL

(Created page with "<div dir="rtl"> (۱) ’’ ممکن ہے میرے پیش کردہ نظریات سے بہتر اور مناسب تر نظریات پیش کیے جائیں۔ہمارا فرض...")
 
m (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(Tag: Rollback)
 
(2 intermediate revisions by 2 users not shown)
Line 1: Line 1:
 
<div dir="rtl">
 
<div dir="rtl">
 
(۱) ’’ ممکن ہے میرے پیش کردہ نظریات سے بہتر اور مناسب تر نظریات پیش کیے جائیں۔ہمارا فرض ہے کہ ہم فکر انسانی کی روز افزوں ترقی کا بنظر غائر مطالعہ کرتے ہوئے آزادانہ تنقید کا طریق کار اختیار کریں‘‘
 
(۱) ’’ ممکن ہے میرے پیش کردہ نظریات سے بہتر اور مناسب تر نظریات پیش کیے جائیں۔ہمارا فرض ہے کہ ہم فکر انسانی کی روز افزوں ترقی کا بنظر غائر مطالعہ کرتے ہوئے آزادانہ تنقید کا طریق کار اختیار کریں‘‘
(دیباچہ)
+
                                                                        (دیباچہ)
 
مفکر اسلام اور ترجمان حقیقت علامہ اقبال ؒنے کبھی اپنے ذاتی افکار ونظریات کو حرف ِآخر کا درجہ نہیں دیا تھا۔ایک حقیقت پسند مفکر اور دور اندیش مدبر کی حیثیت سے وہ دوسروں کے بہتر اور زیادہ مفید خیالات کی اہمیت وافادیت کے قائل تھے۔اُن کے ذاتی نظریات کسی اندھا دھند تقلید، تعصب اور کم علمی پر مبنی نہیں تھے بلکہ اُن میں ہمیں جابجا صداقت طلبی، فراخ دِلی ،وسیع النظری،وسعت مطالعہ اور خلوص نیت کے عناصر گھلے ملے دکھائی دیتے ہیں ۔جو انسان خوب سے خوب تراور اعلیٰ حقائق پر پختہ یقین رکھتا ہو وہ کیسے اپنے نظریات کو حرف آخر قرار دے سکتا ہے؟۔کیا ہر دور میں انسانی نظریات اور فلسفیانہ خیالات میں تبدیلی رونما نہیں ہوتی رہی؟ کیا زندگی کی ارتقا پذیری اور گونا گوں تغیرات نے ہمیں نئے افکار سے روشناس نہیں کیا؟ کیا انسانی عقل کی تگ وتاز کا میدان ہمیشہ محدود نہیں رہا؟جب کوئی انسان زندگی کی تمام حقیقتوں کو نہیں جانتا تو وہ اپنے ذاتی خیالات کو کیسے دائمی قرار دے سکتا ہے؟ دانائے راز ہونے کے باوجود علامہ اقبالؒ اپنے ذاتی خیالات کو آخری حد قرار نہیں دیتے تھے۔ اس سے اُن کی عظمت کردار ،صداقت پسندی،عاجزی اور علم دوستی کا پتہ چلتا ہے۔یہاں اس امر کو واضح کردینا اشدضروری ہے کہ وہ اپنی رائے کو آخری سند تونہیں کہتے لیکن وہ قرآنی حقائق اور آسمانی ہدایت کی آفاقیت اور ابدی اہمیت و افادیت پر پختہ ایمان رکھتے تھے۔ انسانی عقل کی محدود اور ناقص سرگرمیاں وحی والہام کی غیر محدود اور کامل صداقتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہیں۔ کہاں عقل انسانی کے نئے نئے آراستہ بت اور کہاں الہام رّبانی کی بت شکن ضربیں؟ علامہ اقبال ؒ اپنی ذاتی اور فکری رائے کی تغیر پذیری اور محدودیت کے تو قائل تھے لیکن وہ اسلام کے پیش کردہ حیات بخش اور حقیقی نظریات میں تمام انسانوں کی دنیوی اور اخروی نجات کا راز پوشیدہ سمجھتے تھے۔وہ قرآنی حقائق کی ہمہ گیر افادیت اور ابدیت کا یوں برملا اظہار کرتے ہیں۔
 
مفکر اسلام اور ترجمان حقیقت علامہ اقبال ؒنے کبھی اپنے ذاتی افکار ونظریات کو حرف ِآخر کا درجہ نہیں دیا تھا۔ایک حقیقت پسند مفکر اور دور اندیش مدبر کی حیثیت سے وہ دوسروں کے بہتر اور زیادہ مفید خیالات کی اہمیت وافادیت کے قائل تھے۔اُن کے ذاتی نظریات کسی اندھا دھند تقلید، تعصب اور کم علمی پر مبنی نہیں تھے بلکہ اُن میں ہمیں جابجا صداقت طلبی، فراخ دِلی ،وسیع النظری،وسعت مطالعہ اور خلوص نیت کے عناصر گھلے ملے دکھائی دیتے ہیں ۔جو انسان خوب سے خوب تراور اعلیٰ حقائق پر پختہ یقین رکھتا ہو وہ کیسے اپنے نظریات کو حرف آخر قرار دے سکتا ہے؟۔کیا ہر دور میں انسانی نظریات اور فلسفیانہ خیالات میں تبدیلی رونما نہیں ہوتی رہی؟ کیا زندگی کی ارتقا پذیری اور گونا گوں تغیرات نے ہمیں نئے افکار سے روشناس نہیں کیا؟ کیا انسانی عقل کی تگ وتاز کا میدان ہمیشہ محدود نہیں رہا؟جب کوئی انسان زندگی کی تمام حقیقتوں کو نہیں جانتا تو وہ اپنے ذاتی خیالات کو کیسے دائمی قرار دے سکتا ہے؟ دانائے راز ہونے کے باوجود علامہ اقبالؒ اپنے ذاتی خیالات کو آخری حد قرار نہیں دیتے تھے۔ اس سے اُن کی عظمت کردار ،صداقت پسندی،عاجزی اور علم دوستی کا پتہ چلتا ہے۔یہاں اس امر کو واضح کردینا اشدضروری ہے کہ وہ اپنی رائے کو آخری سند تونہیں کہتے لیکن وہ قرآنی حقائق اور آسمانی ہدایت کی آفاقیت اور ابدی اہمیت و افادیت پر پختہ ایمان رکھتے تھے۔ انسانی عقل کی محدود اور ناقص سرگرمیاں وحی والہام کی غیر محدود اور کامل صداقتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہیں۔ کہاں عقل انسانی کے نئے نئے آراستہ بت اور کہاں الہام رّبانی کی بت شکن ضربیں؟ علامہ اقبال ؒ اپنی ذاتی اور فکری رائے کی تغیر پذیری اور محدودیت کے تو قائل تھے لیکن وہ اسلام کے پیش کردہ حیات بخش اور حقیقی نظریات میں تمام انسانوں کی دنیوی اور اخروی نجات کا راز پوشیدہ سمجھتے تھے۔وہ قرآنی حقائق کی ہمہ گیر افادیت اور ابدیت کا یوں برملا اظہار کرتے ہیں۔
 
؎  آں کتاب زندہ قرآن حکیم      حکمت ِاُو لایزال است وقدیم
 
؎  آں کتاب زندہ قرآن حکیم      حکمت ِاُو لایزال است وقدیم

Latest revision as of 01:01, 20 July 2018

(۱) ’’ ممکن ہے میرے پیش کردہ نظریات سے بہتر اور مناسب تر نظریات پیش کیے جائیں۔ہمارا فرض ہے کہ ہم فکر انسانی کی روز افزوں ترقی کا بنظر غائر مطالعہ کرتے ہوئے آزادانہ تنقید کا طریق کار اختیار کریں‘‘

                                                                        (دیباچہ)

مفکر اسلام اور ترجمان حقیقت علامہ اقبال ؒنے کبھی اپنے ذاتی افکار ونظریات کو حرف ِآخر کا درجہ نہیں دیا تھا۔ایک حقیقت پسند مفکر اور دور اندیش مدبر کی حیثیت سے وہ دوسروں کے بہتر اور زیادہ مفید خیالات کی اہمیت وافادیت کے قائل تھے۔اُن کے ذاتی نظریات کسی اندھا دھند تقلید، تعصب اور کم علمی پر مبنی نہیں تھے بلکہ اُن میں ہمیں جابجا صداقت طلبی، فراخ دِلی ،وسیع النظری،وسعت مطالعہ اور خلوص نیت کے عناصر گھلے ملے دکھائی دیتے ہیں ۔جو انسان خوب سے خوب تراور اعلیٰ حقائق پر پختہ یقین رکھتا ہو وہ کیسے اپنے نظریات کو حرف آخر قرار دے سکتا ہے؟۔کیا ہر دور میں انسانی نظریات اور فلسفیانہ خیالات میں تبدیلی رونما نہیں ہوتی رہی؟ کیا زندگی کی ارتقا پذیری اور گونا گوں تغیرات نے ہمیں نئے افکار سے روشناس نہیں کیا؟ کیا انسانی عقل کی تگ وتاز کا میدان ہمیشہ محدود نہیں رہا؟جب کوئی انسان زندگی کی تمام حقیقتوں کو نہیں جانتا تو وہ اپنے ذاتی خیالات کو کیسے دائمی قرار دے سکتا ہے؟ دانائے راز ہونے کے باوجود علامہ اقبالؒ اپنے ذاتی خیالات کو آخری حد قرار نہیں دیتے تھے۔ اس سے اُن کی عظمت کردار ،صداقت پسندی،عاجزی اور علم دوستی کا پتہ چلتا ہے۔یہاں اس امر کو واضح کردینا اشدضروری ہے کہ وہ اپنی رائے کو آخری سند تونہیں کہتے لیکن وہ قرآنی حقائق اور آسمانی ہدایت کی آفاقیت اور ابدی اہمیت و افادیت پر پختہ ایمان رکھتے تھے۔ انسانی عقل کی محدود اور ناقص سرگرمیاں وحی والہام کی غیر محدود اور کامل صداقتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہیں۔ کہاں عقل انسانی کے نئے نئے آراستہ بت اور کہاں الہام رّبانی کی بت شکن ضربیں؟ علامہ اقبال ؒ اپنی ذاتی اور فکری رائے کی تغیر پذیری اور محدودیت کے تو قائل تھے لیکن وہ اسلام کے پیش کردہ حیات بخش اور حقیقی نظریات میں تمام انسانوں کی دنیوی اور اخروی نجات کا راز پوشیدہ سمجھتے تھے۔وہ قرآنی حقائق کی ہمہ گیر افادیت اور ابدیت کا یوں برملا اظہار کرتے ہیں۔ ؎ آں کتاب زندہ قرآن حکیم حکمت ِاُو لایزال است وقدیم (ترجمہ: قرآن حکیم وہ زندہ کتاب ہے جس کی حکمت لازوال اور قدیم ہے)۔

( کلیات اقبال فارسی،ص ۱۳۱؍۱۱۵) 
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ زندگی اور حرکت پذیری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زندگی حرکت ہے اور جمود موت ہے۔جب زندگی کا تغیر کے ساتھ اتنا گہرا ربط ہے تو اس کے مختلف گوشے بھی لازمی طور پر تبدیلی کے مظہر ہوں گے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی اعمال اور انسانی افکار کی روز افزوں ترقی کا قائل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ آزادنہ… تنقید کے طریق کار کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں۔وہ ہمیں ہر نئی بات اور نئے نظریے کو اندھا دھند اختیار کرنے سے روکتے ہیں۔ اُن کی نگاہ میں نہ تو ماضی کی ہر بات اٹل ہے اور نہ ہی حال اور مستقبل کا ہر نظریہ کلیتہً درست ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ہر بات کی اچھائی اور برائی کا جائزہ لینا ہوگا۔