Actions

Difference between revisions of "انسان"

From IQBAL

(Created page with "<center> =='''انسان'''== !قدرت کا عجیب یہ ستم ہے<br> انسان کو راز جو بنایا<br> راز اس کی نگاہ سے چھپایا<br> بے ت...")
 
m (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(Tag: Rollback)
 
(2 intermediate revisions by 2 users not shown)
Line 1: Line 1:
<center>
+
<div dir="rtl">
=='''انسان'''==
+
(۱)’’مزاحمت پیدا کرنے والی اس دنیا میں انسان کی نوعیت واصلیت کیا ہے؟قدرت نے اُسے موزوں ترین دماغی صلاحتیں ودیعت کررکھی ہیں۔اگرچہ اُسے یہاں قدم قدم پر مشکلات وموانعات کاسامنا کرنا پڑتا ہے تاہم وہ اپنے مقاصد کے حصول میں اِس قدر منہمک ہوتا ہے کہ وہ اُن کو پرکاہ کے برابر نہیں سمجھتا‘‘
 +
(پہلاخطبہ)
 +
(۲)’’اپنے تمام نقائص ومعائب کے باوجود وہ دیگر مخلوقات سے افضل واعلیٰ ہے کیونکہ وہ اُس امانت الہٰی کا حامل ہے جسے قرآن کے الفاظ میں آسمانوں زمین اور پہاڑوں نے بھی اُٹھانے سے انکار کردیا تھا‘‘
 +
(پہلاخطبہ)
 +
(۳) اس میں کوئی کلام نہیں کہ انسان کی زندگی کا آغاز تو حقیر ہے لیکن اس کے اندر بقائے دوام حاصل کرنے کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے‘‘    (ایضاً)
 +
(۴)’’ اگر انسان اس اقدام میں پہل نہ کرے اور وہ ترقی پذیر زندگی کی باطنی حرکت کو محسوس نہ کرے تواُس کی روح پتھر کی مانند سخت ہوجاتی ہے اور انجام کار وہ انسان بے جان مادّے کی سطح پر آجاتا ہے لیکن اس کی زندگی اور اس کی خارجی ترقی کا دارومدار کائنات کے ساتھ تعلقات کی استواری پر ہے‘‘    (ایضاً)
 +
(۵)’’ علم کی بدولت ہی انسان حقیقت کے قابل مشاہدہ پہلو تک رسائی حاصل کرتا ہے‘‘
 +
(ایضاً)
 +
(۶)’’ وہ ہستی جس کی حرکات وسکنات مکمل طور پر مشین کی طرح ہوں،نیکی کے کام نہیں کرسکتی۔اس طرح نیکی کے لیے آزادی شرط ہے‘‘ 
 +
(تیسرا خطبہ)
 +
(۷)’’مطالعہ قرآن سے ہمیں تین باتیں بالکل واضح دکھائی دیتی ہیں۔ پہلی یہ کہ انسان خدا کی برگزیدہ مخلوق ہے۔دوسری یہ کہ انسان اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود زمین پر خدا کا نائب بن سکتا ہے۔تیسری یہ ہے کہ انسان آزادشخصیت کا امین ہے جسے اس نے خطرہ مول لے کر قبول کیا تھا‘‘
 +
(چوتھا خطبہ)
 +
(۸)’’دور جدید کا انسان اپنے فلسفہ تنقید اور سائنسی مہارت کے باوجود اپنے آپ کو عجیب وغریب مخمصے میںپاتا ہے۔اس کے فلسفہ فطرت نے اُسے قدرت کی طاقتوں پر بے نظیر تسلط عطا کیا ہے لیکن ان تمام علوم نے اُسے اپنے مستقبل سے نااُمید کردیا ہے‘‘
 +
(ساتواں خطبہ)
 +
(۹)’’اپنی ذہنی سرگرمیوں کے نتائج سے کلیتہً متاثر ہوکر عصر جدید کا انسان روحانی طور پر مردہ ہوچکا ہے یعنی اس کا باطن زندہ نہیں رہا۔جہاں تک افکار ونظریات کا تعلق ہے وہ اپنی ذات سے متصادم ہے اور اقتصادی اور سیاسی زندگی کے میدان میں وہ دوسرے لوگوں سے برسر پیکار ہے ۔ وہ اس قدر مجبور ہوچکا ہے کہ وہ اپنی بے رحم انانیت اور غیر محدود ہوس زر کو قابو میں نہیں لاسکتا‘‘
 +
(ایضاً)
 +
(۱۰)’’ بے رحم انانیت اور نہ ختم ہونے والی ہوس زر آہستہ آہستہ اس کے تمام اعلیٰ مقاصد کا قلع قمع کرکے اُسے زندگی سے بیزار کررہی ہیں‘‘    (ایضاً)
 +
علامہ اقبالؒ اُن مفکرین میں سے ہیں جنہوں نے انسانی عظمت اور انسانی صفات کے گیت گائے ہیں۔خدا تعالیٰ نے انسان کو بہت سی ذہنی صلاحیتوں سے نوازا ہے جنکی بدولت وہ تسخیر کائنات کے قابل ہوسکا ہے۔اُسے یہ بلند مقام یونہی نہیں مل جاتا بلکہ اُسے اپنے بلند مقاصد کے حصول کے لیے ہر قسم کی مشکلات اور موانعات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔اگر وہ جذبہ ترقی اور ذوق انقلاب سے فارغ ہوجائے تو بلاشبہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاسکتا۔ یہ جذبہ ترقی ہی ہے جس نے اُسے جفاکشی،بلند ہمتی، انقلاب آفرینی اور ارتقا پذیری کی صفات سے آشنا کرکے دنیا کی رعنائی اور ترقی کے قابل بنادیا ہے۔اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کی تمام ہماہمی اور نئی نئی ایجادات اسی جذبہ انقلاب کی مرہون منت ہیں۔شاعر مشرق  ؒ انقلاب کے ذوق کی ا ہمیت پر یوں روشنی ڈالتے ہیں۔
 +
جس میں نہ ہو انقلاب،موت ہے وہ زندگی        روح امم کی حیات،کشمکش انقلاب
 +
( بال جبریل)
 +
ذہنی صلاحیتوں کے مناسب استعمال،جفاکشی،خواہش ترقی، مقاصد آفرینی اور انقلاب پسندی کے سبب انسان حیوانی سطح کی زندگی سے بلند ہوکر بقائے دوام اور شہرت عام کا مستحق بن جاتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے بجا فرمایا ہے:’’ اس کے اندر بقائے دوام حاصل کرنے کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے‘‘۔
 +
انسان کی عظمت کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ اُسے’’امانت الٰہی‘‘ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔اس امانت الٰہی کی حقیقی نوعیت کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے جاتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کی نگاہ میں ’’امانت الٰہی‘‘ سے مراد خودی کی تربیت اور اس کے استحکام کی صلاحیت ہے۔تمام کائنات میںسے صرف انسان کو عقل وشعور اور آزادی انتخاب کی نعمت دی گئی ہے۔جمادات، نباتات اور حیوانات میں عقلی سرگرمی،شعوری کوشش اور خیرو شر کو اختیار کرنے کی صلاحیت اور آزادی انتخاب کی صفات موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہستی کے ادنیٰ مدارج میں ہیں۔ علم،فکر،شعوری عمل اور آزادی کو بروئے کار لاکر انسان نہ صرف مادی ترقی کے مراحل طے کرسکتا ہے بلکہ وہ روحانی بلندیوں کو بھی حاصل کرکے ’’ خلیفتہ اﷲ علی الارض ‘‘بن سکتا ہے۔ اگر انسان غور وفکر اور علم سے کام نہ لے تو وہ کبھی بھی مظاہر فطرت کے گہرے مطالعہ ومشاہدہ کی بدولت قدرت کی طاقتوں کو مسخر کرنے کا اہل نہیں ہوسکتا۔اس علمی صلاحیت کی بنا پر وہ خدا تعالیٰ کی نشانیوں کو خارجی دنیا میں تلاش کرتا ہے اور اپنے علمی نتائج کی بنیاد پر سائنس کے میدان میں حیرت انگیز ترقی بھی کرتا ہے۔اس لحاظ سے حقیقت مطلقہ کی حکمت بالغہ، خلّا قی صفات،ربویت ِعامہ اور ہمہ گیر کرم گستریوں کا اُسے انکشاف ہوتا ہے۔کیا یہ قرآنی حقیقت نہیں کہ علم کی بدولت ہی آدم کو فرشتوں پر برتری دی گئی تھی؟ علامہ اقبالؒ کا یہ تصور بھی کس قدر درست دکھائی دیتا ہے کہ’’نیکی کے لیے آزادی شرط ہے‘‘۔ اگر خداتعالیٰ نے انسان کو خیر وشر کی تمیز کی صلاحیت اور آزادی انتخاب سے نہ نوازا ہوتا تو  اس میں اور مشین میں پھرکیا فرق ہوتا؟ یہ ہمار اروز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ مشین اپنی مرضی اور آزادی سے حرکت نہیں کرتی بلکہ اس کی حرکت کسی ا ور کی محتاج ہوتی ہے۔اگر انسان کی حرکات وسکنات بھی مشین کی طرح بلا ارادہ ہوتیں تو وہ اپنے اچھے برے اعمال کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔باز پرس تو اسی سے کی جاسکتی جسے کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہو اور نیکی اور بدی کے انتخاب کی آزادی  بھی دی گئی ہو۔انسانی عظمت کا یہ پہلو بھی علامہ اقبالؒ کے کلام میں جابجا بیان کیاگیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان خدا کی برگزیدہ مخلوق، زمین پر ا سکا نائب اور آزاد شخصیت کا امین ہے۔انسانی عظمت کے ان مختلف گوشوں کو علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں بھی موضوع سخن بنایا ہے۔چند اشعار ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ اپنی ایک نظم’’انسان‘‘ میں انسان کی گرمئی عمل،ترقی پذیری،انقلاب آفرینی، دانائی،علم اور توانائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔
 +
تسلیم کی خوگر ہے  جو  چیز ہے  دنیا  میں      انسان کی ہر قوت‘ سرگرم تقاضا ہے
 +
اس ذرّہ کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم      یہ ذرّہ نہیں  شاید سمٹا  ہوا صحرا ہے
 +
چاہے  تو بدل ڈالے  ہیئت چمنستان کی      یہ ہستی  دانا ہے،بینا ہے،  توانا  ہے
 +
(بانگِ درا، کلیات اقبال ص۱۷۹)
 +
علامہ اقبالؒ اپنی ایک اور نظم’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ میں انسانی عظمت کو ان الفاظ میں خراج تحسین ادا کرتے ہیں:۔
 +
خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں      آباد  ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
 +
جچتے  نہیں بخشے  ہوئے فردوس نظر میں      جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں
 +
                    اے پیکر گل!کوشش پیہم کی جزا دیکھ 
 +
(بالِ جبریل،کلیات اقبال ص۴۲۵)
 +
  اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر جدیدکے انسان نے اپنی خدا داد ذہنی وعملی صلاحیتوں سے کام لے کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حیران کن ترقی کی ہے۔زمینی طاقتوں کو زیر کرنے کے بعد اب انسان چاند پر بھی کمند ڈال چکا ہے اور وہ مزید خلائی تسخیر کے منصوبے بنارہا ہے۔خارجی دنیا میں اس کی یہ ترقی اور کامیابی لائق تعریف ہیں۔ ان کامرانیوں کے باوجود موجودہ دور کا انسان ذہنی سکون اور روحانی راحت سے محروم ہوچکا ہے کیونکہ مادہ پرستی اور زر پرستی کی بنا پر انسان خود انسان کا ہر شعبے میں بری طرح استحصال کررہا ہے۔دولت کی دوڑ نے انسانوں کو باہمی تصادمات اور باہمی رقابتوں میں مبتلا کرکے زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔ یہ یک طرفہ ترقی بلاشبہ اس کے مستقبل کے لیے بھی خوشگوار نتائج کی حامل نہیں ہوسکتی اس لیے علامہ اقبالؒ نے بجا فرمایا ہے کہ’’عصر جدید کا انسان روحانی طور پر مردہ ہوچکا ہے‘‘ ۔شاعر مشرق کے درج ذیل اشعار یہاں  بے محل نہیں۔ وہ اپنی ایک مختصر نظم’’ زمانہ حاضر کا انسان‘‘ میں انسان کے روحانی اضطراب،انتشار فکر ونظر اور تاریکی حیات کو یوں بیان کرتے ہیں۔
 +
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا      اپنے  افکار کی دنیا  میں  سفر کر نہ سکا
 +
اپنی  حکمت کے خم وپیچ  میں اُلجھا  ایسا      آج تک  فیصلہ  نفع  و ضرر کر نہ سکا
 +
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا        زندگی کی  شب تاریک سحر کر نہ  سکا
 +
(ضرب کلیم،کلیات اقبال ص۵۳۱)
  
!قدرت کا عجیب یہ ستم ہے<br>
+
</div>
انسان کو راز جو بنایا<br>
 
راز اس کی نگاہ سے چھپایا<br>
 
 
 
بے تاب ہے ذوق آگہی کا<br>
 
کھلتا نہیں بھید زندگی کا<br>
 
 
 
حیرت آغاز و انتہا ہے<br>
 
آئینے کے گھر میں اور کیا ہے<br>
 
 
 
ہے گرم خرام موج دریا<br>
 
دریا سوئے سجر جادہ پیما<br>
 
 
 
بادل کو ہوا اڑا رہی ہے<br>
 
شانوں پہ اٹھائے لا رہی ہے<br>
 
 
 
تارے مست شراب تقدیر<br>
 
زندان فلک میں پا بہ زنجیر<br>
 
 
 
خورشید، وہ عابد سحر خیز<br>
 
لانے والا پیام بر خیز<br>
 
 
 
مغرب کی پہاڑیوں میں چھپ کر<br>
 
پیتا ہے مے شفق کا ساغر<br>
 
 
 
لذت گیر وجود ہر شے<br>
 
سر مست مے نمود ہر شے<br>
 
 
 
کوئی نہیں غم گسار انساں<br>
 
!کیا تلخ ہے روزگار انساں<br>
 
</center>
 

Latest revision as of 01:02, 20 July 2018

(۱)’’مزاحمت پیدا کرنے والی اس دنیا میں انسان کی نوعیت واصلیت کیا ہے؟قدرت نے اُسے موزوں ترین دماغی صلاحتیں ودیعت کررکھی ہیں۔اگرچہ اُسے یہاں قدم قدم پر مشکلات وموانعات کاسامنا کرنا پڑتا ہے تاہم وہ اپنے مقاصد کے حصول میں اِس قدر منہمک ہوتا ہے کہ وہ اُن کو پرکاہ کے برابر نہیں سمجھتا‘‘ (پہلاخطبہ) (۲)’’اپنے تمام نقائص ومعائب کے باوجود وہ دیگر مخلوقات سے افضل واعلیٰ ہے کیونکہ وہ اُس امانت الہٰی کا حامل ہے جسے قرآن کے الفاظ میں آسمانوں زمین اور پہاڑوں نے بھی اُٹھانے سے انکار کردیا تھا‘‘ (پہلاخطبہ) (۳) اس میں کوئی کلام نہیں کہ انسان کی زندگی کا آغاز تو حقیر ہے لیکن اس کے اندر بقائے دوام حاصل کرنے کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے‘‘ (ایضاً) (۴)’’ اگر انسان اس اقدام میں پہل نہ کرے اور وہ ترقی پذیر زندگی کی باطنی حرکت کو محسوس نہ کرے تواُس کی روح پتھر کی مانند سخت ہوجاتی ہے اور انجام کار وہ انسان بے جان مادّے کی سطح پر آجاتا ہے لیکن اس کی زندگی اور اس کی خارجی ترقی کا دارومدار کائنات کے ساتھ تعلقات کی استواری پر ہے‘‘ (ایضاً) (۵)’’ علم کی بدولت ہی انسان حقیقت کے قابل مشاہدہ پہلو تک رسائی حاصل کرتا ہے‘‘ (ایضاً) (۶)’’ وہ ہستی جس کی حرکات وسکنات مکمل طور پر مشین کی طرح ہوں،نیکی کے کام نہیں کرسکتی۔اس طرح نیکی کے لیے آزادی شرط ہے‘‘ (تیسرا خطبہ) (۷)’’مطالعہ قرآن سے ہمیں تین باتیں بالکل واضح دکھائی دیتی ہیں۔ پہلی یہ کہ انسان خدا کی برگزیدہ مخلوق ہے۔دوسری یہ کہ انسان اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود زمین پر خدا کا نائب بن سکتا ہے۔تیسری یہ ہے کہ انسان آزادشخصیت کا امین ہے جسے اس نے خطرہ مول لے کر قبول کیا تھا‘‘ (چوتھا خطبہ) (۸)’’دور جدید کا انسان اپنے فلسفہ تنقید اور سائنسی مہارت کے باوجود اپنے آپ کو عجیب وغریب مخمصے میںپاتا ہے۔اس کے فلسفہ فطرت نے اُسے قدرت کی طاقتوں پر بے نظیر تسلط عطا کیا ہے لیکن ان تمام علوم نے اُسے اپنے مستقبل سے نااُمید کردیا ہے‘‘

(ساتواں خطبہ)

(۹)’’اپنی ذہنی سرگرمیوں کے نتائج سے کلیتہً متاثر ہوکر عصر جدید کا انسان روحانی طور پر مردہ ہوچکا ہے یعنی اس کا باطن زندہ نہیں رہا۔جہاں تک افکار ونظریات کا تعلق ہے وہ اپنی ذات سے متصادم ہے اور اقتصادی اور سیاسی زندگی کے میدان میں وہ دوسرے لوگوں سے برسر پیکار ہے ۔ وہ اس قدر مجبور ہوچکا ہے کہ وہ اپنی بے رحم انانیت اور غیر محدود ہوس زر کو قابو میں نہیں لاسکتا‘‘ (ایضاً) (۱۰)’’ بے رحم انانیت اور نہ ختم ہونے والی ہوس زر آہستہ آہستہ اس کے تمام اعلیٰ مقاصد کا قلع قمع کرکے اُسے زندگی سے بیزار کررہی ہیں‘‘ (ایضاً) علامہ اقبالؒ اُن مفکرین میں سے ہیں جنہوں نے انسانی عظمت اور انسانی صفات کے گیت گائے ہیں۔خدا تعالیٰ نے انسان کو بہت سی ذہنی صلاحیتوں سے نوازا ہے جنکی بدولت وہ تسخیر کائنات کے قابل ہوسکا ہے۔اُسے یہ بلند مقام یونہی نہیں مل جاتا بلکہ اُسے اپنے بلند مقاصد کے حصول کے لیے ہر قسم کی مشکلات اور موانعات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔اگر وہ جذبہ ترقی اور ذوق انقلاب سے فارغ ہوجائے تو بلاشبہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاسکتا۔ یہ جذبہ ترقی ہی ہے جس نے اُسے جفاکشی،بلند ہمتی، انقلاب آفرینی اور ارتقا پذیری کی صفات سے آشنا کرکے دنیا کی رعنائی اور ترقی کے قابل بنادیا ہے۔اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کی تمام ہماہمی اور نئی نئی ایجادات اسی جذبہ انقلاب کی مرہون منت ہیں۔شاعر مشرق ؒ انقلاب کے ذوق کی ا ہمیت پر یوں روشنی ڈالتے ہیں۔ جس میں نہ ہو انقلاب،موت ہے وہ زندگی روح امم کی حیات،کشمکش انقلاب ( بال جبریل) ذہنی صلاحیتوں کے مناسب استعمال،جفاکشی،خواہش ترقی، مقاصد آفرینی اور انقلاب پسندی کے سبب انسان حیوانی سطح کی زندگی سے بلند ہوکر بقائے دوام اور شہرت عام کا مستحق بن جاتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے بجا فرمایا ہے:’’ اس کے اندر بقائے دوام حاصل کرنے کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے‘‘۔ انسان کی عظمت کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ اُسے’’امانت الٰہی‘‘ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔اس امانت الٰہی کی حقیقی نوعیت کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے جاتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کی نگاہ میں ’’امانت الٰہی‘‘ سے مراد خودی کی تربیت اور اس کے استحکام کی صلاحیت ہے۔تمام کائنات میںسے صرف انسان کو عقل وشعور اور آزادی انتخاب کی نعمت دی گئی ہے۔جمادات، نباتات اور حیوانات میں عقلی سرگرمی،شعوری کوشش اور خیرو شر کو اختیار کرنے کی صلاحیت اور آزادی انتخاب کی صفات موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہستی کے ادنیٰ مدارج میں ہیں۔ علم،فکر،شعوری عمل اور آزادی کو بروئے کار لاکر انسان نہ صرف مادی ترقی کے مراحل طے کرسکتا ہے بلکہ وہ روحانی بلندیوں کو بھی حاصل کرکے ’’ خلیفتہ اﷲ علی الارض ‘‘بن سکتا ہے۔ اگر انسان غور وفکر اور علم سے کام نہ لے تو وہ کبھی بھی مظاہر فطرت کے گہرے مطالعہ ومشاہدہ کی بدولت قدرت کی طاقتوں کو مسخر کرنے کا اہل نہیں ہوسکتا۔اس علمی صلاحیت کی بنا پر وہ خدا تعالیٰ کی نشانیوں کو خارجی دنیا میں تلاش کرتا ہے اور اپنے علمی نتائج کی بنیاد پر سائنس کے میدان میں حیرت انگیز ترقی بھی کرتا ہے۔اس لحاظ سے حقیقت مطلقہ کی حکمت بالغہ، خلّا قی صفات،ربویت ِعامہ اور ہمہ گیر کرم گستریوں کا اُسے انکشاف ہوتا ہے۔کیا یہ قرآنی حقیقت نہیں کہ علم کی بدولت ہی آدم کو فرشتوں پر برتری دی گئی تھی؟ علامہ اقبالؒ کا یہ تصور بھی کس قدر درست دکھائی دیتا ہے کہ’’نیکی کے لیے آزادی شرط ہے‘‘۔ اگر خداتعالیٰ نے انسان کو خیر وشر کی تمیز کی صلاحیت اور آزادی انتخاب سے نہ نوازا ہوتا تو اس میں اور مشین میں پھرکیا فرق ہوتا؟ یہ ہمار اروز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ مشین اپنی مرضی اور آزادی سے حرکت نہیں کرتی بلکہ اس کی حرکت کسی ا ور کی محتاج ہوتی ہے۔اگر انسان کی حرکات وسکنات بھی مشین کی طرح بلا ارادہ ہوتیں تو وہ اپنے اچھے برے اعمال کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔باز پرس تو اسی سے کی جاسکتی جسے کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہو اور نیکی اور بدی کے انتخاب کی آزادی بھی دی گئی ہو۔انسانی عظمت کا یہ پہلو بھی علامہ اقبالؒ کے کلام میں جابجا بیان کیاگیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان خدا کی برگزیدہ مخلوق، زمین پر ا سکا نائب اور آزاد شخصیت کا امین ہے۔انسانی عظمت کے ان مختلف گوشوں کو علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں بھی موضوع سخن بنایا ہے۔چند اشعار ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ اپنی ایک نظم’’انسان‘‘ میں انسان کی گرمئی عمل،ترقی پذیری،انقلاب آفرینی، دانائی،علم اور توانائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔ تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں انسان کی ہر قوت‘ سرگرم تقاضا ہے

اس ذرّہ کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم       یہ ذرّہ نہیں  شاید سمٹا  ہوا صحرا ہے

چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستان کی یہ ہستی دانا ہے،بینا ہے، توانا ہے (بانگِ درا، کلیات اقبال ص۱۷۹)

علامہ اقبالؒ اپنی ایک اور نظم’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ میں انسانی عظمت کو ان الفاظ میں خراج تحسین ادا کرتے ہیں:۔

خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں

جچتے  نہیں بخشے  ہوئے فردوس نظر میں       جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں
                    اے پیکر گل!کوشش پیہم کی جزا دیکھ  

(بالِ جبریل،کلیات اقبال ص۴۲۵)

 اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر جدیدکے انسان نے اپنی خدا داد ذہنی وعملی صلاحیتوں سے کام لے کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حیران کن ترقی کی ہے۔زمینی طاقتوں کو زیر کرنے کے بعد اب انسان چاند پر بھی کمند ڈال چکا ہے اور وہ مزید خلائی تسخیر کے منصوبے بنارہا ہے۔خارجی دنیا میں اس کی یہ ترقی اور کامیابی لائق تعریف ہیں۔ ان کامرانیوں کے باوجود موجودہ دور کا انسان ذہنی سکون اور روحانی راحت سے محروم ہوچکا ہے کیونکہ مادہ پرستی اور زر پرستی کی بنا پر انسان خود انسان کا ہر شعبے میں بری طرح استحصال کررہا ہے۔دولت کی دوڑ نے انسانوں کو باہمی تصادمات اور باہمی رقابتوں میں مبتلا کرکے زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔ یہ یک طرفہ ترقی بلاشبہ اس کے مستقبل کے لیے بھی خوشگوار نتائج کی حامل نہیں ہوسکتی اس لیے علامہ اقبالؒ نے بجا فرمایا ہے کہ’’عصر جدید کا انسان روحانی طور پر مردہ ہوچکا ہے‘‘ ۔شاعر مشرق کے درج ذیل اشعار یہاں  بے محل نہیں۔ وہ اپنی ایک مختصر نظم’’ زمانہ حاضر کا انسان‘‘ میں انسان کے روحانی اضطراب،انتشار فکر ونظر اور تاریکی حیات کو یوں بیان کرتے ہیں۔

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

اپنی  حکمت کے خم وپیچ  میں اُلجھا  ایسا       آج تک  فیصلہ  نفع  و ضرر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا (ضرب کلیم،کلیات اقبال ص۵۳۱)