Actions

انسانی ذہن پر فلسفۂ جبر کا ردّ ِ عمل:

From IQBAL

تقدیر کے مقابلے میں اپنی بے چارگی پر رنج و غم کا احساس اور اس پر آنسو بہانا انسان کا فطری ردّ ِ عمل ہے۔ مگر ( دوسر ے بند میں ) اقبال کہتے ہیں کہ چونکہ جبر و قدر مشیتِ ایزدی ہے اس لیے گریہ و زاری اور ماتم مناسب ہے۔ آلامِ انسانی کے اس راز کو پالینے کے بعد ، کہ رقص عیش و غم کا یہ سلسلہ خدا کے نظام کائنات کا ایک لازمی حصہ ہے ، میں زندگی میں انسان کے بے بسی و بے چارگی پر افسوس کرتا ہوں اور نہ کسی ردّ ِ عمل کا اظہار کرتا ہوں۔ لیکن والدہ کی وفات ایسا سانحہ ہے کہ اس پر خود کو گریۂ پیہم سے بچانا اور خاموش رہنا میرے لیے ممکن نہیں۔ یہاں (دوسرے بند کے آخر ی شعر میں ) اقبال نے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ انسان جس قدر بھی صابروشاکر کیوں نہ واقع ہوا ہو، زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر اس کی قو ّتِ برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ بے اختیار آنسو بہانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایسے عالم میں زندگی کے سارے فلسفے ، ساری حکمتیں اور محکم ضوابط دکھی دل کے ردّ ِ عمل کو روکنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں اور والدہ مرحومہ کی وفات پر مجھ پر بھی یہی کچھ بیت رہی ہے۔ خود اقبال ہی کے بقول: دلے کہ عاشق و صابر بود مگر سنگ است ز عشق تابہ صبوری ہزار فرسنگ است