Actions

اشاعرہ

From IQBAL

(۱)’’اشاعرہ کی تحریک کا نصب العین اسلام کے معتقدات اور اُصولوں کی یونانی جدلیات کی مدد سے حمایت کرنا تھا‘‘

(پہلا خطبہ)
قرون اولیٰ کے مسلمان قرآنی تعلیمات اور اُسوہ رسول کریمؐ پر بڑے خلوص کیساتھ عمل پیرا تھے۔اُن کی پاکیزہ زندگیاں خدا اور اُس کے آخری نبیؐ کی خوشنودی کے حصول پر مبنی تھیں۔اُس دور میں اسلام عرب کی حدود سے باہر پھیلنے لگا تو دوسری قوموں اور دوسری تہذیوں کے اثرات مسلمانوں کی زندگیوں میں بھی نمایاں ہونے شروع ہوگئے۔شروع شروع میںا سلام کی تعلیمات غیر عربوں کے فلسفیانہ افکار اور متصوفانہ نظریات سے عاری رہیں مگر آہستہ آہستہ اُن میں بھی عیسائی، ہندو، بدھ اور یونانی افکار سرایت ہونے لگے۔عباسی خلفاء کے دور میں اسلام میں عجمی تصورات کا عمل دخل کافی بڑھ گیا تھا چنانچہ یونانی فلسفہ کے تحت مسلمان مفکرین نے اسلامی عقائد اور قرآنی نظریات کو بھی فلسفہ ومنطق کی ترازو میں تولناشروع کردیا۔معتزلی مفکرین کے افکار یونانی فلسفے سے اس قدر متاثر ہوگئے کہ اُنھوںنے اسلام کے مروجہ عقائد کو یونانی تصورات کی روشنی میں دیکھتے ہوئے فلسفیانہ بحثوں اور فکری موشگافیوں کا بازار گرم کردیا۔اُنھوں نے خدا تعالیٰ کی ذات،اُس کی صفات،اُس کے وجود،اس کی مشیت اور جبر وقدر سے متعلق بحث وتمحیص کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا۔اس کے برعکس اشاعرہ نے معتزلہ کی یونان پرستی اور بے لگام فلسفہ طرازیوں کے خلاف شدید ردعمل کااظہار کیا۔ اُنھوں نے معتز لہ کے منطقی طریق کار ہی کو اپنا کر اُنکے افکار کی تردید شروع کردی تھی۔ اُن کا واحد مقصد اسلام کے عقائد اور اُصولوں کو ثابت کرنا اور یونانی فلسفے کی خامیوں کو بے نقاب کرنا تھا۔معتزلہ نے اسلام کو منطقی تصورات کا مجموعہ بنانے کے علاوہ حقیقت مطلقہ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے عقل وفکر کی رہنمائی کو ہی کافی خیال کیا تھا۔اس کے علی الرغم اشاعرہ نے عقل پرستی کی بجائے وحی والہام کی برتری اور ہمہ گیر اہمیت کو ثابت کرنے کی ان تھک کوشش کی۔

علامہ اقبالؒ عقل کے جائزاستعمال کے تو خلاف نہیں تھے مگر وہ اس کی حاکمیت اور ہمہ گیریت کو تسلیم کرنے سے گریزاں تھے۔اُن کی نظرمیں عقل وفکر وحی والہام کے حقائق اور نادیدنی اُمور کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں۔وہ اُنھیں ایک ایسے سست رو مسافر کی مانند قرار دیتے ہیں جو منزل حقیقت کی طرف رواں دواں تو ہے مگر وہ ہنوز اس سے کافی دور ہے۔وہ عقل اور عشق کی اس چپقلش اور حقیقت جوئی کے فرق کو یوں بیان کرتے ہیں:۔ ؎ ہر دو بمنزلے رواں، ہر دو امیر کارواں

    عقل بہ حیلہ می برُد،عشق برد کشاں کشاں     
(پیام مشرق،کلیات اقبال ص ۴۱۲)

؎ عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں (بال جبریل،کلیات اقبال ص ۳۳۵)

  مختصر طور پر یوں سمجھ لیجئے کہ معتزلہ عقلیت کے پرستار تھے اور اشاعرہ اس عقل پرستی کو انتہا پسندی کی دلیل خیال کرتے تھے۔علامہ اقبال ؒ’’الاشعری‘‘ کی جاری کردہ تحریک پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی اوّلین فلسفیانہ نثری تصنیف’’مابعد الطبیعیات ایران کا ارتقا ئ‘‘ میں لکھتے ہیں۔

"The movement initiated by Al-Ashari was an attempt not only to purge Islam of all non-Islamic elements which had quietly crept intoit,but also to harmonize the religious consc- -ionsness with the religious thought of Islam.Rationalism was an attempt to measure reality by reason alone." (The Development of Metaphysics in Persia, PP.53-54)