Actions

Difference between revisions of "اجتہاد"

From IQBAL

m (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(Tag: Rollback)
 
(One intermediate revision by one other user not shown)
(No difference)

Latest revision as of 01:02, 20 July 2018

(۱)’’اگر افریقہ اور ایشیا کے موجودہ مسلمان دین کی تجدید کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ نئے زمانے کے حالات کا یہی تقاضا ہے۔ہمارے پاس اب بھی یقینا کافی وقت ہے کہ ہم اسلام کی بنیادی تعلیمات کا بخوبی جائزہ لیں‘‘

 (پہلا خطبہ)

(۲) ’’اگر اسلام کی نشاۃ ثانیہ حقیقت ہے اور یہ میرا ایمان ہے کہ اسلام کا احیا ایک حقیقت ہے تو ہمیں بھی کسی نہ کسی دن ترکوں کی مانند اپنے ورثے کی قدر وقیمت کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا‘‘ (چھٹاخطبہ) (۳)’’پہلی صدی کے تقریباً نصف سے لے کر چوتھی صدی کے آغاز تک کم وبیش اُنیس فقہی مذاہب موجود تھے۔اس حقیقت سے ہمیں بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے قدیم علما نے ارتقا پذیر اسلامی تہذیب کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کس قدر جاں فشانی سے کام لیا تھا۔ اسلامی فتوحات اورنتیجتاً اسلامی نقطہ نگاہ کی وسعت کے ساتھ ساتھ ہمارے ان متقدین کو حالات و واقعات کا بنظر غائر مطالعہ کرنا پڑا تھا۔علاوہ ازیں اُنھیں حلقہ بگوش اسلام ہونے والی نئی نئی قوموں کی عادات اور مقامی حالات زندگی کا بھی جائزہ لینا پڑا‘‘ (ایضاً) (۴)’’جب ہم اسلامی آئین کے چار مسلمہ سرچشموں اور اُن کی عملی بحثوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو فقہی مذاہب کے مفروضہ جمود کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی‘‘ (ایضاً) (۵)’’ آجکل دنیائے اسلام اُن نئی نئی قوتوں سے دوچار اور متاثر ہے جو انسانی خیالات کی ہمہ گیر اور غیرمعمولی ترقی کی بنا پر برسر عمل ہیں۔ اندریں حالات میرے خیال میں فقہ کی خاتمیت پر یقین رکھنا معقول بات نہیں۔کیافقہی مذاہب کے بانیوں نے کبھی اپنے دلائل اور تعبیرات کو حرف آخر ماننے کا مطالبہ کیا تھا؟ہرگز نہیں‘‘ (ایضاً) (۶)’’ اگر موجودہ دور کے آزاد خیال مسلمان حیات نو کے بدلے ہوئے حالات اور اپنے تجربات کی روشنی میں اسلام کے بنیادی قانونی اُصولوں کی نئی تعبیر کا مطالبہ کرتے ہیں تو اُن کا یہ مطالبہ بالکل درست ہے‘‘ (ایضاً) (۷)’’یہ امر ہمارے لیے زیادہ اطمینا ن کا باعث ہے کہ دنیا میں جنم لینے والی نئی نئی طاقتوں کا دبائو اور یورپین اقوام کے سیاسی تجربات دور حاضر کے مسلمانوں کے ذہنوں پر نظریہ اجماع کے امکانات اور اس کی قدر وقیمت مرتسم کررہے ہیں‘‘ (ایضاً) (۸)’’ آجکل کے مسلمانوں کو اپنے مقام رفیع کا بخوبی احساس کرتے ہوئے اسلام کے بنیادی اُصولوں کی روشنی میں اپنی سماجی زندگی کی ازسر نو تشکیل کرنی چاہیے‘‘ (ایضاً) (۹)’’ دور جدید کے مسلمان کے سامنے بہت بڑا کام ہے۔اس کا اولین فریضہ ماضی سے مکمل طور پر رشتہ منقطع کئے بغیر اسلام کے تمام نظام کے بارے میں ازسر نو غور کرنا ہے۔شاید پہلا مسلم جس نے اپنے اندر اس نئی سپرٹ کی شدت کو محسوس کیا تھا وہ شاہ ولی اﷲ دہلویؒ تھا‘‘ (چوتھا خطبہ) (۱۰)’’ہمارے لیے اب ایک ہی راستہ باقی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم علوم جدیدہ کی طرف ادب واحترام کے ساتھ آزادی رائے کو برقرار رکھتے ہوئے بڑھیں اور اسلام کی تعلیمات کو ان علوم کی روشنی میں بیان کریں۔ ہوسکتا ہے کہ اس ضمن میں ہم اپنے متقدمین سے اختلاف رائے کریں‘‘ (ایضاً) دین اسلام کے بارے میں علامہ اقبالؒ کا یہ پختہ ایمان تھا کہ وہ ایک عالمگیر‘ فطری،متحرک اور ارتقاء پذیر ضابطہ حیات ہے جس کی تعلیمات کسی خاص دور اور کسی خاص ملک تک محدود نہیں۔اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت اور رسول کریم ؐ کی عالمینی رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم قرآنی حقائق کو بھی آفاقی تناظر میں دیکھتے ہوئے اُن کی اہمیت وافادیت کو ہر دور اور ہر زمانے کے تقاضوں کے لیے تسلی بخش پائیں۔ ہادی اعظمؐ کی نبوت چونکہ آفاقی اور ابدی شان کی حامل ہے اس لیے آئین محمدیؐ میں دوام اور ابدیت کا رنگ پیدا ہوگیا ہے۔ آئین محمدیؐ ہی اب تمام انسانوں کی فلاح وبہبود کا ضامن قرار پایا ہے۔اس عقیدے کی رو سے زندگی کے بدلتے ہوئے حالات میں نت نئے مسائل کا حل ہمیں قرآن وسنت میں تلاش کرنا ہوگا۔قرآن حکیم میں جابجا کائنات اور زندگی کی نیرنگیوں اور تبدیلیوں کی طرف واضح اشارات موجود ہیں۔اس امر سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی جوئے رواں کی مانند ہر وقت رواں دواں ہے۔قرآن چونکہ مکمل ضابطہ حیات تصور کیا جاتا ہے بنابریںاس کتابِ ہدایت میںزندگی اور کائنات کی بدلتی ہوئی حالتوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ خالق کائنات کا ارشاد ہے:’’کل یوم ھو فی شان‘‘(ترجمہ:خدا تعالیٰ ہر روز نئی جلوہ گری کرتا رہتا ہے)۔خدا تعالیٰ کی اس خلاقی صفت کی بدولت دنیا میں نت نئے حالات رونما ہوتے رہتے ہیں۔اگر وہ اپنی صفت تخلیق کو ظاہر نہ کرے تو جہان رنگ وبو میں تنوع اور بوقلمونی کا عنصر بھی ختم ہوجائے۔اس قرآنی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیائے جدید کے عظیم اسلامی مفکر اور قرآنی حقائق ومعارف کے بے نظیر شارح علامہ اقبالؒ نے بجا ہی کہا تھا:۔ ؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون

(کلیات اقبال ،ص ۳۲۰) 

علامہ اقبالؒ قرآنی تعلیمات اور اسلام کے بنیادی اُصولوں کی روشنی میں زندگی کے نئے نئے مسائل کا حل تلاش کرنے اور جدید علوم کی افادیت کو پیش نظر رکھ کر اسلام کی نئی تعبیر کی سعی کرنے کے حق میں تھے۔اُن کے تصورِ اجتہاد میں اسلامی نظریات اور ماضی کی شاندار روایات کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔وہ کسی طرح بھی لاد ین نظریہ اجتہاد کے قائل نہیں تھے۔وہ بڑے خلوص کیساتھ اس امر پرپختہ یقین رکھتے تھے کہ صحیح اسلامی تصور زندگی میں ہی ہماری گو ناگوں مشکلات اور عصری مقتضیات کے تسلی بخش حل کا راز پوشیدہ ہے۔اُنھیں ان لوگوں کی کج فہمی اور جہالت پر رونا آتا ہے جو قرآن حکیم کو موجودہ دور میں ناقابل عمل خیال کرتے ہیں۔اُنکی نظر میں قرآن نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والے تمام زمانوں اور لوگوں کی دنیوی اور اخروی فلاح ونجات کا مظہر ہے جیسا کہ اُن کے اس شعر سے بھی ثابت ہوتا ہے۔وہ قرآن حکیم کے بارے میں فرماتے ہیں:۔ ؎ صد جہاں پوشیدہ در آیاتِ اُو عصر ہا پیچیدہ در آنات اُو

(ترجمہ: اس کی آیات میں سینکڑوں جہاں پوشیدہ ہیں اور اس کی آنات میں کئی زمانے لپٹے ہوئے ہیں)۔

یہ کتاب الٰہی چونکہ آخری کتاب ہدایت ہے اس لیے اب یہی تمام انسانوں کے گوناگوں مسائل کا حل پیش کرتی رہے گی۔اگر ہمارا یہ عقیدہ درست ہے کہ قرآن مکمل دستور حیات اور خدا تعالیٰ کا آخری پیغام ہے تو پھر لامحالہ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اس کی ابدی اور آفاقی تعلیمات کی پیروی میں ہی ہماری اہم مشکلات کا حل موجود ہے۔علامہ اقبالؒ اسلامی آئین کے چار بڑے اور مسلمہ منابع(قرآن پاک،احادیث، اجماع اور قیاس) کی روشنی میں ہی ہمیں غور وفکر کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’ اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ہمیں اپنی سماجی زندگی کی ازسر نو تشکیل کرنی چاہیے‘‘۔کیا قرآن مجیدہمیںبار بار فکر وتدبر کی دعوت نہیں دیتا؟کیا ہمیں اپنے متعلقہ مسائل کو حل کرنے کے لیے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اپنی عقلی صلاحیتوں کو بروے کار نہیں لانا چاہیے؟کیا خدا نے ہمیں عقل کی نعمت دے کر اُسے صحیح انداز میں استعمال کرنے کا حکم نہیں دیا؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ خدا تعالیٰ نے تدبر اور تفکر نہ کرنے والوں کو جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا ہے؟اس امر کو نگاہ میں رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ موجودہ دور کے مسلمانوں کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق’’اسلام کی بنیادی تعلیمات کا بخوبی جائزہ‘‘ لینا چاہیے۔ وہ مستقبل کو خوشگوار اور بہتر بنانے کے لیے ماضی اور حال دونوں کے امتزاج پر یقین رکھتے تھے۔ ’آئین نو‘ سے ڈر کر’ طرز کہن‘ پر اڑنا قومی اور ملی زندگی کے لیے کسی قدر کٹھن تو ہوا کرتا ہے مگر تبدیلی کو اختیار کئے بغیر بھی کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔شاعر مشرق اور ترجمان فطرت علامہ اقبالؒ نے قوموں کی اس ذہنی کشمکش اور اندرونی تذبذب کی یوں عکاسی کی ہے:۔

  ؎ آئین نو سے ڈرنا،طرز کہن پہ اڑنا     منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

(بانگ ِدرا) جو قوم زندگی کے نئے حالات سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتی وہ لازماً ترقی کی دوڑ میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جاتی ہے۔اگر موجودہ مسلمان ممالک نئے علوم اور نئے فنون میںکمال حاصل کرتے تو ہ آج غیر مسلم قوموں کے حاشیہ بردار،دست نگر اور غلام نہ ہوتے۔ ہمارے اس ملی زوال کا ایک بڑا سبب ہماری علمی پس ماندگی اور ذہنی جمود بھی ہے۔ اسلامی آئین اور شریعت محمدی ؐ کو زیادہ جاذب،متنوع اور وسیع بنانے کے لیے ہمارے قدیم علما اور فقہا نے جو اہم کردار ادا کیا تھا وہ ہم سے مخفی نہیں رہا۔جب تک اسلام جزیرۃ العرب تک محدور رہا اس وقت تک اسلامی آئین بھی وسعت پذیر نہ ہوسکا۔ بعد ازاں اسلامی فتوحات اور اسلامی نظریات کا حلقہ اثر وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ نومسلموں اور غیر مسلموں سے میل جول بھی بڑھتا گیا۔ اس میل جول کی بنا پر قدیم مسلمانوں کو نئے تہذیبی،ثقافتی،معاشرتی ،اقتصادی اور سیاسی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔اسلامی خلافت اور حکومت کے تحت زندگی بسر کرنے والے نئے لوگوں کے نظریاتی اور تمدنی حالات میں کافی فرق تھا اس لیے ہمارے دور اندیش اور ذہین علما اور فقہا نے قرآن اور اُسوہ رسو لؐ کی روشنی میں بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی آئین میں بھی تبدیلیاں پیدا کیں۔اگر وہ ہماری طرح کلیتہً قدامت پسند اور جمود پسند ہوتے تو وہ مختلف فقہی مکاتب فکر کی بنیاد نہ رکھتے اور آج اسلامی آئین ہمہ گیریت کے عنصر سے خالی ہوتا۔ امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ،امام احمد بن حنبلؒ اور امام ابو یوسفؒ نے نئے نئے حالات سے دوچار ہوکر علمی بحثوں اور فقہی سرگرمیوں کا قابل قدر آغاز کیا۔ان بزرگوں کی عملی بحثوں اور فکری کاوشوں سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ وہ جمود کی بجائے اجتہاد کے زبردست علم بردار تھے۔ان فقہا نے کبھی اپنی فکری کاوشوں اور علمی نتائج کو حرف آخر کا درجہ نہیں دیاتھا۔وہ ایسا کر بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ صرف قولِ خدا ہی حرف آخر کا درجہ رکھتا ہے۔انسانی عقل محدود ہونے کے باعث کبھی دائمی نظریات اور ابدی حقائق کو جنم نہیں دے سکتی۔کیا انسان کی محدود عقل غیر محدود خیالات کو جنم دے سکتی ہے؟ وحی والہام کی صداقتوں کو ہی دوام کی صفت عطا کی گئی ہے۔بقول علامہ اقبالؒ انسانی عقل ’’چراغ راہ ‘‘تو ہے لیکن یہ’’منزل‘‘نہیں ہوسکتی۔قرآنی تعلیمات کے عمیق مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ قرآنی حقائق تغیر وثبات کے عالمگیر اُصول کی اہمیت وافادیت کے عکاس ہیں۔زندگی نہ تو محض تغیرات کا مجموعہ ہے اور نہ ہی محض مثبت اقدار کی حامل ہے۔اس میں تغیر کا رنگ بھی ہے اور دوام کی شان بھی۔ جو آئین تغیر وثبات کی صفت کا حامل نہیں وہ کبھی بھی آنے والے ادوار کی گتھیاں نہیں سلجھا سکتا۔ علامہ اقبالؒ قدیم مسلمان علما، فقہا اور شریعت کے رمز شناس بزرگوں کی علمی عظمت، فکری اصابت ِرائے اور خلوص کے بے حد قدر دان ہیں۔وہ بار بار اُن کا نام بڑے ادب واحترام کے ساتھ لیتے ہیں۔اس قدر دانی کے ساتھ ساتھ وہ انسانی افکار کو حرف آخر کا درجہ نہیں دیتے کیونکہ وہ اسلام کو ایک حرکی، انقلاب آفرین، ارتقا پذیر اور جاندار ضابطہ حیات سمجھتے ہیں۔اس تصور کے پیش نظر وہ شاہ ولی اﷲ کی اجتہادی فکر کے مداح ہیں۔رسول خدا ؐکے عہد میں بھی ہمیں اس اجتہاد فکر ونظر کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے اجتہاد کی اہمیت دوبالا ہوجاتی ہے۔علامہ اقبال ؒاپنی ایک مختصر نظم’’ اجتہاد‘‘ میں ہمارے ذہنی جمود اور فکری زوال کے ضمن میں یوں شکوہ طراز ہیں:۔

ہند  میں حکمت دیںکوئی کہاں سے سیکھے        نہ کہیں  لذتِ کردار  نہ  افکارِ عمیق
حلقہ شوق  میں  وہ  جرات اندیشہ کہاں        آہ!  محکومی  و  تقلید  و  زوال تحقیق 
خود بدلتے نہیں،قرآں کو بدل دیتے ہیں        ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق  
(ضرب کلیم، کلیات اقبال ص ۴۸۴)

دورِ جدید میں ترکوں نے سب سے پہلے اجتہاد کو بروئے کار لاکر اپنے ذہنی ورثے کی قدروقیمت کا جب ازسر نو جائزہ لیا تو علامہ اقبالؒ نے اسے بہت سراہا تھا۔وہ ترکوں کی مانند دیگر مسلم ممالک کو بھی اجتہادی فکر سے کام لینے پر زور دیتے رہے۔اس بات سے یہ ہرگز نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ترکوں کے لادینی نظریات سے بھی متفق تھے۔جب مصطفیٰ کمال پاشا نے جدّت پسندی کی رو میں بہہ کر سب سے پہلے غیر اسلامی قوانین نافذ کئے تو علامہ اقبالؒ نے اس کو ہدف تنقید بناتے ہوئے یہ کہا تھا:۔ لادینی ولاطینی!کس پیچ میں اُلجھا تو دارو ہے ضعیفوں کا لا غالب الّا ھوُ (ضرب کلیم،کلیات اقبال ،ص ۶۴۳)

   وہ اسی اجتہاد فکر ونظر کے قائل تھے جس کی اسلامی نظریات اور قرآنی تعلیمات پر بنیاد ہو۔ اقبالؒ کے تصورِاجتہاد کے ضمن میں یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ہر کس وناکس کو اجتہاد کا حق دینے کے قائل تھے۔اُنکی نگاہ میں اجتہاد کرنے کے لیے چند بنیادی اُمور اور شرائط کی پابندی لازمی ہوا کرتی ہے۔قرآن وحدیث،اجماع اور قیاس کے تاریخی پس منظر،قرآنی حقائق،نئے مسائل کے حل اور درست ادراک اور نئے علمی اکتشافات کے گہرے علم کے بغیر اجتہاد کرنا یقینا مفید نتائج کا حامل نہیں ہوسکتا۔دینی تبحر اور مومنانہ فراست کی مشعل فروزاں کو چھوڑ کراجتہاد کی وادی میں سرگرداں ہونے کی سعی کم علمی کی واضح دلیل ہوگی۔ علامہ اقبالؒ ایسے تنگ نظر اور کم سواد علما کی اجتہادی فکر پر قدیم علما اور فقہا کی تقلید کو ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں:۔
ز   اجتہادِ    عالمان  کم  نظر         اقتدا   بر    رفتگان   محفوظ  تر

عقل آبایت ہوس فرسودہ نیست کارِ پاکاں از غرض آلودہ نیست

فکر ِشاں رَلسید ہمے   باریک  تر         ورعِ شاں بامصطفی  نزدیک   تر
تنگ برما  رہگذار دین شدہ است         ہر لئیمے   راز دارِ دین   شداست

( رموزِ بے خودی،کلیات اقبال ص ۱۲۵)