Actions

Difference between revisions of "آئین سازی"

From IQBAL

(Blanked the page)
(Tag: Blanking)
m (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(Tag: Rollback)
 
Line 1: Line 1:
 
+
<div dir="rtl" >
 +
(۱) ’’ جب ہم اسلامی آئین کے چار مسلمہ سرچشموں اور اُن سے متعلقہ عملی بحثوں کا مطالعہ کرتے ہیں توفقہی مذاہب کے مفر وضہ جمود کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی‘‘۔
 +
(چھٹا خطبہ)
 +
(۲)’’کوئی قوم بھی مکمل طور پر ماضی کو نظر انداز نہیں کرسکتی‘‘۔
 +
                              (ایضاً)
 +
(۳)’’ یہ امر ہمارے لیے بہت زیادہ اطمینا ن کا باعث ہے کہ دنیا میں جنم لینے والی نئی نئی طاقتوں اور یورپین اقوام کے سیاسی تجربات دور حاضر کے مسلمانوں کے ذہنوں پر نظر یہ اجماع کے امکانات اور اسکی قدروقیمت مرتسم کررہے ہیں۔اسلامی ممالک میں جمہوری روح کی نشو ونما اور مجالس آئین ساز کا تدریجی قیام ترقی کی طرف بہت بڑا قدم ہے‘‘
 +
                              (ایضاً)
 +
٭…٭
 +
اس امر سے انکار کرنا محال ہے کہ اسلامی آئین کی تدوین وترتیب میں قرآن حکیم، احادیث نبویؐ ،اجماع اور قیاس بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔اسلامی آئین کو بناتے وقت سب سے پہلے آسمانی ہدایت کی آخری کتاب یعنی قرآن مجید کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔اگر قرآن مجید میں کسی مسئلے کا حل موجود نہ ہوتا تو پھر اسلامی شریعت اور اسلامی قوانین کے ماہرین اور علماء نبی اکرمؐ کے اقوال واعمال یعنی احادیث سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔اگر احادیث سے بھی کسی خاص امر پر روشنی نہ پڑتی تو فقہائے اُمتّ اجماع(اجتماعی مشاورت) کو آئین محمدی ؐ کا تیسرا اہم منبع قرار دیتے تھے۔اگر قرآن مجید،احادیث ، اور اجماع سے بھی متعلقہ مسئلے کا حل نہ نکلتا تو وہ قیاس(ذاتی رائے) سے کام لیا کرتے تھے۔اس لحاظ سے قرآن اسلامی قانون سازی کا پہلا سرچشمہ،احادیث رسول ﷺ اس کا دوسرا ضروری منبع،اجماع اس کا تیسرا بڑا ماخذ اور قیاس اس کی اساس کا درجہ رکھتے تھے۔ امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام حنبلؒنے اسلامی آئین کو زیادہ جامع،متحرک اور وسیع بنانے میں جو نمایاں حصہ لیا تھا وہ اہل دانش سے پوشیدہ نہیں ہے۔ان علما اور فقہا کی کوششوں سے اسلامی آئین سازی کے کام میں کافی پیش رفت ہوئی تھی۔اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جمود کی بجائے اجتہاد کے زبردست قائل تھے۔
 +
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی قانون زندگی کی حرکت پذیری اور کائنات کے ارتقاء کومدنظر رکھتے ہوئے ہمیں نئے نئے مسائل اور بدلتے ہوئے سماجی حالات کی اہمیت کا احساس دلا کر اجتہاد پر اُبھارتا ہے تاکہ ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے رہیں۔اس لحاظ سے اس کا حال اور مستقبل سے گہرا تعلق ہے۔ علامہ اقبال ؒہم پر یہ حقیقت بھی منکشف کرتے ہیں کہ زندگی اور آئین سازی کا صرف حال اور مستقبل پر انحصار ہی نہیں بلکہ وہ ماضی سے بھی وابستہ ہیں۔ماضی کی اعلیٰ قدروں اس کے تعمیری اُصولوں اور انسانیت ساز روایات کو مکمل طور پر نظرانداز کردینے سے اسلامی آئین ،توازن اور ثبات کی صفت سے محروم ہوجائے گا۔اس نقطہ نظر سے متقدین اور علمائے سلف کی قانونی تعبیرات وتشریحات سے بھی رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔
 +
علامہ اقبالؒ ہمیشہ جمود اور ذہنی کاہلی کے زبردست مخالف تھے۔وہ اسلامی آئین سازی کو جمود اور ذہنی سستی کی زنجیروں سے آزاد کروانے کے لیے بے چین رہا کرتے تھے کیونکہ وہ متحرک نظریہ حیات اور ارتقاء پذیر زندگی کو فرد اور جماعت کے لیے بے حد اہم تصور کرتے تھے۔ جب زندگی میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو اس وقت ہمیں نئے حالات اور نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔نئے مسائل کے تسلی بخش اور بہتر حل کے لیے انفرادی رائے کی بجائے اجتماعی مشاورت کے اصول کو اپنانا حقیقت پسندی اور دانش مندی کی دلیل ہے۔مسلم ممالک میں نئے حالات کے پیش نظر قانون ساز مجالس کا قیام علامہ اقبال ؒ کے لیے وجہ شادمانی بن گیا تھا۔
 +
</div>

Latest revision as of 01:01, 20 July 2018

(۱) ’’ جب ہم اسلامی آئین کے چار مسلمہ سرچشموں اور اُن سے متعلقہ عملی بحثوں کا مطالعہ کرتے ہیں توفقہی مذاہب کے مفر وضہ جمود کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی‘‘۔ (چھٹا خطبہ) (۲)’’کوئی قوم بھی مکمل طور پر ماضی کو نظر انداز نہیں کرسکتی‘‘۔

                             (ایضاً)

(۳)’’ یہ امر ہمارے لیے بہت زیادہ اطمینا ن کا باعث ہے کہ دنیا میں جنم لینے والی نئی نئی طاقتوں اور یورپین اقوام کے سیاسی تجربات دور حاضر کے مسلمانوں کے ذہنوں پر نظر یہ اجماع کے امکانات اور اسکی قدروقیمت مرتسم کررہے ہیں۔اسلامی ممالک میں جمہوری روح کی نشو ونما اور مجالس آئین ساز کا تدریجی قیام ترقی کی طرف بہت بڑا قدم ہے‘‘

                              (ایضاً)

٭…٭ اس امر سے انکار کرنا محال ہے کہ اسلامی آئین کی تدوین وترتیب میں قرآن حکیم، احادیث نبویؐ ،اجماع اور قیاس بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔اسلامی آئین کو بناتے وقت سب سے پہلے آسمانی ہدایت کی آخری کتاب یعنی قرآن مجید کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔اگر قرآن مجید میں کسی مسئلے کا حل موجود نہ ہوتا تو پھر اسلامی شریعت اور اسلامی قوانین کے ماہرین اور علماء نبی اکرمؐ کے اقوال واعمال یعنی احادیث سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔اگر احادیث سے بھی کسی خاص امر پر روشنی نہ پڑتی تو فقہائے اُمتّ اجماع(اجتماعی مشاورت) کو آئین محمدی ؐ کا تیسرا اہم منبع قرار دیتے تھے۔اگر قرآن مجید،احادیث ، اور اجماع سے بھی متعلقہ مسئلے کا حل نہ نکلتا تو وہ قیاس(ذاتی رائے) سے کام لیا کرتے تھے۔اس لحاظ سے قرآن اسلامی قانون سازی کا پہلا سرچشمہ،احادیث رسول ﷺ اس کا دوسرا ضروری منبع،اجماع اس کا تیسرا بڑا ماخذ اور قیاس اس کی اساس کا درجہ رکھتے تھے۔ امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام حنبلؒنے اسلامی آئین کو زیادہ جامع،متحرک اور وسیع بنانے میں جو نمایاں حصہ لیا تھا وہ اہل دانش سے پوشیدہ نہیں ہے۔ان علما اور فقہا کی کوششوں سے اسلامی آئین سازی کے کام میں کافی پیش رفت ہوئی تھی۔اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جمود کی بجائے اجتہاد کے زبردست قائل تھے۔

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی قانون زندگی کی حرکت پذیری اور کائنات کے ارتقاء کومدنظر رکھتے ہوئے ہمیں نئے نئے مسائل اور بدلتے ہوئے سماجی حالات کی اہمیت کا احساس دلا کر اجتہاد پر اُبھارتا ہے تاکہ ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے رہیں۔اس لحاظ سے اس کا حال اور مستقبل سے گہرا تعلق ہے۔ علامہ اقبال ؒہم پر یہ حقیقت بھی منکشف کرتے ہیں کہ زندگی اور آئین سازی کا صرف حال اور مستقبل پر انحصار ہی نہیں بلکہ وہ ماضی سے بھی وابستہ ہیں۔ماضی کی اعلیٰ قدروں اس کے تعمیری اُصولوں اور انسانیت ساز روایات کو مکمل طور پر نظرانداز کردینے سے اسلامی آئین ،توازن اور ثبات کی صفت سے محروم ہوجائے گا۔اس نقطہ نظر سے متقدین اور علمائے سلف کی قانونی تعبیرات وتشریحات سے بھی رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔

علامہ اقبالؒ ہمیشہ جمود اور ذہنی کاہلی کے زبردست مخالف تھے۔وہ اسلامی آئین سازی کو جمود اور ذہنی سستی کی زنجیروں سے آزاد کروانے کے لیے بے چین رہا کرتے تھے کیونکہ وہ متحرک نظریہ حیات اور ارتقاء پذیر زندگی کو فرد اور جماعت کے لیے بے حد اہم تصور کرتے تھے۔ جب زندگی میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو اس وقت ہمیں نئے حالات اور نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔نئے مسائل کے تسلی بخش اور بہتر حل کے لیے انفرادی رائے کی بجائے اجتماعی مشاورت کے اصول کو اپنانا حقیقت پسندی اور دانش مندی کی دلیل ہے۔مسلم ممالک میں نئے حالات کے پیش نظر قانون ساز مجالس کا قیام علامہ اقبال ؒ کے لیے وجہ شادمانی بن گیا تھا۔