Actions

''خاتمہ''

From IQBAL

Revision as of 19:07, 13 June 2018 by Zahra Naeem (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> '''خاتمہ''' علامہ اقبال نے اپنی اس اہم تصنیف کے آخر میں بیان کردہ گوناگوں مسائل کا خلاصہ ت...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

خاتمہ

علامہ اقبال نے اپنی اس اہم تصنیف کے آخر میں بیان کردہ گوناگوں مسائل کا خلاصہ تحریر کردیا ہے۔ اس تلخیص میں انھوں نے فلسفۂ ایران کے مختلف ادوار کے اہم امور کو بیان کیا ہے۔ ان کی تحقیقات کے علمی نتائج یہ ہیں: (۱) ایرانی فلسفیوں اور مفکروں کو دو طرح کی ثنویت (دوئی) کے خلاف جدوجہد کرنا پڑی تھی۔ ظہور اسلام سے پہلے ایران میں مجوسی ثنویت کا رواج تھا اور فتح ایران کے بعد وہاں یونانی ثنویت کو فروغ حاصل ہوا۔ (۲) ایران میں اسلام کی آمد سے پہلے ایرانی مفکرین اشیائے کائنات کی اصلیت سے آگاہ ہونے کے لیے خارجی (معروضی) نقطہ نگاہ کے حامی تھے اس لیے باطن کی دنیا میں گم ہونے کی بجائے ظاہری دنیا میں زیادہ دل چسپی لے کر مادہ پرست بن گئے تھے۔ وہ کائنات کے بارے میں حرکی تصور کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ (۳) زرتشت کے فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات میں دو بنیادی طاقتوں، اہرمن اور یزدان کے درمیان ہمیشہ جنگ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ یزداں کو نیکی اور اہرمن کو بدی کی قوت سمجھتا تھا۔ اس کی رائے میں یہ دونوں قوتیں ہمیشہ برسرپیکار اور فعال رہتی ہیں۔ (۴) ایران کا ایک اور مفکر، مانی کائنات میں دو طاقتوں یعنی نور اور ظلمت کی باہمی جنگ اور حکمرانی کا قائل تھا۔ علامہ اقبال کی رائے میں مانی نے نور کی طاقت کو کمزور اور ظلمت کی طاقت کو جارحیت پرست ظاہر کیاہے۔ نور کی طاقت نیکی کی علامت ہے جب کہ ظلمت کی طاقت بدی کی ترجمان ہے۔ (۵) قدیم ایرانی فلسفے میں دو نمایاں خامیاں نظر آتی ہیں۔ ایک تو بالکل ظاہر ثنویت (اہرمن و یزدان، مادہ و روح اور نور و ظلمت کی دو قوتیں) ہے اور دوسری خامی تجزیاتی فقدان ہے۔ پہلی خامی یعنی ثنویت کا علاج اسلام نے یوں پیش کیا کہ ثنویت کی بجائے توحید کی تعلیم دی۔ دوسری خامی کو ایران میںفلسفہ یونان کی ابتدا نے دور کردیا۔ اسلام نے دو کائناتی قوتوں کی بجائے واحد کی حاکمیت کا تصور دیا اور یونانی فلسفے کے مطالعہ نے ان کے افکار اور خیالات کے تجزیہ کے لیے صحیح معیار پیش کیا۔ (۶) اسلام اور یونانی فلسفے نے ایرانی مفکرین کا رخ خارج (دنیا اور مادہ) سے باطن (روح) کی طرف موڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعض صوفی مکاتب خیال وحدۃ الوجود اور ہمہ اوست کے نظریات کے زبردست حامی بن گئے۔ (۷) ایک مشہور ایرانی مفکر الفارابی نے خدا اور مادہ کی ثنویت اور باہمی چپقلش کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مادہ کا ایک غیر واضح تصور بنا دیا۔ اشاعرہ نے تو مادہ کا مکمل انکار کرتے ہوئے عینیت یا تصوریت کو اختیا رکرلیا یعنی انھوں نے تصور کو ہی حقیقت سمجھا۔ اس کے برعکس ارسطو کے حامی مادہ کی اہمیت کو برابر تسلیم کرتے رہے۔ صوفیا نے کائنات کو فریب نظر یا سراب قرار دے دیا۔ (۸) شیخ شہاب الدین سہروردی نے زرتشت کی قدیم ثنویت کو فلسفہ اور روحانیت کا رنگ دے کر دوبارہ بیان کیا۔ (۹) واحد محمود کا نظریہ کثرت الوجود مروجہ ایرانی وحدۃ الوجود کے اثر کو زائل نہ کرسکا۔ (۱۰) بابی تحریک نے بے عمل تصوف اور فلسفیانہ خیال آرائی کی بجائے ٹھوس خارجی حقائق کا شعور بیدار کیا تھا۔ مندرجہ بالا امور کو اب یہاں کسی قدر وضاحت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے علامہ اقبال مرحوم و مغفور نے اپنی تحقیقات کے نتائج کا جائزہ لیا ہے کہ کس طرح ایرانی فلاسفہ اور مفکرین اسلامی نظریات اور یونانی فلسفہ سے متاثر ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے فلسفۂ ایران کی روحانی اور مادی چپقلش کے علاوہ اس کے موضوعی اور معروضی پہلوئوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ وہ اپنے نتائج فکری کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہم نے گزشتہ ابواب میں دیکھا ہے کہ ایرانی ذہن کو دو قسم کی ثنویت کے خلاف جدوجہد کرنا پڑی تھی۔ ایک تو زمانہ ماقبل اسلام کی مجوسی ثنویت تھی اور دوسری ظہور اسلام کے بعد کی ایرانی ثنویت تھی۔ ایرانی ذہن کی اس جدوجہد کے باوجود کثرت اشیا کا بنیادی مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے۔ اسلام کے منصہ شہود پر آنے سے پہلے زمانے کے ایرانی مفکرین کا طرز فکر مکمل طور پر معروضی (خارجی) ہے اس لیے ان کی ذہنی کوششوں کے نتائج کم و بیش مادہ پرستانہ ہیں۔ ان مفکرین نے واضح طور پر یہ بات بھانپ لی تھی کہ تخلیق کے پہلے اُصول کا ضرور حرکی ادراک ہونا چاہیے۔ زرتشت کے نظام فکر میں دونوں ابتدائی قوتیں فعال ہیں جب کہ مانی کے فلسفہ میں اُصول روشنی غیر متحرک اور اُصول ظلمت جارحانہ ہے۔ امید ہے ناظرین اس بات سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ ایران کے ایک مشہور قدیمی مفکر زرتشت کے فلسفہ کی بنیاد نیکی اور بدی کی قوتوں یعنی یزدان اور اہرمن پر رکھی گئی تھی۔ ایران کے ایک اور مفکر مانی نے نور کو نیکی کی علامت اور ظلمت کو بدی کی علامت کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اس اقتباس میں مفکر اسلام اور شاعر مشرق علامہ اقبال نے ان دونوں کے فلسفہ کے ان دو اساسی تصورات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ زرتشت اور مانی نے کائنات کے مختلف عناصر ترکیبی کا جو تجزیہ کیا تھا اقبال اسے مضحکہ خیز طور پر بہت معمولی قرار دیتا ہے۔ اس کی رائے میں ان کا تصور کائنات حرکی لحاظ سے بے حد ناقص ہے۔ اقبال کہتا ہے: حرکی پہلو کے طور پر ایرانی مفکرین کا نظریہ کائنات بہت زیادہ نقائص کا حامل ہے۔ ان کے نظام افکار کے دو کمزور نکات یہ ہیں۔ (۱)بالکل واضح ثنویت۔ (۲)فقدان تجزیہ۔ اسلام نے ان کے پہلے نقص یعنی کھلم کھلا ثنویت کا علاج کردیا اور یونانی فلسفہ کے رواج نے ان کے دوسرے نقص یعنی تجزیے کے فقدان کو دور کردیا تھا۔ ایران میں آغاز اسلام اور یونانی فلسفے کے مطالعہ نے وحدۃ الوجود کے فلسفے کی طرف ان کے طبعی رحجان کو روک دیا تھا لیکن ان دونوں طاقتوں نے ایران کے ابتدائی مفکرین کے امتیازی خارجی طریق خیال کو بدلنے میں کافی حصہ لیا۔ ان کی اس خوابیدہ موضوعیت (داخلیت) کو بیدار کیا جو آخرکار بعض صوفی مکاتب فکر کے انتہا پسندانہ ہمہ اوستی تصور کی معراج کو پہنچ گئی تھی۔ ایرانی فلسفہ میں ہمیں اہرمن ویزداں، نور و ظلمت، مادہ و روح اور وحدت و کثرت کے اہم مگر دقیق مسائل کا تذکرہ جابجا ملتا ہے۔ وہاں مذہب اور فلسفہ کی آمیزش نے بھی کئی فلسفیانہ اور صوفیانہ مسالک و مکاتب کو جنم دیا ہے۔ ان مسائل سے متعلق کائنات، خدا، داخلیت و خارجیت، موضوعیت و معروضیت کے دیگر مباحث بھی لائق مطالعہ ہیں۔ ایرانی فلسفہ نہیں رہا بلکہ اس میں تہذیبوں اور ممالک کے اثرات بھی نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ بعض ایرانی مفکرین ارسطو کے شیدائی ہیں اور بعض فلسفہ افلاطون کے خوشہ چین ہیں۔ علامہ اقبال فلسفۂ ایران کے ان مختلف پہلوئوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: الفارابی نے خدا اور مادہ کی ثنویت سے نجات پانے کی کوشش میں مادہ کو روح کا ایک غیر واضح ادراک بنا کر رکھ دیا ہے۔ اشاعرہ نے مادہ کی قدر و قیمت سے مکمل طور پر انکار کرکے سراپا تصوریت کو برقرار رکھا۔ ارسطو کے پیروکاروں نے اپنے پیر و مرشد کے مادہ اولین کے ساتھ گہرا ربط نہ چھوڑا۔ صوفیا نے مادی کائنات کو محض فریب یا خدا کی ذاتی معرفت کے لیے لازمی ’’غیر اللہ‘‘ خیال کیا۔ اس بات کوبڑے وثوق کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے کہ اشاعرہ کی تصوریت کے ذریعے ایرانی ذہن نے خدا اور مادہ کی بیرونی ثنویت پر قابو پالیا اور نئے نئے افکار کو چھوڑ کر نور و ظلمت کی قدیم ثنویت کی جانب رجوع کیا۔ شیخ الاشراق یعنی شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول اپنے فلسفہ اشراق کی بنا پر کافی شہرت کے مالک ہیں۔ انھوں نے ایران کے قدیم اور اپنے قریبی پیش رو ایرانی مفکرین اور فلسفہ کے بعض ضروری اُصولوں کو اپنے فلسفے میں شامل کرکے اسے زیادہ وسیع اور متنوع بنا دیا تھا۔ علامہ اقبال نے اس سے بیشتر اس کتاب میں ان کے فلسفہ اشراق کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اب وہ اس کتاب کے آخری حصے میں بھی اس کا ذکر ضروری خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: شیخ الاشراق زمانہ ماقبل اسلام کے ایرانی مفکرین کے معروضی طریق اور اپنے قریبی پیش رو مفکرین ایران کے موضوعی طرز کو آپس میں ملاتا ہے اور وہ زرتشت کی ثنویت کو دوبارہ زیادہ فلسفیانہ اور روحانی انداز میں پیش کرتا ہے۔ اس کا نظام فلسفہ معروضیت (خارجیت) اور موضوعیت (داخلیت) دونوں کے دعاوی کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن یہ تمام وحدۃ الوجودی نظام ہائے فکر واحد محمود کے عقیدہ کثرۃ الوجود میں آکر ایک ہو جاتے ہیں۔ واحد محمود کی تعلیم یہ ہے کہ حقیقت ایک نہیں بلکہ کثرت پر مبنی ہے۔ واحد محمود کے نظریہ کثرت وجود کی رو سے ابتدائی زندہ اکائیاں مختلف طریقوں سے آپس میں مخلوط ہو کر درجہ بدرجہ پایہ تکمیل تک پہنچ جاتی ہیں۔ تکمیل کی آخری منزل تک پہنچنے سے پہلے وہ مختلف شکلوں کے ارتقائی مراحل سے گزرتی ہیں۔ تاہم وحدۃ الوجودی فلسفہ کے خلاف واحد محمود کا ردعمل زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا۔ بعد میں آنے والے صوفیوں اور فلسفیوں نے آہستہ آہستہ نوافلاطونی نظریہ ظہور کو یا تو تبدیل کردیا یا بالکل چھوڑ دیا تھا۔ بعدازاں ہم ایرانی مفکروں کو نوافلاطونیت سے حقیقی افلاطونیت کی جانب رواں پاتے ہیں۔۔۔ علامہ اقبال اپنی اس اولین فلسفیانہ نثری تصنیف کے آخری باب کو ختم کرنے سے پہلے دوبارہ جدید ایران کی ایک مذہبی تحریک بابیت (Babism) کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اس تحریک نے خالص فلسفہ اور تصوف کو متاثر کرکے لوگوں کے اندر ٹھوس حقائق کا شعور پیدا کیا تھا۔ علامہ اقبال کی رائے میں ایران جدید کی سیاسی اصطلاحات کا ایک سبب یہ بابی تحریک بھی تھی۔ اس ضمن میں ان کے یہ خیالات ہدیہ ناظرین کیے جاتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: بابی تحریک خالص تفکر اور عمل سے عاری تصوف کے راستے میں زبردست مزاحمت پیدا کرتی ہے۔ یہ تحریک ظلم و ستم کی پروا نہ کرتے ہوئے تمام موروثی فلسفیانہ اور مذہبی رجحانات کو آپس میں ہم آہنگ کرکے روح کے اندر اشیا کی ٹھوس حقیقت کا شعور بیدار کرتی ہے۔ اگرچہ یہ شدید قسم کی وسیع المشربی کی حامل اور غیروطن پرستانہ نوعیت کی ہے تاہم اس نے ایرانی ذہن کو خاصا متاثر کیا ہے۔ میرے خیال میں بابی تحریک کی غیر صوفیانہ اور عمل پرستانہ خاصیت ایران کی حالیہ سیاسی اصلاحات کی پیش رفت کی ایک خفیف وجہ ہوسکتی ہے۔