Actions

Difference between revisions of "ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کے لیے احساس خطر"

From IQBAL

Line 92: Line 92:
 
                            
 
                            
 
                               *[[ممالک اسلامیہ…فلسطین]]*
 
                               *[[ممالک اسلامیہ…فلسطین]]*
 +
                                  *[[افغانستان]]*

Revision as of 19:37, 27 June 2018

ہندوستان میں علامہ کو اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کے متعلق بہت بڑا خطرہ نطر آتا تھا۔ جس کے انسداد کی بعض ایسی کوششیں ان مکاتیب سے ملت کے سامنے آتی ہیں جو آج تک سب کی نظر سے پوشیدہ تھیںَ مسلمانوں اور اسلام کے لیے خطرہ ان کو ہندوستان کی تحریک قومیت اور مسلمانوں کی بے حسی اور بے راہ روی کی وجہ سے تھا۔ اشاعت اسلام کے لیے ان کے دل میں ایک تڑپ تھی۔ میر غلام بھیک صاحب نیرنگ کو لکھتے ہیں: ’’میرے نزدیک تبلیغ اسلام کا کام اس وقت تمام کاموں پرمقدم ہے۔ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبودی ہے اور حفاظت اسلام اس کا عنصر نہیں جیسا کہ آج کل کے قوم پرستوں کے رویہ سے معلوم ہوتاہے تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے‘‘۔ اسی خط میں دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’میں علیٰ درجہ البصیرت یہ کہتا ہوںاور سیاسیات حاضرہ کے تھوڑے سے تجربے کے بعد کہ ہندوستان کی سیاسیات کی روش جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے خود مذہب اسلام کے لیے ایک خطرہ عظیم ہے۔ میرے خیال میں شدھی کا خطرہ اس خطرہ کے مقابلے میں کچھ وقعت نہیں رکھتا یا کم از کم شدھی ہی کی ایک غیر محسوس صورت ہے‘‘۔ اس روشن ضمری اور عاقبت بینی آج کون صاحب نظر داد نہ دے گا۔ مخدوم میراں شاہ صاحب کو لکھتے ہیں: ’’دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس امر کی توفیق دے کہ آپ اپنی قوت ہمت اثر و رسوخ اور دولت و عظمت کو حقائق اسلام کی نشر و اشاعت میں صرف کریں۔ اس تاریک زمانے میں حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے… افسوس شمال مغربی ہندوستان میں جن لوگوں نے عالم اسلام بلند کیا ان کی اولادیں دنیوی جاہ و منصب کے پیچھے پڑ کر تباہ ہو گئیں اور آج ان سے زیادہ جاہل کوئی مسلمان مشکل سے ملے گا الا ماشاء اللہ!‘‘ منشی صالح محمد صاحب کو لکھتے ہیں: ’’اسلام پر ایک بڑا نازک وقت ہندوستان میں آ رہا ہے۔ سیاسی حقوق اور ملی تمدن کا تحفظ ایک طرف خود اسلام کی ہستی معرض خطر میں ہے۔ میں ایک مدت سے ا س مسئلہ پر غور کر رہا ہوں اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوںکہ مسلمانوں کے لیے مقدم ہے کہ ایک بڑا نیشنل فنڈ قائم کریں جو ایک ٹرسٹ کی صورت میں ہوا اور اس کا روپیہ مسلمانوں کے تمدن اور ان کے سیاسی حقوق کی حفاظت اور ان کی دینی اشاعت وغیرہ پر خرچ کیا جائے۔ اسی طرح ان کے اخبارات کی حالت درست کی جائے اور وہ تمام وسائل اختیار کیے جائیں جو زمانہ حال میں اقوام کی حفاظت کے لیے ضروری ہیں…‘‘ ایک دوسرے خط میں زیادہ تفصیل سے لکھا ہے: ’’مسلمانوں کی مختلف مقامات میں دینی اور سیاسی اعتبار سے تنظیم کی جائے قومی عساکر بنائے جائیں اور ان تمام وسائل سے اسلام کی منتشر قوتوں کو جمع کر کے اس کے مستقبل کو محفوظ کیا جائے‘‘۔ عام مسلمانوں میں اسلام اور مسلمانوں کی ا س حالت زار اور ان کے لیے خطرہ عظیم کے عدم احساس کا ماتم اور اس خطرے کی نوعیت کو یوں واضح فرمایا ہے: ’’میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے مسلمانوں کو ابھی تک اس اک احساس نہیں کہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس ملک ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے اور اگر وقت پر موجودہ حالت کی اصلاح کی طرف توجہ نہ دی گئی تو مسلمانوں اور اسلام کا مستقبل اس ملک میں کیا ہو جائے گا۔ آئندہ نسلوں کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی زندگی گونڈ اور پھیل اقوام کی طرح ہو جائے۔ اور رفتہ رفتہ ان کا دین اور کلچر اس ملک میں فنا ہوجائے اگر ان مقاصد کی تکمیل کے لیے مجھے اپنے تمام کام چھوڑنے پڑے تو انشاء اللہ چھوڑ دوں گا۔ او ر اپنی زندگی کے باقی ایام اس مقصد جلیل کے لیے وقف کر دوں گا… ہم لوگ قیامت کے روز خدا اور رسولؐ کے سامنے جواب دہ ہوں گے‘‘۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے انحطاط کے اسباب اورملت ہندیہ کے احیائے جدید کی تدابیر پر ہمیشہ نظر رہتی تھی۔ مسلمانان ہند کے انحطاط کا ایک سبب ان میں تنظیم اور یک جہتی و ہم آہنگی کا فقدان ہے ۱۹۳۳ء میں شیخ عبداللہ کو لکھتے ہیں: ’’ہم آہنگی ایک ایسی چیز ہے کہ جو تمام سیاسی اور تمدنی مشکلات کا علاج ہے ہندی مسلمانوںکے کام اب تک محض اس وجہ سے بگڑے ہوئے ہیں کہ یہ قوم ہم آہنگ نہ ہو سکی۔ اس کے افراد بالخصوص علماء اوروں کے ہاتھ میں کٹ پتلی بنے رہے بلکہ اس وقت ہیں‘‘۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو خود متحد ہو کر ہمت کرنے اور اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور انہیں دوسروں کی عیاری سے ہوشیار رہنے کی تلقین کے سلسلہ میں سید سلیمان ندوی کو تحریک خلافت کے زمانے میں لکھتے ہیں: ’’مدت سے یہ بات میرے دل میں کھٹک رہی تھی کہ یہ تاثر ایک چھوٹی سی تضمین کی صورت میں منتقل ہو گیا ہے۔ معلوم نہیں آپ کا اس بارہ میںکیا خیال ہے۔ واقعات صاف اور نمایاں ہیں مگرہندوستان کے سادہ لوح مسلمان نہیں سمجھتے اور لندن کے شیعوں کے اشارے پر ناچتے چلے جاتے ہیں افسوس مفصل عرض نہیں کر سکتا کہ زمانہ نازک ہے:

بہت آزمایا ہے غیروں کو تو نے

مگر آج ہے وقت خویش آزمائی

نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا

خلافت کی کرنے لگا تو گدائی

خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے

مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشائی

مراد از شکستن چناں عار ناید

کہ از دیگراں خواستن مومیائی

اصل شعر میں دیگراں کی جگہ ناکساں ہے میں نے یہ لفظی تغیر ارادۃً کیا ہے‘‘۔ یہ نہ سمجھیے کہ اقبال کی نظر صرف ننگ اسلام علماء ہی کے گناہوں پر تھی انگریزی خواں طبقے کے وہ لوگ جو ذاتی نفع کی خاطر ملت فروشی پر مائل اور اس طرح ملت میں انتشار کا باعث ہوتے تھے ان کی سیاہ کاریوں سے بھی علامہ کو بے حد قلق تھا۔ ایک دوست کو لکھتے ہیں: ’’میں خود مسلمانوں کے انتشار سے بے حد درد مند ہوں اور گزشتہ چار پانچ سال کے تجربہ سے مجھے بے حد افسردہ کر دیا ہے۔ مسلمانوں کا مغرب زدہ طبقہ پست فطرت ہے

                              *فتنہ قومیت و وطنیت*

مذہب سے دلچسپی اور فقہ اسلامی کی تشکیل جدید

اقبال غلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ع عاشق دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ زمانے کی نبض پر ان کا ہاتھ تھا۔ مسلمانوں کے مذہبی انحطاط پر ان کا دل دکھتا تھا۔ مخالف قوتوں کے زور و اثر کو دیکھتے تھے اسباب انحطاط او رمشکلات کے مقابلہ کی صورتیں ان کے ذہن میں تھیں۔ کبھی ہماری بے حسی پر ان کا دل بیٹھ جاتاتھا کبھی نامساعد زمانہ سے اسلام کے لیے جنگ آزمائی کا عزم ہوتا تھا اور اسلام کی فتح اور مسلمانوں کی کامرانی کے یقین پر ان کی زندگی موقوف تھی۔ مکاتیب کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے لیکن یاد رہے کہ اقبال کی نگاہ میں مذہب او رسیاست کی علیحدگی جائز نہ تھی۔ جہاں وہ مسلمانوں کے مذہبی انحطاط سے نالاں تھے وہاں ان کے سیاسی تنزل کا ماتم بھی جاری تھا جہاں دوستوں کو مذہب اسلام کے مسائل کی طرف متوجہ کرتے اور دنیا کے موجودہ رجحانات کے پیش نظر تعلیمات اسلامی کی بلندی کی دنیا میں تلقین کی تدابیر پیش کرتے تھے وہاں ممالک اسلامیہ کی سیاسی شیرازہ بندی اور استحکام کو ان کے لیے زندگی اور آبرو کا راز جانتے اور مانتے تھے اور جب اور جہاں جس طرح ممکن ہو ا ان ممالک کی خدمت کرتے تھے ان کی سب سے بڑی خدمت مسلمانوں کو اس مذہبی و سیاسی خدمت کی طرف متوجہ کرنا تھا اوران دونوں قسم کی خدمات میں ان کا حصہ رہنمایانہ تھا۔ سید سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں: ’’میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ممالک اسلامیہ کے موجودہ حالات دیکھ کر بے انتہا اضطراب پیدا ہو رہاہے۔ ذاتی لحاظ سے خدا کے فضل وکرم سے میرا دل پورا مطمئن ہے۔ یہ بے چینی اور اضطراب محض اس وجہ سے ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ نسل گھبر اکر کوئی دوسری راہ نہ اختیار کر لے۔ حال ہی میں ایک تعلیم یافتہ عرب سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ فرانسیسی خوب بولتا تھا۔ مگر اسلام سے قطعاً بے خبر تھا۔ اس قسم کے واقعات مشاہدہ میں آتے ہیں تو سخت تکلیف ہوتی ہے‘‘۔ مذہبی انحطاط کی علت ہندوستان میں تعلیم کا سراسر غیر مذہبی ہوجانا اور عربی زبان سے ناواقفیت بتائی گئی ہے۔ نیاز احمد خاں کو ۱۹۳۱ء میں لکھتے ہیں: ’’مذہبی مسائل بالخصوص اسلامی مذہبی مسائل کے فہم کے لیے ایک خاص ترتیب کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں کی نئی پود اس سے باکل کوری ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تعلیم کا تمام تر غیر دینی ہو جانا اس مصیبت کا باعث ہوا ہے۔ ‘‘ ایک دوست کوجو ہندوستان سے باہر گئے ہیں لکھتے ہیں: ’’عربی سیکھنے کا موقع ہے خوب سیکھیے مگر مجھے اندیشہ ہے کہ عربی دانی سے آپ کی دلچسپی جو اب آپ کو فارسی لٹریچر سے ہے کم ہو جائے گی۔ کوئی آدمی عربی زبان کے چارم کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ میں نے طالب علمی کے زمانے میں خاصی عربی سیکھ لی تھی مگر بعد میں اورمشاغل کی وجہ سے اس کا مطالعہ چھوٹ گیا تاہم مجھے اس زبان کی عظمت کا صحیح اندازہ ہے‘‘۔ ایک دوسرے دوست کو ۱۹۱۶ء میںلکھتے ہیں: ’’ہندی مسلمانوں کی بڑی بدبختی یہ ہے کہ اس ملک سے عربی زبان کا علم اٹھ گیا ہے اورقرآن کی تفسیر میں محاورہ عرب سے بالکل کام نہیں لیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں قناعت و توکل کے وہ معنی لیے جاتے ہیں جو عربی زبان میں ہرگز نہیں…اس طرح ان لوگوں نے نہایت بے دردی سے قرآن اور اسلام میں ہندی اور یونانی تخیلات داخل کر دیے ہیں‘‘۔ مسلمانوں کی زبوں حالی اور بداعمالی اور ان کے مستقبل کی فکر دین و ملت کے دو خادموں کو رلاتی ہے۔ اور وہ ایک دوسرے کی تائید و اعانت کرتے اور ہمت بندھاتے ہیں سید سلیمان کو لکھتے ہیں: ’’دنیا اس وقت ایک روحانی پیکار میںمصروف ہے۔ اس پیکار و انقلاب کا رخ معین کرنے والے قلوب و اذہان پر شک و ناامیدی کی حالت کبھی کبھی پیدا ہو جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آ پ کا قلب قوی اور ذہن ہمہ گیر ہے۔ آپ اس حالت سے جلد نکل آئیں گے … آپ اس جماعت کا پیش خیمہ ہیں … اس جماعت کا دنیا میں عنقریب پیدا ہونا قطعی اور یقینی ہے‘‘۔ مذہبی پستی اورناواقفیت کا فوری علاج بھی بتایا جا رہا ہے اور مذہبی شوق کے پیدا کرنے اور اسلام کی برتری دنیا پر واضح و ثابت کرنے کا مستقل نسخہ بھی تیار کیا جا رہا ہے۔ مولانا عبدالماجد کو ۱۹۲۹ء میں مسلم یونیورسٹی کے نئے دور کا مطالعہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’آپ علی گڑھ جا کر مذہبیی مضامین پر طلبہ سے گفتگوئیں کیا کریں تو نتائج بہت اچھے ہوں گے۔ باوجود بہت سی مخالف قوتوں کے جو ہندوستان میں مذہب کے خلاف (اور بالخصوص اسلام کے خلاف) ا س وقت عمل کر رہی ہیں مسلمان جوانوں کے دل میں اسلام کے لیے تڑپ ہے لیکن کوئی آدمی ہم میں نہیں کہ جس کی زندگی قلوب پر موثر ہو…‘‘ ’’اسلام کے لیے اس ملک میں نازک وقت آ رہا ہے جن لوگوں کو کچھ احساس ہے ان کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش اس ملک میںکریں… علماء میں مداہنت آ گئی ہے‘‘۔ ایک دوست کو لکھتے ہیں: ’’افسوس کہ زمانہ حال کے اسلامی فقہا یا تو زمانہ کے میلان طبیعت سے بالکل بے خبر ہیں یا قدامت پرستی میں مبتلا ہیں… ہندوستان میںعام حنفی اس بات کے قائل ہیں کہ اجتہاد کے تمام دروازے بند ہیں… میری رائے ناقص میں مذہب اسلام گویا زمانے کی کسوٹی پر کسا جا رہا ہے اور شاید تاریخ اسلام پر ایسا وقت اس سے پہلے نہیں آیا۔ ‘‘ حضرت علامہ نے فکر اسلامی کی تجدید و طرح نو کے لیے بہت کوشش فرمائی اور طرح طرح کے مسائل کی طرف خود بھی توجہ کی اور علماء کو بھی متوجہ کیا۔ ان کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ فقہ اسلامی پر نئے سرے سے کتابیں لکھی جائیں۔ ایک دوست کو ایک عالم دین کے متعلق لکھتے ہیں: ’’کیا اچھا ہو کہ وہ شریف محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مبسوط کتاب تحریر فرما دیں جس میں عبادات و معالات کے متعلق صرف قرآن سے استدلال کیا گیا ہو معاملات کے متعلق خاص طور پر اس قسم کی کتاب کی آج کل شدید ضڑورت ہے… اس پر ایک آدھ کتاب بھی تصنیف ہو چکی ہے ۔ اس سے زیادہ تر زمانہ حال کے مغربی اصول فقہ کو ملحوظ رکھ کر فقہ اسلامی پر بحث کی گئی ہے… ایک مدت سے ہم یہ سن رہے ہیں کہ قرآن کامل کتاب ہے اور خود اپنے کمال کا مدعی ہے…لیکن ضرورت اس امر کی ہے ہ اس کے کمال کو عملی طور پر ثابت کیا جائے کہ سیاسیات انسانی کے لیے تمام ضروری قواعد موجود ہیں اوراسمیںفلاں فلاں آیات سے فلاں فلاں قواعد کا استخراج ہوتاہے نیز جو جو قواعد عبادات یا معاملات کے متعلق (بالخصوص موخر الذکر کے متعلق ) دیگر اقوا م میں اس وقت مروج ہیں ان پر قرآن نقطہ نگاہ سے تنقید کی جائے اور دکھایا جائے کہ وہ بالکل ناقص ہیں اور ان پر عمل کرنے سے نوع انسانی کبھی سیاست سے بہرہ اندوز نہیں ہو سکتی۔ میرا عقیدہ ہے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نقطہ نگاہ سے زمانہ حال کے جورس پروڈنس پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت کو ثابت کرے گا وہی اسلام کا مجدد ہو گا اوربنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم وہی شخص ہو گا‘‘۔ اقبال اس صورت حال کا مقابلہ علماء اسلام کی ایک جماعت تیار کرکے کرنا چاہتے تھے۔ اس جماعت کی تعلیم و تربیت کے لیے کس پایہ اور کن اوصاف کے اساتذہ کی ضرورت سمجھتے تھے۔ اس کا اندازہ شیخ جامعہ ازہر کے نا م تحریک داراسلام سے متعلق ان کا مکتوب لائق توجہ ہے ۔ فرماتے ہیں: ’’ہم ان کے لیے ایک لائبریری قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں ہر قسم کی نئی اور پرانی کتابیں موجود ہوں۔ اور ان کی رہنمائی کے لیے ہم ایک ایسا معلم جو کامل اور صالح ہو اور قرآن حکیم میں بصارت تامہ رکھتا ہو ور نیز انقلا ب دو رحاضرہ سے بھی واقف ہو مقرر کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ان کو کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح سے واقف کرے اور تفکر اسلامی کی تجدید یعنی فلسفہ حکمت اقتصادیات اور سیاسیات کے علوم میںان کی مدد کرے تاکہ وہ اپنے علم اور تحریروں کے ذریعے تمدن اسلامی کے دوبارہ زندہ کرنے میں جہاد کر سکیں‘‘۔

کن کن مذہبی مسائل پر توجہ تھی

ڈاکٹر اقبال کی نظر حال و مستقبل دونوں پر تھی۔ دین اسلام کو زمانہ حال کی مقتضیات کے پیش نظر جن مسائل سے واسطہ پڑا ہے یا پڑے گا ا س کااندازہ علامہ مرحوم کو تھا اور وہ چاہتے تھے کہ سوچتے تھے دوستوں سے پوچھتے تھے اور خود تلاش کرتے تھے اس سلسلہ میں صرف ان مسائل کی طرف محض اشارات پر اکتفا کرتا ہوں جن سے انہیں دلچسپی تھی سید سلیمان ندوی کو ۱۹۳۴ء میں لکھتے ہیں: ’’دنیا عجب کشمکش میں ہے جمہوریت فنا ہو رہی ہے اور اس کی جگہ ڈکٹیٹر شپ قائم ہو رہی ہے ۔ جرمنی میں مادی قوت کی پرستش کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ سرمایہ دار کے خلاف ایک جہاد عظیم ہو رہاہے ۔ تہذیب و تمدن (بالخصوص یورپ) بھی حالت نزع میں ہے۔ غرض کہ نظام عالم ایک نئی تشکیل کا محتاج ہے۔ ان حالات میں آپ کے خیال میں اسلام اس جدید تشکیل کا کہاں تک ممد ہو سکتا ہے اس بحث پر اپنے خیالات سے مستفیض فرمائیے۔ اگر کوئی کتابیں ایسی ہوں جن کا مطالعہ اس ضمن میں مفید ہو تو ان کے نامو ں سے آگاہ فرمائیے‘‘۔ سید صاحب ہی سے دریافت کرتے ہیں: ’’احکام منصوصہ میں توسیع اختیارات امام کے اصول کیا ہیں؟ اگر امام توسیع کر سکتا ہے تو کیا ان کے عمل کو بھی محدود کر سکتا ہے؟ اسکی کوئی تاریخی مثال ہو تو واضح فرمائیے!‘‘ ’’زمین کا مالک قرآن کے نزدیک کون ہے؟ اسلامی فقہا کا مذہب اس بارے میں کیا ہے؟ اگر کوئی اسلامی ملک (روس کی طرح) زمین کو حکومت کی ملکیت قرار دے تو کیا یہ بات شرع اسلامی کے موافق ہو گی یا مخالف؟ اس مسئلہ کا سیاست اور اجتماع معاشر ت سے گہرا تعلق ہے کیایہ بات رائے امام کے سپرد ہو گی؟ اس ضمن میں علامہ کا یہ سوال کہ کیا جماعت امام کی قام مقام ہو سکتی ہے مدنظر رہنا چاہیے۔ ’’امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک طلاق یا خاوند کی موت کے دو سال بعد بھی اگر بچہ پیدا ہو تو اس بچہ کے ولد الحرام ہونے پر نہیںکیا جا سکتا۔ اس مسئلہ کی اساس کیا ہے؟ کیا یہ اصول محض ایک قائدہ شہادت ہے یا جزو قانون ہے؟ اس سوال کے پوچھنے کی وجہ یہ ہے کہ مروجہ ایکٹ شہادت کی رو سے تمام وہ قواعدشہادت جو اس ایکٹ کے نفاذ سے پہلے ملک میں مروج تھے منسوخ کیے گئے ہیںَ ہندوستان کی عدالتوں نے مذکورہ بالا اصول کو قاعدہ شہادت قرا ر دے کر منسوخ کردیا ہے۔ نتیجہ اس بات کابعض مقامات میں یہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان بچہ جو فقہ اسلامی کی رو سے ولد الحلال ہے ایکٹ شہادت کی رو سے ولد الحرام قرار دیا جاتا ہے‘‘۔ اقبا ل کو اعتراف ہے: ’’میری مذہبی معلومات کا دائرہ نہایت محدود ہے۔ البتہ فرصت کے اوقات میں میںاس بات کی کوشش کیا کرتا ہوں کہ ان معلومات میں اضافہ ہو۔ یہ بات زیادہ تر ذاتی اطمینان کے لیے ہے نہ کہ تعلیم و تعلم کی غرض سے‘‘۔ لیکن اقبال مجبور ہیں کہ مسلمانوں کی مذہبی بیداری اور اسلام کی حقیقی تعلیم کو زمانہ حال کی مقتضیات کے پیش نظر دوسرے ضابطہ ہائے حیات سے بہتتر اور ابدی ثابت کرنے کے لیے جو کوشش ضروری ہے جہاں تک ان کے امکان میں ہے وہ کریں۔ وہ ایک دوست کو لکھتے ہیں: ’’مولوی صاحب مصوف یا ان کے رفقا کو جو کلام الٰہی اورمسلمانوں کے دیگر لٹریچر پر عبور رکھتے ہیں اس طر ف توجہ کرنی چاہیے۔ میں اور مجھ ایسے اور لوگ صرف ایک آنکھ رکھتے ہیں‘‘۔ حضرت علامہ نے بالآخر تہیہ کر لیا کہ وہ ایک کتاب لکھیں جس میں حقائق قرآنیہ سے بحث ہو اور اس احتیاط کا یہ عالم ہے کہ اس کا عنوان اسلام میری نظر میں قرار دیا ہے: ’’اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ کتاب کا مضمون میری ذاتی رائے تصور کیا جائے جو ممکن ہے غلط ہو‘‘۔ اس کتاب کے متعلق اپنی عمر کے آخری ایام میں انہوںنے سید راس مسعود کو لکھا ہے: ’’تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن کریم سے متعلق اپنے افکار قلم بند کر جائوںاور جو تھوڑی سی ہمت و طاقت مجھ میں موجود ہے اسے اسی خدمت کے لیے وقف کر دینا چاہتا ہوں‘‘۔ ایک دوسرے خط میں سید راس مسعود ہی کو لکھتے ہیں: ’’اس طرح میرے لیے ممکن ہو سکتا تھا کہ میں قرآن کریم پر عہد حاضر کے افکار کی روشنی میںاپنے وہ نوٹ تیار کر لیتا جو عرصہ سے میرے زیر غور ہیں لیکن اب تو نہ معلوم کیوں ایسامحسوس ہوتا ہے کہ میرا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اگر مجھے حیات مستعار کی بقیہ گھڑیاں وقف کر دینے کا سامان میسر آ جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کے ان نوٹوں سے بہتر میں کوئی پیشکش مسلمانان عالم کو نہیں دے سکتا‘‘۔ غیر اسلامی تصوف پر علامہ کے خیالات کسی دوسری جگہ موجود ہیں۔ مذہبی نقطہ نگاہ سے لکھتے ہیں: ’’اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ تصوف کا وجود ہی سرزمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے‘‘۔ ایک دوسرے خط میں سید صاحب کو لکھتے ہیں: ’’خواجہ نقشبند اور مجدد سرہند کی میرے دل میں بہت بڑی عزت ہے مگر افسوس کہ آ ج یہ سلسلہ بھی عجمیت کے رنگ میں رنگ گیا ہے۔ یہی حال سلسلہ قادریہ کا ہے جس میں میں خود بیعت رکھتا ہوں حالانکہ حضرت محی الدین کا مقصود اسلامی تصوف کو عجمیت سے پاک کرنا تھا‘‘۔ سید سلیمان کو لکھتے ہیں: ’’امریکہ کے ایک مصنف کی کتاب میںلکھا ہے کہ اجماع امت نص قرآنی منسوخ کر سکتاہے یعنی یہ کہ مثلاً مدت شیر خوارگی کی نص صڑیح کی رو سے دو سال ہے کم یا زیادہ ہو سکتی ہے… مصنف نے لکھا ہے کہ بعض حنفاء اور معتزلیوں کے نزدیک اجماع امت یہ اخیتار رکھتا ہے کہ مگر اس نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔ آپ سے یہ امر دریافت طلب ہے کہ آیا مسلمانوں کے فقہی لٹریچر میں کوئی ایسا حوالہ موجود ہے… دریافت طلب امر یہ ہے کہ کوئی حکم ایسا بھی ہے کہ جو صحابہؓ نے نص قرآنی کے خلاف نافذ کیا ہو اور وہ کون سا حکم ہے‘‘ ’’آیہ توریث میں حصص بھی ازلی و ابدی ہیں یا قاعدہ توریث میں جو اصول مضمر ہے صرف وہی ناقابل تبدیل ہے اور حصص میں حالات کے مطابق تبدیلی ہو سکتی ہے ؟ کیا روسی مسلمانوں میں بھی ابن تیممہ اور محمد عبدالوہاب نجدی کے حالات کی اشاعت ہوئی تھی؟… مفتی عالم جان جن کا حال میں انتقال ہو گیا ہے ان کی تحریک کی اصلی غایت کیا تھی؟ کیایہ محض تعلیمی تحریک تھی یا اس کامقصود ایک مذہبی انقلاب بھی تھا؟‘‘ اس وقت آئین پاکستان پر بحث مباحثہ جاری ہے۔ مذہبی مسئلہ میں امام کے اختیارات کی نوعیت پر بحث کرتے ہوئے علامہ اقبال سید سلیمان ندوی سے دریافت فرماتے ہیں: ’’زمانہ حال کی زبان میں یوںکہیے کہ آیا اسلامی کانسٹی ٹیوشن ان (امام) کو ایسا اختیار دیتی ہے امام ایک شخص واح د ہے یا جماعت بھی امام کے قائم مقا م ہو سکتیہے ۔۔ ؟ ہر اسلامی ملک کے لیے اپنا امام ہو یا تمام اسلامی ممالک کے لیے ایک واحد امام ہو؟ موخر الذکر صورت سے موجودہ فرق اسلامیہ کی موجودگی میں کیونکر بروئے کار آ سکتی ہے؟ مہربانی کر کے ان سوالات پر روشنی ڈالیے‘‘۔ اسی قسم کے بیسیوں سوالات ہیں جن کا حل تلاش کیاجا رہا ہے۔

                             *ممالک اسلامیہ…فلسطین*
                                  *افغانستان*