Actions

کائنات

From IQBAL

Revision as of 19:13, 24 June 2018 by Tahmina (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> (۱)’’ سقراط نے اپنی توجہ انفس پر مرکوز کی تھی۔اُس کی رائے میں پودوں، حشرات الارض اور ستا...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’ سقراط نے اپنی توجہ انفس پر مرکوز کی تھی۔اُس کی رائے میں پودوں، حشرات الارض اور ستاروں کی دنیا ہیچ ہے۔ وہ کائنات میں صرف انسان کی ذات کو لائق مطالعہ خیال کرتا تھا۔سقراط کا یہ خیال روحِ قرآنی کے کسی قدر خلاف ہے‘‘ (پہلا خطبہ )

 اسلام کے نقطہ نظر سے خدا تعالیٰ اپنی نشانیوں کو ظاہری اور باطنی دنیائوں میں ظاہر کرتا ہے۔اس لحاظ سے انفس اور آفاق دونوں کا مطالعہ یکساں انداز میں مفید اور ضروری ہے تاکہ ہماری زندگی کے دونوں پہلوئوں میں جاذبیت اور وسعت پیدا ہوسکے۔زندگی محض جسم ہی کا نام نہیں اور نہ  ہی یہ صرف روح پر منحصر ہے بلکہ یہ ان دونوں کا مجموعہ ہے ۔بنابریں کامیاب،مثالی،خوشگوار زندگی کے لیے روحانی اور مادی ضرورتوں کی تکمیل کی اہمیت کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ علامہ اقبالؒ قرآنی نظریہ حیات کا عظیم علم بردار ہونے کی حیثیت سے کسی بھی غیر متوازن اور یک طرفہ تصورِ کائنات کو بنظر تحسین نہیں دیکھتے۔اُنھوں نے سقراط کے نظریہ کائنات کو بھی اسی معیار حقیقت کے تحت ہدف تنقید بنایا ہے۔ ان کے مندرجہ بالا قول میں ان اُمور پر روشنی ڈالی گئی ہے:۔

(الف) یونان کے شہرہ آفاق فلسفی اور افلاطون کے استاد سقراط کے نظریات اور اس کے طریق استدلال کو تاریخ فلسفہ میں نمایاں ترین مقام حاصل ہے۔اُس نے اپنے مطالعہ کے لیے انسان اور اُس کی ذات کو اس قدر اہمیت دی کہ اس نے خارجی دنیا اور اس کی اشیاء کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ اُس کے نظریات کا لب لباب یہ مقولہ تھا’’Gnothi seauton (Know Thyself)‘‘ یعنی وہ معرفت نفس کا سب سے بڑامبلغ تھا۔ جب کوئی انسان باطن پرست ہوجائے تو وہ باطنی دنیا میں اس قدر مستغرق ہوجاتا ہے کہ اُسے بیرونی دنیا سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہتی۔ یہ اندازِ فکر بعد ازان رہبانیت،گوشہ نشینی اور دنیا سے بیزاری کے جذبات پیدا کرتا ہے جو معاشرتی اور اجتماعی زندگی کے لیے خطرناک اور غیر مفید ثابت ہوتے ہیں۔ (ب)علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ سقراط پودوں، حشرات الارض اور ستاروں کی دنیا کو ہیچ قرار دیتا تھا۔قرآن حکیم نے تو ہمیں تمام اشیائے کائنات کے عمیق مطالعہ اور تسخیر فطرت کا درس دیا ہے اس لیے سقراط کا یہ نظریہ یک طرفہ اور غیر مناسب ہے۔چند قرآنی آیات ملاحظہ ہوں:’’وھُو الّذی انزل منِ السّمائِ ماًء فاخرج بہِ نباتُ کُلّ شییً‘‘( انعام۶:۹۹)،(اﷲ وہ ذات ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس سے تمام نباتی اشیاء اُگائیں)۔ الشّمُس تجُرِی لمئسُتقّر لّھاِ‘‘( یٰسین۳۶:۳۸)،(سورج ایک مرکز کے اردگرد حرکت کرتا ہے )۔ ’’فلاینظُرون اِلی الاِبلِ کیف خُلقتُ‘‘(الغاشیہ۸۹:۱۷)(کیا وہ غور نہیں کرتے کہ اُونٹ کو کس طرح بنایا گیا ہے)۔ ان تمام قرآنی آیات سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اسلام خارجی ‘مادی اور مرئی دنیا کے حقائق کے مشاہدے اور غور وفکر پر کس قدر زور دیتا ہے۔ (ج) سقراط کائنات میں صرف انسان کی ذات ہی کو لائق مطالعہ سمجھتا تھا۔ قرآن حکیم کی رُو سے کائنات کی تمام اشیا جمادات، نباتات، اور حیوانات مطالعہ کے لائق ہیں نہ کہ صرف انسانی ذات۔علامہ اقبالؒ سقراط کے اس نظریہ کائنات کو بجا طور قرآنی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہیں۔سقراط کی طرح اس کے شاگرد افلاطون نے بھی عالم محسوسات کو فریبِ نظر اور غیر حقیقی کہا تھا حالانکہ قرآن حکیم’ سمُع‘’ فواد‘ اور’ بصر‘ سے حاصل شدہ علم کی مسئولیت کا قائل ہے۔اس بحث سے یہ بات بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ علامہ اقبالؒ قرآنی بصیرت کے مطابق ہی کسی تصور کو حق یا باطل سمجھنے کے عادی تھے۔وہ تخیل کی دنیا کو عجیب کہنے کے ساتھ ساتھ عالم مادی کو بھی عجائبات کا حامل قرار خیال کیاکرتے تھے۔ وہ ہماری توجہ اس ظاہری دنیا کی طرف مبذول کراتے ہوئے فرماتے ہیں: ؎ تری نگاہ میں ہے معجزات کی دنیا مری نگاہ میں ہے حادثات کی دنیا

تخیلات کی دنیا غریب ہے لیکن       غریب تر ہے حیات  وممات کی دنیا 

(کلیات اقبال،ص ۴۹۵) (۲)’’ قرآن کی رُو سے… اس کائنات کی تخلیق محض دل لگی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ حقیقت پر مبنی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ کائنات اپنی ساخت کے لحاظ سے وسعت پذیر ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ کوئی تکمیل یافتہ‘ بے حرکت اور غیر تغیر پذیر چیز نہیں۔قرآن گردشِ لیل ونہار کو خدا کی بڑی بڑی نشانیوں میں شمار کرتا ہے۔اب یہ انسان کا فرض ہے کہ وہ ان آیات الہٰی پر غوروخوض کرکے تسخیر فطرت کے لیے نئے نئے ذرائع معلوم کرے‘‘ (پہلاخطبہ)

  علامہ اقبالؒ کے اس اقتباس پر اس سے قبل اظہار خیال کیا جاچکا ہے تاہم قند مکرر کے طور پر یہاں اس کی مزید وضاحت کی جاتی ہے۔اس اقتباس میں درج ذیل اہم اُمور کی طرف ہماری توجہ دلائی گئی ہے:۔

(ا) قرآنی تعلیمات کے مطابق اس وسیع وعریض کائنات کی پیدائش محض لہو ولعب نہیں بلکہ یہ حقیقت اور مقصدیت کی حامل ہے۔ بعض مفکرین اور سائنس دانوں کے نزدیک کائنات کی آفرنیش ایک حادثاتی اور ہنگامی چیز ہے ۔اس لیے وہ اس کی حقیقت ‘دوام اور مقصدیت کے قائل نہیں۔ایک اور قرآنی آیت ملاحظہ ہو جس میں اہل دانش اور صاحبان بصیرت کی تحسین کائنات کی طرف یوںاشارہ کیا گیا ہے۔وہ ہر جگہ قدرت کے حسین وجمیل مناظر اور عجائبات کو دیکھ کر اس کی مقصدیت اور خدا کی خلاقی صفت کا ان الفاظ میں اعتراف کرتے ہیں:’’ رّبنا ما خلقت ھٰذا باطلاً ‘‘( آل عمران۳:۱ ۱۹)،( اے ہمارے پروردگار!تو نے اس کائنات کو بلا مقصد پیدا نہیں کیا)۔ (ب)کائنات کوئی تکمیل یافتہ، بے حرکت اور غیرتغیر پذیر شے نہیں بلکہ ہر وقت وسعت پذیر ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔قرآن حکیم میں شمس وقمر کی گردش،ہوائوں کی تبدیلی،بادلوں کی روانی، نباتات کی روئیدگی اور حیوانات کی تلاشِ رزق اور خدا کی مسلسل تخلیق کا بار بار تذکرہ کرکے ہمیں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دنیا میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اور یہ تغیر پذیر کائنات حرکت وارتقا کے قانون کے مطابق ترقی کے مراحل طے کرتی رہتی ہے۔زندگی بند پانی کا جوہڑ نہیں بلکہ یہ ایک جوئے رواں ہے۔خدا تعالیٰ کی صفتِ تخلیق اب بھی اپنی کرشمہ سازیوںاور جلوہ گریوں میں مصروف ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ کائنات ابھی تک تکمیل کی جانب رواںدواں ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ:۔ ؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کنُ فیکوں (بال جبریل، کلیات اقبال) (ج)علامہ موصوفؒ کہتے ہیں کہ قرآن حکیم گردشِ لیل ونہار کو خدا تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں شمار کرتا ہے۔قرآن کی دو آیات بطور ثبوت پیش کی جاتی ہیں:’’ اِنّ فیِ خلُق السّمٰوات والارضِ واخِتلاف الّلیل والنّھارِ لٰا یٰت لّا ولیِ الالباب‘‘( آلِ عمران۳:۱۹۰)، (بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور لیل ونہار کے فرق میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں)۔’’تُو لج الّلیل فی النّھار وتو لج النّھار فیِ الّلیل‘‘( آل عمران ۳: ۲۷)،( اے اﷲ! تو رات کو دن اور دن کو رات میں بدلتا رہتا ہے)۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ شب وروز کی تبدیلی کو اپنے مفکرانہ انداز میں اس طرح بیان کرتے ہیں: ؎ سلسلہ روز وشب،نقش گرِ حادثات سلسلہ روز وشب،اصل حیات و ممات سلسلہ روز وشب،تارِ حر یر دو رنگ جس سے بنا تی ہے ذات اپنی قبائے صفات (کلیات اقبال،ص۳۸۵) (د)قرآن حکیم اس بات پر زو ر دیتا ہے کہ انسان خدائی نشانیوں پر غور وفکر کرکے فطرت کی مختلف طاقتوںکو مسخر کرے۔انسان دنیا میں خدا کا نائب ہے اور خدا’’ احسن الخالقین‘‘کہلاتا ہے۔اس لحاظ سے انسان کو بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔اگر وہ ایسا نہ کرے تو وہ اس منصب کا صحیح معنوں میں حقدار نہیں کہلا سکتا‘بقول شاعرِ مشرق ؒ: ؎ چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستان کی یہ ہستی دانا ہے، بینا ہے، توانا ہے ( کلیات اقبال، ص ۱۷۹) اس موضوع پرحضرت علامہ اقبالؒ نے جن قرآنی آیات کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہیں:۔ (۳۸:۴۴، ۱۱۸:۳،۱:۳۵،۱۹؛۲۹،۴۴:۲۴)۔ (۳)’’ وھائٹ ہیڈ کائنات کو جامد تصور نہیں کرتا بلکہ وہ اسے ان حوداث کا سلسلہ کہتا ہے جن میں مسلسل تخلیقی رُو شامل ہوتی ہے۔فطرت کے مرورِ فی الزمان کی یہ خوبی ہمارے تجربے کا وہ واضح ترین پہلو ہے جس پر قرآن خاص زور دیتا ہے‘‘ ( دوسرا خطبہ)

 انگریز ریاضی دان اور سائنس دان پروفیسر وھائٹ ہیڈ کے تصورِ کائنات کی علامہ اقبالؒ بہت زیادہ تعریف کرتے ہیں کیونکہ اُن کی رائے میں وہائٹ ہیڈ کا یہ نظریہ قرآنی تعلیمات اور موجودہ سائنسی حقائق کے مطابق ہے۔پروفیسر وھائٹ ہیڈ کے نظریہ کائنات کا خلاصہ یہ ہے:

(ا) وھائٹ ہیڈ نے یہ ثابت کیا ہے کہ مادے کا قدیم ترین نظریہ مکمل طور پر کمزور ہوچکا ہے کیونکہ اشیا اور اُن کی خصوصیات آپس میں ایک نہیں ہیں۔ اب حواس پر مبنی معلومات اور اُنکو محسوس کرنے والا ذہن الگ الگ وجود کو ظاہر کرتے ہیں۔ پروفیسر وہائٹ ہیڈ کا کہنا یہ ہے کہ اشیا کا رنگ اور آواز بذات خود کچھ بھی نہیں بلکہ وہ ہماری ذہنی کیفیات کی آئینہ دار ہیں۔ دوسرے لفظوں میں چیزوں کی صفات کا وجود محض ہمارے احساس پر ہے۔علامہ اقبالؒ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "--The traditional theory of matter must be rejected for the obvious reason that it reduces the evidence of our senses--to the mere impression of the observer's mind." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.33) (ب)پروفیسر وھائٹ ہیڈ کے مطابق کائنات جامد نہیں بلکہ متحرک ہے۔کائنات اب خلا میں پھیلا ہوا مواد نہیںبلکہ یہ آپس میں مربوط واقعات کا ایک نظام قرار دی گئی ہے۔اس نے قدیم مادی تصورِ کائنات کو ختم کردیا ہے۔اس سے پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کائنات میکانیت کا ایسا خلا ہے جس میں چیزیں واقع ہیں۔ مختلف حالتوں کی تبدیلی کے باوجود مادّے کومستقل بالذات سمجھا جاتا تھا۔پروفیسر وہائٹ ہیڈ نے مادہ پرستی کے قدیم اور مقبول تصور کے پرخچے اُڑا دیئے ہیں۔ علامہ اقبالؒ مادّے کے نئے تصور پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں : A piece of matter has become not a persistent thing with varying system of inter-related events.The old solidity is gone. (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.34) )ج) پروفیسر وھا ئٹ ہیڈ کے نظریہ کائنات کی رُو سے کائنات میں مسلسل تخلیقی عمل موجود ہے۔علامہ موصوفؒ اسے بھی قرآنی تعلیم کے مطابق پاتے ہیں کیونکہ خدا ہر آن نئی شان میں جلوہ گر ہوکر اپنی خلاقی صفت کا اظہار کرتا رہتا ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:’’کُّل یوم ھُو فی شان‘‘ ۔ خدا کی اس دائمی خّلاقی کی بدولت کائنات کا ذرّہ ذرّہ عدم سے وجود میں آنے کے لیے بے قرار رہتا ہے۔بقول علامہ اقبالؒ: ؎ چہ لذّت یارب! اندر ہست وبُو داست دلِ ہر ذرّہ در جوشِ نمود است

  شگا فد   شاخ   ر ا    چوں    غنچہ گل     تبسم ریز  از  ذوقِ  و جود  است    

(کلیات اقبال ، ص۲۰۱) (د)علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ فطرت کا اپنے آپ کو زمانے کے تغیرات اور مسلسل تخلیقی عمل کے ذریعے منکشف کرنا ہمارے باطنی تجربے کا اہم پہلو ہے جس پر قرآن حکیم نے خاص زور دیا ہے۔دوسرے لفظوں میں خدا تعالیٰ اپنی صفات کی جلوہ گری ہمارے نفس(self (میں کرتے رہتے ہیں اور ظاہری دنیا میں بھی اُن کی نمود زمانی تبدیلی کی آئینہ دار ہے۔ اس لیے قرآن حکیم ہماری توجہ لیل ونہار کی مسلسل تبدیلی کی طرف مبذول کراتا ہے تاکہ ہم ان مظاہر زمانی پر غور وفکر کرکے خدا کی قدرت وعظمت کے قائل ہوجائیں۔علامہ ؒ کہتے ہیں کہ مسلسل تبدیلی اور شعوری زندگی کاتصور وقت کے بغیر محال ہے:

                     ع: سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

(۴) جنہیں ہم اشیاء کہتے ہیں وہ فطرت کے واقعات ہیں جن کو فکرِ انسانی مکانیت کا رنگ دے کر عملی اغراض کے لیے ایک دوسرے سے الگ قرار دیتا ہے۔کائنات جو ہمیں اشیا کا مجموعہ دکھائی دیتا ہے وہ خلا میں واقع ہونے والا ٹھوس مادہ نہیں۔کائنات چیز نہیں بلکہ یہ ایک عمل ہے‘‘ (دوسرا خطبہ) (۵)’’ جدید سائنس کی رُو سے فطرت کوئی جامد شے نہیں جو لامتناہی خلا میں واقع ہو بلکہ یہ تو مربوط واقعات کی تنظیم ہے جس کے باہمی تعلقات زمان ومکان کے تصورات کو جنم دیتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں زمان ومکان تو ’’انائے مطلق‘‘ کی تخلیقی سرگرمیوں کی فکری تعبیرات ہیں‘‘ (تیسرا خطبہ )

ان دو اقتباسات میںجن اہم اُمور پر روشنی ڈالی گئی ہے‘ وہ مندرجہ ذیل ہیں:۔

(الف) مادی اور ظاہری چیزیں اصل میں فطرتی تسلسل کے واقعات وحادثات ہیں۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں مادہ کوئی ٹھوس چیز نہیں بلکہ یہ مسلسل حادثات کا اٹوٹ نظام ہے۔اس لحاظ سے مادّے کا قدیم تصور ختم ہوگیا ہے۔ (ب) انسانی عقل فطرتی حادثات کو اپنی عملی ضرورتوں کے تحت مکانیت کا رنگ دے کر ایک دوسرے سے جدا قرار دیتی ہے۔علامہ اقبالؒ کے خیال میں اگر باطن میں جھانکا جائے تو وہاں ہمیں زندگی کی وحدت، عدم ِتقسیم، تسلسلِ واقعات اور غیر مادی حقیقت کا احساس ہوتا ہے لیکن جب زندگی خارجی اشکال اختیا ر کرتی ہے تو اُس وقت وہ مختلف نقاط کی صورت میں مکان اور مختلف لمحات کے رنگ میں زمان دکھائی دیتی ہے۔گویا زمان ومکان ہماری عقلی تعبیرات ہیں۔غالباًا س امر کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا:۔ ؎ خرد ہوئی ہے زماں ومکان کی زنّاری نہ ہے زماں، نہ مکاں، لا اِلہٰ اِلاّ اﷲ (کلیات اقبال،‘ص ۴۷۷) (ج)کائنات خلا میں واقع ہونے والا ٹھوس مادّہ نہیں بلکہ یہ تو ایک عمل ہے۔علامہ اقبالؒ کے نزدیک جدید سائنسی تحقیقات نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ اشیا کا مجموعہ دکھائی دینے والی کائنات ٹھوس چیز نہیں بلکہ یہ حادثات اور اعمال کا مجموعہ ہے۔اس ضمن میں اُنھوں نے برکلے‘ پروفیسر وھائٹ ہیڈ اور آئن سٹائن کے افکار کا بھی حوالہ دیا ہے۔و ہ کہتے ہیں: "It was the philosopher Berkeley who first undertook to refute the theory of matter as the unknown cause of our sensations. In our own times professor White-head---has conclusively shown that the traditional theory of materialism is wholly untenable.----But the concept of matter has received the gre- atestblow from the hand of Einstein." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, pp 33-34) (د) ترجمانِ فطرت علامہ اقبالؒ مزید فرماتے ہیں کہ سائنس کے نئے نظریات کے مطابق فطرت یعنی کائنات کوئی جامد شے نہیں بلکہ یہ تو ہر وقت حرکت وارتقا کے مراحل سے گزرتی رہتی ہے۔ اُن کی رائے میں حرکت کی بدولت اشیا معرض وجود میں آتی ہیں اور ساکن چیزوں سے حرکت محال ہے۔ اُنکے اپنے الفاظ میں اسے یوں بیان کیا گیاہے:۔ "---Universe is a free creative movement,----we can derive 'thi- -ngs' from movement; we cannot derive movement from immobile things." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, P51)

  خدا تعالیٰ اپنی تخلیقی فعیلت کی بدولت نئی چیزوں اور نئے واقعات کو پردئہ عدم سے منّصئہ شہود پر لاکر اس کائنات کو بھی متحرک اور متغیر رکھتا ہے۔ علامہ اقبالؒ زندگی کے اس تنوّع‘ جدت کاری‘ تاز ہ آفرینی اور حرکتِ مسلسل کے بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں :
؎ دما دم نقش ہائے تازہ ریزد        بیک صورت قرارِ زندگی نیست

(کلیات اقبال، ۸ص ۲۰۷) (۶)’’ میرے نزدیک اس نظریے سے اور کوئی چیز قرآنی تعلیم کے زیادہ خلاف نہیں جو کائنات کو پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کی ہُو بہو نقل قرار دے۔قرآن کی رُو سے کائنات کے اندر بڑھنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک ارتقاء پذیر کائنات ہے نہ کہ تکمیل یافتہ شے جسے بنا کر خداصدیوں سے الگ بیٹھ گیا ہو‘‘ (دوسرا خطبہ)

کائنات کی تشکیل وتکمیل کے بارے میں دو اہم متضاد نظریات پائے جاتے ہیں۔ حکما اور اہل دانش کا ایک گروہ اس بات کا حامی ہے کہ یہ کائنات خدا کے متعین پروگرام کے مطابق روزِ ازل ہی سے بنائی گئی تھی اس لیے اس کے تمام واقعات اسی پروگرام کے مطابق کسی تبدیلی کے بغیر رونما ہورہے ہیں۔ یہ حضرات کائنات کی طرح انسان کو بھی مجبور خیال کرتے ہیں۔ اس کے برعکس دوسرا مکتب خیال کائنات کو حرکی، ارتقا پذیر اور انسان کو صاحب اختیار قرار دیتا ہے۔علامہ اقبالؒ دوسرے مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔اُنھوں نے مندرجہ بالا اقتباس میں یہ اُمور بیان کئے ہیں:

(الف) قرآنی تعلیم اس نظریے کی حمایت نہیںکرتی کہ یہ کائنات پہلے سے بنائے ہوئے نقشے کی ہوبہو نقل ہے۔اگر ہم ایسا خیال کریں گے تو پھر ہم کائنات کو جبریت(determinism) اور میکانیت(mechanism) کی آئینہ دار بنادیں گے۔جبری امر اور مشینی طریق میں تکرار‘ یکسانیت اور عدم اختیار کا عنصر شامل ہوتا ہے جبکہ اختیاری امر جدت کاری‘ تازہ آفرینی ‘تغیر ِمسلسل،آزادی انتخاب اور انسانی عظمت کی دلیل بن جاتا ہے۔علامہ اقبال ؒکی رائے میں کائنات خدا کے بنائے ہوئے قوانین کی پابند توہے لیکن اسے تبدیل کرکے بنانے اور سنوارنے کی صلاحیت انسان کو عطا کی گئی ہے تاکہ وہ اپنے مقاصد کے مطابق اپنا کردار بھی واضح کرسکے۔ کیا قرآن نے انسان کو’’خلیفۃ اﷲ علی الارض‘‘ قرار نہیں دیا؟ اگر ایسا ہے تو پھر یہ نائبِ خدا کٹھ پتلی کی طرح بے اختیار ہوسکتا ہے؟ کیا خدا نے انسان کو دل ودماغ کی صلاحیتوں سے نواز کر اسے اپنے مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے فکر وعمل کے استعمال کا حکم نہیں دیا؟کیا امر ونہی کے قرآنی احکام سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انسان کو صاحب اختیار بنا کر ہی اس سے اطاعت کا مطالبہ کیاگیا ہے؟ یہ دو قرآنی آیات تقدیر کے مفہوم پر مزید روشنی ڈالتی ہیں:۔ (الف)’’خلق کّل شیًء فقّدرِہ تقِدیراً ‘‘(الفرقان ۲۵:۲)’(ﷲ نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اُن کے لیے پیمانے اور اندازنے مقرر کئے)(ب)’’ قد جعل اﷲ لّکل شییء قدراً‘‘(الطلاق ۶۵:۳)(اﷲ نے ہر شے کے لیے ایک پیمانہ مقرر کردیا ہے)۔ اس لحاظ سے تقدیرکامطلب ہے اشیائے کائنات اور اعمال کے پیمانے اور اندازے۔ دوسرے الفاظ میں اشیاء کے لیے قوانین فطرت کی پابندی اور اعمال کے محضوص نتائج کا نظام کائنات میں جاری کردیا گیا ہے۔ انسان کو کفر وایمان اختیار کرنے کا حق دیتے ہوئے قرآن نے یہ بھی کہا ہے:’’ فمن شاء فلیُومن شاء فلیکفُر‘‘(الکہف ۱۸:۲۹)( جس کا جی چاہے ایمان کی راہ اختیار کرلے اور جس کا جی چاہے کفر کی راہ اختیار کرلے ۔)علامہ موصوفؒ کا یہ شعر اشیا اور مومن کی تقدیر کو یوں بیان کرتا ہے: ؎ تقدیر کے پابند جمادات ونباتات مومن فقط احکامِ الہٰی کا ہے پابند (کلیات اقبال) (ب)علامہ اقبالؒ کائنات کو جامد نہیں بلکہ ارتقا پذیر‘ تنوع پسند اور وسعت طلب سمجھتے ہیں۔اُن کے نزدیک خدا اسے بنا کر الگ تھلگ نہیں بیٹھ گیا ہے۔خدا چونکہ خالق، ربّ‘ رحیم ومصّور بھی ہے اس لیے وہ اب بھی ہر لمحہ اپنی تخلیقی سرگرمی ربوبیت، رحم وکرم اور نئی نئی صورتوں کی ساخت میں مصروف ہے۔سورہ رحمن میں اسے’’ کّل یو م ھُو فی ِ شان‘‘(الرحمن۵۵:۲۹) کہا گیا ہے جس کی رو سے وہ ہر روز اپنی جلوہ گری کرتا ہے۔ قرآن حکیم نے خدا تعالیٰ کی پاک اور عظیم ذات کو ’’بدیع السمٰوت والارض‘‘(۲:۱۱۷) قرار دیاہے اس لیے وہ کسی آلہ اورمادّہ کے بغیر نئی نئی چیزوں کو پیدا کررہا ہے۔ جب یہ دنیا جلوہ گہ شہود ہے تو پھر یہ تکمیل یافتہ کیسے ہوسکتی ہے کیونکہ اگر ایسا ہے تو پھر نئی چیزوں کی تخلیق کی کیا ضرورت ہے؟ اس سلسلے میں علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: "The world regarded as a process realizing a pre-ordained goal is not a world of free, responsible moral agents; it is only a state on which puppets are made to move by a kind of pull from behind." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.54) علامہ اقبالؒ اپنے درج ذیل اشعار میں کائنات کی تغیر پذیری اور اس کی ناتمامی کے بارے میں یوں سخنِسرا ہوتے ہیں: ؎ جہانِ ما کہ جزُ انگا رئہ نیست اسیرِ انقلاب صبح وشام است

زسوہان   قضا  ہموار گردو     ہنوزایں پیکر گلِ ناتمام است

(کلیات اقبال،ص۲۲۸)

وہ کائنات کو ’’انگارہ‘‘ یعنی نقش ناتمام قرار دے کر اپنے تصورِ کائنات کی مزیدتائید کرتے ہیں۔

(۷)’’فطرت کو ذاتِ ایزدی کے ساتھ وہی تعلق ہے جو کردار کو انسانی ذات کے ساتھ ہے۔قرآن اسے اپنے خوبصورت انداز میں سنت اﷲ(خدا کی عادت) کہتا ہے۔فطرت کو ایک زندہ اور ہمیشہ بڑھنے والا جسم نامی سمجھنا چاہیے جسکی ترقی اور نشو ونما کی کوئی آخری حد نہیں۔اس کی حد صرف باطنی ہے یعنی وہ ذاتِ مشہود ہے جو اسے قائم ودائم رکھے ہوئے ہے جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشادہے:’’ واِلیٰ رّبکالمنتھٰی‘‘(۵۰: ۱۴ ) ۔ہمارا یہ نقطہ نگاہ طبعی سائنس کو نئے روحانی مفہوم سے آشنا کرتا ہے‘‘۔ (دوسرا خطبہ )

علامہ اقبالؒ نے اس اقتباس میں فطرت‘قوانین فطرت‘ خدا تعالیٰ اور سائنس کے بارے میں اپنے مخصوص تصورات کا اظہار کیا ہے۔اُن کی قدرے یہاں وضاحت کی جاتی ہے تاکہ یہ اہم اُمور بخوبی ادراک میںسما سکیں۔اُنھوں نے اپنے ان الفاظ میں جن باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہیں:

(الف)فطرت یعنی کائنات خداوندتعالیٰ کی ذات کا خارجی پہلو ہے۔کائنات کو خدا کے ساتھ وہی تعلق ہے جو کردار کو انسانی ذات(self) کے ساتھ ہوسکتا ہے۔قرآن ذات خداوندی کے اس فعل کو ’’سُنّتہ اﷲ‘‘ یعنی اﷲ کی عادت قرار دیتا ہے۔ جس طرح انسانی ذات کو ہم سیرت وکردار کے بغیر بطریق احسن نہیں سمجھ سکتے اسی طرح مطالعہ کائنات کے بغیر ہم خدا تعالیٰ کی گوناگوں صفات حسنہ کا علم حاصل نہیں کرسکتے۔یہ جہان آب وگل خدا کی لاتعداد صفات مثلاً امر،خلق، ہدایت، رحم،قہر، ربوبیت، کبریائی وغیرہ کا عکاس ہے۔ ہم خدا کو اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھ سکتے البتہ اس جلوہ گاہ ِصفات کو دیکھ کر اس کی صفات کا کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں۔اس طرح یہ بزم وجود بصد عجز ونیاز خدا کی عظمت اور وجود کی شہادت دے رہی ہے جیساکہ علامہ اقبالؒ خود فرماتے ہیں: ؎ شہید نازِ اُو بزمِ وجود است نیاز اندر نہادِ ہست وبود است (کلیات اقبال، ص۱۹۵) (ب) فطرت یعنی کائنات ایک زندہ اور ہمیشہ بڑھنے والے جسم نامی کی طرح ہے۔جس طرح جسم کو اپنی نشو ونما کے لیے خوراک اور مرُبی کی اشد ضرورت ہے اسی طرح یہ کائنات بھی اپنی نشو ونما کے لیے خدا تعالیٰ کی محتاج ہے۔خدا محض اشیائے کائنات کا خالق اور مالک ہی نہیں بلکہ وہ ان کا رزاق اور ربّ بھی ہے جیسا کہ قرآن حکیم ہمیں بتاتا ہے ’’الحمد ﷲِ ربِّ الٰعٰلمِین‘‘(۱:۱ ) خدا نے چیزوں کوپیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی ربوبیت کا ایسا انتظام کیا ہے کہ ہماری عقل دنگ رہ جاتی ہے۔وہ سمندروں،پہاڑوں، جنگلوں،بیابانوں، شہروں اور فضائوں کی تمام مخلوقات کی پرورش کررہا ہے۔کیا یہ اس امر کا ثبوت نہیں کہ تمام کائنات جسم نامی کی مانندخدا کے نظام ربوبیت سے فیض یاب ہورہی ہے؟۔ (ج)کائنات کی ترقی اور نشو ونما کی کوئی آخری بیرونی حد نہیں۔اس کی حد تو صرف باطنی ہے۔دوسرے الفاظ میں خدا تعالیٰ اسے قائم ودائم رکھے ہوئے ہے۔ قرآن حکیم کے نظریے کے مطابق خدا کی ذات غیر محدود،حّی وقیوم،احد اورصمد(بے نیاز) ہے۔ خدا کسی چیز کا محتاج نہیں ہے بلکہ تمام مخلوقات اپنے وجود اور نشو ونما کے لیے اس کی چشم کرم کی محتاج ہیں جیسا کہ قرآن حکیم نے کہا ہے:’’ اِ نّ اﷲ لغنی عنِ العالمین‘‘(العنکبوت ۲۹:۶)۔(بلاشبہ اﷲ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے)۔ کائنات بذات خود غیر محدود نہیں بلکہ اس کی غیر محدودیت امکانی ہے نہ کہ حقیقی۔اس نقطہ نگاہ سے کائنات اور اس کی تمام اشیا اپنے وجود، ارتقا اور وسعت کے لیے خدا پر منحصر ہیں۔انتہائی ترقی کے باوجود مخلوقات خالقِ کائنات کی ہم پلہ نہیں ہوسکتیں۔ (د) قرآن کائنات کا نقطہ انتہا خدا کو قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:’’واِلیٰ ربّکء المُنتھٰی‘‘(النجم ۵۳:۴۲)۔ (اور تیرے پروردگار کی طرف تیری حد اور انتہا ہے)۔ خدا اوّل بھی ہے اور آخر بھی۔ وہی ہر شے کا منبع ومنتہا ہے۔ایسی حالت میں مادّے کی ازلی اور ابدی اہمیت کا نظریہ بالکل ختم ہوجاتا ہے اور مادیت کی جگہ روحانی تصورِ کائنات کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔طبعی سائنس اور محسوسات کے اسیرخود محجوب ہیں ورگرنہ خدا کی شان کا ظہور تو ہر ذرّے میں ہورہا ہے‘بقول علامہ اقبالؒ:۔ ؎ کرا جوئی‘ چرا درِ پیچ و تابی کہ اُو پیدا ست تو زیرِ نقابی (کلیات اقبال،ص ۲۲۲) ؎ تو می گوئی کہ من ہستم‘ خدا نیست جہانِ آب وگلِ را انتہا نیست

ہنوذ ایں راز برمن ناکشود است        کہ چشمم آنچہ بیند‘ہست یا نیست  

(کلیات اقبال ،ص۲۴۷)