Actions

وطنیت و قومیت

From IQBAL

Revision as of 19:30, 24 June 2018 by Tahmina (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> (۱)’’اسلام نہ تو قومیت پر مبنی ہے اور نہ ہی شہنشائیت پر منحصر ہے بلکہ یہ ایک عالمگیر مجل...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’اسلام نہ تو قومیت پر مبنی ہے اور نہ ہی شہنشائیت پر منحصر ہے بلکہ یہ ایک عالمگیر مجلس اقوام ہے جو مصنوعی حدود اور نسلی امتیازات کو صرف تعارف کی سہولت کے لیے تسلیم کرتی ہے‘‘۔ (چھٹا خطبہ) علامہ اقبالؒ نے اپنے ان الفاظ میںدرج ذیل اُمور کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے۔اگرچہ موجودہ دور میں قدیم طرز کی شہنشائیت تو باقی نہیں رہی تاہم نئے نظامہائے حکومت میں اس کی روح ابھی تک موجود ہے۔قومیت کا آج کل دور دورہ ہے۔ایک نہ ایک دن یہ بھی اسلام کے آفاقی اور انسانی اخوت پر مبنی نظام میں جاکرمدغم ہو جائے گی۔ان اہم اُمور کی یہاں وضاحت کی جاتی ہے: (الف) اسلام کی اساس قومیت پر نہیں رکھی گئی۔اسلام نے تو کلمئہ توحید کو بنیاد بناکر دنیا بھر کے مسلمانوں کو آفاقی رشتہ اُخوت میں منسلک کردیا ہے۔رسول کریمؐ کے اپنے ہم وطن‘ ہم زبان‘ہم نسل اور ہم رنگ انسان دین وایمان کو قبول نہ کرکے ملّت کفر کے افراد بن گئے اور سلمان فارسیؓ اورصہیبؓ رومیؓ غیر وطن اور غیر نسل ہوکر اسلامی ملّت میں داخل ہوگئے تھے۔علامہ اقبالؒ نے اسلامی قومیت کے تصور کی یوں ترجمانی کی ہے: ؎ اپنی ملّت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِؐ ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک ونسب پر انحصار قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو  جمعیت گئی      اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملّت بھی گئی

(ب) اسلام صرف خدائی حاکمیت اور خدائی آئین کی بالا دستی کا نقیب ہے۔ یہ کسی انسان کو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسرے انسانوں کو اپنا محتاج اور غلام بنائے۔ علامہ اقبالؒ شنہشائیت کو قدیم دور تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ وہ اسکی روح کو جدید نظاموں قومیت،فاشزم، اشتراکیت، مغربی طرز جمہوریت اور سرمایہ داری میں بھی جاری وساری دیکھتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ؎ ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میںنہیںغیراز نوائے قیصری

دیوِ استبداد  جمہوری  قبا  میں  پائے کوب     تو  سمجھتا  ہے  یہ  آزادی  کی  ہے  نیلم پری

(کلیات اقبال،ص۲۶۱) ؎ زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا؟ طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی ؎ کاروبارِ شہریاری کی حقیقت اور ہے یہ وجودِ میرو سلطاں پر نہیں ہے منحصر

 مجلسِ ملّت ہو یا پرویز کا  دربار ہو     ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر 

(کلیات اقبال،ص ۶۵۰۔۶۴۹) مغرب کے جمہوریت پرست اور قوم پرستی کے حامل ملکوں کا پارلیمانی نظام حکومت ہو یا کیمونسٹ ممالک کا آمرانہ طرزِ حکومت یہ دونوںہی کمزور اور غریب ملکوں کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔کیا افغانستان، چیکوسلواکیہ اور پولینڈ میں روسی یلغار اور توسیع پسندی اس بات کی واضح دلیل نہیں؟سرمایہ دارانہ ممالک بھی اس روش پر گامزن ہیں۔ (ج)اسلام ایک عالمگیر مجلس اقوام ہے جو پرُامن بقائے باہمی کے اُصول پر انسانی براداری اور انسانی احترام کی تعلیم دیتا ہے۔بقول علامہ اقبالؒ: "Islam does not recognise the differences of race, of caste or even of sex. It is above time and above space and it is in this sense that all mankind are accepted as brothers," (B.A.Dar, Letters and Writings of Iqbal,pp.75-76) (د) اسلام اپنے ماننے والوں کے سماجی اُفق کومحدود نہیں کرتا۔یہ محض تعارف کے لیے مصنوعی حدود اور نسلی امتیازات کو تسلیم کرتا ہے۔اس کے نزدیک معیار فضلیت نیکی ہے خواہ وہ کسی بھی علاقے کا مسلمان ہو اور وہ مختلف زبان بولتا ہو۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: ؎ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر جو کرے گا امتیازِ رنگ وخوں مٹ جائے گا ترکِ خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر (کلیات اقبال‘ص ۲۶۵) (۲)’’موجودہ دور کا مسلمان روحانی احیاء کے اس خالصتاً مذہبی طریق عمل سے مایوس ہوچکا ہے جو اس کے افکار و احساسات میں وسعت پیدا کرکے اسے زندگی اور قوت کے لازوال سرچشمے سے ہم کنار کرتا ہے۔وہ اپنے جذبہ وفکر کو محدود کرکے طاقت کے نئے نئے ذرائع کا انکشاف کرنے کی غلط توقع وابستہ کئے ہوئے ہے‘‘۔ ( ساتواں خطبہ)

 علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری اور نثر میں اکثر مقامات پر عصر جدید خصوصاً مغربی نظامِ فکر وعمل کے مختلف پہلوئوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔وہ مادیت،عقلیت،اشتراکیت،سرمایہ داری،ملوکیت، دین وسیاست کی جدائی، لادینیت اور غلط اقدار ِحیات کے سخت مخالف ہیں۔حقیقت پسند اور مسلک اعتدال کا حامی ہونے کے طور پر وہ قدیم تصوف، مذہبی اجارہ داری،مذہبی استحصال، مسلمانوں کی جہالت،روحانی غلامی اور رہبانیت پسندی کو موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی مذہبی بے زاری کا سبب بتاتے ہیں۔ اُن کے اس اقتباس کی چند جھلکیاں ملاخطہ ہوں:

(الف) روحانی احیا اور فکر واحساس میں وسعت پیدا کرکے خدا سے رابطہ قائم کرنے میں تصوف بھی نمایاں کردار ادا کرتاہے۔علامہ اقبالؒ مذہبی واردات اور صوفیانہ تجربات کی اہمیت وافادیت کے زبردست علم بردار تھے۔اُن کے نزدیک باطنی تجربات ہمیں حقیقت الحقائق یا حقیقت کاملہ(خدا) کے ساتھ گہرا ربط قائم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔اس طرح ہم زندگی کی اصل سے قریب ہوکر روحانی سکون کے حامل بن جاتے ہیں۔ (ب) موجودہ دور کا مسلمان ان باطنی تجربات سے مایوس ہوچکا ہے۔علامہ موصوفؒ مذہب اور تصوف کے باطنی تجربات کو زندگی اور قوت کے لازوال منبع یعنی خدا سے ہمکنار کرانے کی اہمیت کے دعوے دار تھے۔ قرآن حکیم کی رُو سے باطن کی طرح خارجی دنیا بھی اہم اور مفید ہے۔ اس لیے خارجی ترقی کو نظر انداز کرنا کسی طرح بھی متوازن‘ بہتر اور زیادہ جاذب نظر زندگی بسر کرنے کرنے کے لیے درست نہیں۔اسلام چونکہ زندگی کا مکمل ضابطہ خیال کیا جاتا ہے اس لیے اسے ہماری مادی اور خارجی ترقی اور خوشحالی کا بھی ضامن ہونا چاہیے۔جب تصوف اور اسلام کو محض داخلیت‘ باطنی واردات‘رہبانیت اور مذہبی سیادت کا ذریعہ بنایا جائے تو لا پروائی جنم لے گی۔مغربی لوگ عقل پرستی اور مادیت کا شکار ہوکر روحانی سکون کھو بیٹھے ہیں اور مشرقی لوگ کھوکھلی روحانیت اور فرار عن الحیات کے سبب مذہب سے بری طرح مایوس ہوگئے ہیں۔بقول علامہ اقبالؒ ؎ نہ مشرق اس سے برُی ہے نہ مغرب اس سے برُی جہاں میں عام ہے قلب ونظر کی رنجوری (ج) مذہب کی غلط تعبیر اور تصوف سے بے زار ہوکر مسلمان محدود حب الوطنی اور قوم پرستی میں طاقت کے نئے ذرائع تلاش کرنے کی غلط توقع وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کو بے حد افسوس ہے کہ اہل مذہب اور اہل تصوف کی غلط نگری اور استحصال پسندی نے مسلمانوں کو مذہب سے بیزارکرکے سکیولر زم(لادینیت) اور نیشنل ازم کی گود میں دھکیل دیاہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔اُن کی رائے میں مسلمانوں کی نجات اور تسکین قلب کا سامان لادینی اور قوم پرستانہ نظام میں نہیں مل سکے گا۔ روح وجسم کے تقاضوں کی تکمیل ہی میں رازِ حیات ہے۔علامہ اقبالؒکے دو اقتباسات اس موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہیں: (1)"Neither the technique of medieval mysticism nor nationalism nor atheistic socialism can cure the ills of a despairing humanity." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.189) (2)"If the Muslim countries keep true to their ideals of Islam they are likely to do the greatest service to humanity." (Letters and Writings of Iqbal,p.60)