Actions

Difference between revisions of "وحی و الہام"

From IQBAL

(Created page with "<div dir="rtl"> (ا)’’ جس طرح قرآن حکیم میں لفظ’’وحی‘‘ استعمال ہوا ہے،اُس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ قرآ...")
 
(Blanked the page)
(Tag: Blanking)
Line 1: Line 1:
<div dir="rtl">
+
 
(ا)’’ جس طرح قرآن حکیم میں لفظ’’وحی‘‘ استعمال ہوا ہے،اُس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ قرآن اُسے زندگی کی عالمگیر صفت قرار دیتا ہے۔اگرچہ ارتقائے حیات کے مختلف مراحل پر اس کی نوعیت اور مدارج مختلف ہوتے ہیں:
 
(پانچواں خطبہ)
 
علامہ اقبالؒ نے شعور ولایت اور شعور نبوت کی بحث کے ضمن میں کہا ہے کہ صوفیانہ وارادات کی نوعیت محض ذاتی، باطنی، ہنگامی اور سوسائٹی کے لیے غیر انقلابی ہوتی ہے کیونکہ صوفی خدا کے ساتھ گہرا تعلق استوار کرکے بیٹھ رہنے کی آرزو رکھتا ہے۔ یہ ایزدی وصال ہی اس کی روحانی معراج اور مقصود حیات ہوتا ہے‘اس لیے صوفی کی قلبی واردات اور روحانی تجلیات سوسائٹی میں انقلاب خیزی کا موجب نہیںبن سکتیں۔اس کے برعکس نبی خدا سے قرب کا فیض پاکر خارجی دنیا میں زبردست معاشرتی اور اجتماعی انقلاب اور ایک نئی قوم کی تشکیل کا باعث بنا کرتا ہے۔وہ نبی کے اس  انقلاب آفریں وسیع اصلاحی پروگرام کی ہمہ گیر افادیت پر یوں رائے زنی کرتے ہیں:
 
"The desire to see his religious experience transformed into a living world-force is supreme in the prophet."
 
(The Reconstruction of Religious Thought  in Islam,p.124)
 
  اس بحث کے دوران اُنھوں نے وحی والہام کے بارے میں اپنے خیالات بھی بڑے مختصر انداز میںبیان کئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے:
 
(الف)قرآن حکیم لفظ’’وحی‘‘ کے استعمال کو زندگی کی آفاقی صفت قرار دیتا ہے۔اُ نکی رائے میں فضا میں آزادی سے نشوونما پانے والا پودا‘نئے ماحول کے مطابق نئے ارتقاپذیر جزو ِبدن کاحامل جانور اور اپنی زندگی کی باطنی گہرائی سے نور حاصل کرنے والا انسان اپنی نوع کی مختلف ضرورتوں کے مطابق وحی کی حالتوں کے آئینہ دار ہیں۔اس نقطہ نظر سے وہ وحی کو انسان کی ذات تک محدود اور مخصو ص نہیں سمجھتے جیسا کہ وہ ’’وحی‘‘ کے ذکر کے آغاز میں لکھتے ہیں:
 
"This contact with the root of his own being is by no means peculiar to man."
 
(The Reconstruction of Religious Thought  in Islam,p.125)
 
(ب) ارتقائے حیات کے مختلف مراحل پر وحی کی نوعیت اور مدارج مختلف ہوتے ہیں۔
 
وحی اور الہام کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے بس یہی کچھ کہا ہے۔ یہ موضوع اتنا اہم‘مشکل اور متنازعہ ہے کہ اس کی یہاں تھوڑی بہت وضاحت ضروری ہے۔علامہ اقبالؒ نے قرآن حکیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وحی کو عالمگیر صفت کہا ہے۔آئیے ذرا قرآن حکیم کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کریں۔خدا نے اپنی باشعور اور بے شعور مخلوق کی ہدایت کے لیے خاص قوانین وضع کئے ہیں۔ بے جان اور بے شعور اشیا کو اُس نے پیغمبرانہ وحی کے بغیر زندگی کی روش پر چلانے کے لیے جو قاعدے اور اُصول بنائے ہیں وہ چیزیں اُنھیں بلا چو ن وچرا کرنے پرمجبور ہیں مثلاً سورج‘چاند‘ ستارے‘دریا‘نباتات اور حیوانات قدرت کے لگے بندھے قوانین کی اطاعت کررہے ہیں۔قرآن حکیم کی یہ آیات ملاحظہ ہوں:
 
(ا)’’ الّذِی خلق فسوّیٰ و الّذِی قدّر فھدیٰ‘‘( سورہ اعلیٰ۸۷:۲،۳) ۔
 
      (اﷲ وہ ہے جس نے کائنات کو بنایا اور اسے تسویہ عطا کیا اور اس نے اس کے لیے دستور العمل بنایا اور اسے اس پر چلایا)۔
 
(۲)’’ سخرّ الّشُمس و القّمر کّل یجُری لاِ جل مُسمّی‘‘(لقمان ۳۱۷:۲۹)
 
(اﷲ نے سورج اور چاندکو مسخر کیا اور یہ مقررہ میعاد تک محوِ حرکت رہیں گے)۔
 
(۳)’’کُّل قدُ علمِ صلاتہ وتسبیحہ‘‘( نور۲۴:۴۱)۔
 
( کائنات کی ہر چیز اپنی صلوٰہ اورتسبیح(مقررہ فرائض) سے واقف ہے) ۔     
 
    (۴)’’اِنّا کُّل شییء خلقنہ بقدرِ‘‘( قمر۵۴:۴۹)۔
 
( ہم نے ہر چیز کو اندازے سے پیدا کیا ہے)۔
 
(۵) ’’ واوحیٰ ربّک اِلی النحل انِ تّخذیِ منِ الجبالِ بُیو تا و منِ
 
        الّشجرِ ومِمّا یعر شُون‘‘۔(النحل ۱۶: ۶۸)
 
(اور تیرے ربّ نے شہد کی مکھی کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ پہاڑوں،درختوں اور بیلوں میں
 
اپنے گھر بنائے)۔
 
ان تمام آیات مبارکہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جمادات‘ نباتات او رحیوانات کی جبّلت میں اپنے بنائے ہوئے خاص قوانین کی اطاعت پذیری پیدا کردی ہے۔علامہ اقبالؒ  بے جان‘ بے شعور اور بے اختیار اطاعت پذیری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
 
ع: تقدیر کے پابند جمادات ونباتات
 
ع:ذرّہ ذرّہ دہر کا زندانی ٔ تقدیر ہے۔
 
قرآن حکیم نے ان اشخاص کی طرف بھی وحی کے ذریعے پیغام دیا ہے جو نبوت ورسالت سے سرفراز نہیں ہوئے مثلاًارشادر رباّنی ہے:’’ اوحینا اِلیٰ اُمّ مُو سیٰ۔‘‘(القصص۲۸:۷)( ہم نے موسیؑ کی والدہ کی طرف وحی کی)۔
 
علامہ اقبالؒ نے یہ بھی کہا ہے کہ زندگی کی مختلف سطحیں اور درجے ہیں۔جمادات کی زندگی کی سطح پست ہے کیونکہ اس میں روئیدگی اور نشو ونما کی صفت ہے۔اس سے بلند تر ارتقائی صورت پودوں کی ہے اور بعد ازاں حیوانات کی زندگی کا درجہ ہے۔ جمادات‘نباتات او رحیوانات مختلف مدارج حیا ت کے ترجما ن ہیں۔انسان اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے عقل وشعور‘ علم‘قوت تسخیر اور دیگر صفات کا حامل ہے۔ اس لیے اس کا درجہ حیات سب سے زیادہ بلند ہے۔مولانا رومؒ کی طرح شاعرِ مشرقؒ بھی مدارج حیات اور مراحل الہام ووحی کے قائل ہیں۔ انسانوں میں اولیا اور اس کے بعد انبیا کے درجات عام انسانوں سے بلند ہیں۔مدارجِ زندگی کی مانند وحی والہام کے بھی مدارج ہیں۔انبیاء اور رسل کی وحی کا درجہ بلند ترین ہے اور اس کا ذریعہ ابلاغ بھی مختلف ہے۔جبرئیل ؑ خدا تعالیٰ کی وحی انبیاء کرام ؑاور رسل ؑ تک پہنچانے پر مامور تھے۔چونکہ اب نبوت کا سلسلہ رسول کریمؐ پر ختم ہو چکا ہے بنابرین وحی کی یہ قسم بھی ختم ہوگئی ہے۔بقول علامہ اقبالؒ:
 
؎ پس  خدا  برما  شریعت ختم کرد    بر  رسولِؐ ما رسالت ختم کرد   
 
(کلیات اقبال،صفحہ ۱۰۲)
 
مولانا رومؒ کا نظریہ ہے کہ نبوت پر مبنی وحی تو ختم ہے مگر باقی انسان اس سے اب بھی فیض یاب ہوتے ہیں اگرچہ اس کی نوعیت وہ نہیں۔ و ہ کہتے ہیں کہ دنیا کے تمام علوم وفنون اصل میں وحی ہی کی پیداوار ہیں۔مثال کے طور پر وہ تمام علمی کمالات اور ایجادات کا سرچشمہ محسوسات کی بجائے وحی یعنی اچانک اشارئہ غیبی یا شعور میں نور کا بلا ارادہ ظہورخیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:
 
؎ قابل تعلیم وفہم است ایں خرد    لیک صاحب وحی تعلیمش دہد
 
اس طرح کے اچانک فیضانی لمحات کو علامہ اقبالؒ اگرچہ صوفیانہ تجربات اور روحانی کیفیات سے بھی منسوب کرتے ہیں مگر وہ اُنھیں وحی نبوت کی طرح سند تسلیم کروانے کے حق میں نہیں۔صوفیا کی طرح وہ بھی نفس(self) کو ذریعۂ علم تصور کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 
؎ من اے دانش وراں درپیچ و تابم      خرد  را  فہم  ا یں معنی محال است
 
چساں درمشتِ خاکے تن زند دلِ      کہ دل دشتِ غزالانِ خیال است
 
(کلیات اقبال،ص ۲۱۴)
 
</div>
 

Revision as of 22:52, 11 July 2018