Actions

Difference between revisions of "مسلم ممالک"

From IQBAL

(Created page with "<div dir="rtl"> (۱) فی الحال ہر ایک مسلمان قوم کو اپنے من کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوکر کچھ عرصے کے لیے اپن...")
 
m (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(Tag: Rollback)
 
(One intermediate revision by one other user not shown)
(No difference)

Latest revision as of 01:03, 20 July 2018

(۱) فی الحال ہر ایک مسلمان قوم کو اپنے من کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوکر کچھ عرصے کے لیے اپنی نگاہ اپنی ذات پر مرتکز کردینی چاہیے یہاں تک کہ وہ سب طاقتور ہوکر جمہوری سلطنتوں کے زندہ خاندان کی تشکیل کرسکیں‘‘۔ ( چھٹا خطبہ) تاریخ اسلام اس امر کی شاہد ہے کہ خلافتِ راشدہ کے مثالی اور سنہری دور حکومت کے بعد مسلمانوں میں ملوکیت کو رائج کردیا گیا جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان مختلف سیاسی نتظمیوں اور متحارب یونٹوں میں تقسیم ہوگئے اور اُن کی طاقت وشوکت کا سورج گہنا گیا۔قرآن حکیم نے مسلمانوں کو اجتماعی اتحاد اورمرکزیت کا حیات بخش‘ قوت خیز اور باطل شکن درس دیتے ہوئے کہا تھا:۔ ’’واعتصُمو ابحبل اﷲ جمیعًا وّ لا تفرّ قُوا‘‘)آل عمران ۳:۱۰۳)، ( تم سب اکٹھے ہوکر خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں اور گروہوں میں تقسیم نہ ہوجائو )۔خدا کی رسی سے مرادقرآن حکیم ہے۔ جب تک مسلمانوں نے اسے تھامے رکھا وہ دنیا میں غالب رہے اور جونہی وہ مختلف سیاسی اور مذہبی گروہوں میں بٹ گئے، وہ محکوم،پسماندہ اور زوال پذیر بن گئے۔ دور حاضر میں جب مغربی ملکوں نے عالم اسلام کو اپنا غلام بنالیا تو مسلمان مختلف قوموں اور چھوٹے چھوٹے یونٹوں میں تقسیم کردئیے گئے تاکہ وہ دوبارہ قوت وشوکت کو حاصل نہ کرسکیں۔پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کو شکست ہوئی اور خلافت کے نظام کی رہی سہی مرکزیت کو بھی ختم کردیا گیا۔ترکی میں خلافت کے خاتمہ پر دنیائے اسلام میں صف ماتم بچھ گئی۔ترکی میں خلافت کا نظام ختم ہوتے ہی وہاں سیاسی اور مذہبی انتشار پھیل گیا۔وہاں کی دو بڑی جماعتوں نیشلسٹ پارٹی اور مذہبی اصلاح کی جماعت نے خلافت کو موضوع بحث بنایا۔قوم پرست پارٹی دین کو سیاست سے جدا کرنے کی حامی تھی جبکہ دوسری جماعت دین وسیاست کے امتزاج پر پختہ یقین رکھتی تھی۔ترکوں کی رائے میں جدید دور میں پرانی طرز کی خلافت اب ناقابل عمل ہے اس لیے انھوں نے پارلیمانی جمہوری نظام کو پسند کیا۔علامہ اقبالؒ ترکوں کے اس نقطہ نظر سے متفق ہیں اور وہ ترکی شاعر ضیاء کی اس بات کی بھی تائید کرتے ہیں کہ موجودہ حالات میں آفاقی طرز کی خلافت مشکل نظر آتی ہے اس لیے بہتر ہے کہ سب مسلمان ممالک آزاد‘ خود مختار اور مضبوط ہوکر آپس میں حلیفانہ اتحاد پیدا کرلیں۔وہ ان مسلم ممالک کو اسلامی طرز کی جمہوریت پر مبنی ایک زندہ خاندان کا درجہ دیتے ہیں۔یاد رہے کہ علامہ اقبالؒ اس صورتحال کو کچھ عرصہ تک قائم رکھنے کے بعد اسلام کے آفاقی تصورِ خلافت کو بروئے کار لانے کے علمِ بردار ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تووہ کبھی یہ نہ کہتے :

        ؎ملوکیت   ہمہ  مکر است   و  نیرنگ      خلافت     حفظ ِ     ناموسِ    الہٰی          
         ؎ سبق پھر پڑھ صداقت کا‘ عدالت کا شجاعت کا       لیا جائے گا تجھ سے  کام  دنیا  کی امامت کا
        ؎ تاخلافت  کی بنا  ِ دنیا  میں  ہو پھر استوار      لاکہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب وجگر   

(کلیات اقبال ، ص۲۶۵)

دنیا کی امامت کا فریضہ بخوبی سرانجام دینے کے لیے مسلمانوں میں کامل اتحاد اور مرکزیت کا ہونا اشد ضروری ہے۔ مرکزیت کے بغیر قومیں زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتیں جیسا کہ شاعرِ مشرقؒ نے خود کہا ہے:ع: قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی۔ علاوہ ازیں علامہ اقبالؒ اسلاف کا قلب وجگر تلاش کرکے خلافت کے قیام کے حامی ہیں۔ظاہر ہے کہ خلافت کا مثالی نظام خلافت راشدہ کا نظام وحدانی ہی تھا۔تیسری بات یہ ہے کہ علامہ اقبالؒ قومیت کی جغرافیائی،لسانی اور نسلی تفریق کی بجائے توحید کا پرچار کرتے رہے۔چوتھی اہم بات یہ ہے کہ مسلمان ممالک کی موجودہ تقسیم غیر مسلم طاقتوں نے کی تھی۔ بقول علامہ اقبالؒ:

؎ حکمت مغرب سے ملّت کی یہ کیفیت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کردیتا ہے گاز (کلیات اقبال،ص ۲۶۴) ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآنی نظام حکومت میں عوامی حاکمیت کی بجائے خدائی حاکمیت کو تسلیم کیاجاتا ہے۔ (۲)’’ اسلام نہ تو قومیت پر مبنی ہے اور نہ ہی شہنشاہیت پر منحصر ہے بلکہ یہ عالمگیر مجلسِ اقوام ہے ۔یہ اپنے ارکان کے سماجی اُفق کو محدود نہیں کرتی‘‘ (چھٹا خطبہ)

  قرآنی تعلیمات کی رُو سے خدا رب العٰلمین(سب جہانوں کا ربّ)،قرآن ہُدی اللنّاس(لوگوں کے لیے ہدایت) کعبہ بیت اللنّاس( لوگوں کے لیے خدا کا گھر) اور نبی اکرم ؐ رحمتہ العالمین(تما م جہانوں کے لیے رحمت) ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اسلام محض کسی خاص دور، ملک اور انسانی گروہ کے لیے نہیں بلکہ یہ تمام بنی نوع انسان کی دنیوی اور دینی نجات وفلاح کی خاطر ہے۔ایسی آفاقی اقدار اور انسانی اُصولوں کا علم بردار دین انسانون کی جغرافیائی،لسانی، نسلی، گروہی اور لونی تمیز اور تقسیم کا کیسے قائل ہوسکتا ہے؟قرآن حکیم تو تمام دنیا میں ایسا مثالی اور کامل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے جو ہمیشہ کے لیے تمام انسانوں کی باہمی محبت، اُخوت اور امن کا سبب ہو۔ کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ قوم پرستی اور شنہشائیت کی وجہ سے انسانوں کو مختلف قوموں اور مختلف معاشرتی طبقات میں تقسیم کرکے حکومت کی جاتی ہے؟ہر انسانی مجموعہ قوانین سہو وخطا کے علاوہ خود غرضی اور استحصال کا بھی آئینہ دار ہوتا ہے۔اس کے برعکس خدائی ضابطہ زندگی تمام نقائص ومعائب سے پاک ہوتا ہے اور وہ صرف خدائی حاکمیت کے تصور کو فروغ دیتا ہے۔ایسی مثالی ہستی کامل ہی ہماری اطاعت اور عقیدت کامرجع بن سکتی ہے۔ بقول شاعرِ مشرق  ؒ:

؎ سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اِک وہی باقی بتان آزری علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا اقتباس میں جن اہم اُمور کی نشاندہی کی ہے وہ مختصر طور پر یہ ہیں: (ا) اسلام قومیت پر مبنی نہیں ہے۔قرآن حکیم نے انسانوںکی تفریق(کافر ومومن) دین کی بنیاد پر ہی کی ہے نہ کہ کسی رنگ،نسل، وطن اور زبان کے اختلاف پر۔ اس لیے قرآن حکیم نے مختلف ملکوں‘ نسلوں‘ رنگوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو عالمگیر اخوت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا ہے:’’ اِنّما المُومِنُون اِخوۃ‘‘(الحجرات ۴۹:۱۰)،( سب مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں)۔ (ب )اسلام شہنشائیت پر منحصر نہیں ہے۔قرآن حکیم ہمیں خدائی حاکمیت کا درس ان الفاظ میں دیتا ہے :’’اِن الحُکُم اِلاّ ﷲِ‘‘(یوسف ۱۲:۸۷)،( حاکمیت صرف اﷲ کے لیے ہے)۔ یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ ہمارا خالق اور رازق تو خدا ہو اور ہم کسی انسان کو اپنا آقا ومالک تسلیم کریں؟ کیا کوئی انسان خدا کی طرح غیر محدود طاقتوں اور نعمتوںکا مالک ہوسکتا ہے؟ کیا یہ بہتر نہیںکہ ہم بے شمار چھوٹے چھوٹے خدائوں کی بجائے ایک ہی بڑے خدا کی اطاعت کریں؟ شہنشائیت میں انسانوںکے جائز حقوق سلب بھی کئے جاتے ہیں اور اُنھیں جانوروں سے بھی بدتر بنادیا جاتا ہے۔ایسا انسانیت سوز اور ظالمانہ نظام اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ (ج)اسلام ایک عالمگیر مجلس اقوام ہے۔اسلامی نظام میںمسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کو بھی پر امن زندگی بسر کرنے کا بہترین موقع دیا جاتا ہے۔ جو غیر قوم اسلام کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے اور اپنی رعایا پر ظلم نہ کرے اسے زبردستی حلقہ اسلام میں داخل نہیں کیا جاسکتا۔اسلام تو تمام انسانوں کے درمیان اچھے تعلقات استوار کرنے اور حقیقی قیام امن عالم کا قائل ہے کیونکہ یہ تو عالمگیر بنیادوں پر اپنے تعمیری اور مثالی پروگرام کی عملی شکل پسند کرتا ہے۔ جب خدا ہی سب کا خالق اور رزاق ہے تو وہی سب انسانوں کا حقیقی مالک ہونا چاہیے اور اس کا آفاقی آئین دنیا میں پائیدار اور حقیقی اُخوت ومساوات کے اُصولوں کو فروغ دے سکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ اپنے ایک انگریزی مضمون"Political Thoughts In Islam" میں بجا فرماتے ہیں: "The political ideal of Islam consists in creation of people born of a free fusion of all races and nationalities." (Thoughts and Reflections of Iqbal,p.60)