Actions

فلسفہ اور مذہب

From IQBAL

Revision as of 18:58, 24 June 2018 by Tahmina (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> (۱)’’ چونکہ فلسفہ کی آزادانہ تحقیق وتجسس پر بنیاد ہے اس لیے وہ مذہبی اعتقادات اور دیگر م...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’ چونکہ فلسفہ کی آزادانہ تحقیق وتجسس پر بنیاد ہے اس لیے وہ مذہبی اعتقادات اور دیگر مفروضات کی حاکمیت کوتسلیم نہیں کرتا۔وہ انسانی افکار ونظریات اور مسلّمہ اُمور پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے ان کی بنیاد کا سراغ لگانا چاہتا ہے۔ہوسکتا ہے انجام کار وہ اس حقیقت کو برملا تسلیم کرلے کہ عقل ِ انسانی حقیقت مطلقہ یا روح تک پہنچنے سے قاصر ہے۔اس کے برعکس مذہب کا نچوڑ ایمان ہے۔ایمان محض جذبے یا تاثر ہی کا نام نہیں بلکہ اس میں عقل کی بھی آمیزش ہوتی ہے‘‘۔ (پہلاخطبہ) علامہ اقبالؒ نے مندرجہ بالا اقتباس میں بہت سی باتوں کو یکجا کردیا ہے جن کا زیادہ تر تعلق فلسفہ ومذہب کی بحث وتنقید سے ہے۔اُنھوں نے اس میں ان اُمور کو بیان کیا ہے: (الف) فلسفہ کی اساس آزادانہ تحقیق وجستجو پر استوار ہوتی ہے۔فلسفہ پہلے سے قائم کردہ نظریات اور مفروضات کی حقیقت وافادیت کو اس وقت تک نہیں مانتا جب تک کہ وہ اُنھیں تحقیق وتنقید کے مقرر اُصولوں پر نہ جانچ لے۔ یہ دل سے مانی ہوئی باتوں کو بھی من وعن تسلیم نہیں کرتا بلکہ ان کے بارے میں کافی سوالات اُٹھاتا ہے۔اگر ان سوالوں کے تسلی بخش جوابات نہ پائے تو وہ انھیں قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ (ب) فلسفہ مذہبی اعتقادات اور دیگرمفروضات کی حاکمیت اور برتری کو تسلیم نہیں کرتا کیونکہ وہ تمام نظریات کو پہلے تحقیق وتنقید کے معیار پر پرکھنے کا مطالبہ کرتا ہے۔فلسفہ پہلے عقلی معیار قائم کرتا ہے اور بعد ازاں اس کے درست نتائج کو مانتا ہے۔اس کے برعکس مذہب کی بنیاد اعتقاد وایمان پر ہوتی ہے۔دوسرے لفظوں میں مذہب پہلے سے مانی ہوئی باتوں(اعتقادات) پر زور دیتا ہے اور بعد ازاںغور وفکر کی اجازت دیتا ہے۔ کبھی یہ غور وفکر کی پہلے دعوت دیتا ہے تاکہ ہم مطالعہ فطرت اور مشاہدہ کائنات کے باعث خدا کی قدرت، حکمت اور وجود کے نشانات کو دیکھ کر بندگی اختیار کریں۔ (ج) فلسفہ،مذہب اور اعلیٰ شاعری کی طرح زندگی کے چند اہم سوالات سے دوچار ہوتا ہے مثلاً ان تینوں میں کائنات کی نوعیت، انسان اور کائنات،انسان اور خدا، خدا اور کائنات کے باہمی روابط اور دنیا میں انسانی کردار کے مختلف پہلوئوں کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔فلسفہ عقل کی بدولت حقیقت مطلقہ یا روح کائنات تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔کبھی تو یہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ مادہ ہی حقیقت ہے اور اس کے علاوہ کوئی ہستی اس کی خالق نہیں اور کبھی یہ خدا کے وجود کو تو مانتا ہے مگر عقل کی نارسائی اور ناکامی کا اعتراف نہیں کرتا۔ (د)فلسفہ کا نچوڑ عقلی استدلال ہے لیکن مذہب کا لب لباب ایمان ہے۔فلسفہ حواس اور عقل پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے طر یق تحقیق کا مظہر ہوتا ہے۔اس کے برعکس ایمان کا لازمی طور پر حسّی علم اور استدلال پسند عقل سے تعلق نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ مذہب باطن کے علاوہ ظاہر کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔اس کا زیادہ تر زور باطن کی پاکیزگی،اخلاق کی درستگی،نظریاتی صحّت اور عزم ویقین پر ہوتا ہے۔ (ہ) علامہ اقبالؒ آخر میں فرماتے ہیں کہ ایمان صرف جذبے کا نام نہیں بلکہ اس میں عقل کی بھی آمیزش ہوتی ہے۔دوسرے الفاظ میں مذہب عقل کے معقول استعمال کا مخالف نہیں ہوتا۔اس نقطہ نگاہ سے یہ ذکر وفکر،فکر ووجدان اور ظاہر وباطن پر محیط ہوتا ہے۔ (۲)’’ دین وایمان کو عقل کی روشنی میں دیکھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان پر فلسفے اور عقل کے تفوق کو تسلیم کرلیا جائے‘‘۔ (پہلا خطبہ) علامہ اقبالؒ نے اپنی مشہور انگریزی کتاب’’تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ میں فلسفہ،اعلیٰ درجے کی شاعری اور مذہب تینوں کو کائنات اور زندگی کی بنیادی حقیقتوں کامتلاشی قرار دیتے ہوئے مذہب کو فلسفے اور شاعری پر ترجیح دی ہے۔اُنھوں نے اپنے اس مطمع نظر کی تائید میں دلیل وبرہان سے کام لیا ہے اور محض اپنے ذاتی عقائد پر تکیہ نہیں کیا۔وہ فلسفے کو محض تفکر اور شاعری کو شدید جذبے کا مظہر خیال کرتے ہیں۔اس کے برعکس وہ مذہب کو فکر‘جذبہ اور عقیدہ وایمان کا مجموعہ کہتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں دین ومذہب کا احاطہ اثر شاعری اور فلسفے سے زیادہ وسیع ہے۔مندرجہ بالا اقتباس سے دو باتیں ظاہر ہیں… دین وایمان کا عقلی جائزہ اور عقل پر ان کی برتری۔آئیے سب سے پہلے ہم دین وایمان کے عقلی جائزے کی اہمیت کو بیان کریں۔ (الف) علامہ اقبالؒکہتے ہیں کہ دین ومذہب کی ٹھوس حقائق اور یقینی اُمور پر بنیاد ہوتی ہے جن کا اوّلین مقصد انسانوں کے اذہان وقلوب میں انقلاب لاکر اُن کی اجتماعی زندگی اور ظاہری و باطنی فلاح وہدایت کا سامان بہم پہنچانا ہوتا ہے۔ یہ مذہبی حقائق اور دینی عقائد انسان کی بھرپور شخصیت کے مظہر ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف انسانوں کی فکری اور جذباتی تطہیر کرتے ہیں بلکہ وہ اُنھیں اعمالِ صالح اور درست عقائد بھی عطا کرتے ہیں۔اس لحاظ سے ان مذہبی اُمور کی عقلی جانچ پڑتال بے حدضروری ہے کیونکہ کوئی باشعور انسان محض غیر یقینی‘شک آمیز اور نامعقول باتوں کے مطابق اپنی زندگی گزارنا پسند نہیں کرے گا۔سائنس کسی امر کو نظر انداز کرسکتی ہے مگر مذہب ایسا نہیں کرسکتا۔ (ب) اب ہم فلسفے پر مذہبی برتری کا جائزہ لیتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں فلسفہ اور مذہب میں تطابق ہے اور اختلاف بھی۔اگرچہ وہ فکر وایمان(فلسفہ ومذہب) کے مشترک منبع کے قائل ہیں اور وہ وجدان(الہام) کو عقل کی ترقی یافتہ شکل قرا ردیتے ہیں تاہم وہ مذہب کو فلسفے اور ایمان کو عقل سے بالا تر خیال کرتے ہیں۔اس برتری کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ فلسفہ جزویت کا ترجمان ہے اور مذہب کلیت کا۔فلسفہ عقلِ محدود پر بھروسہ کرتا ہے جبکہ مذہب کو وحی والہام کی رہنمائی حاصل ہے۔فلسفہ محسوسات میں اُلجھا رہتا ہے لیکن مذہب محسوسات سے ماورا حقائق پر بھی پختہ یقین رکھتا ہے۔فلسفہ ظن وتخمین کا حامل ہوتا ہے جبکہ مذہب یقین کامل کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔فلسفہ عقلی موشگافیوں کا شکار ہوکر خدا کے وجود کو نہیں مانتا جبکہ مذہب وجودِ باری تعالیٰ کا زبردست مبلغ ہوتا ہے۔اکبر نے کیا خو ب کہا تھا:۔ ؎فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سراِ ملتا نہیں عقل پر ایمان کی فوقیت کے متعلق علامہ اقبالؒ کے یہ اشعار بے محل نہ ہوں گے۔ ؎محسوس پر بناِ ہے علوم جدید کی اِس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش

مذہب ہے جس کانام وہ ہے اک جنوںِ خام     ہے جس سے  آدمی کے تخیل کو  ارتعاش

(کلیات اقبال،ص ۲۴۶)

علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن     عشق  نے  مجھ  سے کہا  علم ہے تخمین وظن
علم مقام صفات‘ عشق تماشائے ِذات      علم ہے پیدا سوال‘ عشق ہے پنہاں جواب

(ایضاً،ص ۴۸۳۔۴۸۲)