Actions

سرمایہ داری

From IQBAL

Revision as of 18:36, 24 June 2018 by Tahmina (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> (۱)’’ ہمارے اپنے زمانے میں فلسفیوں نے سوسائٹی کے مروّجہ سرمایہ دارانہ نظام کا عقلی جواز...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’ ہمارے اپنے زمانے میں فلسفیوں نے سوسائٹی کے مروّجہ سرمایہ دارانہ نظام کا عقلی جواز پیش کیا ہے‘‘

(چوتھا خطبہ)

سرمایہ داری ایک ایسا نظام معیشت ہے جس میں سرمایہ کو باقی تمام عوامل پیداوار پر ترجیح دی جاتی ہے۔اقتصادی نظام میں اُسے جو مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ ارباب فکر ونظر پر بخوبی عیاں ہے۔سرمایہ داری کے نظام کے حامی سرمائے کو محنت پر فوقیت دیتے ہوئے سرمائے ہی کو سب کچھ خیال کرتے ہیں۔اس کے برعکس محنت کی عظمت کے علم بردار محنت کو سرمائے کی اصل سمجھتے ہیں۔ان دونوں مکاتب فکر نے دو مختلف نظام ہائے معیشت کو جنم دیا ہے۔ویسے تو ازمنہ قدیم ہی سے سرمایہ ومحنت کے درمیان جنگ جاری رہی ہے مگر عصرِ جدید میں اُن کی باہمی کشمکش نے بین الاقوامی منافرت اور جنگ وجدال کی صورت اختیار کرلی ہے۔ محنت پرستوں اور استحصال زدہ طبقوں کو چین،روس اور اُن کے حواریوں کی تائید حاصل ہے جبکہ سرمایہ پرستوں کو امریکہ اور اس کے ساتھیوں کی حمایت پر ناز ہے۔روس اور اس کے ہم نوا اشتراکیت اور کمیونزم کا پرچار کررہے ہیں۔اس کے برعکس امریکہ اور اس کے حاشیہ بردار ممالک سرمایہ داری کے نظام کو دنیا میں غالب رکھنے کے حق میں ہیں۔ علامہ اقبالؒ اُن کی باہمی چپقلش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ ؎ محنت وسرمایہ دنیا میں صف آراہوگئے دیکھئے ہوتا ہے کس کس کی تمنائوںکا خوں (کلیات اقبال،ص۲۸۹) علامہ اقبالؒ کی ہمدردیاں زیادہ تر سوسائٹی کے مظلوم، مجبور، اور مقہور انسانوں کے ساتھ وابستہ ہیں کیونکہ اسلام کسی طرح بھی ظلم واستبداد کے نظام کو درست نہیں سمجھتا۔ وہ تو زکوٰۃ، اِنفاق فی سبیل اﷲ اور صدقات کے ذریعے معاشی ناانصافی اور عدمِ مساوات کو ختم کرکے عادلانہ نظام اقتصادیات کے قیام کے زبردست حامی ہے۔ وہ تو دولت کی تقسیم کے اُصول کی حمایت کرتے ہوئے دولت میں غربائ،مساکین، والدین، قریبی عزیزوں،بیوائوں،جاجت مندوں اور مسافروں کا حق بھی تسلیم کرتے ہوئے یہ اعلیٰ تعلیم دیتا ہے:’’ ما انفقتُم منِ خیر فٰللو الدینِ والا ُقربینِ والیتٰمٰی والمسٰکین وابن الّسبُیل‘‘(البقرہ ۲:۲۱۵)( جو کچھ تم خرچ کرو اس میں والدین،رشتہ داروں،یتیموں، محتاجوں اور مسافروں کا حق ہے)۔ علامہ اقبالؒ نے یہاں اس امر پر اظہارِ تاسف کیا ہے کہ تہذیب وترقی کے اس دور میں بھی بعض مفکروں اور فلسفیوں نے مروّجہ سرمایہ دارانہ نظام کا عقلی جواز پیش کیا ہے حالانکہ کسی بھی انسانیت سوز اور اخلاق سے عاری نظام حیات کی حمایت انسان دشمنی سے کم نہیں ۔ یہاں جرمنی کے مشہور ومعروف فلسفی نطشے کی مثال دی جاسکتی ہے جو سوسائٹی میں عدم ِمساوات کا زبردست حامی اور سوشلزم کا عظیم ترین مخالف تھا۔وہ تو بس فلسفہ طاقت اور سپرمین ہی کو خلاصہ حیات خیال کرتا تھا۔وہ کمزور انسانوں کے وجود کو سپرمین کے وجود کے لیے لازمی شرط قرار دیتا تھا۔علامہ اقبالؒ بھی طاقت کی قدر کے حامی تھے مگر وہ اسے اخلاقی صفات اور انسانی اقدار کے تابع رکھنے کے حق میں تھے۔ نطشے کی طرح وہ محض جلال کے قائل نہیں تھے بلکہ جمال(اخلاقیات) کے بھی حامی تھے۔نطشے کا ایک قول ملاخطہ ہو: "There are some that preach my doctrine of life but at the same time are preachers of equality.----- I do not wish to be confounded with these preachers of equality. For within me justice saith,Men are not equal." (Outline of Philosophy,p.374) غریبوں، مزدوروں،کسانوں اور مظلوم انسانوں کے ساتھ علامہ اقبالؒ کی ہمدردی کی چند مثالیں دیکھئے۔وہ فرماتے ہیں: ؎کارخانے کا ہے مالک مردک ناکردہ کار عیش کا پُتلا ہے‘ محنت ہے اسے نا ساز گار

 حکمِ حق  ہے   یس  لْلِد نسانِ  اِلاّ  ماسعیٰ      کھائے کیوں  مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار  

(کلیات اقبال،ص ۲۹۱) ؎ دستِ دولت آفریں کو مُزد یوں ملتی رہی اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو ذکات مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات ( ایضاً،ص۲۶۳۔۲۶۲) اب سرمایہ دارانہ نظام کے عقلی جواز کی نوعیت سے متعلق چند اور اُمور پر غور وفکر کیا جاتا ہے۔آئیے ہم یہاںمجملاً پر اس امر کا جا ئزہ لیںکہ بعض فلاسفہ اور اہل دانش سرمایہ داری کے جواز میں کیا کہتے ہیں۔اُن کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے: (۱)سرمایہ داری کوئی غلط نظام نہیں کیونکہ محنت کی طرح سرمایہ بھی ہماری زندگی میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ (۲)محنت سرمائے کو پیدا نہیں کرتی بلکہ سرمایہ محنت کو پیداکرتا ہے۔ (۳) کائنات میں کہیں بھی مساوات نہیں اس لیے معاشی نظام میں بھی مساوات کا اُصول درست نہیں۔ (۴) دنیا کا نظام چلانے کے لیے حاکم ومحکوم اور اعلیٰ وادنی کی تمیز لازمی ہے۔اگر کوئی بھی محکوم اور غریب نہ رہے تو یہ نظام کیسے چلے گا؟ (۵) اسلامی معیشت میں انفرادی ملکیت کو غلط نہیں کہا گیا۔زکوٰۃ‘صدقات اور اِنفاق فی سبیل اﷲ کے احکام خود معاشی عدم مساوات کا ثبوت بہم پہنچاتے ہیں۔ (۶) غریبی اور امیری قدرت کی پید اکردہ ہیں۔غریبوں کی قسمت میں غریبی ہی لکھی تھی۔ (۷)غریب خود سستی ‘کاہلی اور ذاتی کوتاہیوں کے سبب غریب بن جاتے ہیں۔ (۸) دنیا میں طاقت کا اُصول کارفرما ہے۔ہر طاقتور وغالب اور ہر کمزور مغلوب ہوگا۔

یہ سارے دلائل درست قرار نہیں دئیے جاسکتے کیونکہ خدا کسی بھی طرح ظلم واستحصال کے نظام کو خیر نہیں کہتا۔چالاک،ہوشیار اور زر پرست انسان ہمیشہ مکاری سے کام لے کر اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے اور اُسے خدا کے سر تھوپنے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ  :

؎ تن بہ تقدیر ہے آج ان کے عمل کا انداز تھی نہاںجن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر (کلیات اقبال،ص۴۷۸)