Actions

روحانیت

From IQBAL

Revision as of 18:28, 24 June 2018 by Tahmina (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> (۱)’’ جوہر صفت حیات کو حاصل کرنے کے بعد مکانی نظر آتا ہے۔اس کی ماہیت روحانی ہے‘‘ (تیسر ا...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’ جوہر صفت حیات کو حاصل کرنے کے بعد مکانی نظر آتا ہے۔اس کی ماہیت روحانی ہے‘‘ (تیسر اخطبہ) (۲)’’ اسلام میں روحانی اورمادی دنیا الگ الگ نہیں‘‘ ( چھٹا خطبہ) (۳)’’ آجکل بنی نوع انسان کو تین چیزوں کی ضرورت ہے۔کائنات کی روحانی تعبیر‘ فرد کی روحانی آزادی اور روحانی بنیادوں پر انسانی سوسائٹی کو ارتقا پذیر بناے والے اساسی اور عالمگیر اُصول‘‘ (ایضاً)

خدا تعالیٰ کائنات کی ہر ظاہری اور پو شیدہ چیز کی تخلیق کا باعث ہے۔نو رایزدی ہی کی کرنوں نے تمام روحوں کو پیدا کرکے یہ فرمایا تھا:’’ الستُ برِبکّم قالُوا بلیٰ‘‘ (الاعراف ۷:۱۷۲) (کیامیں تمھارا پرودگار نہیں ہوں؟ سب ارواح نے مل کر جواب دیا کہ ہاں تو ہی ہمارا پرودگار ہے)۔روح کی تخلیق کے بارے میں دو مکاتب فکر پائے جاتے ہیں۔ایک مکتب خیال کے حامیوںکی رائے میں روح دراصل مادّے ہی کی لطیف تر شکل ہے۔اس کے برعکس دوسرے مکتب خیال کے علم بردار روح کی اصل غیر ماد ی سمجھتے ہیں۔پہلا گروہ روح کو مادہ پرستانہ نقطہ نظر سے پیش کرتا ہے جبکہ دوسرا گروہ روح کو روحانی انداز سے بیان کرتا ہے۔جہاں تک علامہ اقبالؒ کے تصورِ روح کا تعلق ہے وہ روحانیت پر مبنی ہے۔تاریخ فلسفہ سے پتہ چلتا ہے کہ یونانی مفکرین خصوصاً ارسطو اور اس کے پیروکار کائنات کو ازلی اور ابدی تصو رکرکے اس کی تغیر پذیری اور ارتقا پسندی کے مخالف تھے۔اُن کی رائے میں یہ کائنات پہلے سے بنائی ہوئی ہے اس لیے اس میں مزید تخلیق کی ضرورت نہیں۔ علامہ اقبالؒ چونکہ کائنات کے حرکی اور ارتقائی نظریے کے قائل تھے ۔بنا بریں وہ ان جمود پسند یونانی مفکرین کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔یونانی مفکرین کی تردید کرتے ہوئے اشاعرہ نے کائنات کی حرکت پذیری اور خدائی خلاقی صفت کے دوام کو ثابت کرنے کے لیے جوہریت (Atomism)کا تصور دیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جوہر (ناقابل تقسیم ذرّہ) معرض وجود میں آنے سے قبل خدا کی خلاقی صفت میں پوشیدہ ہوتا ہے اور خدائی عمل تخلیق اسے نیست سے ہست بنادیتا ہے۔مفکر اسلام علامہ اقبالؒ اشاعرہ کے نظریہ جواہر کے حرکی اور ارتقائی پہلو کی تو تعریف کرتے ہیں لیکن وہ اسے مادّیت کی شکل قرار دیتے ہوئے اس کے مادی پہلو پر تنقید کرتے ہیں۔حضرت علامہ اقبالؒ کا خیال یہ ہے کہ اسلام میں مادہ وروح کی ثنویت موجود نہیں کیونکہ روح کا خارجی پہلو زمان ومکان میں آکر مادّہ دکھائی دیتا ہے حالانکہ وہ روح کا محض مکانی اور زمانی پہلو ہے۔قرآن حکیم کا اس بارے میں ارشاد ہے:’’ ونفخ فیہ منِ رُوحہ‘‘(السجدہ ۳۲:۹) (اور اس میں خدا نے اپنی روح میں سے پھونکا)۔روح انسانی کا مصدر ومنبع چونکہ خدا ہے اس لیے وہ غیر مکانی‘ غیر زمانی‘ غیر مادی ‘نادیدنی اور ابدی ہے۔علامہ اقبالؒ نے اپنے مندر جہ بالا قول میںاس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے:’’ جوہر صفت حیات کو حاصل کرنیکے بعد مکانی نظر آتا ہے۔اس کی ماہیت روحانی ہے‘‘ وہ اپنی ایک رباعی میں مادیت پر تنقید اور روحانیت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔

ترا تن روح سے ناآشنا ہے عجب کیا آہ تیر ی نارسا ہے تن بے رُوح سے بیزار ہے حق خدائے ز ندہ زندوں کا خدا ہے (بال جبریل،کلیات اقبال،ص۳۸۲) وہ اپنی ایک فارسی رباعی میں قدرے فرق کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں:۔

تو می گوئی کہ آدم خاک زاد  است     اسیر   عالمِ  کون  و فساد است
ولے  فطرت ز  اعجازے کہ دارد     بنائے بحر بر جویش  نہاد  است

( پیام مشرق،کلیات اقبال،ص۲۶۶) اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ توحید کا تصور ہے جس کی رُو سے مادہ وروح، دنیا ودین، جسم و جاں، دین وسیاست ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے بجا کہا ہے:’’ اسلام میں تو روحانی اور مادی دنیا الگ الگ نہیں‘‘ دین اور دنیا کو ایک دوسرے سے جدا اور لاتعلق ظاہر کرنا تو ان مذاہب کی تعلیم ہے جن کی بنیاد ثنویت اور رہبانیت پر ہے۔عیسائیت کی اصل تعلیم تو قرآن کے مصداق رہبانیت نہ تھی مگر عیسائی علما نے اپنے ذاتی مفاد،اقتدار پرستی اور زر طلبی کے لیے اس تعلیم کو بدل کر رہبانیت کی شکل دے دی جو بعد ازاں اس مذہب کی پہچان بن گئی۔ انسانی ذات کی نفی کرنے والے مذاہب نے اس مادی اور حقیقی دنیا کو سراب، نظر کا دھوکہ اور مایا قرار دے کر لوگوں کا استحصال شروع کردیا تھا۔اس منفی نظریہ زندگی کے برعکس اسلام نے اس خارجی دنیا کو بھی حقیقی کہا اور ہمیں اسکی بھلائی مانگنے کا بھی درس دیا۔رسول برحقؐ نے اس دنیا کو آخرت کی کھیتی سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا تھا’’ الّدینا مزرعتہ الاخِرۃ‘‘ (دنیا آخر ت کی کھیتی ہے )۔اس لحاظ سے دنیا میں ہم جو کچھ کریں گے اس کی سزا اور جزا آخرت میں پائیں گے۔اسلام کی تعلیمات تو موت کو زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک ا ہم مرحلہ خیال کرکے تسلسل حیات کی دلالت کرتی ہیں۔جسے ہم مادی دنیا کہتے ہیں وہ اصل میں حقیت مطلقہ کا خارجی مکانی اور زمانی پہلو ہے۔علامہ اقبالؒ اس روحانی اور مادی دنیا کے باہمی ربط کو اپنے محضوص فلسفیانہ رنگ میں یوں بیان کرتے ہیں:۔ "All this immensity of matter coustitutes a scope for the self- realization of spirit" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.155)

 علامہ اقبالؒ مادہ پرستی،عقلیت،قومیت،وطینت،ملوکیت، اشتراکیت، سرمایہ داری اور لادینیت کو دور حاضر کے انسانوں کی پریشانیوں،اُلجھنوں،باہمی جنگوں اور اخلاقی برائیوں کا ذمہ دار خیال کرتے تھے۔اُنھوں نے ساری عمر انسانیت سوز،استحصالی۔ظالمانہ اور تخریبی نظامہائے فکر وعمل کی شدید مذمت کی تھی۔اُن کی رائے میں جب تک انسان خدائی آئین اور انسانی قدروں کی پابندی نہیں کرتے وہ ہرگز خوشگوار اور پرامن زندگی بسر نہیں کرسکتے۔اس کے لیے وہ روحانی اقدار خصوصاً اسلام کے حیات بخش‘تعمیری اور انقلاب آفریں اُصولوں کو لازمی خیال کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ فرد کی روحانی آزادی اورروحانی بنیادوںپر انسانی سوسائٹی کو ارتقا پذیر بنانے والے اساسی اور عالمگیر اُصولوں کی اہمیت کے زبردست قائل تھے۔ اُنھوں نے یکم جنوری ۱۹۳۸ء کو دنیا کے بھیانک حالات اور انسانی تذلیل پر اظہار افسوس کیا اور نام نہا دسیاست دانوں کو مطعون کرتے ہوئے کہا تھا:۔

"The so-called statesmen to whom government and leadership of men was entrusted have proved demons of bloodshed, tyranny and oppression" (S.A. Vahid,Thoughts and Reflections of Iqbal,p.373) اس نشری تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دور حاضر کی بربریت اور استبداد سے کس قدر نالاں تھے۔اُنھوں نے بجا ہی کہا تھا کہ آجکل بنی نوع انسان کو روحانیت اور انسانیت کی شدید ضرورت ہے:۔

           ع: قیامت ہے کہ انساں نوع کا شکاری ہے   (اقبالؒ)