Actions

دین و سیاست

From IQBAL

Revision as of 00:10, 20 June 2018 by Tahmina (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> (ا)’’ اسلام کے زاویہ نگاہ سے ریاست ان مثالی اُصولوں(مساوات، حّریت اور استحکام) کو زمان و...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(ا)’’ اسلام کے زاویہ نگاہ سے ریاست ان مثالی اُصولوں(مساوات، حّریت اور استحکام) کو زمان ومکان کی قوتوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کا دوسرا نام ہے ۔گویا کہ یہ مساوات،حریت اور استحکام کو محضوص انسانی تنظیم میں متشکل کرنے کی آرزو ہے‘‘ (چھٹا خطبہ) (۲)’’ میری ذاتی رائے ہے کہ اسلامی نظام میں ریاست کے تصور کو دیگر تمام تصورات پر حاوی خیال کرنا سخت غلطی ہے کیونکہ اسلام میں تو روحانی دنیا اور مادی دنیا الگ الگ نہیں‘‘ (ایضاً) (۳)’’ یہ بات درست نہیں کہ دین اور سیاست دو مختلف حقیقتیں ہیں۔اسلام ایک ایسی واحد حقیقت ہے جس کا تجزیہ نہیں کیا جاسکتا‘‘ ( ایضاً) علامہ اقبالؒ کی اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ پر گہری نظر تھی۔وہ کسی تردید کے خوف کے بغیر اپنے اسلامی نظریات کی تبلیغ واشاعت کرنے کے عادی تھے۔اُن کی رائے میں اسلام محض عقائد اور عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ اس میں معاشرتی زندگی کے تمام اہم معاملات بھی شامل ہوتے ہیں۔کون نہیں جانتا کہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے ریاست کو ہماری اجتماعی زندگی میں خاص مقام حاصل ہے؟ علامہ اقبالؒ کے دور میں ترکی میں دو سیاسی جماعتیں قوم پرست پارٹی اور مذہبی اصلاح کی پارٹی بڑی اور مقبول عام سیاسی تنظیمیں تھیں۔ قوم پرست پارٹی اس بات کی حامی تھی کہ سیاست اور ریاست کو دین ومذہب پر برتری حاصل ہونی چاہیے جبکہ دوسری جماعت ریاست وسیاست پر دین ومذہب کو ترجیح دینے کے حق میں تھی۔ان دو جماعتوں کو سامنے رکھ کر شاعر مشرقؒ علامہ اقبالؒ نے مندرجہ بالا قول میں اپنے پختہ سیاسی عقیدے کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اسلامی نظام میں ریاست کے تصور کو دیگر تمام تصورات پر حاوی خیال کرنا سخت غلطی ہے‘‘۔اُن کا کہناہے کہ اسلامی زاویہ نگاہ سے ریاست اور مملکت کا اّولین فرض اسلام کے مثالی اُصولوں خصوصاًمساوات‘ حریت اور استحکام ملّت کو عملی شکل دینا ہے۔دوسرے لفظوں میں مملکت ایک ایسی سیاسی تنظیم ہے جو اسلامی تعلیمات کے ان ارکانِ ثلاثہ(برابری‘آزادی اور استحکام) کو خارجی شکل میں پیش کرکے ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نکھا راور ترقی کا باعث بنتی ہے۔اس لحاظ سے وہ بانی پا کستان محمد علی جناح کے نام ایک خط مورخہ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء میں اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔ "----The enforcement and development of the shariat of Islam is impossible in this country without a free Muslim state or states" (Letters of Iqbal to Jinnah,p.18)

   وہ دین ومذہب کو کسی طرح بھی حکومت کے ماتحت رکھنے اور اسے ایک نجی معاملہ قرار دینے کے حق میں نہیں تھے۔
  اسلامیعقیدہ توحید کی رُوسے مادہ وروح ‘جسم وجان‘ دنیا وآخرت اور سیاست ودین الگ الگ شعبہ جات حیات نہیں بلکہ وہ اسلامی تعلیمات کے ظاہری اور باطنی پہلوئوں اور فکر وعمل کے مظہر ہیں۔اسلام محض عقیدہ نہیں بلکہ یہ سعی وعمل کا نام ہے۔ایمان اور عمل صالح کے باہمی ربط سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل کے بغیر فکر بے جان ہوتا ہے اور فکر کے بغیر عمل بے بنیادہوا کرتا ہے ۔جو مذہبی نظام قوت وطاقت سے محروم ہو وہ صرف فلسفہ بن جاتا ہے اور دین ومذہب سے عاری سیاسی نظام چنگیزیت اور استبداد کی شکل اختیار کرلیا کرتا ہے۔مفکر اسلام اور ترجمان حقیقت علامہ اقبالؒ نے اس امر کو سامنے رکھتے ہوئے ببانگ دہل یہ اعلان کیا تھا:۔
 جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو     جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

حکومت خواہ فرد واحد کی ہو یا محضوص انسانوں کے گروہ کی وہ دین و اخلاق کے اعلیٰ اُصولوں،بلند اقدار اور انسانیت ساز سرگرمیوں کے بغیر ظلم،خود غرضی‘ ہوس زرِ اور استحصال کی سب سے بڑی علامت بن جاتی ہے جسے مٹانے کے لیے سوسائٹی میں کئی انقلابی طبقے پیدا ہوجاتے ہیں۔ علامہ اقبالؒکی رائے میںاسلام ایک ایسی واحد حقیقت ہے جسے تجزیہ و تقسیم کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ذرا دیکھئے اُن کا یہ قول کس قدر بصیرت افروز اور حقیقت کشا ہے۔وہ بجا کہتے ہیں:’’ یہ بات درست نہیں کہ دین اور سیاست دو مختلف حقیقتیں ہیں‘‘ ۔دین اور سیاست کی یہ تفریق اور دُوئی دراصل عیسائیت سے نفور مغربی سیاست کا شاخسانہ ہے۔عیسائیت کی تعلیم کے عمیق مطالعہ سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس میں دنیوی زندگی خصوصاً سیاسی مسائل کے حل کاکوئی جامع نظام نہیں۔اس مذہب کے ماننے والے تو زیادہ تر رہبانیت کے پرستا ر تھے ۔اس لیے اُن کو دنیوی اور سیاسی مسائل سے کیسے گہری دلچسپی ہوسکتی تھی؟ اُنھوں نے اپنی ایک نظم’’دین وسیاست‘‘میں عیسائی رہبانیت اور مذہب ودین کی جدائی کے چند اسباب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تصورِ سیاست کی روشنی میں دین و سیاست کے حسین اور ہمہ گیر نظریے کو بیان کیا ہے۔ان دونوں مذاہب کا یہ تقابلی مطالعہ بڑا ہی حقیقت پسندانہ اور فکر انگیز ہے۔ وہ کہتے ہیں:۔ کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی سماتی کہاں اس فقیری میں میری

خصومت تھی  سلطانی  و  راہبی میں        کہ  وہ سربلندی  ہے  یہ  سر بزیری
سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا         چلی کچھ  نہ  پیر کلیسا  کی   پیر ی
ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی         ہوس کی امیری‘  ہوس کی  وزیری
دُوئی  ملک  و  دیں کے لیے   نامرادی         دُوئی  چشم تہذیب کی  نابصیری

یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا بشیری ہے آئینہ دارِ نذیری

اس  میں حفاظت  ہے  انسانیت کی         کہ ہوں ایک جنیّدی وارد  شیری

(بال جبریل،کلیات اقبال،ص۴۱۰)