Actions

Difference between revisions of "خلوص"

From IQBAL

Line 16: Line 16:
 
اسی خلوص و بے ریائی کا نتیجہ تھاکہ یہ ہندو مہاراجہ جس کی حیثیئت کتنے ہی ہندو والیان ریاست سے بڑھ کر تھی اقبال کو اپنی بیٹیوں کے رشتے کی تلاش کی دوستانہ فرمائش کرتا ہے اور اقبال اس دوستانہ اعتماد کا پورا پورا عملی احترام کرتے ہیں۔
 
اسی خلوص و بے ریائی کا نتیجہ تھاکہ یہ ہندو مہاراجہ جس کی حیثیئت کتنے ہی ہندو والیان ریاست سے بڑھ کر تھی اقبال کو اپنی بیٹیوں کے رشتے کی تلاش کی دوستانہ فرمائش کرتا ہے اور اقبال اس دوستانہ اعتماد کا پورا پورا عملی احترام کرتے ہیں۔
 
اقبال نامہ کی دونوں جلدوں میں جا بجا ایسے شواہد موجود ہیں کہ اقبال نے کبھی کسی دوست کو کسی دوسرے دوست یا بیگانے کے متعلق ایسی بات نہیںلکھی کہ جو براہ راست اسے لکھنے یا کہنے پر آمادہ نہ ہوں۔
 
اقبال نامہ کی دونوں جلدوں میں جا بجا ایسے شواہد موجود ہیں کہ اقبال نے کبھی کسی دوست کو کسی دوسرے دوست یا بیگانے کے متعلق ایسی بات نہیںلکھی کہ جو براہ راست اسے لکھنے یا کہنے پر آمادہ نہ ہوں۔
[[[تہجد]]]
+
 
 +
[[تہجد]]

Revision as of 20:40, 14 June 2018

اقبال کی زندگی سراپا خلوص تھی اور ان خطوط میں اس کی لفظی و عملی شہادت کثرت سے موجود ہے۔ وہ دوستوں کے دکھ درد میں ان کا شریک اور ان کی امداد و اعانت پر کمر بستہ ہے۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی مروت کے لیے بھی دلی اور دائمی احسان مندی اس کا خاصہ ہے۔ عطیہ بیگم اس امر پر اظہار تاسف کرتی ہیں کہ شمالی ہندوستان میں اقبال کو عوام میںوہ عقیدت اور قدر و منزلت حاصل نہیں جس کا وہ حقدار ہے۔ جواب میں لکھتے ہیں: ’’لو گ ریاکاری سے عقیدت رکھتے ہیں اور اسی کا احترام کرتے ہیں۔ میں ایک بے ریا زندگی بسر کرتاہوں اور منافقت سے کوسوں دور ہوں۔ اگر ریاکاری و منافقت ہی میرے لیے وجہ حصول احترام و عقیدت ہو سکتی ہے تو خدا کرے میں اس دنیا سے ایسا بے تعلق اور بیگانہ ہو جائوں کہ میرے لیے بھی ایک آنکھ اشک بار اور ایک بھی زباں نوحہ خواں نہ ہو‘‘۔ لیکن اقبال کی زبان حقیقت ترجمان پر حق ضرور جاری ہو جایا کرتاتھا چنانچہ ۱۹۰۹ء میں عطیہ بیگم کو ہی ایک دوسرے خط میں لکھتے ہیں: ’’اگر وہ خیالات جو میری روح کی گہرائیوں میںطوفان بپا کیے ہوئے ہیں عوام پر ظاہر ہو جائیں تو مجھے یقین واثق ہے کہ میری موت کے بعد میری پرستش ہو گی۔ دنیا میرے گناہوں پر پردہ پوشی کرے گی اور مجھے اپنے آنسوئوں کا خراج عقیدت پیش کرے گی‘‘۔ اقبال کے قلب با صفا اور زبان بے ریا سے نکلے ہوئے یہ کلمات کتنے سچے ثابت ہوئے اور اس کی وفات پر ایک دنیا نے اسے آہوں اور آنسوئوں کا خراج عقیدت پیش کیا اور آج: زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری کہ خاک کوہ کو میں نے بتایا راز الوندی! (اقبال) مہاراجہ سر کشن پرشاد سے بہت عرصہ اقبال کی خط و کتابت رہی۔ اقبال کی نیاز مندی اور حفظ مراتب کی شان ابتدا سے انتہا تک یکساں رہی۔ اقبال کے جاننے والے حیران ہیں کہ آخر اس ہندو رئیس میں کیا خوبی تھی کہ جو اقبال ا س کا گرویدہ ہو گیا۔ حضرت علامہ کے ایک ندیم خاص نے تو ایک پرائیویٹ گفتگو میں یہاںتک فرمایا کہ اقبال نے کبھی مہاراجہ سے تعلقات کا اشارتہً بھی ذکر نہیں فرمایا تھا۔ لیجیے اقبال کی زبانی اس رابطہ کی نوعیت ملاحظہ فرما لیجیے۔ مارچ ۱۹۱۷ء میں مہاراجہ بہادر کو لکھتے ہیں: ’’مجھے خلوص سرکار سے ہے اس کا راز معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں سرکار کی قبائے امارت سے میرے دل کو مسرت ہے۔ مگر میری نگاہ اسے سے پرے جاتی ہے۔ اور اس چیز پر جا ٹھہرتی ہے جو اس قبا میں پوشیدہ ہے۔ الحمد اللہ یہ خلوص کسی غرض کا پردہ دار نہیں اورنہ انشاء اللہ ہو گا۔ انسانی قلب کے لیے اس سے بڑھ کر زبوں بختی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا خلوص پروردہ اغراض و مقاصد ہو جائے انشاء اللہ العزیز اقبال کو آپ حاضر و غائب اپنا مخلص پائیں گے۔ اللہ نے اس کو نگاہ بلند اور دل غیور عطا کیا ہے۔ جو خدمت کا طالب نہیں اور احباب کی خدمت کو ہمیشہ حاضر ہے‘‘۔ اسی خط میں لکھتے ہیں: ’’انہیں باتوں سے اقبال آ پ کا گرویدہ ہے۔ امارت عزت آبرو‘ جاہ و حشم عام ہے مگر دل ایک ایسی چیز ہے کہ ہر امیر کے پہلو میں نہیں ہوتا‘‘۔ اس سے ایک پہلے خط میں مہاراجہ کو لکھتے ہیں: ’’الحمد اللہ کہ آئینہ دل گر د غرض سے پاک ہے۔ اقبال کا شعار ہمیشہ محبت و خلوص ہے اور انشاء اللہ رہے گا۔ اغراض کا شائبہ خلوص کو مسموم کر دیتا ہے۔ اور خلوص وہ چیز ہے کہ اس کو محفوظ و بے لوث رکھنا بندہ درگاہ کی زندگی کا مقصود اعلیٰ و اسنیٰ ہے‘‘۔ اسی خلوص و بے ریائی کا نتیجہ تھاکہ یہ ہندو مہاراجہ جس کی حیثیئت کتنے ہی ہندو والیان ریاست سے بڑھ کر تھی اقبال کو اپنی بیٹیوں کے رشتے کی تلاش کی دوستانہ فرمائش کرتا ہے اور اقبال اس دوستانہ اعتماد کا پورا پورا عملی احترام کرتے ہیں۔ اقبال نامہ کی دونوں جلدوں میں جا بجا ایسے شواہد موجود ہیں کہ اقبال نے کبھی کسی دوست کو کسی دوسرے دوست یا بیگانے کے متعلق ایسی بات نہیںلکھی کہ جو براہ راست اسے لکھنے یا کہنے پر آمادہ نہ ہوں۔

تہجد