Actions

خطبات

From IQBAL

Revision as of 00:03, 20 June 2018 by Tahmina (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl> (۱)’’ یہ خطبات میں نے مدراس مسلم ایسوسی ایشن کی درخواست پر تیار کئے ہیں اور میں نے انھیں...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’ یہ خطبات میں نے مدراس مسلم ایسوسی ایشن کی درخواست پر تیار کئے ہیں اور میں نے انھیں مدراس،حیدر آباد اور علی گڑھ میں پڑھا ہے۔ان خطبات میں میں نے اسلام کی فلسفیانہ روایات اور انسانی علم کے مختلف شعبوں میں ارتقاء کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے مذہبی فلسفہ کی تشکیل جدید کی جزوی کوشش کی ہے۔موجودہ دور اس کام کے لیے بالکل ساز گار ہے‘‘ (دیباچہ)

علامہ اقبالؒ نے اپنے مخصوص افکار ونظریات کی تبلیغ واشاعت کے لیے ہر ممکن ذریعہ ابلاغ کو اختیار کیا تھا۔ اس میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ اُنھوں نے شاعری میں زیادہ تر خیالات کا اظہار کیا ہے تاہم اس امر سے بھی انکار نہیںکیا جاسکتا کہ اُنھوں نے اپنی نثری نگارشات‘خطبات‘تقریروں‘ بیانات اور خطوط میں بھی ان کا بڑی تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔اس ضمن میں اُن کی ایک فلسفیانہ اور عظیم نثری تصنیف’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کو بڑی وقعت سے دیکھا جاتا ہے۔اس فکر انگیز اور تنوع آمیز انگریزی کتاب کو خطبات(لیکچرز) بھی کہا جاتا ہے۔مدراس مسلم ایسوسی ایشن کی دعوت پر اُنھوں نے یہ خطبات تیار کیے تھے اور اُنھیں مدراس‘ حیدر آباد اور علی گڑھ میں پڑھ کر سنایا تھا۔شروع شروع میں یہ کتاب چھ خطبات پر مشتمل تھی اور یہ پہلی مرتبہ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئی تھی۔بعد ازاں اس میں ایک اور لیکچر کا اضافہ کرکے اسے دوسری مرتبہ۱۹۳۴ء میں زیور طباعت سے آراستہ کیا گیا تھا۔مفکر اسلام علامہ اقبالؒ کی یہ بے نظیر فلسفیانہ کتاب اسلام کی تعلیمات کی جدید تعبیر و تشریح میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔اگر وہ اسے اسلامی علوم وفنون کے کسی زرّیں عہد میں  لکھتے تو اُنھیں گراں قدر انعام واکرام سے نوازا جاتا۔
ان خطبات کی تصنیف کے پس منظر سے آگاہ ہونے کے لیے لییاُن کے دو خطوط کے یہ الفاظ قابل غور ہیں جو اُنھوں نے اپنے ایک مداح مسٹر جمیل کے نام تحریر کئے تھے۔ایک خط مورخہ ۴نومبر ۱۹۲۹ء سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنے چھ لیکچرز ۱۹۲۹ء میں تیار کرلیے تھے جیسا کہ وہ خود بیان کرتے ہیں:۔
"My Lecturs are now finished" 

(Letters and Writings of Iqbal,p.29) پھر وہ اپنے دوسرے خط مورخہ ۴ مارچ ۱۹۳۰ء میں تحریر کرتے ہیں:۔ "My Lecturs are in the presss. I hope they would be printed and published in about two months' time (Letters and Writings of Iqbal,p.31)

  کائنات میں ہر دم تغیر وتبدل کا عمل کاجاری رہتا ہے۔ نہ صرف ظاہری دنیا میں بلکہ ہمارے خیالات اور احساسات میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ اسلام چونکہ حرکی اور ارتقاپذیر نظریہ حیات کا علم بردار ہے اس لیے اس کی حیات بخش تعلیمات میں بھی موجودہ دور کے مسائل کا حل موجود ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ ہم نے اب تک کیوں ان مسائل کو صحیح تناظر میں نہیں دیکھا۔اس فکری جمود اور ذہنی سستی کے ہم خود ذمہ دار ہیں نہ کہ اسلام۔ علامہ اقبالؒ کا فرمانا ہے کہ اُنھوں نے اسلام کی درست فلسفیانہ روایات اور مختلف عصری ترقیات کی روشنی میں فلسفہ اسلام کی نئی تشکیل کی جزوی کوشش کی ہے۔اب اس طریق فکر کو مزید عام کرنے کے لیے دوسرے مسلم علما اور حکما کو بھی جدوجہد سے کام لینا چاہیے۔

(۲)’’ ان خطبات میں ‘میں نے اس امر کی سعی کی ہے کہ اسلام کے اساسی تصورات کو فلسفیانہ انداز میں بیان کروں تاکہ لوگ باآسانی اسلام کے عالمگیر پیغام کے صحیح مفہوم کو سمجھ سکیں‘‘۔ (پہلا خطبہ) شاعر مشرقِ علامہ اقبالؒ نے اپنی معروف انگریزی کتاب’’تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ میں فلسفہ،سیاست معیشت، معاشرت ، تصوف، مذہب، نفسیات، اور سائنس سے متعلق متعدد موضوعات پر اپنے گہرے اور فکر انگیز خیالات کا اظہار کیا ہے۔ چونکہ وہ دین اسلام کی تعلیمات کی ابدیت، ہمہ گیری اور اہمیت کے دل وجان سے قائل تھے اس لیے وہ انھیں جدید فلسفیانہ انداز میں بیان کرنے کے بھی زبردست علم بردار تھے۔اس میں کوئی کلام نہیں کہ سچے اور مخلص مسلمان تو اسلام کے بنیادی نظریات اور عقائد کو بلا چون وچرا ںماننے کے عادی تھے مگر جدید تعلیمیافتہ مسلمان اور غیر مسلم اسلام کے اساسی نظریات کو موجودہ سائنسی ترقی اور فکری پیش رفت کی روشنی میں جاننے اور سمجھنے کی ضرورت کا مطالبہ کررہے تھے۔ان حالات میں اسلام کی نئی تعبیر وتشریح کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جارہا تھا۔علامہ اقبالؒ ایسے لوگوں کی سہولت کے لیے اسلام کے آفاقی پیغام اور انسانیت ساز اُصولوں کی فلسفیانہ تعبیر اور سائنسی توضیح کے حامی تھے۔اُنھوں نے ۲۱ مارچ ۱۹۳۲ء کو لاہور میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں جو صدارتی خطبہ دیا تھا،اس کے چند الفاظ اس نظریے کی یوں حمایت کرتے ہیں۔ "-----I suggest the formation of an assembly of ulama which must include Muslim lawyers who have received education in modern jurisprudence.The idea is to protect, expand and, if necessary, to reinterpret the law of Islam in the light of modern conditions, while keeping close to the spirit embodied in its fundamental principles." (Thoughts and Reflections of Iqbal,p.219)

اس اقتباس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حضرت علامہ اقبالؒ اسلام کے محکم اساسی تصورات کی روشنی میں نئے مسائل کے حل کے حامی تھے تاکہ بنی نوع انسان کے لیے انھیں زیادہ قابل فہم اور مفید بنایا جاسکے۔
علامہ اقبالؒ نے اپنی منظومات اور نثری نگارشات کو ذکرو فکر کا امتزاج قرار دیاہے۔ وہ اپنی اس عظیم فلسفیانہ نثری تصنیف’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کے موضوعات اور دقیق انداز بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی کتاب’’جاوید نامہ‘‘ میں کہتے ہیں:۔
   حرف پیچاپیچ  وحرف نیش دار     تاکنم عقل ودلِ مرداں شکار  
    تامزاج   عصرِ من  دیگر فتاد     طبع من  ہنگامہ  دیگر  نہاد    

(کلیات اقبال، (فارسی)، ص۷۹۰)

دور حاضر میں سائنس کی روز افزوں اکتشافات اور نئی نئی ایجادات نے نئے نئے مسائل پیدا کردئیے ہیں اس لیے اُن کو حل کرنے کے لیے بھی نئی فکری تفیہم لازمی تھی۔ اس لیے علامہ اقبالؒ نے اسلام کے ابدی حقائق اور تغیر پذیر پہلوئوں کی آفاقی اہمیت کو اجاگر کرنے کی خاطر اور انسانی ہدایت کے لیے اس کتاب میں فلسفیانہ انداز بیان اختیار کیا ہے۔