Actions

حالت زار کے حقیقی اسباب

From IQBAL

Revision as of 18:25, 9 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> اب ( بند ۷- ۱۷) مسلمانوں کی حالت زبوں کے حقیقی اسباب کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اقبال کے نزدیک...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

اب ( بند ۷- ۱۷) مسلمانوں کی حالت زبوں کے حقیقی اسباب کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اقبال کے نزدیک اس کا بنیادی سبب مذہب سے بے اعتنائی ہے ، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی صفوں میں فکری اعتبار سے الحاد و کفر اور لادینیت کی تحریکیں پروان چڑ ھ رہی ہیں۔ وہ اپنے فرائض ادا کرنے سے جی چراتے ہیں اور ان کے اندر مذہب کی حقیقی روح ختم ہو گئی ہے۔ ’’شکوہ‘‘ میں مسلمانوں نے دہائی دی تھی کہ ہم نے باطل کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابو د کرکے قرآنی تعلیمات پھیلانے اور کعبۃ اللہ کو آباد کرنے کی عظیم الشان خدمت انجام دی ہے ۔ یہاں ( ۱۱ ویں بند ) میں اس دعوے کی تردید کی جارہی ہے۔ استفہامیہ انداز کی وجہ سے تردید کا رنگ طنزیہ ہے۔ درحقیقت نظم کے اس حصے میں اقبال ؒ نے امت ِ مسلمہ کی فکری و اعتقادی گمراہیوں ، کج رویوں اور عملی کمزوریوں کو بڑے مؤ ثر اندازمیں بے نقاب کیا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کی صدیوں کی غلامی اور اس کے زیر اثر پروان چڑ ھنے والی ذہنی حالت کا کچا چٹھا کھولا ہے اور ایک ہمدردڈاکٹر کی طرح اس کا آپریشن کیا ہے۔ یہ مسلم دورِ انحطاط کا مرثیہ ہے۔ خاتمے پر جب اقبال یہ کہتے ہیں: تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟ تو پڑ ھنے اور سننے والا تڑپ کر رہ جاتا ہے۔ اس حصے میں اقبال نے ابراہیم علیہ السلام اور آزر کی تلمیحات استعمال کی ہیں ۔ آزر ، حضرت ابراہیم ؑ کے باپ تھے جو قرآن حکیم کے مطابق بت پرست تھے( سورۃ الانعام: ۷۴) اور عام روایت کے مطابق بت گر بھی۔ ( یہ لفظ ’’ذ‘‘ کے بجاے ’’ز‘‘ سے لکھنا صحیح ہے کیونکہ قرآن پاک میں ’’ز‘‘ سے مرقوم ہے)۔ نویں بند میں:’’کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے‘‘سے تہجد اور سحر خیزی کی اہمیت جتلا نا مقصود ہے۔ قرآن پاک میں ہے: اِنَّ نَاشِئَۃَ اللَّیْلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطْأً وَ اَقْوَمُ قِیْلًا (سورۃ المزمل: ۶)بلاشبہہ شب کا اٹھنا نفس کو خوب ہی روندنے والا ہے اور نہایت ہی درست ہے اس وقت کا ذکر۔ اقبال مہاراجا سرکشن پرشاد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:’’ صبح چار بجے ، کبھی تین بجے اٹھتا ہوں ۔ پھر اس کے بعد نہیں سوتا۔ اس وقت عبادتِ الہٰی میں بہت لذت حاصل ہوتی ہے‘‘ ۔دراصل سحر خیزی اقبال کا معمول تھا اور وہ دیارفرنگ میں بھی اس معمول پر قائم رہے : نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی امت ِ مسلمہ میں سحر خیزی سے عمومی غفلت پائی جاتی ہے۔ اس لیے وہ کم نصیب اور محروم ہے : ’’کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی‘‘ اور ۱۱ ویں بند میں :’’ہاتھ پر ہاتھ دھر ے منتظر فردا ہو‘‘کا معنی خیز اشارہ تقدیر و توکل کے اس ناقص تصو ّر کی طرف ہے، جس نے مسلمانوں کو بے عمل بنا دیا اور وہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہے۔ خانقاہی تصو ّف انسان کو عضو معطل بناتا ہے، اس لیے اقبال اس کے سخت خلاف ہیں: کہ رسم خانقاہی ہے فقط اندوہ و دل گیری