Actions

تحفہ کلام و داد سخن

From IQBAL

Revision as of 20:59, 14 June 2018 by Zahra Naeem (talk | contribs)
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

اقبال عمر بھر شاعری سے انکار کرتے رہے لیکن کسی صاحب ذو ق اور سخن فہم کو ان کی رنگیں نوائی اور جادو بیانی یا رائے انکار نہیں ۔ اپنے شعر کی شوکت وعظمت اور تاثیرو قوت کا ان کو کس قد ر صحیح اندازہ تھا:

باغباں زور کلامم آزمود

مصرعے ارید و شمشیرے درود

شاعر کے کلام کی داد کے لیے سخن فہمی کو جو اہمیت حاصل ہے اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ انہوںنے منشی سراج الدین

صاحب کو ۱۹۱۵ء میں لکھا: ’’الحمد اللہ آ پ کو مثنوی پسند ہوئی آپ ہندوستان کے ان چیدہ لوگوں میں سے ہیں کہ جن کو شاعری سے طبعی مناسبت ہے اور اگر ذرا نیچر فیاضی سے کام لیتی توآپ کو زمرہ شعراء میں پیدا کرتی بہرحال شعر کا صحیح ذوق شاعری سے کم نہیں بلکہ کم از کم ایک اعتبار سے ا س سے بہتر ہے۔ محض ذوق شعر رکھنے والا شعر کا ویسا ہی لطف اٹھا سکتا ہے جیسا کہ خود شاعر اور تصنیف اور تصنیف کی

شدید تکلیف اسے اٹھانی نہیں پڑتی‘‘۔

شاعر ی میں اقبال کی پور ی عمر گزری اور اس کی شاعری نے دنیائے اسلام میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ اقبال نے کون کون سے شعروں کے پسند کیے اورکون کون سے اشعار اہل ذوق کی خدمت میں لطف اندوزی کے لیے پیش کیے۔ مکاتیب اقبال میں ملاحظہ فرمائیے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں سید سلیمان ندوی کے شعر:

ہزار بار مجھے لے گیا ہے مقتل میں

وہ ایک قطرہ خوں جو رگ گلو میں ہے

کی دل کھول کر داددی ہے:

ماہ را بہ فلک دونیم کند

فقر را ترکمانئے ہم است

کے مصرع ثانی کو خاص طور پر پسند فرمایا اور دہرایا ہے لسان العصر کو لکھتے ہیں:

’’آپ کا مصرع لاجواب ہے…

معارف میں کسی ہندو شاعر کاشعر نظر سے گزرا:

بس کہ از شرم تو در پرداز رنگ گلشن است

رشتہ نظارہ بندد در ہوا گلدستہ را

اور کچھ عرصہ ہوا اخبا ر ’’انجیل‘‘ میں کسی نے نہایت عمدہ شعر لکھا تھا:

شب چو انداز ہم آغوشی اویاد کنم

خویش را تنگ بہ برگیرم و فریاد کنم

نیاز الدین خان کو لکھتے ہیں اور عنوان مکتوب گرامی کا یہ شعر ہے:

عصیان ما و رحمت پروردگار ما

ایں را نہایتے است نہ آں را نہایتے

شعر مندرجہ عنوان نے بے چین کر دیا ہے سبحان اللہ! گرامی کے اس شعر پر ایک لاکھ دفعہ اللہ اکبر پڑھنا چاہیے۔ خواجہ حافظ تو ایک طرف فارسی لٹریچر میں اس پائے کا شعر بہت کم نکلے گا… ابکہ یہ خط لکھ رہا ہوں شعر مندرجہ عنوان کے اثر سے دل سو ز و گداز سے معمور ہے۔ گرامی صاحب اپنے شعر کا اثر دیکھتے تو نہ صرف میری ولایت کے قائل ہو جاتے بلکہ اپنی ولایت میں بھی انہیں شک نہ رہتا‘‘۔ حضرت علامہ کو اپنے کلام میں سے کچھ اشعارپسن تھے جنہیں وہ تحفتہً احباب ذوق اور سخن فہم دوستوں کو بھیجتے تھے۔ مولانا اکبر الہ آبادی کو لکھتے ہیں: ’’سیدھے آسان اور مختصر الفاظ میں حقائق بیان کرنا آپ کا کمال ہے۔ عبدالماجد صاحب نے جو شعر آپ کا پسند کیا ہے نہایت خوب صورت ہے۔ میں نے بھی اسی مضمون پر ایک شعر لکھا تھا:

گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر

شمع بولی گریہ غم کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘

مولانا اکبر الہ آبادی کی خدمت ہی میں ایک دوسرے خط میں چند اشعار ارسال فرماتے ہیں:

فزوں قبیلہ آں پختہ کار باد کہ گفت

چراغ راہ حیات است جلوہ امید

بیار بادہ کہ گردوں بکام ما گردید

مثال غنچہ نواہاز شاخسار دمید

مقطع لاجواب ہے اوران کو ا س زمانے کی ذہنی کیفیت اور ماحول کا آئینہ دار:

نواز حوصلہ دوستاں بلند تراست

غزل سر اشدم آنجا کہ کس نشیند

مولانا اکبر ہی کو لکھتے ہیں: ’’مثنوی کا تیسرا حصہ لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ دو شعر یاد آئے ہیں جو دو یا تین ماہ ہوئے لکھے تھے۔ عرض کرتا ہوں:

درجہاں مانند جوئے کوہسار

از نشیب و ہم فراز آگاہ شو

یا مثال سیل بے زنہار خیز

فارغ از پست و بلند راہ شو

حضرت گرامی کو ۱۹۱۰ء میں لکھتے ہیں:

’’آپ نے ایک غزل لکھی تھی فرسنگ است تنگ است۔ اسی زمین پر میں ایک استاد کا ایک شعر نہایت پسند آیا:

ہلاک شیشہ درخوں نشستہ خویشم

کہ آخریں نفسش عذر خواہی سنگ است

سر کشن پرشاد کو لکھتے ہیں: ’’حال ہی میں ایک اردو غزل لکھی تھی۔ اس کے ایک دو شعر ملاحظہ کے لیے لکھتا ہوں:

پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل

عشق ہو مصلحت اندیش توہے خام ابھی

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

شیوہ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی

تو ہے زناری بت خانہ ایام ابھی

مہاراجہ کو ہی ایک دوسرے موقع پر مضمون اور مہاراجہ کی مناسبت س کیا برمحل لکھتے ہیں: ’’بھلا یہ دو شعرکیسے ہیں؟ بنظر اصلاح ملاحظہ فرمائیے:

بہ یزداں روز محشر برہمن گفت

فروغ زندگی تاب شرر بود

ولیکن نہ رنجی بار تو گویم

صنم از آدمی پائندہ تربود

مہاراجہ ہی کو لکھتے ہیں:

’’کیا دلکش اور معنی خیز شعر کسی ایرانی شاعر کا ہے:

بزمے کہ دراںسفرہ کشد جلوہ دیدار

کونین غبارے است کہ از بال مگس ریخت

مولانا اکبر شاہ خاں صاحب نجیب آبادی ایڈیٹر عبرت کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر مضمون کی داد دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’میں نے ان کی زندگی کے تمام واقعات ایک شعر میں بند کر دیے ہیں:

ہمت و کشت ملت راچو ابر

ثانی اسلام و غار و بدر و قبر‘‘

مولوی الف دین صاحب کے دو اشعار میں اصلاح کی تجویز فرمانے کے بعد لکھتے ہیں: ’’باقی اشعار نہایت عمدہ اور صاف ہیں مثنوی اسرار خودی کے دوسرے حصہ کا قریب پانچ سو شعر لکھا گیا ہے مگر ہاتف کبھی کبھی دوچار ہوتے ہیں اور مجھے فرصت کم ہے۔ امید ہے کہ رفتہ رفتہ ہو جائیں گے۔ ہجرت کے مفہوم کے متعلق چند اشعار جو لکھے ہیں عرض کرتا ہوں تاکہ آپ اندازہ کر سکٰں کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے‘‘۔ اس کے بعد ۲۱ اشعار لکھے ہیں۔ حضرت علامہ کو عالمگیرؒ سے خاص عقیدت تھی۔ جن پر مثنوی میں ان کی فارسی نظم اہل ذوق کے لیے ایک وجد انگیز تحفہ ہے۔ ۱۹۱۵ء میں سفر حیدر آباد میں علامہ مزار عالمگیر پر حاضر ہوئے اورایک نظم لکھنے کا خیال پیدا ہوا۔ اس زمانے میں شاعری سے بیزاری بہت بڑھی ہوئی تھی لیکن عالمگیرؒ کے کردار کا احترام ہدیہ عقیدت کا طالب تھا۔ عطیہ بیگم کو لکھتے ہیں: ’’مجھ میں اب شاعری کے لیے کوئی ولولہ باقی نہیں رہا۔ ایسا محسو س کرتا ہوں کہ کسی نے میری شاعری کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ ارومیں محروم تخیل کر دیا گیا ہوں۔ شاید حضرت عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ پر جن کے مرقد منور کی میں نے حال ہی میں زیارت کی سعادت حاصل کی ہے میری ایک نظم ہو گی جو میرے آخری اشعار ہوں گے۔ اس نظم کا لکھنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں میرا خیال ہے کہ اگر مکمل ہو گئی تو کافی عرصہ تک زندہ رہے گی‘‘۔ اسی سلسلہ میں علامہ اقبال کے بڑے بھائی کو عقیدت ملاحظہ فرمائیے۔ اقبال لسان العصر اکبر کو لکھتے ہیں: ’’عالمگیر ؒ کے مزار پر حاضر ہوا تھا میرے بڑے بھائی بھی میرے ساتھ تھے۔ کہنے لگے کہ میں قنات کے اندر نہ جائوں گا (مزار کے گرد قنات تھی) کہ میری ڈاڑھی غیر مشروع ہے‘‘۔ لسان العصر کو لکھتے ہیں: ’’فی الحال مثنوی کا دوسرا حصہ بھی ملتوی ہے مگر اس میں عالمگیر اورنگ زیبؒ کے متعلق جو اشعار لکھے ہیں ان میں سے ایک عرض کرتا ہوں:

درمیان کارزار کفر و دیں

ترکش مارا خدنگ آخریں

پروفیسر اکبر منیر کو لکھتے ہیں: ’’اشعار جو آپ نے بھیجے ہیں نہایت دلچسپ ہیں اور بالخصوص مسلمانے نمی بینم نے مجھے رلا دیا‘‘۔ ایک دوسرے خط میں انہیں لکھتے ہیں: ’’آپ کا قیام ایران یقینا آپ کے لیے نہایت خوشگوار سود مند ثابت ہوا ہے۔ اس کی بدولت آپ کے کلام میں ایک سادگی قوت اور جلا آگئی ہے ‘‘۔ دعوت شعر گوئی یا مصرع بندی کی ایک ہی مثال مکاتیب اقبال میں ملتی ہے۔ مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھتے ہیں: ’’کئی دن سے ایک مصرع ذہن میں گردش کر رہا ہے۔ اس پر اشعار لکھیے یا اس پر مصرع لگائیے۔ مولانا گرامی کی خدمت میں بھی یہ مصرع ارسال کیا ہے اور مولانا اکبر کی خدمت میں بھی لکھوں گا: ایں سر خلیل است بآذر نتواں گفت‘‘ مکاتیب میں جابجا اشعار سے متعلق دلچسپ اشارات ملتے ہیں۔ اس سلسلہ کو علامہ کی تحریر پر جو انہوںنے علامہ کیفی چریا کوٹی کو لکھی تھی ختم کرتا ہوں۔ جس سے اہل علم سے علامہ کی عقیدت ظاہر ہوتی ہے: ’’آپ کی مرسلہ نظم پہنچی میری عزت ہوئی میں اس پر کیا اظہار خیال کروں! ہم لوگ آپ کے زلہ ربا ہیں آپ کے خاندان میں سے ایک عالم فیضیاب ہے اور آپ کی ذات سے ہو رہا ہے۔ آپ ہمارے رہنما ہیں‘‘