Actions

باطن

From IQBAL

Revision as of 23:09, 19 June 2018 by Tahmina (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> (۱)’’ وقت کی ماہیت کو سمجھنے میں خالصتاً معروضی زاویہ نگاہ صرف جزوی طور پر ہماری مدد کرس...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’ وقت کی ماہیت کو سمجھنے میں خالصتاً معروضی زاویہ نگاہ صرف جزوی طور پر ہماری مدد کرسکتا ہے۔اس سلسلے میں صحیح طریق یہ ہے کہ ہم اپنے اُن شعوری تجربات و واردات کا بڑی احتیاط سے نفسیاتی جائزہ لیں جو وقت کی اصلیت کو ظاہر کرتے ہیں‘‘ (تیسرا خطبہ)

باطنی دنیا سے مراد ہماری تمام قلبی واردات اور ذہنی کیفیات ہیںجن کا ہماری ذات کے اندرونی پہلو پر دارومدار ہوتا ہے۔دنیاصرف وہی نہیں جو ہمیں ظاہری طور پر دکھائی دیتی ہے۔من کی دنیا بھی خارجی عالم کی طرح ایک مسلّمہ حقیقت ہے ۔قرآن حکیم نے خالق کائنات کی نشانیوں کو خارجی اور باطنی دونوں دنیائوں میں جلوہ گر کہا ہے۔ جس طرح ہم ظاہری آنکھوں سے محسوسات کی دنیا کا جائزہ لیتے ہیں اسی طرح ہماری باطنی آنکھیں ہمیں من کی دنیا سے آشنا کرتی ہیں۔خدا تعالیٰ اس لحاظ سے’’ھوالظاہر‘‘ بھی ہے اور’’ھو الباطن‘‘بھی۔مطالعہ کائنات اور مشاہدہ فطرت کی طرح ہماری قلبی وارادات بھی ہم پر گوناگوں حقائق منکشف کیا کرتی ہیں۔’’سمع‘‘ اور ’’بصر‘‘ کی طرح’’فواو‘‘بھی حقیقت رسی اور اسرار جوئی کا اہم موثر اور عالم گیر ذریعہ ہے۔ جس طرح سائنس کا علم ہمیں مادی اسرار سے واقف کرتا ہے اسی طرح باطن کا علم ہم پر اسرار حیات اور حقائق کائنات کو ہویدا کرتا ہے۔اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا:۔

ع اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ ز ندگی (بال جبریل) ہر دور اور ہر قوم میں ایسے خدا پرست انسان ضرور گزرے ہیں جنہوں نے قلبی واردات اور ذہنی تجربات کی صداقت کو بیان کیا ہے۔مختلف زمانوں اور مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ہمیں اکثر اوقات اُن کی روحانی واردات میںخیالات کی یکسانیت اور باطنی کیفیات کی آفاقی صداقت کی جھلکیاںنظر آتی ہیں۔ خیالات کی یہ یکسانیت اور باطنی تجربات کی یہ ہم آہنگی کوئی واہمہ نہیں۔ علامہ اقبالؒ کے مندرجہ بالا قول میں وقت کی ماہیت کے صحیح ادارک کا پیمانہ شعوری واردات اور باطنی کیفیات کو قرار دیا گیا ہے۔ہماری زندگی کے خارجی اور باطنی پہلوئوں کی مانند وقت بھی ایسے دو پہلوئوں کا مظہر ہے۔وقت کے خارجی پہلو کا تعلق سورج اور چاند کی گردش سے ہوتا ہے، اسکے برعکس اس کے باطنی پہلو کا قلبی واردات پر انحصار ہوا کرتا ہے۔ظاہری وقت کو ہم ’’زمان مسلسل‘‘ کہتے ہیں جسے ہم ماضی،حال اور مستقبل میں تقسیم کرلیتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ باطنی وقت(زمان خالص) اس طرح تقسیم پذیر نہیں ہوسکتا۔ زمان خالص میں واقعات یکے بعد دیگرے رونما نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک ابدی لمحہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔شاعر مشرق اور مفکر اسلام علامہ اقبالؒ اس بات کو تسلیم کرتے ہیںکہ وقت کی حقیقت کو سمجھنے میںخالصتاً معروضی اور خارجی نقطہ نگاہ صرف جزوی طور پر ہماری مدد کرسکتا ہے تاہم اس کی بدولت ہمیں ماہیت وقت کا کلی ادراک نہیں ہوسکتا۔اس ضمن میں وہ شعوری تجربات اور داخلی واردات کو خارجی زاویہ نگاہ پر ترجیح دیتے ہوئے اپنی ایک فارسی نظم’’الوقت سیف‘‘ میں کہتے ہیں:۔

اے اسیر دوش وفردا درنگر        دردلِ خود  عالم دیگر نگر
           باز با  پیمانہ  لیل  و  نہار       فکر تو پیمو  وطول روزگار           

(اِسرار خودی،کلیات اقبال،ص ا۷۔۷۲) دن ،رات اور ماہ وسال کا تو سورج کی گردش پر دارومدار ہوتا ہے لیکن حقیقی وقت تو اس وقت بھی تھا جبکہ خارجی وقت کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔زمان الٰہی تو سورج کی پیدائش سے پہلے بھی تھا۔انسانی ذات میں چونکہ نورِ ایزدی پایا جاتا ہے اس لیے یہ زمان الٰہی کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوسکتی ہے۔