Actions

چھٹا باب: دورِ آخر کا ایرانی فلسفہ

From IQBAL

باب ششم دورِ آخر کا ایرانی فلسفہ

اس باب میں علامہ اقبال مرحوم و مغفور نے فلسفۂ ایران کے آخری لیکن اہم دور کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس دور کے ممتاز ترین مسلم حکما مثلاً ملا صدر شیرازی، ملا ہادی سبزواری، فرقہ شیخیہ کے بانی شیخ احمد، حاجی کاظم، بابی تحریک کے موسس علی محمد باب اور بہائی فرقہ کے بانی بہاء اللہ کے افکار و نظریات کا جائزہ لیا ہے۔ ملا ہادی سبزواری کے خیالات کی فلسفیانہ اہمیت کے پیش نظر انھوں نے ملا ہادی سبزواری کے نظام فکر کے مختلف اہم پہلوئوں پر بڑی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ ان مسلم فلاسفہ کے افکار کو مورد بحث قرار دیتے ہوئے انھوں نے ضمنی طور پر یونان کے دو مشہور ترین فلسفیوں یعنی افلاطون اور ارسطو کے فلسفہ کو بھی کسی قدر بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے تقابلی مطالعہ کے لیے سرسری طور پر جرمنی کے شہرہ آفاق فلسفی ہیگل اور شوپنہار کے فلسفہ کے ایک دو پہلوئوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ علامہ اقبال نے اس باب میں جن اہم موضوعات کو بیان کیا ہے وہ درج ذیل ہیں: (۱) ایران پر تاتاری حملہ آوروں کے عہد میں فلسفہ اور شریعت اسلامیہ کو تو فروغ حاصل نہ ہوسکا لیکن تصوف کا ارتقائی عمل جاری رہا۔ (۲) سترھویں صدی عیسوی میں ملا صدرا شیرازی کی عظیم شخصیت نے اپنی پوری منطقی طاقت کے سہارے اپنے فلسفیانہ نظام کو برقرار رکھا۔ (۳) اٹھارہویں صدی عیسوی میں ملا ہادی سبزواری کے فلسفیانہ نظام کا طوطی بولتا رہا۔ اس کی کتاب اسرار الحکم کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہیں۔ (۴) بابی تحریک اور بہائی مذہب میں ہمیں شیعی عقائد کے علاوہ شیخ احمد اور ملا صدرا کے افکار و نظریات کی کہیں کہیں صدائے بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ (۵) گوتم بدھ کا تصور نجات ترک خواہشات پر مبنی ہے لیکن بہاء اللہ اسے شعوری ذرات میں مخفی جوہر محبت پر مبنی قرار دیتا ہے۔ (۶) بہاء اللہ کا تصور محبت شوپنہار کے نظریہ مشیّت سے برتر معلوم ہوتا ہے۔ فلسفۂ ایران کے آخری دور کے بارے میں مفکر اسلام اور شاعر مشرق علامہ اقبال نے جن اہم خیالات کو موضوع بحث بنایا ہے اب انھیں ذرا تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے تاکہ ناظرین اس دل چسپ موضوع کے گوناگوں پہلوئوں سے بخوبی آگاہ ہوسکیں۔ یہ ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ جب کسی ملک میں سیاسی حالات دگرگوں ہو جاتے ہیں تو اس ملک کی معاشرتی، اقتصادی، فکری، مذہبی، ثقافتی، تعلیمی اور اخلاقی زندگی میں کئی تغیرات رونما ہوتے ہیں۔ فلسفۂ ایران کو بھی کئی بار ایسے سیاسی حالات سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ مشہور یونانی بادشاہ، سکندر اعظم کی فوجی یلغار، دین اسلام کی اشاعت و فروغ اور ہلاکو و چنگیز کی تاخت و تاراج نے ایران کی متعدد سیاسی، ثقافتی، تہذیبی اور سماجی قدروں کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ ایران پر تاتاری حملو ںکے بعدنہ صرف وہاں کی معاشرت تبدیل ہوئی بلکہ ان سے تصوف، شریعت اسلامیہ اور فلسفہ بھی متاثر ہوئے۔ اس ضمن میں علامہ اقبال کہتے ہیں: اجڈ اور غیر مہذب تاتاری حملہ آوروں کو فلسفہ کی آزادانہ روایات سے کوئی ہمدردی نہیں ہوسکتی تھی اس لیے ان کے عہد میں فلسفہ ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہوسکا۔ اس کے برعکس مذہب سے مربوط ہونے کی بنا پر تصوف اپنے قدیم نظریات کو باضابطہ بنانے اور نئے خیالات کو نشو و نما دینے میں لگاتار مصروف رہا۔ اس دور میں اسلامی شریعت کی ترقی بھی رک گئی۔ چونکہ تاتاریوں کی رائے میں حنفی فقہ انسانی عقل کی معراج تھی اس لیے فقہی تشریح کی مزید نازک خیالیاں ان کے دماغ کو ناگوار گزرتی تھیں۔ ان پر آشوب اور ناسازگار حالات میں فلسفہ کے قدیم مکاتب اور مسالک عدم استحکام کا شکار ہوگئے اور نتیجہ کے طور پر بہت سے ایرانی فلاسفہ اور مفکرین نے ہندوستان میں آکر پناہ لی۔ اس وقت مغلیہ خاندان کا ایک مشہور و معروف دشمنِ اسلام بادشاہ یعنی اکبر ہندوستان پر حکومت کررہا تھا۔ اس نے سیاسی مصلحت اور ہندو نوازی کے جذبے کے تحت ایک نئے مذہب ’’دین الٰہی‘‘ کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس نے ذاتی مفاد کے علاوہ ہندوئوں او راپنے بیشتر ایرانی درباریوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ’’دین الٰہی‘‘ کا شوشہ چھوڑا۔ اقبال کی رائے میں ’’دین الٰہی‘‘ میں زرتشتی افکار و عقائد بھی شامل ہیں۔ علامہ اقبال اس بارے میں یوں رقم طراز ہیں: سولہویں صدی میں ہم ارسطو کے ایرانی متبعین مثلاً دستور اصفہانی، ہیربد، منیر اور کامران کو سفر ہندوستان میں مصروف پاتے ہیں جہاں شہنشاہ اکبر اپنے لیے اور اپنے بیشتر ایرانی درباریوں کے لیے نئے دین کی تشکیل میں زرتشت مذہب سے اثر لے رہا تھا۔ ایران پر یورش تاتار سے پیدا ہونے والے فلسفیانہ تغیرات اور ہندوستان میں اکبر کے ’’دین الٰہی‘‘ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے بعد علامہ اقبال ہمیں سترہویں صدی عیسوی کی ایک مشہور ایرانی شخصیت، ملا صدرا شیرازی، کے فلسفیانہ افکار کے چند نمایاں ترین پہلوئوں سے متعارف کراتے ہیں۔ ان کی رائے میں ملا صدرا کا تصور حقیقت کبریٰ دراصل مکمل وحدت الوجود کی طرف آخری قدم ہونے کے علاوہ محمد علی باب کے پیش کردہ مذہب کی اولین مابعدالطبیعیات کا ذریعہ بھی ہے۔ وہ ملا صدرا شیرازی کے فلسفیانہ نظام کے ماحصل کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: صاحب فراست ملا صدرا شیرازی نے اپنی پوری منطقی قوت کے ساتھ اپنے فلسفیانہ نظام کو برقرار رکھا۔ ملا صدرا کی رائے میں حقیقت مطلقہ تمام اشیا میں موجود ہونے کے باوجود ان میں سے نہیں۔ علاوہ ازیں وہ صحیح علم کو فاعل اور مفعول کی مطابقت پر منحصر خیال کرتا ہے۔ ڈی گوبی نیو De Gobineau ملا صدرا کے فلسفے کو بو علی سینا کے نظریات کا صرف احیا تصور کر تاہے۔ تاہم وہ اس حقیقت کو نظر انداز کردیتا ہے کہ فاعل اور مفعول کی مطابقت سے متعلق ملا صدرا کا تصور وہ آخری قدم ہے جو دانش ایرانی نے مکمل وحدۃ الوجود کی جانب اٹھایا تھا۔ مزید برآں ملا صدرا کا فلسفہ بابی تحریک کے اولین دور کے مابعدالطبیعیات کا سرچشمہ ہے۔ فلسفۂ ایران کے دور آخر سے تعلق رکھنے والے ایرانی مفکرین اور فلاسفہ میں سے ملا ہادی سبزواری کو نمایاں ترین مقام حاصل ہے۔ اٹھارھویں صدی عیسوی کی یہ عظیم شخصیت افلاطونیت کی جانب حرکت کی بہترین مثال ہے۔ اس کے ابنائے وطن اسے ’’ایران جدید کا عظیم ترین مفکر‘‘ خیال کرتے ہیں۔ علامہ اقبال اس کی تصنیف اسرار الحکم میں بیان کردہ تصورات کو بے حد اہم خیال کرتے ہوئے ان پر بڑی شرح و بسط سے روشنی ڈالتے ہیں۔ انھوں نے ملا ہادی سبزواری کے نظام افکار کے مختلف گوشوں کو اپنے مخصوص انداز میں بے نقاب کیا ہے۔ اس سلسلے میں علامہ مرحوم و مغفور کے تنقیدی خیالات کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ملا ہادی سبزواری کی فلسفیانہ تعلیمات پر نگاہ ڈالنے سے ان تین بنیادی تصورات کا انکشاف ہوتا ہے جو زمانہ مابعد اسلام کے فلسفۂ ایران کا جزو لاینفک ہیں: ۱-خدا کی وحدت مطلقہ کا نظریہ جسے ’’نور‘‘ کہا جاتا ہے۔ ۲-وہ نظریہ ارتقا جس کی دھندلی سی جھلک ہمیں انسانی روح کی تقدیر سے متعلق زرتشت کے اُصول میں دکھائی دیتی ہے جسے افلاطون کے جدید ایرانی پیروکاروں اور صوفی مفکرین نے مزید وسعت دے کر باضابطہ بنا دیا تھا۔ ۳-حقیقت مطلقہ (خدا) اور غیر حقیقی مخلوق کے درمیان واسطے کا نظریہ۔ علامہ اقبال کی رائے میں نوافلاطونی فلسفہ کو بتدریج رد کرتے ہوئے ایرانی مفکرین افلاطون کے صحیح نظریات تک پہنچے اور اسی نو افلاطونیت کے ذریعے سپین کے عرب مسلمانوں کو ارسطو کے اصلی افکار تک رسائی حاصل ہوئی۔ انھیں لیوئس کی اس بات سے اتفاق نہیں کہ عربوں تک افلاطون کا فلسفہ نہیں پہنچا تھا اس لیے انھوں نے ارسطو کے فلسفہ میں گہری دل چسپی لی تھی۔ علامہ اقبال اس کی بنیادی وجہ ایرانی اور عرب مفکرین کا اختلاف مزاج خیال کرتے ہیں۔ یہ دونوں قومیں مختلف مزاج کی بنا پر افلاطون اور ارسطو کے نظام ہائے فکر کی گرویدہ بن گئی تھیں۔ عرب باعمل قوم تھے لیکن اس کے برعکس ایرانی خیال پرست تھے۔ عمل پرستی کے سبب عرب فلاسفہ نے ارسطو کے نظریات کو اپنایا اور ایرانی مفکرین نے ذاتی خیال آرائی کی وجہ سے افلاطون کو اپنا پیشوا بنالیا۔ علامہ اقبال اپنے ان تحقیقی نتائج پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ امر بے حد دل چسپ ہے کہ ایرانی ذہن آہستہ آہستہ نوافلاطونی نظریہ ظہور سے نجات پاکر فلسفہ افلاطون کے خالص تر تصور تک پہنچ گیا۔ ہسپانیہ کے عرب مسلم مفکرین نے اسی طریق اور اسی ذریعے (نوافلاطونیت) سے فلسفہ ارسطو کے صحیح تر تصور کو پالیا تھا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ان دونوں قوموں کے طبعی مزاج کو واضح کردیتی ہے۔ لیوئس اپنی کتاب سوانحی تاریخ فلسفہ میں لکھتا ہے کہ عربوں نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ ارسطو کا مطالعہ کیا اس کی صرف وجہ یہ تھی کہ انھیں افلاطون کا فلسفہ پیش نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم میرے خیال میں عرب مزاج مکمل طو رپر عمل پرستانہ تھا اس لیے انھیں فلسفہ پیش نہیں کیا گیا تھا۔ اس لیے اگر انھیں فلسفہ افلاطون صحیح طور پر پیش بھی کیا جاتا تو یہ ان کے لیے بے مزہ ہوتا۔ میں یقین کرتا ہوں کہ فلسفہ یونان کے نظاموں میں سے نوافلاطونیت ہی ایسا فلسفہ تھا جسے مکمل طور پر دنیائے اسلام کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ بردباری پر مبنی تنقیدی تحقیق کی بنا پر عرب مفکرین فلاطینوس سے گزر کر ارسطو تک پہنچے اور ایرانی مفکرین اس سے گزر کر افلاطون تک پہنچے۔ اس کی انوکھی مثال ملا ہادی کا فلسفہ ہے جو ظہور و صدور کے نظریات کو چھوڑ کر خدا کے بارے میں افلاطونی تصور کو اختیار کرتا ہے۔ علامہ اقبال کی نظر میں طبعی سائنس کے فقدان اور اس کے مطالعہ سے اغماض کی وجہ سے فلسفہ عموماً مذہب میں جذب ہوجایا کرتا ہے۔ فلسفۂ ایران کو بھی ایسی ہی صورت حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ملا ہادی کے فلسفہ کو یہاں بطور مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: ملا ہادی سبزواری کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح ایران میں فلسفیانہ تفکر آخر کار مذہب میں جذب ہو کر رہ گیا۔ ایران کی طرح دیگر تمام ممالک میں جہاں طبعی سائنس کا فقدان ہو یا جہاں اس کے مطالعہ کو نظر انداز کردیا جائے، مذہب فلسفے کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے… شاید یہی عمیق تر وجہ ہے کہ ایرانی نظام ہائے فلسفہ ہمیشہ مذہب پر جاکر منتج ہوئے ہیں۔ مذہب و فلسفہ کے اس امتزاج کی بحث کے بعد مفکر اسلام اور شاعر مشرق ملا ہادی کے دیگر فلسفیانہ عقائد و افکار پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ ملا ہادی سبزواری کے فلسفے میں کافی وسعت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے بھی اس کے نظام فکر کو کافی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ علامہ موصوف کی رائے میں ملا ہادی ہمیں عقل کے دو پہلوئوں (نظری اور عملی) سے روشناس کراتا ہے۔ عقل کا نظری پہلو فلسفہ اور ریاضیات کو اپنا مقصود قرار دیتا ہے جب کہ اس کا عملی پہلو گھریلو معیشت اور سیاسیات وغیرہ کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ اقبال فلسفہ کی غرض و غایت اور مذہب کے ساتھ اس کے امتزاج کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں: صحیح فلسفہ اشیا کے آغاز و انجام اور نفس کے علم پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ خدائی قوانین کے علم پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے فلسفہ مذہب کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ چیزوں کی اصل کو جاننے کے لیے ہمیں کائنات کے گوناگوں مظاہر کا تحقیقی جائزہ لینا چاہیے۔ اس طرح کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ تین اولین اُصول ہیں: ۱-ذات حقیقی (خدا) یعنی نور۔ ۲-ظل (سایہ)۔ ۳-باطل یعنی ظلمت۔ خدا (حقیقی ذات) مطلق اور ضروری ہے۔ یہ ’’ظل‘‘ (سایہ) سے مختلف ہے کیوں کہ ’’سایہ‘‘ اضافی اور کسی دوسری ذات پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ ذاتِ حقیقی اپنی فطرت میں سراپا خیر ہے۔ یہ دعویٰ خیر خود واضح ہے۔ فلسفہ اور مذہب میں خدا کے تصور کے بارے میں کافی بحثیں پائی جاتی ہیں۔ بعض حکما کائنات کی تخلیق کا سرچشمہ مادہ خیال کرتے ہیں جب کہ حکما کا دوسرا گروہ اس نقطہ نظر کا زبردست مخالف ہے۔ اشیائے کائنات کے وجود کے بارے میں بھی مختلف آرا موجود ہیں۔ بعض فلاسفہ اشیائے وجود کو عدم محض اور بعض مفکرین اسے ہستی کا کرشمہ قرار دیتے ہیں۔ ہستی اور نیستی کے نظریات فلسفہ و مذہب کا اہم موضوع بحث و تمحیص ہیں۔ ممکن الوجود کی تمام اشکال حقیقت کا جامہ پہننے سے قبل یا ہست ہوتی ہیں یا نیست۔ اسی طرح ان کے عدم و وجود کے امکانات بھی یکساں ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال ملا ہادی سبزواری کے نظریہ خدا اور تصورِ تخلیق کائنات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس لیے مندرجہ بالا امر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا جو ممکن الوجود کو لباس حقیقت عطا کرتا ہے بذات خود نیست نہیں کیوں کہ ایک نیست دوسرے نیست پر اثر ڈالتے ہوئے ہست کو جنم نہیں دے سکتا۔ ملا ہادی خدا کو مؤثر عامل سمجھتے ہوئے افلاطون کے جامد تصور کائنات کو بدل دیتا ہے۔ وہ ارسطو کی پیروی کرتے ہوئے خدا کو تمام حرکات کا غیر حرکت پذیر منبع اور مقصود خیال کرتا ہے۔ ملا ہادی کا یہ حرکی نظریۂ کائنات افلاطون کے جامد تصور کائنات سے کسی قدر مختلف اور بہتر دکھائی دیتا ہے۔ اس ضمن میں ملا ہادی کے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں: کائنات کی تمام چیزیں تکمیل کی محبت سے سرشار ہو کر اپنے آخری مقاصد کی جانب رواں دواں ہیں۔ معدنیات نباتات کی طرف، نباتات حیوانات کی طرف اور حیوانات انسان کی جانب محو حرکت ہیں اور غور کرو کہ کس طرح انسان رحم مادر میں ان تمام مراحل سے ہو کر گزرتا ہے۔ علامہ اقبال ملا ہادی کے حرکی نظریہ کائنات پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: محرک یا تو حرکت کا سرچشمہ ہوتا ہے یا اس کا مقصود یا وہ دونوں حیثیتوں کا حامل ہوتا ہے۔وہ دونوں حالتوں میں محرک یا تو حرکت پذیر ہوتا ہے یا ساکن۔ یہ دعویٰ کہ تمام محرکین کو اپنی ذات میں ضرور حرکت پذیر ہونا چاہیے بے انتہا رجعت قہقری کو جنم دیتا ہے یہ رجعت قہقری تمام حرکات کے سرچشمہ اور آخری مقصود یعنی غیر حرکت پذیر اولین محرک پر جاکر ضرور ختم ہوجانی چاہیے۔ آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کی تمام چیزوں کی ابتدا اور تخلیق کا منبع اولین خدا کی ذات بابرکات ہے۔ اگر ہم یہ کہیںکہ خدا تعالیٰ سے پہلے کون تھا اور اس سے پہلے کون تو یہ لامتناہی سلسلہ کبھی بھی ختم نہ ہوگا۔ لازمی طور پر ہمیں ایک ازلی اور عظیم ترین خالقِ کائنات کو خدا ماننا پڑے گاٍ اشیائے کائنات کی حرکت اولین ایک ازلی اور ابدی محرک یعنی خدا تعالیٰ کی مرہون منت ہے۔ قرآن حکیم کی زبان میں خدا ہی ھُوَ الاَّول ہے اور وہی ہر چیز کی انتہا بھی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: و الی ربک المنتھی(اور تیرے پروردگار کی طرف ہر چیز کی انتہا ہے۔) خدا تعالیٰ کے تصور کو بیان کرتے وقت وحدت و کثرت کی بحث کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکما اور عرفا کا ایک طبقہ وحدت الوجود کا قائل ہے اور دوسرا طبقہ کثرت الوجود کا حامی ہے۔ ملا ہادی سبزواری کے تصور خدا اور نظریہ کائنات کے ضمن میں بھی وحدت و کثرت کے متنازع موضوع سے پیچھا نہیں چھڑایا جاسکتا۔ علامہ اقبال اس قدیم اور پرپیچ مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: مزید برآں خدا خالص توحید ہے کیوں کہ اگر متعدد خدا ہوتے تو وہ ایک دوسرے کو محدود کردیتے۔ خالق ہونے کی حیثیت سے خدا تعالیٰ کو ایک سے زیادہ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ خالقین کی کثرت کئی جہانوں کی کثرت پر دلالت کرتی… اس لیے جوہر خیال کرتے ہوئے خدا ایک ہے لیکن ایک مختلف نقطہ نظر سے وہ کثرت بھی ہے۔ وہ زندگی، قوت اور محبت ہے۔ اگرچہ ہم یہ نہیں کَہ سکتے کہ یہ صفات اس کی ذات میں مخفی ہیں تاہم یہ صفات او رذات ایک ہی ہیں۔ توحید کا مطلب وحدت نہیں بلکہ یہ تمام اضافات کو ختم کردینے پرمشتمل ہے صوفیا اور بہت سے مفکرین کے برعکس ملا ہادی اس نظریے کا حامی ہے کہ عقیدہ کثرت اور عقیدہ وحدت ایک دوسرے سے متناقض نہیں کیوں کہ نظر آنے والی کثرت خدا کے اسما و صفات کی جلوہ گری کے سوا کچھ نہیں۔ یہ صفات خدا کے علم ذاتی کی مختلف شکلیں ہیں۔ خدا کی صفات مختلفہ کا ذکر محض لفظی سہولت کے لیے ہے۔ خدا تعالیٰ کی تعریف کرنا دراصل اس کی ذات کو اعداد و شمار میں محدود کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک ایسا نامعقول طریق کار ہے جو غیرمحدود اور غیر اضافی ہستی مطلق یعنی خدا کو حدود و اضافات کی دنیا میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے تمام تنوع کے ساتھ کائنات نور مطلق یا حقیقتِ مطلقہ (خدا) کے اسما اور صفات کا سایہ ہے۔ کائنات حقیقت مطلقہ کی نقاب کشائی ’’کن‘‘ یا لفظ نور ہے۔ یہاں نظر آنے والی کثرت ظلمت میں جلوہ فشانی یا نیستی کو ہست بنانے کا نام ہے۔ ہمیں چیزیں مختلف دکھائی دیتی ہیں کیوں کہ ہم مختلف رنگوں کے شیشوں (خیالات) سے انھیں دیکھتے ہیں۔ علامہ اقبال کائنات کی وحدت و کثرت اور انسانی خیالات کی نیرنگی کا ذکر کرنے کے بعد ملا ہادی اور فارسی زبان کے مشہور و معروف نعت گو شاعر مولانا جامی کے مخصوص شعروں کو افلاطون کے نظریہ اعیان کی خوبصورت شاعرانہ عکاسی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: اس ضمن میں ملاہادی جامی کے ان اشعار کا بخوشی حوالہ دیتا ہے جن میں جامی نے افلاطون کے نظریہ اعیان کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے ان اشعار کا یوں ترجمہ کیا جاسکتا ہے۔ خیالات مختلف رنگوں کے ایسے شیشے ہیں جن میں آفتاب حقیقت (خدا) اپنا عکس ڈالتا ہے اور ان سرخ، زرد اور نیلے شیشوں میں سے اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ ملاہادی کے تصور نفسیات سے بحث کرتے ہوئے علامہ اقبال اگرچہ اسے زیادہ تر بو علی سینا کا مقلد قرار دیتے ہیں تاہم وہ ملا ہادی کے تصور نفسیات کو بو علی سینا کے نفسیاتی نظریات سے مکمل اور باضابطہ خیال کرتے ہیں۔ ملا ہادی نے روح کے مختلف مدارج یہ بیان کیے ہیں: (۱) آسمانی رُوح۔ (۲) زمینی روح۔ روح کی تین قسمیں یہ ہیں: (الف) انسانی روح۔ (ب) حیوانی روح اور (ج) نمو پذیر قوتیں۔ نمو پذیر قوتوں کی تین اقسام ملاحظہ ہیں: ۱- فرد کا تحفظ ۲- فرد کی تکمیل ۳- بقائے نوع ملا ہادی نے حیوانی روح کے بھی تین مدارج بیان کیے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں: ۱- بیرونی حواس بیرونی اور اندرونی احساسات کی تخلیق کرتے ہیں۔ ۲- اندرونی حواس۔ ۳- قوت حرکت جو بالارادہ اوربلا ارادہ ہوتی ہے۔ (ایک حرکت وہ ہوتی ہے جو ہمارے ارادہ و اختیارات کے ماتحت ہوتی ہے لیکن دوسری قسم کی حرکت ہمارے ارادہ و اختیار سے باہر ہوتی ہے۔) ہمارے بیرونی حواس ذائقہ،لامسہ، شامہ، سامعہ اور باصرہ ہیں۔ جہاں تک ہماری قوت سماعت (سامعہ) کا تعلق ہے بعض فلاسفہ اور مفکرین کی رائے ہے کہ آواز ہمارے کان کے اندر سے جنم لیتی ہے اس لیے کان سے باہر اس کا کوئی وجود نہیں۔ ان کی یہ رائے درست نہیں کیوں کہ اگر آواز ہمارے کان کے باہر موجود نہ ہو تو پھر آواز کے فاصلے اور اس کی سمت کو معلوم کرنا ممکن نہیں۔ قوت سماعت اور قوت دید دیگر حواس پر برتری رکھتی ہیں اور نظر سماعت سے بہتر ہے اس کی وجوہات درج ذیل ہیں: (الف) آنکھ دور دراز کی چیزوں کا احساس کرسکتی ہے۔ (ب) یہ روشنی کو محسوس کرتی ہے جو بہترین خوبی ہے۔ (ج) آنکھ کی بناوٹ کان کی ساخت سے زیادہ پیچیدہ اور نازک ہے۔ (د) نظر کی محسوس اشیا واقعی موجود ہوتی ہیں جب کہ سماعت کی محسوس چیزیں عدم سے مشابہ ہوتی ہیں۔ ملا ہادی بیرونی حواس کی درج ذیل انداز میں تقسیم کرتا ہے: (۱) عام سوجھ بوجھ جو دماغ کے لیے تختی کا کام دیتی ہے۔ عام سوجھ بوجھ دماغ کا وزیر اعظم ہے جو بیرونی دنیا سے خبریں لانے کے لیے پانچ جاسوس (بیرونی حواس) روانہ کرتا ہے۔ (۲) عام سوجھ بوجھ کے احساسات یعنی خیالی تصاویر کو محفوظ کرنے والی قوت۔ یادداشت خیالات کو محفوظ رکھتی ہے گویا کہ یہ قوت خیالی پیکروں کی محافظ ہوتی ہے۔ (۳) انفرادی خیالات کا احساس کرنے والی طاقت۔ بھیڑ بھیڑیے کی دشمنی کا خیال کرکے بھاگ جاتی ہے مگر پروانہ شمع کے گرد طواف کرتا ہے حالانکہ شمع اس کی موت کا سبب بن جاتی ہے۔ (۴) یادداشت… خیالات کی محافظ ہوتی ہے۔ (۵) خیالات اور خیالی تصاویر کو اکٹھا کرنے والی قوت۔ جب یہ قوت انفرادی خیالات کو محسوس کرنے والی استعداد کے زیر ہدایت کام کرتی ہے تو اسے قوت متخیلہ کہا جاتا ہے اور جب یہ عقل کے ماتحت ہو کر کام کرتی ہے تو اسے تصور کہتے ہیں۔ یہ صرف روح ہی ہے جو انسان اور حیوانات میں تمیز پیدا کرتی ہے۔ انسانیت کا یہ جوہر وحدت ہے اور یکسانیت نہیں۔ یہ خود بخود عالم گیر حقیقت اور کسی مخصوص چیز کو ظاہری اور باطنی حواس کے ذریعے محسوس کرتی ہے۔ ملاّ ہادی کے تصور روح کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں: روح نور مطلق (خدا) کا سایہ ہے اور اس نور مطلق کی مانند یہ مختلف طریقوں میں اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے یہ وحدت میں کثرت کا ادراک کرلیتی ہے۔ جسم اور روح کی بحث نہ صرف الہیات بلکہ نفسیات و فلسفہ کے اہم مسائل میں سے ہے۔ بعض مفکرین جسم کو روح پر ترجیح دیتے ہیں لیکن بیشتر فلاسفہ اور مصلحین روح کو جسم سے افضل خیال کرتے ہیں۔ ملا ہادی کے تصور جسم و روح سے متعلق اپنے افکار کااظہار کرتے ہوئے علامہ اقبال یہ لکھتے ہیں: روح اَور جسم کے درمیان کوئی لازمی رابطہ نہیں۔ روح غیرمادی اور غیر مکانی ہونے کے لحاظ سے تغیر و تبدل سے آزاد ہوتی ہے۔ مزید برآں یہ نظر آنے والی کثرت کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ نیندکے عالم میں ہماری روح ’’مثالی جسم‘‘ کو استعمال کرتی ہے جو طبعی جسم کی طرح کام کرتا ہے۔ جب ہم بیداری کی حالت میں ہوتے ہیں تو ہماری روح عام طبعی جسم کو استعمال کرتی ہے اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ روح کو نہ ہمارے طبعی جسم اور نہ ہی ’’مثالی جسم‘‘ کی کچھ ضرورت ہے بلکہ وہ دونوں کو اپنی مرضی کے مطابق بروئے کار لاتی ہے۔ ملا ہادی اپنے نظریہ تناسخ میں افلاطون کی تقلید نہیں کرتا۔ اس کی مختلف صورتوں کی وہ تفصیل سے ترید کرتا ہے۔ ملا ہادی کی رائے میں روح غیر فانی ہے اور یہ اپنی قوتوں کی تدریجی تکمیل کے ذریعے اپنے اصلی گھر یعنی نور مطلق (خدا) تک پہنچ جاتی ہے۔ عقل کے بارے میں بھی ملاہادی نے اپنے فلسفہ روح کے ضمن میں اپنے عمیق مطالعہ و مشاہدہ کے نتائج کو بیان کیا ہے۔ اس کی رائے میں عقل کی دو بڑی قسمیں اور پھر ان دو بڑی اقسام کی مزید چھوٹی چھوٹی قسمیں گنوائی ہیں اس کے نظریہ عقل کا خلاصہ یہ ہے: عقل کی دو بڑی اقسام (۱) نظریاتی عقل یا عقل خالص (۲) عملی عقل نظریاتی عقل یا عقل خالص کی تقسیم مدارج درج ذیل ہے: (الف) درجہ اول کی نظریاتی عقل کو امکان پذیر عقل کہا جاسکتا ہے۔ (ب) بذات خود واضح امور کا ادراک و احساس کرنے والی عقل۔ (ج) عقل حقیقی۔ (د) آفاقی تصورات کا ادراک کرنے والی عقل۔ اس طرح عملی عقل کے بھی مندرجہ ذیل مدارج ہوتے ہیں: ۱- ظاہری پاکیزگی ۲- باطنی پاکیزگی ۳- مختلف عادات کی تشکیل ۴- خدا کے ساتھ وصل روح ترقی اور ہستی کے مختلف مراحل سے گزر کر بلند تر ہوتی جاتی ہے اور آخرکار وہ نور مطلق (خدا) کی ہمہ گیری میں اپنے آپ کو گم کرکے اس کی بقا میں شریک ہو جاتی ہے۔ ملا ہادی روح کے ان دو پہلوئوں پر یوں روشنی ڈالتا ہے:’’یہ اپنی ذات میں تو معدوم ہے لیکن وہ اپنے غیرفانی دوست کے قرب کی بنا پر موجود ہوجاتی ہے۔‘‘ انسانی نفسیات اور مسئلہ روح کی بحث کے دوران انسانی جبر و اختیار اور خیر و شر کے امور لازمی طور پر ابھر کر ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ حکما اور مصلحین کا ایک گروہ انسان کو نیکی اور بدی کرنے کے بارے میں خودمختار خیال کرتا ہے لیکن دوسرا گروہ انسان کو بالکل مجبور قرار دیتا ہے فلاسفہ اور صوفیا کا تیسرا طبقہ انسان کو بعض امور میں مختار اور بعض میں مجبور سمجھتا ہے۔ ہر ایک مفکر اور مصلح نے اپنے اپنے انداز فکر و نظر کے مطابق اس موضوع بحث پر اظہار خیال کیا ہے۔ علامہ اقبال ملاّہادی کے متعلقہ نظریات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: ملاہادی عقل پرستوں پر اس لیے تنقید کرتا ہے کہ وہ انسان کو بدی کا خودمختار خالق قرار دیتے ہیں۔ وہ انھیں ’’محجوب ثنویت‘‘ کا ملزم گردانتا ہے۔ ملا ہادی کی رائے میں ہر چیز کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں۔ ’’روشن‘‘ پہلو اور ’’تاریک‘‘ پہلو۔ چیزیں نور اور ظلمت کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ نور ہر قسم کی نیکی کو جنم دیتا ہے جب کہ ظلمت کی کوکھ سے برائی پیدا ہوا کرتی ہے۔ اس لیے انسان مجبور بھی ہے اور مختار بھی۔ فلسفۂ ایران کے آخری دور اور ایران جدید کی دو مذہبی تحریکیں… بابی تحریک اوربہائی تحریک… ملا صدرا سبزواری کے فلسفیانہ نظریات سے کافی متاثر نظر آتے ہیں۔ راسخ العقیدہ مسلمانوں کی شدید مخالفت اوربڑھتی ہوئی ایذا رسانیوں کے باوجود یہ دونوں مذہبی فرقے ختم نہ ہوسکے۔ علامہ اقبال نے ملا صدرا کے نظام فکر کا جائزہ لیتے ہوئے ان دونوں کا بھی تذکرہ ضروری سمجھا۔ ان کی رائے میں فلسفۂ ایران کے تمام مختلف راستے ایک بار پھر جدید ایران کی ایک عظیم مذہبی تحریک (بابی اور بہائی مسلک) میں آکر مل جاتے ہیں۔ مرزا علی محمد باب (ولادت ۱۸۲۰ئ) شیرازی نے ایک شیعہ فرقہ کے طور پر اس مذہبی تحریک کا آغاز کیا تھا جو بعدازاں کٹر مذہبی لوگوں کے بڑھتے ہوئے مظالم کے ساتھ ساتھ زیادہ تر غیراسلامی نوعیت کی حامل بنتی گئی۔ اس عجیب و غریب فرقہ کی بنیاد شیخین کے ایک شیعہ فرقہ میں تلاش کرنی چاہیے جس کا بانی شیخ احمد ملا صدرا کے فلسفے کا پرجوش طالب علم تھا۔ شیخ احمد نے ملا صدرا کے فلسفیانہ افکار کے بارے میں کئی شرحیں قلمبند کی تھیں۔ عام شیعہ حضرات کا عقیدہ ہے کہ امام غائب کادنیا میں دوبارہ ظہور ہوگا۔ اس لیے وہ اپنے بارہویں امام کے ظہور کا بڑی بے چینی سے انتظار کررہے ہیں۔ امام غائب کے ظہور کا عقیدہ شیعہ مذہب کا بنیادی اُصول ہے۔ مذکورہ بالا فرقہ کے پیروکار عام شیعہ حضرات سے اختلاف کرتے ہوئے امام غائب کے ظہور سے قبل ایک دائمی وسیلہ اور واسطہ کے قائل ہیں۔ شیخ احمد خود اس واسطے کا مدعی بن بیٹھا او رجب دوسرے شیخی وسیلہ یعنی حاجی کاظم کی موت واقع ہوئی تو فرقہ شیخیہ کے پیروکار نئے وسیلہ کا بڑی بے تابی سے انتظارکرنے لگے۔ مرزا علی محمد باب جس نے کربلا میں حاجی کاظم کے کئی لیکچروں میں شرکت کی تھی اس نے اپنے آپ کو وہ متوقع وسیلہ قرار دے دیا۔ فرقہ شیخیہ کے بہت سے پیروکاروں نے مرزا علی محمد باب کے اس دعویٰ کو قبول کر لیا تھا۔ علامہ اقبال مرزا علی محمد باب کے فلسفیانہ عقائد و تصورات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: یہ دور رس ایرانی نوجوان حقیقت مطلقہ (خدا) کو جوہر خیال کرتے ہوئے ذات اور صفات کے فرق کو برداشت نہیں کرتا۔ علی محمد باب کہتا ہے کہ جوہر کلی (خدا) کا اولین عطیہ یا توسیع ذات وجود ہے۔ وجود ’’معلوم‘‘ ہے، ’’معلوم‘‘ علم کا خلاصہ، ’’علم‘‘ مشیّت ہے اور ’’مشیّت‘‘ محبت و عشق‘‘ ہے۔ اس طرح ملا صدرا کی مطابقت عالم و معلوم سے گزر کر وہ حقیقت مطلقہ کے تصور مشیّت و عشق تک پہنچ جاتا ہے۔ حقیقت مطلقہ کے جوہر یعنی اولین محبت کو وہ کائنات کے ظہور کا سبب خیال کرتا ہے۔ اس کی نگاہ میں کائنات کی نمود خدا کی توسیع ذات کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس کی رائے میں لفظ تخلیق کا مطلب نیستی سے ہستی نہیں کیوں کہ شیخین کے عقیدے کے مطابق خالق کا لفظ صرف خدا کے لیے خصوصاً استعمال نہیں ہوتا۔ قرآن حکیم کی ایک آیت ہے: احسن الخالقین (خدا سب خالقوں سے بڑھ کر ہے)۔ اس آیت سے یہ مطلب اخذ ہوتا ہے کہ خدا کی طرح دیگر ہستیاں بھی اپنی ذات کا اظہار کرنے والی ہیں۔ بابی تحریک کے بانی مرزا علی محمد باب کو جب پھانسی دی گئی تو اس کے بعد اس کے ایک پیروکار بہاء اللہ نے علی محمد باب کے مشن کو اختیار کیا اور اپنے آپ کو ایک نئے فرقے کامؤجد قرار دیا۔ بہاء اللہ نے اس امام غائب کا دعویٰ کیا جس کے ظہور کی علی محمد باب نے پیش گوئی کی تھی۔ بہاء اللہ نے اپنے پیرو مرشد کے اُصول کو لفظی تصوف سے آزاد کیا اور اسے زیادہ مکمل اور زیادہ باضابطہ شکل میں پیش کیا۔ علامہ اقبال بہائی تحریک کے موجد کے چند اہم نظریات کو مورد بحث قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: بہاء اللہ کی رائے میں حقیقت مطلقہ (خدا) ذات نہیں بلکہ یہ ایک لازوال جوہر حیات ہے جس سے ہم حقیقت اور محبت و عشق کی صفات منسوب کرتے ہیں کیوں کہ ہماری معلومات کے مطابق یہ بلند ترین تصورات ہیں۔ یہ جوہر حیات کائنات کے ذریعے اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے تاکہ یہ اپنے اندر جوہریت کے عناصر یا شعور کے مراکز کی تخلیق کرسکے جنھیں ڈاکٹر میک ٹیگرٹ (Mctaggart) کے الفاظ میں ہیگل کی مزید جبریت کہیں گے۔ شعور کے ان سادہ اور غیر ممیّز مراکز میں نور مطلق (خدا) کی شعاع مخفی ہوتی ہے۔ روح کی تکمیل اس امرپر منحصر ہوتی ہے کہ انفرادیت عطا کرنے والے مادہ کے ساتھ رابطہ قائم کرکے اس کے جذباتی اور ذہنی ممکنات کو بتدریج بروئے کار لایا جاسکے اور اس طرح اس کی عمیق ہستی کو دریافت کیا جائے۔ ہستی کا یہ گہرا انکشاف دراصل لازوال محبت کی وہ شعاع ہے جو شعور کے ساتھ مل کر پردہ اخفا میں رہتی ہے۔ اس لیے انسان کا جوہر اصلی عقل یا شعور نہیں بلکہ عشق و محبت کی یہ شعاع ہے جو انسان کی اصل یعنی نیک اوربے لوث عمل پیدا کرنے والے تمام جذبات کا سرچشمہ ہے۔ مفکر اسلام علامہ اقبال کی نگاہ میں بہاء اللہ کے مذکورہ بالا تصور میں ملا صدرا کے اس نظریے کا اثر ہویدا ہے جو تخیل کے غیر مجسم ہونے سے متعلق ہے۔ ملاصدرا کی رائے میں عقل اگرچہ ارتقائی لحاظ سے تخیّل سے بلند تر ہے تاہم اسے بقا کی لازمی شرط قرا رنہیں دیا جاسکتا۔ زندگی کی تمام صورتوں میں ایک غیر فانی روحانی جزو یعنی لازوال محبت کی شعاع موجود ہوتی ہے جس کا شعور یا عقل کے ساتھ کوئی لازمی ربط نہیں ہوتا اور وہ جسم کی موت کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔ بہاء اللہ بھی علامہ اقبال کی طرح عقل پر عشق و محبت کو ترجیح دیتے ہوئے اس کی بے حد اہمیت و افادیت کا قائل دکھائی دیتا ہے۔ وہ بھی روح کو مادہ اور جسم سے اعلیٰ خیال کرتا ہے۔ بہاء اللہ کے اس نظریہ عشق و محبت پر روشنی ڈالنے کے بعد علامہ اقبال اس کے نظریہ نجات اور تناسخ ارواح کے اُصول کی بحث کے دوران گوتم بدھ کے تصور نجات کو بھی بیان کرتے ہیں اگرچہ وہ گوتم بدھ کے تصور ترک خواہش اور آواگون کے مسئلے پر یہاں بالتفصیل گفتگو نہیں کرتے تاہم انھوں نے روح کی شانتی اور اس کی مکتی کے بارے میں گوتم بدھ کی تعلیمات کے نچوڑ کی طرح بڑا بلیغ اشارہ کیا ہے بہاء اللہ اور گوتم بدھ کے ان نظریات کا موازنہ و مقابلہ کرتے ہوئے وہ اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتے ہیں: گوتم بدھ کی رائے میں نجات ترک خواہش اور دماغی ذرات کی فاقہ کشی پر منحصر ہوتی ہے لیکن بہاء اللہ کی نظر میںنجات کا دارومدار اس جوہر عشق کی دریافت پر ہے جو شعور کے ذرات میں پنہاں ہوتا ہے۔ تاہم گوتم بدھ او ربہاء اللہ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ موت کے بعد انسانوں کا کردار اور خیالات باقی رہتے ہیں … اور وہ عشق و محبت کے انکشاف کے طریق عمل (بہاء اللہ کا تصور) اور خواہشات کی فنا کے طرز فعل (گوتم بدھ کا نظریہ) کو جاری رکھنے کے لیے مناسب جسمانی رفاقت کے ایک اور موقع کے منتظر رہتے ہیں۔ بہائی تحریک کے موجد بہاء اللہ کے فلسفیانہ خیالات کی بحث کو ختم کرنے سے پہلے وہ بہاء اللہ کے نظریہ عشق و محبت اور جرمنی کے مشہور قنوطیت پرست فلسفی شوپنہار کے تصور ارادہ کا موازنہ و مقابلہ پیش کرتے ہیں۔ شوپنہار کو تمام کائنات میں جبر، غم اور مایوسی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس کے برعکس بہاء اللہ کائنات کی رنگینی او رونق کو جذبہ عشق و محبت کی کارفرمائی کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ اس ضمن میں علامہ اقبال کے یہ خیالات ملاحظہ ہوں۔ وہ کہتے ہیں: بہاء اللہ کی رائے میں عشق و محبت کا تصور نظریہ ارادہ و مشیّت سے زیادہ ارفع و اعلیٰ ہے۔ شوپنہار نے حقیقت کاادارک بطور مشیّت کیا جس نے اپنی فطرت میں دائمی طور پر معصیت آلود رحجان پاکر مجبوراً معروضیت (خارجیت) کی شکل اختیار کرلی۔ بہاء اللہ او رشوپنہار دونوں کے خیال میں ہر ایک ذرہ حیات میں عشق یا ارادہ موجود ہے۔ بہاء اللہ کی نظر میں عشق کے وجود کا سبب توسیع ذات کی خوشی کا اظہار ہے لیکن اس کے برعکس شوپنہار کی نگاہ میں ارادہ و مشیّت کے وجود کی وجہ ناقابل تشریح میلان ہے۔ شوپنہار مشیّت ازلی (خدا) کی خارجی شکل کی توجیہ کے لیے خاص زمانی خیالات کا اُصول پیش کرتا ہے لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے بہاء اللہ اس اُصول کی وضاحت نہیں کرتا جس کی رو سے عشقِ ازلی (خدا) کائنات میں اپنی جلوہ گری کرتا ہے۔