Actions

پیش لفظ

From IQBAL

پیش لفظ

ایران زمانہ قدیم ہی سے مخصوص فکری روایات، تہذیبی اقدار اور تمدنی تغیرات کا عظیم اور شاندار گہوارہ رہاہے۔ سرزمینِ ایران نے ہر شعبہ فکر و فن سے تعلق رکھنے والی ممتاز اور شہرۂ آفاق شخصیات کو جنم دیا ہے جنھو ںنے جریدۂ عالم کے صفحات پر درخشاں اور پائیدار نقوشِ عظمت چھوڑے ہیں۔ زندگی کاوہ کون سا شعبہ ہے جس میں ایرانی شعرا، ادبا، حکما، صوفیا اور مدبرین نے نمایاں ترین خدمات سرانجام نہیں دی ہیں؟ ظہورِ اسلام سے قبل دنیا میں دو طاقت ور حکومتوں، کسرٰی و قیصر، کا طوطی بول رہاتھا۔ جب آفتاب اسلام جزیرۃ العرب کی حدود سے نکل کر دنیا کے باقی علاقوں میں اپنی نشانیاں دکھانے لگا تو اس وقت ایرانی سلطنت کا ستارہ غروب ہو رہا تھا۔ مسلمانوں نے اس زمانے میں دو بڑی عالمی طاقتوں، رومی سلطنت اور ایرانی سلطنت، کی قدیم شان و شوکت کو اپنے پائوں میں روند کر اسلامی سطوت کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ جس طرح سورج کی روشنی نمودار ہو کر رات کی ظلمت کو گریز پا بنا دیتی ہے اسی طرح اسلام کے خورشید جہاں۔تاب کی حقانی شعاعوں نے باطل کی تاریکی کو کافور کیا اور ہر مفتوحہ علاقے کے لوگوں کے سینوں کو نور ایمان سے منور کرکے چھوڑا۔ یہ ایک قدرتی قانون ہے کہ ہر مفتوح قوم اپنے فاتحین کے اطوار و عادات اور تصورات حیات کو کافی حد تک اپنانے کی چار و ناچار کوشش کیا کرتی ہے۔ جب ایران پر اسلام کا غلبہ ہوا تو وہاں بھی ایرانی لوگوں نے عربوںکے مذہبی خیالات، فکری روایات، تہذیبی اقدار اور تمدنی اطوار کو اختیار کرلیا۔ چند دانشوروں اور اسلامی انقلاب کے خفیہ مخالفین نے ظاہراً تو اسلام قبول کرلیا لیکن انھوں نے درپردہ اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے غیراسلامی فلسفیانہ اور متصوفانہ افکار کو آہستہ آہستہ پھیلانا شروع کردیا تھا۔ علامہ اقبال اسے عجمی سازش قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی اس اوّلیں فلسفیانہ کتاب ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا (The Development of Metaphysics in Persia) میں فلسفۂ ایران اور اس کے مختلف اہم پہلوئوں کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے ظہورِ اسلام سے پہلے اور اس کے بعد کے ایرانی مفکرین اور مصلحین کے افکار و نظریات کا تاریخی پس منظر ہی بیان نہیں کیا بلکہ انھوں نے اپنی تنقیدی رائے بھی دی ہے۔ اس لحاظ سے ان کی یہ ابتدائی فلسفیانہ نثری تصنیف دراصل فلسفۂ ایران کے مختلف ادوار پر ایک دقیع جائزہ اور اس کے منطقی تسلسل کی داستان ہے۔ اس کتاب کو انھوں نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ حصہ اول میں اسلام سے ماقبل فلسفۂ ایران کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جس میں قدیم ایران کے تین مشہور مفکرین یعنی زرتشت، مانی اور مزدک کے تصورات ثنویت (Dualism) کاتذکرہ ہے۔ جب کہ حصہ دوم کے پانچ ابواب میں نوافلاطونیت، عقلیت، ثنویت، مادیت، تصوریت (Idealism) اور صوفیانہ مابعد الطبیعیات کے اہم گوشوں کے چہرے پر سے نقاب کشائی کی گئی ہے۔ ان مکاتب فکر کے بانیوں اور ان کے مقلدین کے افکار کی وضاحت کے ضمن میں یونانی فلسفہ، عیسائیت، بدھ مت، ہندو دھرم، اسلام اور فلسفہ مغرب کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے زیادہ تر مذہب، اخلاقیات، فلسفہ اور تصوف کے موضوعات کی بحث چھیڑی ہے۔ اسلامی تصوف کے چند عناصر ترکیبی اور عام تصوف کے معاشرتی اور تاریخی عوامل کوانھوں نے بڑے مدلل اور دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب کے مواد کی ترتیب و تدوین میں انھوں نے زیادہ تر برلن کی رائل لائبریری اور برطانیہ کے کتب خانوں (انڈیا آفس لائبریری، برٹش میوزم لائبریری، کیمبرج یونیورسٹی لائبریری اور ٹرینٹی کالج لائبریری) سے استفادہ کیا تھا۔ یہ کتاب لکھنے پر میونخ کی یونیورسٹی نے انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی تھی جسے حاصل کرنے کے بعد وہ شیخ محمد اقبال سے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال بن گئے۔ انھوں نے اس کتاب کو اپنے عزیز استاد پروفیسر آرنلڈ کی نذر کیا ہے جس سے ان کی عظمتِ کردار کا پتا چلتا ہے۔ علامہ اقبال کی کتاب ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا کو خیالات کی پختگی کے لحاظ سے وہ مرتبہ حاصل نہیں جو ان کی دوسری کتاب تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (The Reconstruction of Religious Thought in Islam) کو دیا جاتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول الذکر کتاب اُن کی اوّلین فلسفیانہ کتاب ہے جب کہ مؤخر الذکر کتاب ان کے وسیع تر مطالعہ مشرق و غرب، وسعت مضامین، فکری معراج، عمق نگاہ اور پختگی افکار کی حامل ہے۔ یہ دوسری کتاب ان کے سابقہ تجربات و مشاہدات کا بہترین خلاصہ ہے۔ اس کے باوجود ان کی پہلی کتاب ابھی تک فلسفۂ ایران کے تاریخی ارتقا، منطقی تسلسل اور تصوف کی سائنسی توجیہ کے لحاظ سے اہم علمی دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔ فلسفۂ ایران کے تاریخی اور اسلامی پس منظر کو جاننے کے خواہش مند طلبا اور محققین کے لیے اس کا مطالعہ ناگزیر اور مفید ہے۔ میں نے اپنی زیرِ نظر کتاب فلسفہ ایران، اقبال کی نظر میں میں علامہ اقبال مرحوم و مغفور کی مذکورہ بالا تصنیف کے اکثر حصّے کا نہ صرف انگریزی سے اردومیں ترجمہ کیا ہے بلکہ اس کے مندرجات اور مباحث کی آسان زبان میں حتی المقدور تشریح بھی کی ہے۔ تشریح کو زیادہ عام فہم بنانے کی غرض سے میں نے ہر باب کے آغاز میں اس کا خلاصہ بھی آسان زبان میں بیان کردیا ہے تاکہ پڑھنے والوں پر اس باب کے اہم موضوعات بخوبی واضح ہو جائیں۔ چونکہ علامہ اقبال نے فلسفیانہ مسائل کو نثر کی زبان میں بیان کیا ہے اس لیے فلسفیانہ اصطلاحات کا استعمال قدرتی امر تھا۔ اس دقت کے باوجود میں نے انھیں آسان الفاظ میں ڈھالنے کی پوری پوری کوشش کی ہے۔ کتاب کو زیادہ دل چسپ بنانے کے لیے میں نے ہر باب میں اہم اقتباسات بھی شامل کردیے ہیں۔ بہرحال فلسفہ آخر فلسفہ ہے۔ شاعری میں توخیال آرائی اور مبالغہ آمیزی کے علاوہ رنگینی بیان اور حسنِ اظہار کا بھی عنصر ہوتا ہے اس لیے قارئین شعر کے مفہوم سے آگاہ ہونے کے لیے قدم قدم پر نہیں رکتے۔ اس کے برعکس فلسفیانہ تحریر کو بخوبی سمجھنے کی خاطر دل کو نہیں بلکہ دماغ کو اپنا راہ نما بنانا پڑتا ہے اس لیے عقلی پیچیدگیوں سے دامن چھڑانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ میری مخلصانہ کوشش یہ تھی کہ میں علامہ اقبال کی اس کتاب کے موضوعات کو زیادہ سے زیادہ دل چسپ اور عام فہم بنا سکوں۔ خدا کرے میری یہ کوشش بار آور ہو۔ آمین!