Actions

پانچواں باب: تصوّف

From IQBAL

باب پنجم تصوف

(۱)تصوف کی اصل اور اس کا قرآنی جواز دور حاضر کے مستشرقین کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ وہ کسی حقیقت کا سراغ لگانے کے لیے اثرات و علل کی سلسلہ جبانی کرنے لگ جاتے ہیں۔ وہ اس بات کے درپے ہو جاتے ہیں کہ موضوعِ زیربحث کی اصل کیاہے اور اس کے اسباب و علل کیا تھے۔ اس لیے وہ حقیقت میں اس کی خاطر علت و معلول کی کڑیاں ملانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ علامہ اقبال کی رائے میں یہ طریق تحقیق بلاشبہ عظیم تاریخی قدر و قیمت کا حامل ہوتا ہے بشرطیکہ یہ ہماری نگاہوں سے اس حقیقت کو نظر انداز نہ کردے کہ انسانی ذہن آزاد انفرادیت اور ابتدائے کار کی صلاحیت کا حامل ہونے کی حیثیت سے آہستہ آہستہ اپنے اندر سے ان حقائق کو باہر پھیلا سکتا ہے جن کے بارے میں صدیوں بیشتر دوسرے اذہان نے پیش بینی کی ہوگی۔ بیرونی اثرات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن انھیں کسی قوم کے عروج و زوال کی اصل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بیرونی اثرات البتہ عروج و زوال کے دیگر قومی عوامل کو تقویت ضرور پہنچا سکتے ہیں۔ کسی قوم کے افراد کے اذہان و قلوب کے اندر حقیقی جاذبیت اور شدت پیدا کرنے والے عوامل اس قوم کی اپنی کوکھ سے جنم لیا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں علامہ اقبال کے یہ الفاظ کس قدر حقیقت کشا اور حکمت بر مبنی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: کوئی نظریہ کسی قوم کی روح پر اس وقت تک غالب نہیں آسکتا تاوقتیکہ وہ کسی حد تک اس قوم کا اپنا نظریہ نہ ہو۔ بیرونی اثرات اس تصور کو گہرے اور لاشعوری خواب سے بیدار تو کرسکتے ہیں مگر وہ حقیقی معنوں میں اسے عدم سے وجود میں نہیں لاسکتے ہیں۔ مسئلہ تصوف کا بھی یہی حال ہے۔ اسے محض بیرونی اثرات کا نتیجہ قرار دینے سے ہم اس کے اصلی منبع کودریافت نہیں کرسکتے۔ جہاں تک ایرانی تصوف کی اصل کا تعلق ہے اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ تقریباً سب حالتوں میں تحقیق کے اس دل چسپ ترین میدان کی سیاحی کرنے والے تصوف کے ان تمام اساسی تصورات کے مختلف ذرائع کا انکشاف کرنے میں اپنی طباعی کو بروئے کار لائے ہیں جو ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر کرتے رہے ہیں۔ ہم اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ انسانوں کی طرح خیالات اور نظریات بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ تک محو حرکت رہا کرتے ہیں۔ وہ مختلف شکلوں اور مختلف ذرائع سے دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں کو متاثر کیا کرتے ہیں۔ نظریات کی اس رفتار مکانی کا اثر ثقافتی تنوع اور تہذیبی ثروت کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمیشہ ایک تہذیب کے چراغ سے دوسری تہذیب کا چراغ جلتا رہا ہے۔ علامہ اقبال اس بات کے قائل ہیں کہ کسی قوم کے ذہنی ارتقا اور ثقافتی پس منظر کوبخوبی سمجھنے کے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ ہم ان سیاسی ، ذہنی اور سماجی حالات کو بھی نظر انداز نہ کریں جو اس قوم کے ذہنی ارتقا سے پہلے موجود تھے اور جنھوں نے اسے بعدازاں پروان چڑھایا تھا۔ حضرت علامہ کے یہ الفاظ کسی قدر مبنی پر حقیقت دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: کسی قوم کے ذہنی ارتقا کے واقعہ کی اہمیت کا کامل ادراک صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کہ ہم اسے جنم دینے والے ان فکری، سیاسی اور سماجی حالات کو جانیں جو اس سے بیشتر وہاں موجود تھے۔ اس ضمن میں وہ چند ممتاز مستشرقین مثلاً وان کریمر (Von Kremer)، ڈوزی (Dozy)، مرکس (Merx)، پروفیسر بروائون (Browne)، پروفیسر نکلسن کے ان نتائج فکر کا تذکرہ کرتے ہیں جن کا ایرانی تصوف کے منبع کے ساتھ تعلق جوڑا گیا ہے۔ وان کریمر اور ڈوزی کا نظریہ یہ ہے کہ ایرانی تصوف ہندی ویدانت سے ماخوذ ہے۔ اس کے برعکس مرکس اور پروفیسر نکلسن کے خیال میں یہ نو افلاطونیت کی پیداوار ہے جب کہ پروفیسر ای۔جی برائون نے عجمی تصوف کو غیر جذباتی سامی مذہب کے خلاف آریائی رد عمل قرار دیا تھا۔ علامہ اقبال کو ان مستشرقین کے ان نظریات سے کامل اتفاق نہیں کیوں کہ ان کے خیال میں ان تصورات کو علت و معلول کے اس اُصول کے تحت پیش کیا گیا ہے جو بنیادی طور پر غلط ہے۔ اپنی اس بات کی صراحت کے لیے وہ ایک مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک متعینہ مقدار (الف) کو دوسری متعینہ مقدار (ب) کی علت یا پیداوار قرار دینے کامفروضہ سائنسی مقاصد کے لیے تو مفید ہوسکتا ہے لیکن یہ تحقیق کے لیے نقصان دہ ہے۔ اگر یہ مفروضہ کسی امر واقعہ کے پس منظر کی تشکیل کرنے والے لاتعداد حالات کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کا باعث ہو تو یہ تحقیقی لحاظ سے سودمند نہیں ہوسکتا۔ مفکر اسلام حضرت علامہ مستشرقین کے ان نظریات سے دوبارہ اپنے اختلاف کو بیان کرتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں: مثال کے طور پر یہ کہنا ایک تاریخی غلطی ہوگی کہ رومی سلطنت کا شیرازہ بکھرنے کا سبب بیرونی وحشیانہ حملے تھے۔ یہ بیان مختلف نوعیت کی ان دوسری طاقتوں کو کلیتاً نظر انداز کردیتا ہے جنھوں نے سلطنت روما کی سیاسی وحدت کو پارہ پارہ کردیا تھا۔ اس لحاظ سے بیرونی وحشیانہ حملوں کے ظہور کو رومی سلطنت کے زوال کا سب سے بڑا سبب گرداننا ایک ایسا طریقہ کار ہے جسے کسی منطق کی رو سے بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بیرونی حملے روم کی قدیم عظیم الشان سلطنت کے انحطاط کا ایک سبب تو تھے لیکن اس کے ہمہ گیر انحطاط کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ قوم پہلے ہی اندرونی طور پر حیات بخش اور استحکام پذیر طاقتوں اور اُصولوں سے محروم ہوگئی تھی۔ ایرانی تصوف کی اصل کے بارے میں چند مشہور مستشرقین (Orientalists) کے غلط طریق تحقیق کو ہدف تنقید بنانے کے بعد علامہ اقبال صحیح قسم کے نظریہ علت و معلول کی روشنی میں اسلامی زندگی کے متعلق ان اہم اور اصلی سیاسی، سماجی اور فکری حالات کا تذکرہ کرتے ہیں جو آٹھویں صدی کے اواخر اور نویں صدی کے نصف اول میں ایران میں موجود تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ زندگی کا حقیقی صوفیانہ نصب العین معرض وجود میں آیا تھا۔ بعد میں بہت جلد ہی اس صوفیانہ نصب العین کا فلسفیانہ جواز بھی پیش کردیا گیا۔ علامہ اقبال کی رائے میں ایرانی تصوف کی پیداوار اور فروغ کے مندرجہ ذیل عوامل خاص اہمیت کے حامل ہیں وہ ان اسباب کو ایرانی تصوف کی ابتدا اور ترقی کی اساس قرار دیتے ہیں۔ ان اسباب و علل کا اجمالی خاکہ یہ ہے: ۱-سیاسی اور معاشرتی بے چینی جب ہم اس دور کی تاریخ کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ وہ کم و بیش سیاسی بے چینی کا دور تھا۔ آٹھویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں ایران میں ایک ایسا سیاسی انقلاب رونما ہوا جس نے بنی امیہ کے اقتدار کا تختہ الٹ کر رکھ دیا تھا۔ یہ واقعہ ۷۴۹ء میں پیش آیا تھا۔ علاوہ ازیں اس دور میں زندیقیوں پر ظلم و ستم ڈھائے گئے اور ایرانی ملحدوں نے کئی بغاوتیں برپا کیں۔ان ملاحدہ نے عوام الناس کی ضعیف الاعتقادی سے فائدہ اٹھا کر مذہبی نظریات کے پردے میں اپنے مخصوص سیاسی مقاصد کو بالکل اسی طرح چھپا رکھا تھا جس طرح کہ ہمارے اپنے زمانے میں لیمانائس (Lamennais) نے کیا ہے۔ اپنے مذموم سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے ان بے دینی افراد نے شورشیں برپا کرکے معاشرتی اور ملکی سکون کو برباد کردیا تھا۔ یاد رہے کہ سند باح نے ۶-۷۵۵ھ میں استاذیوں نے ۸-۷۶۶ میں اور خراسان کے محجوب پیغمبر نے ۸۰-۷۷۷ء میں علم بغاوت بلند کیا تھا۔ بعدازاں نویں صدی کے شروع میں ہم ہارون الرشید کے دو بیٹوں (مامون اور امین) کو سیاسی برتری کی خوفناک چپقلش میں بری طرح الجھا ہوا پاتے ہیں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مزد کی عقائد کے حامی بابک (۸۱۶ھ -۸۳۸ئ) کی مسلسل بغاوتوں نے اسلامی ادبیات کے زریں عہد کی فضا کو بری طرح متاثر کردیا تھا۔ مامون الرشید کے عہد حکومت کے ابتدائی سال ہمیں ایک ایسے سماجی واقعہ سے روشناس کراتے ہیں جو بہت زیادہ سیاسی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ واقعہ (شعوبیہ نزاع) اگرچہ ۸۱۵ء میں ظہور پذیر ہوا تاہم یہ خود مختار ایرانی خاندانوں … طاہریہ (۸۲۰ئ)، صفاریہ (۸۶۸ئ)، سامانیہ (۸۷۴ئ) کے قیام اور عروج کے ساتھ ترقی کرتا گیا۔ اس لیے ان اور اسی نوعیت کے دیگر حالات نے مل جل کر مذہبی عقیدت اور جوش و خروش رکھنے والے انسانوں کو اس امر پرمجبور کردیا کہ وہ مسلسل معاشرتی اور سیاسی اضطراب کے منظر کو چھوڑ کر زیادہ سے زیادہ مراقبہ کی زندگی کے مسرت خیز سکون کی تلاش میں خلوت کدوں میں چلے جائیں۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ جب انسان کو خارجی دنیا میں سکون نصیب نہ ہو تو وہ اس کی تلاش میں باطنی دنیا میں جاکر آباد ہو جاتا ہے۔ ایران کے سیاسی انتشار، ملکی عدم استحکام کی فضا، اقتدار پسندوں کی رزم آرائی اور باغیوں کی ہنگامہ خیزی نے مذہب پسندوں کو مجبور کردیا کہ وہ دنیا کے پریشان کن حالات سے منہ موڑ کر خلوت گاہوں میں جاکر سکون دل کو پانے کی کوشش کریں۔ دینوی مسائل سے یہ بے اعتنائی بھی ایرانی تصوف کے آغاز کا سبب بنی تھی۔ تَن کی دنیا سے یہ بے زاری من کی دنیا کی آبادی کا باعث بنی اور اس طرح لوگوں کی توجہ تصوف کی طرف مڑگئی۔ علامہ اقبال اس سبب کی طرف مزید اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پیروان محمدؐ کے ان قدیم زاہدوں اور عابدوں کے سامی طرز زندگی اور خیالات پر آہستہ آہستہ کم و بیش کشادہ دلی پر مبنی وحدت الوجود پر آریائی چھاپ گہری ہوتی گئی۔ آریائی اثر کی شدت حقیقت میں ایران کی روز افزوں سیاسی آزادی کے متوازی چلتی گئی۔ عربوں کے سادہ اور عمل پرستانہ طرز حیات پر بتدریج عجمی اثرات بڑھتے گئے اور تصوف کی قدیم اسلامی روایات میں بھی غیر اسلامی عناصر شامل ہونے لگے۔ (۲)عقل پرستی اور عدم یقین تصوف کی ابتدا کادوسرا سبب یہ تھا کہ مسلم عقل پرست حکما نے بعض اسلامی عقائد و نظریات کو شک و شبہ کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کردیا تھا۔ عقل پرستوں کے ان تشکیک آمیز رجحانات کا اولین اظہار ہمیں ایک قدیم ایرانی شاعر بشّار ابنِ بُرد کی نظموں میں ملتا ہے۔ یہ تشکیک پرست نابینا شاعر آگ کو خدائی درجہ دینے کے علاوہ ہر قسم کے غیر ایرانی طرز فکر کو ہدف تضحیک و تنقید بنایا کرتا تھا۔ عقل پرستی میں پنہاں شک و شبہ کے عناصر کا نتیجہ یہ نکلا کہ عقل و خرد سے بالاتر ایک ایسے ذریعۂ علم کی کشش کی ضرورت محسوس ہوئی جس نے القشیری کی کتاب رسالہ (سن تصنیف ۱۹۸۶ئ) میں اپنے دعویٰ کا حق جتلایا۔ ہمارے اپنے زمانے میں جرمن فلسفی کانٹ (Kant) کی کتاب عقل خالص کی تنقید کے منفی نتائج جیکبی (Jacobi) اور شامائر ماخر کو اس امر پر مجبور کردیا کہ وہ اپنے مذہبی اعتقادات کے ایک مثالی تصور کی حقیقت کے جذبے پر بنیاد رکھیں۔ اس طرح فکر و نظر، عقل و عشق اور دین و دانش کے درمیان اختلافات کی وسیع تر خلیج حائل ہوتی گئی۔ عقل پرستی کا خاصہ انسان کے دل و دماغ میں ظن و تخمین کے بیج بوکر اسے مایوسی کا شکار کرنا ہوتا ہے۔ ایسے پریشان کن حالات میں متلاشیان حق او رجویان صداقت عقل و خرد کی بھول بھلیوں سے نجات پانے کے لیے دین و تصوف کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اس بات کو بیان کرنے کے بعد علامہ اقبال انیسویں صدی کے مشہور و معروف رومانیت پسند برطانوی شاعر ولیم ورڈز ورتھ (William Wordsworth) کی صوفیانہ شاعری کو بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ انیسویں صدی کے اس نامور تشکیک پرست شاعر نے دماغ کی اس پراسرار کیفیت کی نقاب کشائی کی ’’جس میں ہم سراپا روح بن کر اشیا کی زندگی کو دیکھ لیتے ہیں۔‘‘ عقل چونکہ منزل مقصود نہیں بلکہ محض ایک ’’چراغ راہ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے یہ ہمیں تمام حقائق حیات سے باخبر نہیں کرسکتی۔ تصوف و معرفت کے ذریعے بقول اقبال ہم من کی دنیا میں ڈوب کر ’’سراغ زندگی‘‘ پانے کے لائق ہوجاتے ہیں۔ (۳)خشک فقہی اور عقلی بحثیں تصوف و معرفت کے فروغ کاایک سبب یہ تھا کہ مختلف فقہی مسالک کی خشک اور غیر ضروری بحثوں نے عمل پر ابھارنے والے جذبات کی قدر و قیمت او رافادیت کو کم کردیا تھا۔ فقہائے کرام کے غیر جذباتی مسائل او رمخفی فقہی خیالات نے لوگوں کے دلوں سے عمل خیزی کے جذبات کو اس قدر سرد کردیا تھا کہ وہ ذوق و شوق کی تلاش میں کوچہ تصوف میں آنے لگے۔ علامہ اقبال کا کہنا ہے کہ مامون الرشید کی وفات کے بعد لوگوں کے دلوں پر مسلم فقہا کے مختلف مکاتب فکر کے غیر جذباتی تقویٰ کی حکمرانی قائم ہوگئی تھی مگران خشک و عقلی بحثوں کی جاذبیت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی او رلوگ تصوف کی طر ف مائل ہوتے گئے۔ آئمہ اربعہ یعنی امام ابو حنیفہ (متوفی ۷۶۷ئ)، امام شافعی (متوفی۸۲۰ئ)، امام مالک (متوفی ۷۹۵ئ) او رامام احمد بن حنبل (متوفی ۸۵۵ئ) نے اسلامی آئین کی وسعت پذیری اور ارتقا کے لیے نمایاں خدمات سرانجام دی تھیں مگران کے تقلید پرست پیروکاروں نے اسے عقلی بحثوں اور فکری نزاعات کا ذریعہ بنا دیا تھا۔ علامہ اقبال کی رائے میں امام احمد بن حنبل ’’آزاد خیالی کے بدترین دشمن‘‘ تھے۔ (۴)مذہبی مناظرے مامون الرشید نے مختلف فرقوں او رمختلف عقائد و نظریات رکھنے والے نمایندہ اشخاص کے مابین مذہبی بحثوں او رمناظروں کی حوصلہ افزائی کی۔ علاوہ ازیں اشاعرہ اور عقلیت کے حامیوں کے درمیان بھی سخت مذہبی اور فلسفیانہ مجادلات کا بازار گرم ہوگیا تھا۔ اس مناظرہ بازی کا ایک اثر تو یہ ہوا کہ مذہب ان فلسفیانہ مکاتب کی تنگ حدود کے اندر مقید ہو کر رہ گیا۔ اس کا دوسرا اثر یہ بھی ہوا کہ ان فکری اور مذہبی بحث و تمحیص نے لوگوں کے اندر آزاد خیالی کی رو ح پیدا کرکے انھیں تمام معمولی فرقہ پرستانہ جھگڑوں سے بلند ہونے کا احساس دلایا۔ اس نقطہ نظر نے بھی لوگوں کوتصوف کی طرف مائل کردیا تھا۔ (۵)آزاد خیالی اور مذہب سے لاپروائی عباسی حکمرانوں کے ابتدائی دور حکومت میں عقل پرستانہ رجحانات کی بنا پر لوگوں کے دلوں میں مذہبی جوش و خروش آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا تھا۔ اس کے علاوہ دولت کی فوری کثرت نے مسلمانوں کے اعلیٰ طبقوں میں اخلاقی بے التفاقی اورمذہب سے غفلت شعاری کے جذبات و خیالات پیدا کردیے تھے۔ علامہ اقبال کے خیال میں عقل پرستی نے لوگوں کے اندر آزادی خیالی کو جنم دے کر مذہبی شیفتگی کو کم کردیا تھا۔ جب مسلمانوں کی حکومت دور دراز ملکوں تک پھیل گئی تو ان کے ہاں دولت کی ریل پیل ہونے لگی تھی۔ کثرت دولت نے ان کے اندر عیش کوشی اور مذہب سے لاپروائی کی فضا پیدا کردی۔ اسی طرح اسلام کے حقیقی چاہنے والے اس صورت حالات سے خوش نہ تھے۔ عقل پرستی اور کثرت دولت کے غلط نتائج دیکھ کر کچھ لوگ ترک دنیا، ترک لذات اور خلوت گزینی کی طرف راغب ہوتے گئے۔ (۶)عیسائی رہبانیت کا اثر عیسائیت کے وجود نے بعض مسلمانوں کے اندر یہ جذبہ پیدا کردیا کہ یہ مذہب زندگی کا پرکشش نصب العین ہے۔ علامہ اقبال اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عیسائی راہبوں کے مذہبی خیالات کی بجائے ان کی حقیقی زندگی نے دور اول کے نیک طینت اور خدا پرست مسلمانوں کے دل و دماغ کوبہت زیادہ متاثر کیا تھا۔ راہبوں نے دنیا پر آخرت اور مادہ پرستانہ نظریہ حیات پر روحانی تصور زندگی کو ترجیح دے کر اپنی زندگیوں کو اپنے مذہب کے لیے وقف کردیا تھا۔ مسلمان زاہد اور عابدان کے اس طرز عمل سے بے حد متاثر ہوئے تھے۔ ان زاہدوں اور عابدوں کا عقیدہ آخرت اگرچہ بڑا جاذب تھا تاہم ان کی مکمل رہبانیت کو علامہ اقبال اسلامی تعلیمات کی روح کے خلاف سمجھتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں: آخرت پرستی اگرچہ اپنی ذات میں بے حد پرکشش نظر آتی ہے تاہم میرے خیال میں یہ اسلام کی روح کے بالکل خلاف ہے۔ ایرانی تصوف کے آغاز اور ارتقا کے بارے میں مندرجہ بالا چھے اسباب کو بیان کرنے کے بعد علامہ اقبال اس امر پر مزید زور دیتے ہیں کہ اس قسم کا صوفیانہ ماحول اور یہ چھے اسباب ہی ایرانی تصوف کے فروغ کا اصلی سرچشمہ تھے۔ ان کی رائے میں ان حالات ہی سے ہمیں صوفیانہ تصورات کا سراغ مل سکتا ہے۔ ایسے حالات میں ایرانی ذہن کا فطری میلان وحدت الوجود اور ہمہ اوست کے نظریات کی طرف ہوگیا تھا۔ اگر ہم ایسے صوفیانہ ماحول، ایرانی ذہن کی ہمہ اوست کی طرف ذہنی جھکائو اور مندرجہ بالا امور کومدنظر رکھیں تو ہم بآسانی ایران میں تصوف کی ابتدا اور ترقی کا سراغ لگانے کے قابل ہو جائیں گے۔ ایرانی تصوف کے حقیقی اسباب پر روشنی ڈالنے کے بعد علامہ اقبال عیسائی تصوف کی ابتدا اور ارتقا کے تاریخی، معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی عوامل کو بھی زیر بحث لاتے ہیں۔ وہ مسلم اور عیسائی تصوف کے یکساں پس منظر کو بطورموازنہ پیش کرکے یہ نتیجہ نکالنے کی سعی کرتے ہیں کہ یہ دونوں تصوف کافی حد تک ایک جیسے حالات کی پیداوار ہیں۔ اس ضمن میں ان کی فکری تحقیقات کا خلاصہ یہاں بیان کیا جاتا ہے تاکہ قارئین اس دل چسپ موضوع کے تاریخی پس منظر سے بھی کسی قدر آگاہ ہوسکیں۔ /…//…/

عیسائی تصوف کا پس منظر

عیسائی دنیا میں نوافلاطونیت (Neo-Platonism) کے آغاز اور فروغ سے قبل کے اصلی حالات کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ وہاں بھی ایرانی تصوف جیسے حالات نے ویسے ہی نتائج پیدا کیے تھے۔ عیسائی دنیا پر وحشیانہ حملوں نے بادشاہوں کو مجبور کردیا تھا کہ وہ اپنے محلات کو چھوڑ کر خیمہ گاہوں میں آجائیں اور اس طرح غیر مہذب حملہ آوروں کا مقابلہ کرسکیں۔ ان حملوں نے تیسری صدی عیسوی کے نصف کے قریب زیادہ نازک صورت اختیار کرلی تھی۔ فلاطینوس (Plotinus) بذات خود (Flaccus) کے نام اپنے ایک خط میں اپنے دور کے سیاسی اضطراب کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کرتا ہے: ’’ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ ولیرین (Valerian) شکست کھا کر سپور (Sapor) کے ہاتھوں میں ہے۔ ہمارے زوال پذیر روم کے لیے فرانک المانی اور گاتھ قوموں اور ایرانیوں کی دھمکیاں یکساں طور پر خوفناک ہیں۔‘‘ (واگن کی کتاب صوفیوں کے ساتھ نصف گھنٹے صفحہ ۶۳) جب فلاطینوس نے اپنے مولد یعنی اسکندریہ کے اردگرد نظر دوڑائی تو اس نے ہر طرف رواداری اور مذہبی زندگی سے لاپروائی کے بڑھتے ہوئے آثار پائے۔ بعدازاں اس نے روم میں بھی زندگی کے بارے میں غیرسنجیدگی اور سوسائٹی کے اعلیٰ طبقات میں بھی کردار سے بے اعتنائی کو ملاحظہ کیا۔ روم اس زمانے میں مختلف قوموں کے لیے دیوتائوں کی پرستش گاہ کا درجہ حاصل کرچکا تھا۔ جب ایسے مقدس اور مشہور مرکز میں لوگوں کے کردار کا یہ حال تھا تو دیگر علاقوں کا تو ذکر ہی کیا۔ مزید برآں علم و فضل کے مراکز میں فلسفہ کو لٹریچر کی ایک شاخ کے طور پر مطالعہ کیا جاتا تھا حالانکہ اس کا مقصد کچھ اور تھا۔ علامہ اقبال رومی سلطنت میں سیاسی، اخلاقی اور مذہبی حالات کی سنگینی کوبیان کرنے کے بعد وہاں کی فکری فضا کا بھی تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔ ان کی رائے میں تشکیک پرستی (Scepticism) اور رواقیت (Stoicism) کے مایوس کن فلسفیانہ افکار نے بھی لوگوں کے اندر عیسائی تصوف میں دل چسپی پیدا کردی تھی۔ چنانچہ ایسے حالات میں فلاطینوس نے روم میں مادہ پرستانہ تصور حیات کے خلاف نوافلاطونی مکتب فکر کی بنیاد رکھی جو اشراقیت (نوافلاطونیت) کا عظیم ترین عَلم۔بردار تھا۔ یہ نئی فکری تحریک دراصل افلاطون کے خیالات اور مشرقی روحانیت کے امتزاج کی مظہر تھی۔ یونانی فلسفی پرہو (Pyrrho) نے حضرت عیسیٰؑ کی آمد سے تین صدیاں بیشتر تشکیک پرستی کی بنیاد ڈالی تھی۔ بعد میں جب اینٹیاکس (Antiochus) نے اس میں رواقیت کی آمیزش کی تو سیکٹس ایمپریکس (Sextus Empiricus) نے برافروختہ ہو کر پرہو کی اصل تشکیک پرستی کا پرچار شروع کردیا تھا۔ ان تمام حالات سے برگشتہ ہو کر فلاطینوس مجبوراً فلسفہ سے بالاتر الہامی ذریعہ علم میں صداقت کو تلاش کرنا شروع کردیا تھا۔ علامہ اقبال فلاطینوس کی اس جستجوئے حق کو یوں بیان کرتے ہیں: ’’ذہنی ناامیدی نے فلاطینوس کو فلسفہ سے بالاتر وحی میں حقیقت کو پانے پر مجبور کردیا۔‘‘ عیسائی تصوف میں دل چسپی کی ایک وجہ رواقی فلسفہ اخلاق کی سخت غیر جذباتی نوعیت او رپیروان عیسیٰؑ کی محبت خیز پرہیزگاری بھی تھی۔ حضرت عیسیٰؑ کے یہ فدائی طویل اور خوفناک ظلم و ستم سے بے خوف ہوکر تمام رومی سلطنت میں امن اور محبت کے پیغام کی کی تبلیغ کررہے تھے۔ اس بات نے کافرانہ خیالات کو ایسے انداز میں بیان کرنا لازم بنادیا جو زندگی کے قدیم مثالی نصب العین کی تجدید کرکے اسے لوگوں کے نئے روحانی تقاضوں کے مطابق ڈھال سکے۔ یاد رہے کہ عیسائیت کی اخلاقی قوت نوافلاطونیت سے بڑھ کر لوگوں کو متاثر کررہی تھی۔ اس لحاظ سے نوافلاطونی تصورات عیسائیت کے سادہ، عام فہم اور زیادہ جاذب اخلاقی اُصولوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ عیسائی مذہب کی تعلیمات کی عوامی مقبولیت کا سبب یہ تھا کہ نوافلاطونیت اپنی مابعدالطبیعیاتی نوعیت کے باعث زیادہ تر لوگوں کے لیے کوئی خاص پیغام نہیں رکھتی تھی۔ علاوہ ازیں یہ غیر مہذب اور وحشی لوگوں کی رسائی سے باہر تھی۔ اس کے برعکس وحشی لوگ اورحاکم ستم رسیدہ عیسائیوں کی حقیقی زندگی اور خوبیوں سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش عیسائیت ہوگئے اور وہ قدیم نظام کے کھنڈرات کی کوکھ سے نئی سلطنتوں کی تعمیر کے درپے ہوگئے۔ فلسفہ و مذہب اور عقل و عشق کا فرق واضح کرنے کے لیے علامہ اقبال یہاں یہ بجا کہتے ہیں: وجد و مستی کا وہ عنصر جو چند ذہنوں کو متاثر کرسکتا تھا اسے بعدمیں آنے والے مبلغینِ نوافلاطونیت نے پس منظر میں دھکیل دیا تھا نتیجہ یہ نکلا کہ نوافلاطونیت ایک ایسا فلسفیانہ نظام بن کر رہ گئی جس میں انسانی دل چسپی مفقود ہوگئی۔‘‘ اپنے اس نقطہ نگاہ کے ثبوت میں وہ وہٹاکر (Whittaker) کی کتاب سے مندرجہ ذیل اقتباس پیش کرتے ہیں۔ یہ مصنف نوافلاطونیت پر صوفیانہ جذب و مستی کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتا ہے: صوفیانہ وجد کا حصول اس مکتب فکر کے آیندہ معلمین کے لیے دشوار تر ہوتا گیا اور ان کے اندر یہ رجحان زورپکڑتا گیا کہ اسے زمین پر حاصل کرنا ناممکن ہے۔‘‘ (وہٹاکر، نوافلاطونیت، صفحہ ۱۰۱) عیسائی تصوف کے تاریخی پس منظر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے کے فوراً بعد علامہ اقبال ایرانی تصوف سے اس کا موازنہ اور مقابلہ شروع کردیتے ہیں تاکہ ہم ان دونوں نظریہ ہائے حیات کے مشترک اور غیر مشترک امور سے کسی حد تک واقف ہوسکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران میں مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے باہمی ملاپ اور خیالات کی باہمی بارآوری کے اثر نے خاص مسلمانوں کے ذہنوں میں ایک مبہم آرزو پیدا کردی کہ وہ عیسائیوں کی طرح اسلامی افکار و تعلیمات کو اسی انداز میں بیان کریں جیسا کہ ان سے قبل انھوں نے کیا تھا۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے انھوں نے بتدریج عیسائی تصورات اور عیسائی لاادری (Gnostic) افکار یعنی عیسائی باطینت کے عناصر کو اسلامی تعلیمات میں جذب کردیا اور قرآن میں اس کے جواز کے لیے ایک مضبوط بنیاد بھی تلاش کرلی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نوافلاطونیت کے فلسفیانہ افکار و نظریات رومی حکمرانوں کو اپنا گرویدہ اور حلقہ بگوش نہ بناسکے۔ اس کے علاوہ علی الرغم عیسائی اخلاقیات نے انھیں اپنے مذہب میں شامل ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ اس لحاظ سے فلسفہ یونان عیسائیت کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عربوں نے اپنی عسکری طاقت کے بل بوتے پر ایرانیوں کو مغلوب کرلیا تھا مگر بعض ایرانی ذہن باطن میں چند ایرانی اقدار و افکار کے حامی ہی رہے۔ عیسائیت نے تو فلسفہ یونان کے گلہائے تازہ کو پژمردہ بنا دیا مگر اسلام ایران میں آکر عجمیت کے سانچے میں ڈھل گیا۔ اس کی گوناگوں وجوہات کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتیں تاہم اس امر واقعی کی ثقافتی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ امام ابن تیمیہ نے اسلامی عقائد و افکار کی تطہیر کے لیے قابلِ قدر خدمات سرانجام دی تھیں مگر ان کی تقریر و تحریر کا تندو تیز لہجہ عجمیت کی شیریں گفتاری کو رام نہ کرسکا۔ علامہ اقبال عرب و عجم کی اس چپقلش اور فلسفہ یونان و عیسائیت کی اس تاریخی آویزش کو اپنے مخصوص فکر انگیز انداز میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فلسفۂ یونان کا پھول عیسائیت کی ہوا کے سامنے مرجھا گیا لیکن ابن تیمیہ کی طعن آمیز تحریر کی باد سموم ایرانی گلاب کے پھول کی تازگی کامقابلہ نہ کرسکی۔ وحشیانہ حملوں کے طوفان نے ایک کو مکمل طور پر مٹا دیا مگر دوسرا تاتاری انقلاب سے غیر متاثر ہو کر اب تک اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اسلامی تعلیمات کی صوفیانہ تعبیر کی غیر معمولی طاقتِ حیات اس وقت واضح ہوتی ہے۔ جب ہم تصوف کی ہمہ گیر ساخت پر غور و خوض کرتے ہیں۔ نجات کے سامی فارمولے کو ان مختصر الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے: ’’تم اپنے ارادے میں تبدیلی پیدا کرلو۔‘‘ اس مقولے سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ سامی (Semitic) انسان ارادے کوانسانی روح کا جوہر تصور کرتا ہے۔ اس کے برعکس ویدانت کا پرستار انڈین ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہماری تمام تکالیف کائنات کے بارے میں ہمارے غلط انداز فکر کا نتیجہ ہوا کرتی ہیں۔ اس لیے وہ ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ ہم اپنے فہم و ادراک کوبدل ڈالیں۔ اس سے اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ انسان کی اصل فطرت عمل یا ارادہ کی بجائے فکر پر مشتمل ہے۔ فکر اَور ارادہ پر احساس اور جذبے کو علامہ اقبال ترجیح دیتے ہوئے صوفیانہ تصور زندگی پر یوں روشنی ڈالتے ہیں: لیکن صوفی کی رائے یہ ہوتی ہے کہ صرف ارادے یا ادراک کی تبدیلی ہمیں سکون قلب نہیں دے گی اس لیے وہ کہتا ہے کہ ہمیں اپنے احساس میں کامل انقلاب پیدا کرکے ان دونوں کی کایا پلٹنی چاہیے۔ ارادہ اور ادراک تو احساس کی محض خالص صورتیں ہیں۔ اس کے بعد وہ صوفی کے پیغام محبت اور درس دل جوئی کے بارے میں اظہار خیال کرکے کہتے ہیں کہ انسان کے نام صوفیا کا پیغام یہ ہوتا ہے۔ تم سب سے محبت کرو اور دوسروں کے ساتھ نیکی کرتے ہوئے اپنی انفرادیت کوبھول جائو۔ رومی کہتا ہے: ’’دوسرے انسانوں کے دلوں کو موہ لینا حج اکبر ہے۔ ایک دل کی تسخیر ہزاروں کعبوں سے بڑھ کر ہے کیوں کہ کعبہ تو محض ابراہیمؑ کی جھونپڑی ہے اور دل خدا کا حقیقی گھر ہے۔‘‘ علامہ اقبال نے غلطی سے اس قول کو مولانا روم سے منسوب کیا ہے حالانکہ شیخ سعدی نے ایسا کہا تھا۔ شیخ سعدی کے جن دو اشعار کو علامہ اقبال نے نثر کا جامہ پہنا کر پیش کیا ہے، وہ یہ ہیں: دل بدست آور کہ حج اکبر است از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است کعبہ بنگاہِ خلیلِ آذر است دل گزر گاہِ جلیلِ اکبر است ممکن ہے طباعت کی غلطی کی وجہ سے سعدی کی بجائے رومی کا نام کتاب میں آگیا ہے۔ بہرحال صوفیا انسانی دل کی تسخیر اور عظمت کے بے حد قدر دان ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال جذبے کو فکر و عمل پر ترجیح دینے کے بعد صوفیانہ نظریہ حیات کی فکری تعبیر و توضیح کی ضرورت کے بھی قائل دکھائی دیتے ہیں اسی لیے وہ فرماتے ہیں کہ یہ صوفیانہ اُصول عقلی تشفی اور عمل کے ضابطہ ہدایت کے اعلیٰ نصب العین کے مابعدالطبیعیاتی جواز کے لیے کیوں او رکیسے کا متقاضی ہے۔ وہ اس امر کے قائل ہیں کہ تصوف ان دونوں سوالوں کا جواب مہیا کرتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ انسانی افکار و اعمال کو احساسات و جذبات کے تحت سمجھتے ہیں اور تصوف میں اسلامی تعلیمات اور ہندومت کے بعض نظریات کی آمیزش کا بھی اعتراف کرتے ہیں جیسا کہ ان کے درج ذیل الفاظ سے صاف ظاہر ہے۔ وہ ایرانی تصوف میں اسلامی اور ہندوانہ آمیزش پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: سامی مذہب عمل کے لیے سخت اُصولوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے برعکس ہندی ویدانت جذبات سے عاری نظامِ افکار ہے۔ تصوف ان دونوں کی نامکمل نفسیات سے اپنا دامن چھڑاتے ہوئے عشق و محبت کے برتر درجے میں سامی اور آریائی دونوں اُصولوں کو آپس میں جوڑ دیتا ہے۔ ایک طرف تو یہ نروان (فنا۔نیستی) کے بدھ تصور کو اپنے اندر جذب کرکے اس نظریے کی روشنی میں اپنے مابعدالطبیعیاتی نظام کی تعمیر کی کوشش کرتا ہے اور دوسری طرف یہ اپنے آپ کو اسلام سے جدا نہ کرتے ہوئے اپنے تصور کائنات کا جواز قرآن حکیم میں پاتا ہے۔ یہ اپنے گھر کی جغرافیائی حیثیت کی طرح سامی اور آرین نظاموں کے درمیان واقع ہو کر دونوں اطراف کے تصورات کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور ان پر اپنی انفرادیت کی مہر لگا دیتا ہے۔ تصوف کی یہ چھاپ مجموعی طور پر سامی سے زیادہ آریائی نوعیت کی ہے۔ اس اقتباس سے حضرت علامہ کے نظریہ تصوف کی ایک جھلک کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ وہ ایرانی تصوف کو فکر و عمل کے علاوہ جذبۂ عشق پر بھی مبنی خیال کرکے اس کی قوت حیات کا راز انسانی فطرت کے کامل تصور میں نہاں پاتے ہیں۔ چونکہ صوفیانہ تصور مکمل طور پر انسانی فطرت کی جاذبیت اور تاثیر کا حامل ہے اس لیے یہ سخت قسم کے مذہبی لوگوں کی ستم رانیوں اور سیاسی انقلابیوں کے باوجود بھی زندہ رہا ہے۔ یہ بات اس حقیقت پر شاہد ہے کہ اگر اس میں اتنی طاقت اور ہمہ گیر اپیل نہ ہوتی تو یہ کبھی بھی آج تک قائم و دائم نہ رہتا۔ مفکر اسلام علامہ اقبال سامی اور آریائی تصورات زندگی کے اختلاف کی اس بحث کو سمیٹتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ فنائے ذات کو زیادہ تر اپنی دل چسپی کا مرکز توجہ بنانے کے علاوہ تصوف فکر آمیز اور فلسفہ طراز میلانات کو بھی آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ /…//…/

اسلامی تصوف کی قرآنی بنیاد

علامہ اقبال تصوف کے بارے میں اب اس کی قرآنی اساس پر بھی روشنی ڈالتے ہیں تاکہ اسے محض عجمی، عیسائی، یونانی اور ہندی اثرات و اسباب ہی کا مجموعہ خیال نہ کیا جائے۔ وہ یہاں بڑے اختصار کے ساتھ ان قرآنی آیات کا حوالہ بھی دیتے ہیں جو صوفی مصنّفین اپنے متصوفانہ نظریات کے جواز میں پیش کرچکے ہیں۔ حضرت علامہ کا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس مفروضے کی تائید میں ہمیں کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا کہ پیغمبر عربؐ نے واقعی حضرت علیؓ یا حضرت ابوبکر صدیقؓکو خاص مخفی اُصول بتائے تھے۔ اس تاریخی عدم ثبوت کے باوجود صوفی اس بات پر جھگڑتا ہے کہ رسول کریمؐ مخفی علم یعنی ’’حکمت‘‘ کے مالک تھے اور یہ ’’حکمت‘‘ قرآن حکیم میں بیان کردہ تعلیم سے ممیّز ہے۔ وہ اپنی اس بات کی تائید میں قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت پیش کرتا ہے۔ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلاً مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزِکِّیْکُمْ وَ یُعَلِّمُکُم الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَِۃَ و یُعَلِّمُکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ہم نے تم میں سے تمھاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تمھیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے، تمھیں پاکیزہ بناتا ہے اور تمھیں قرآن کی تعلیم حکمت دینے کے علاوہ تمھیں وہ کچھ سکھاتا ہے جس سے تم پہلے واقف نہیں تھے۔ (البقرۃ،۲:۱۴۶) صوفی اس امر پر بحث کرتا ہے کہ اس آیت میں مذکورہ ’’حکمت‘‘ قرآن حکیم کی تعلیم میں شامل نہیں ہے اور رسول کریمؐ نے بار بار اعلان کیا ہے کہ ان سے بیشتر کئی انبیا کو ایسی حکمت عطا کی گئی تھی۔ صوفی مزید کہتا ہے کہ اگر ’’حکمت‘‘ کو قرآن میں شامل خیال کیا جائے تو پھر لفظ ’’حکمت‘‘ اس آیت میں حشو و زوائد سمجھا جائے گا۔ صوفیا کے نظریہ علم مخفی اور تصور حکمت کی بحث کے دوران میں علامہ اقبال تصوف کی اسلامی بنیاد میں پختہ یقین رکھتے ہوئے یہ فرماتے ہیں: میرے خیال میں اس امر کو آسانی سے ظاہر کیا جاسکتا ہے قرآن حکیم اور مستند احادیث میں صوفیانہ اُصول کے ایسے بیج موجود ہیں جو عربوں کی کلیتاً عملی ذہانت کے باعث عرب میں نشو و نما پاکر بارآور نہ ہوسکے لیکن دیار غیر کے سازگار حالات میں ایک واضح اُصول کی شکل اختیار کرگئے۔ اس کے بعد حضرت علامہ کہتے ہیں کہ قرآن مسلمانوں کی تعریف یوں بیان کرتا ہے: ’’متقی لوگ وہ ہیں جو غیب میں ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (دوسری سورت، آیت نمبر۲) وہ قرآنی آیت یہ ہے: وَالَّذِیْنَ یُؤمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ غیب کیا اور کہاں ہے؟ قرآن اس سوال کا جواب دیتا ہے کہ یہ غیب تمھاری اپنی روح میں ہے۔ یہ جواب ان قرآنی آیات سے ماخوذ ہے: ایمان لانے والوں کے لیے زمین میں اور تمھارے نفوس میں نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ کیا تم ان نشانیوں کو نہیں دیکھتے ہو۔ وَ فِیْٓ الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِلّمُؤمِنِیْنَ وَ فِیْ اَنْفُسِکُمْ۔ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔[الذاریات: ۲۰-۲۱] قرآن مزید کہتا ہے: ’’ہم اس (انسان) کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘ (ق:۱۶) نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد۔ اس طرح اللہ کی یہ پاک کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ غیب کی اصل نوعیت پاکیزہ روشنی ہے۔ حکم خداوندی ہے: اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یعنی: ’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔‘‘ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے یہ نور اولین (Primal Light) ذاتی ہے یا نہیں تو قرآن حکیم ذات خداوندی کے مفہوم کو ظاہر کرنے والے کئی بیانات کے باوجود چند الفاظ میں یہ ارشاد فرماتا ہے: ’’اللہ کی مانند کوئی شے بھی نہیں ہے۔‘‘ (الشوریٰ: ۱۱) اس قرآنی آیت کی عربی عبارت یہ ہے: لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ قرآن حکیم اور چند غیر مذکورہ احادیث کی روشنی میں علامہ اقبال متصوفانہ نظریات کا جواز پیش کرنے کے بعد صوفی شارحین کے مزید دل چسپ خیالات کا خلاصہ ہدیہ قارئین کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں مندرجہ بالا آیات قرآن کی ان آیات میں سے ہیں جنھیں سامنے رکھ کر مختلف صوفی شارحین کائنات سے متعلق وحدۃ الوجودی نظریات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ صوفیا روحانی تربیت کے چار اہم مدارج بیان کرتے ہیں جن میں سے گزر کر روح انسانی عام انسانوں کی سطح سے بلند ہوتی ہے اور آخرکار تمام اشیائے کائنات کے آخری منبع (خدا) کا وصال اور قرب حاصل کرلیتی ہے۔ روح یعنی نور اولین کے امریا عقل کی نوعیت پر قرآن ان الفاظ میں روشنی ڈالتا ہے: ’’اے رسولؐ! آپ کَہ دیجیے کہ روح اللہ کا امر یا عقل ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۸۵) قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ۔قرآن میں لفظ امر تو استعمال ہوا ہے مگر اسے یہاں عقل (Reason) نہیں کہا گیا۔ معلوم نہیں علامہ اقبال نے اس کا ترجمہ ’’امر‘‘ کے علاوہ ’’عقل‘‘ کیوں کیا ہے۔ روحانی تربیت کے چار اہم صوفیانہ اُصول یہ ہیں: غیب میں ایمان (ایمان بالغیب)۔ غیب کی جستجو۔ غیب کا علم۔ حصول مقصد غیب۔ علامہ اقبال صوفیانہ نظریہ غیب کی وضاحت میں کچھ نہیں کہتے مگر وہ دوسرے نظریہ جستجوئے غیب یعنی خدا تعالیٰ کی تلاش کے تصور کی توضیح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مختلف حیرت انگیز مظاہر فطرت کا مطالعہ و مشاہدہ کرکے تحقیقات کی روح اپنی گہری نیند سے بیدار ہو جاتی ہے۔ مشاہدہ نہ کرنے سے علمی تحقیقات میں کوئی ترقی نہیں ہوتی کیوں کہ ذہنی جمود اور روحانی جمود خواب گراں کے مترادف ہیں جن میں انسان نہ صرف اردگرد کی دنیا و مافیہا سے بے خبر رہتا ہے بلکہ وہ اپنی بیداری اور شعور ذات سے بھی آگاہ نہیں ہوسکتا۔ قرآن حکیم میںمشاہدہ کائنات اور مطالعہ فطرت پر بار بار زور دیا گیا ہے تاکہ ہم خدا تعالیٰ کی تخلیقی صلاحیت اور شان ربوبیت کے تعجب خیز واقعات اور بصیرت افروز معجزات دنیائے رنگ و بو میں دیکھ کر اس کی کبریائی اور کاریگری کے معترف ہوں اور اس کی اطاعت اختیار کرلیں۔ قرآن حکیم کی یہ آیت یہاں بطور مثال پیش کی جاتی ہے۔ ’’اونٹ کی تخلیق پر غور کرو، یہ بھی دیکھو کہ آسمانوں کو کیسے بلند بنایا گیا ہے اور پہاڑوں کو کس طرح مضبوطی سے گاڑ دیا گیا ہے۔‘‘ (الغاشیہ: ۱۷-۱۹) اس آیت محکم کی عربی عبارت بھی ملاحظہ ہو۔ اَفَلاَ یَنْظِرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقْتْ وَ اِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْ وَ اِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ۔ مطالعہ آفاق کو علامہ اقبال نے صوفیوں کی نظر میں جستجوئے غیب، کا نام دیا ہے۔ غیب کی یہ جستجو در حقیقت دکھائی نہ دینے والے خلاق کائنات کی ہستی کے سراغ کا دوسرا نام ہے۔ وہ صوفیانہ تصور غیب کے تیسرے اُصول یعنی علم الغیب کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے اسے مطالعہ نفس کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ خدا کو ہم اپنی عاجز ظاہری آنکھوں سے دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے تاہم ہم اس کے حسن اور کاریگری کے نادرخارجی مظاہر کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس مطالعہ آفاق کے علاوہ مطالعہ انفس بھی ہمیں خدا کی قدرت کاملہ اور ہستی کا احساس دلاتا ہے۔جب ہم اپنے باطن کی دنیا میں جھانکتے ہیں تو ہمیں اس غیبی ہستی (خدا) کا سراغ مل جاتا ہے۔ اسے علامہ اقبال کے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے: اپنی روح کی گہرائیوں میں دیکھنے سے ہمیں غیب کا علم حاصل ہو جاتا ہے۔ روحانی تربیت کا آخری مرحلہ یہ ہے کہ انسان اپنے اصل مقصد کو حاصل کرلیتا ہے۔ اعلیٰ درجے کی صوفیا کی رائے میں عدل اور احسان کا لگاتار مشق سے یہ نتیجہ برآمد ہوا کرتا ہے۔ اس ضمن میں وہ قرآن کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں جس میں عدل،نیکی اور اقربانوازی کا حکم دے کر گناہ، برائی اور ظلم سے روکا گیا ہے۔ وہ قرآنی آیت یہ ہے: ’’بلاشبہ خداتعالیٰ تمھیں عدل اور نیکی کا حکم دیتا ہے اور تمھیں اقربا کا حق دینے اور معصیت، بدی اور ظلم سے رکنے کا بھی حکم دیتا ہے۔‘‘ (النحل: ۹۰) اِنَ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وِ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبیٰ وَ یَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَ الْمُنْکَرِ وَ الْبَغِْی یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔ خدا کی جستجو اور وصال کے ان چار اہم روحانی مراتب تربیت کو بیان کرنے کے بعد ترجمان حقیقت علامہ اقبال قرب ایزدی کے حصول کے لیے تصوف میں غیر اسلامی افکار کی آمیزش کو پسند نہیں کرتے۔ اس بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعد میں آنے والی صوفی برادریوں (مثلاً نقشبندی مکتب فکر) نے قرب الٰہی کو پانے کے لیے یا تو دوسرے ذرائع استعمال کیے یا انھوں نے ہندی دیدانت کے خیالات مستعار لیے۔ انھوں نے کندلینی (Kundalini) کے ہندوانہ نظریے کی نقل کرتے ہوئے یہ تعلیم دی کہ انسانی جسم میں مختلف رنگو ںکے چھ بڑے نورانی مراکز ہیں۔ ان کے خیال میں صوفی کا مقصد ان رنگوں کو مراقبہ کے خاص طریقوں کے ذریعے حرکت میں لانا یا ان کی فنی اصلاح میں ’’لہر‘‘ پیدا کرنا ہے اور آخرکار رنگوں کی واضح کثرت کے درمیان اس بنیادی بے رنگ نور کو حاصل کرنا ہے جو بذات خود نادیدنی ہونے کے باوجود ہر ایک چیز کو دیدنی بنا دیتا ہے۔ جسم میں سے روشنی کے ان مراکز کی لگاتار حرکت اور خدا کے مختلف اسما اور پراسرار اذکار کی آہستہ آہستہ تکرار سے جسم کے جواہر (Atoms) حرکت کے خاص راستوں پر آکر آخر کار اپنی کامل یکسانیت کے حامل بن جاتے ہیں۔ اس طرح ان نورانی مراکز اور ان کی مطابقت کے آخری حصول کی وجہ سے صوفی کا سارا جسم منور ہو جاتا ہے اور خارجی دنیا میں اسی روشنی کا احساس مکمل طور پر ’’غیریت‘‘ (دوئی) کا احساس مٹا دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہندوانہ طریقے ایرانی صوفیا کو معلوم تھے مگر مشہور مستشرق وان کریمر کو جو تصوف کے سارے انوکھے واقعہ کو ویدانتی اثرات پرمبنی خیال کرتا تھا۔ یہ غلط فہمی ہوگئی کہ گیان دھان کے ایسے طریقے بالکل غیر اسلامی نوعیت رکھتے ہیں۔ یہاں اس امر کی وضاحت لازمی ہے کہ اعلیٰ درجے کے صوفیا مراقبے کے ان طریقوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ تاہم تصوف میں ہندی ویدانت کے مستعار خیالات کے بارے میں علامہ اقبال ویبر (Weber) کا مندرجہ ذیل قول پیش کرتے ہیں جو فی الحقیقت لیسن (Lassen)کی سند پر مبنی ہے۔ ویبر کہتا ہے: ’’البیرونی نے گیارھویں صدی کے آغاز میں پتن جلی (Patanjali) کی کتاب کا عربی ترجمہ کیا تھا… ‘‘ (ویبر، انڈین لٹریچر کی تاریخ، صفحہ ۲۳۹) علامہ اقبال بذات خود ایرانی تصوف میں ہندی اور دیگر غیر اسلامی افکار و نظریات کی آمیزش کے تو قائل ہیں مگر وہ تصوف کو سراسر ہندی ویدانت کا چربہ خیال کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ (۲)صوفیانہ مابعدالطبیعیات کے پہلو مسلم اور غیر مسلم تصوف کی اصل کے تاریخی عوامل اور دیگر متعلقہ امور کا اس موضوع کے پہلے حصے میں تفصیلی جائزہ لیا گیا تھا۔ اب مفکر اسلام علامہ اقبال ایرانی تصوف کے مابعدالطبیعیاتی مکاتب فکر اور فلسفیانہ پہلوئوں کا تین پہلوئوں سے جائزہ لینے کے لیے کافی تفصیل سے کام لیتے ہیں۔ ان کی رائے میں صوفیانہ لٹریچر کی بغور تحقیق کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تصوف نے حقیقت مطلقہ (Ultimate Reality) یعنی خدائے لم یزل کو جن تین پہلوئوں سے دیکھا ہے وہ فی الاصل ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل و تائید کرتے ہیں۔ خدا کے بارے میں صوفیا کے ان تین اہم پہلوئوں کو صوفیانہ ادبیات میں نمایاں ترین مقام حاصل ہے۔ اگر ان کو تصوف کے تین ستون قرار دیا جائے تو اس میں ہرگز کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ بعض صوفیا اس حقیقت غائی (خدا) کو شور ذات کی حامل مشیت (Self-Conscious Will) خیال کرتے ہیں، دوسرے صوفیا اسے حسن کامل قرار دیتے ہیں جب کہ صوفیا کے تیسرے گروہ کی رائے میں یہ حقیقت کاملہ بنیادی طور پر خیال، نور یا علم کی حامل ہے۔ اس لحاظ سے خدا کے بارے میں صوفیانہ نظریات کے تین پہلو یا مکاتب فکرپائے جاتے ہیں۔ اب ذیل میں ان تین پہلوئوں پرکسی قدر روشنی ڈالی جائے گی۔ شعور ذات پر مبنی مشیت کی حامل حقیقت اس مکتب خیال کے حامیوں میں تاریخی ترتیب سے جو حضرات سرفہرست آتے ہیں ان کے اسمائے گرامی شفیق بلخی، ابراہیم ادہم اور رابعہ بصری ہیں۔ یہ مکتب فکر حقیقت مطلقہ (خدا) کو مشیت (Will) اور کائنات کو اس مشیت ایزدی کی محدود فعالیت (سرگرمی) سمجھتا ہے۔ اس کا یہ تصور خدا اور یہ نظریہ کائنات اساسی طور پر توحید پرستانہ (Monotheistic) ہے اور اس توحید پرستی کے سبب یہ اپنی نوعیت میںزیادہ تر سامی ہے۔ اس گروہ کے عَلم۔بردار صوفیا کا نصب العین حصول علم کی شدید خواہش نہیں بلکہ ان کی زندگی کی حقیقی خصوصیات تقویٰ، آخرت اور اپنے احساسِ معصیت کی بنا پر خدا کی شدید ترین آرزو ہے۔ دور اول کے ان ممتاز ترین صوفیاکی عملی زندگیاں خوف خدا، عشق الٰہی، فکر عقبیٰ، پرہیزگاری، سادگی، زہد و ریاضت اور خدا طلبی کی آئینہ دار تھیں۔ ان کا صوفیانہ مسلک زہد و عبادت کا عکاس تھا اور اس میں فلسفیانہ بحثوں کو کوئی دخل نہ تھا۔ علامہ اقبال نے اسی لیے اس کی نوعیت کو سامی (Semitic) قرار دیا ہے۔ ان بزرگوں کا مقصد فلسفہ طرازی اور نکتہ آفرینی کی بجائے زندگی کا ایک خاص عملی اور مثالی نصب العین تراشنا تھا۔ چونکہ ان کا صوفیانہ نظام فکری بحثوں اور فلسفیانہ افکار کی آمیزش سے عاری ہے اس لیے حضرت علامہ مابعدالطبیعیاتی نقطہ نگاہ سے اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ حقیقت بطور حسن نویں صدی عیسوی کے آغاز میں معروف کرخی نے تصوف (Sufism) کی تعریف کرتے ہوئے اسے ’’ایزدی حقائق کا ادراک‘‘ قرار دیا تھا۔ تصوف کی اس تعریف نے صوفیانہ تحریک کا رخ ایمان سے علم کی طرف موڑ دیا تھا۔ تصوف کی اس تعریف نے صوفیانہ تحریک کا رخ ایمان سے علم کی طرف موڑ دیا تھا۔ ابتدائی دور کے صوفیا تصوف کو ایمان کی مضبوطی کے لیے اختیار کرتے تھے مگر بعد میں آنے والے صوفیوں نے اسے خدائی حقائق و معارف کو سمجھنے کا ذریعہ بنالیا۔ اس طرح متقدمین اور متاخرین کے نظریہ تصوف میں بھی تبدیلی رونما ہوگئی۔ حقیقت مطلقہ کو علم کے ذریعے جاننے کے طریق کو صحیح طور پر دسویں صدی عیسوی کے آخر میں القشیری نے بیان کیا تھا۔ اس تصور کے مبلغین نے درمیان میں حائل ہونے والے ذرائع کی بنا پر تخلیق کے نو افلاطونی اور اشراقی نظریے کو اختیار کرلیا تھا۔ اگرچہ یہ نظریہ کافی مدت تک صوفی مصنفین کے اذہان میں موجود رہا تاہم ان کے نظریہ ہمہ اوست (Panthcism) نے انھیں ان کے پرانے نظریہ ظہور (Emanation Theory) کوچھوڑنے پر مجبورکردیا تھا۔ بو علی سینا کی مانند وہ حقیقت مطلقہ کو ’’حسن ازلی‘‘ خیال کرتے تھے جس کی ذات اپنے ’’چہرے‘‘ کو آئینہ کائنات میں منعکس دیکھنے کی خوگر ہے۔ اس لیے ان کی رائے میں یہ کائنات ’’حسن ازلی‘‘ کا پرتو بن گئی۔ اب وہ نوافلاطونیت اور اشراقیت کے حامیوں کی طرح اسے خدا کے حسن و جمال کا ظہور تصور نہیںکرتے تھے۔ میر سید شریف کا قول ہے کہ تخلیقِ کائنات کا سبب حسن مطلق کا ظہور ہے اور سب سے پہلے جس شے کو پیدا کیا گیا وہ عشق تھا۔ اس حسن ازل کو عالم گیر عشق و محبت کے ذریعے پایا جاتا ہے۔ عشق و محبت کو ایرانی صوفی نے اپنی فطرتی زرتشتی جبلت کی بنا پر ’’خدا کے سوا ہر چیز کو جلا دینے والی مقدس آگ‘‘ قرار دیا۔ مولانا رومی فرماتے ہیں: اے عشق! تو ایک خوشگوار دیوانہ پن ہے۔ توہماری جملہ بیماریوں کا طبیب ہے۔ اے عشق! تو ہمارے غرور و نخوت کو صحت یاب کرنے والا ہے۔ تو ہماری ارواح کا افلاطون اور جالینوس ہے۔ (مثنوی جلال الدین رومی مع شرح بحر العلوم،لکھنؤ ،انڈیا،۱۸۷۷ئ، صفحہ۹۔) علامہ اقبال نے عجمی صوفیا کے نظریہ عشق و محبت کو بیان کرتے ہوئے ان کے ایک ایسے مشہور قول کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں انھوں نے عشق کو آگ سے شبیہ دی تھی۔ ان کا وہ مقولہ یہ ہے: العشق نار یحرق ما سو اللّٰہ’’یعنی عشق ایک ایسی آگ ہے جو ماسوا اللہ کو جلا دیا کرتی ہے۔‘‘ انھوں نے مولانا روم کے نظریہ عشق کے اظہار میں صرف ان کے دو مشہور اشعار کا ترجمہ اس کتاب میں دیا ہے اور وہ اشعار درج نہیں کیے۔ قارئین کرام کی آگاہی کے لیے مولانا رومی کے وہ دو اشعار یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔ وہ عشق و محبت کی ہمہ گیر افادیت و عظمت کی یوں مدح سرائی کرتے ہیں:

شاد باش اے عشقِ خود سودائے ما

اے طبیبِ جملہ علت ہائے ما

یا دوائے نخوت و ناموس ما

یا تُو افلاطون و جالینوس ما

(رومی)

علامہ اقبال صوفیوں کے تصور حسن پر مزید بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کائنات کے اس قسم کے نظریے کا براہ راست نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں پہلی بار بایزید بسطامی میں غیر ذاتی جذب و انہماک کانظریہ ملتا ہے جس نے بعدازاں اس مکتب فکر کی ترقی کے نمایاں خدوخال کی تشکیل کی تھی۔ ممکن ہے کہ اس تصور کی نشو و نما پر ان ہندو یاتریوں نے اثر ڈالا ہو جو باکو میں ابھی تک واقع بدھ مندر تک پہنچنے کے لیے اپنے سفر کے دوران میں ایران سے ہو کر گزرا کرتے تھے۔ اپنے اس قول کی تائید میں علامہ اقبال گیگر (Geiger) کی کتاب مشرقی ایرانیوں کی تہذیب سے مندرجہ ذیل اقتباس پیش کرتے ہیں۔ گیگر بدھ مت کی ترقی اور ایران میں اس کے اثر و نفوذ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے: ہمیں یہ امر معلوم ہے کہ سکندر اعظم کے بعد والے دور میں بدھ مت مشرقی ایران میںکافی طاقت۔ور تھا۔ اس مذہب کے ماننے والے طبرستان جیسے دور دراز علاقے تک بھی پھیلے ہوئے تھے۔ یہ بات خاص طور پر یقینی ہے کہ بدھ مت کے بہت سے پروہت باختر میں پائے جاتے تھے۔ یہ صورت حالات غالباً ایک صدی قبل از مسیح سے شروع ہو کر ساتویں صدی بعد از وفات مسیح تک قائم رہی۔ اس کے بعد مذہب اسلام کے ظہور نے کابل اور باختر میں بدھ مت کی ترقی کی رفتار مدھم کردی۔ یہ وہی دور ہے جس میں ہمیں دقیقی (Daqiqi) کی پیش کردہ زرتشتی روایات کے فروغ کا سراغ ملتا ہے۔ (مشرقی ایرانیوں کی تہذیب، جلد دوم، صفحہ ۱۷۰) یہ مکتب فکر حسین منصور حلاج کے ہاتھوں وحدۃ الوجود پرستانہ نظریات کا آئینہ دار تھا۔ حسین منصور حلاج نے ہندی ویدانت کی حقیقی روح کے مطابق یہ نعرہ بلند کیا۔ ’’انا الحق‘‘ یعنی میں خدا ہوں… ہندی ویدانت میں یہ کہا جاتا ہے۔ ’’اہم برہما اسمی‘‘۔ اس مکتب خیال کے صوفیوں کی رائے میں حقیقت مطلقہ یا حسن ازلی اس مفہوم میں غیر محدود ہے کہ ’’یہ کلیتاً ابتدا، انتہا، یمین، یسار، بالا اور پست کی قیود سے آزاد ہے۔‘‘ مقصدِ اقصی از نسفی نسفی اس کتاب میں مزید لکھتا ہے:’’جوہر اور خاصیت اصل میں ایک جیسی ہیں۔‘‘ یہ اس لحاظ سے ذات و صفات کے امتیاز کو خدائے لامحدود میں موجود خیال نہیں کیا جاتا۔ اس سے قبل یہ یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ یہ کائنات (Absolute Existence) کے لیے بمنزلہ آئینہ ہے۔ جس طرح کہ آئینے میں اپنی شکل دیکھنے کے عادی ہیں اس طرح خدا تعالیٰ اپنی ذات کا اپنی صفات میں عکس دیکھتے ہیں۔ بنابریں یہ کائنات خداتعالیٰ کے لیے آئینے کی حیثیت رکھتی ہے۔ نسفی (Nasafi) اپنی مذکورہ بالا کتاب میں آئینے کی دو قسموں کو بیان کرتا ہے: (الف) ایک آئینہ وہ ہے جو صرف شکلِ معکوس کو ظاہر کتا ہے۔ یہ خارجی فطرت ہے۔ (ب) دوسرا آئینہ وہ ہے جو اصلی جوہر کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ انسان ہے جو ذات مطلق (خدا) کی حد بندی ہے اور جو غلطی سے اپنے آپ کو آزاد ہستی خیال کرتا ہے۔ نسفی انسانوں کی محدود اور خدا کی غیر محدود زندگیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مقصدِ اقصیمیں کہتا ہے۔ ’’اے درویش! کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ تیری ہستی خدا سے الگ تھلگ ہے؟ یہ تیری بہت بڑی غلطی ہے۔‘‘ نسفی اس نظریے کو ایک خوبصورت تمثیل کے ذریعے بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک دفعہ ایک خاص تالاب کی مچھلیوں نے محسوس کیا کہ وہ پانی میں زندگی گزارتی اور حرکت کرتی ہیں لیکن انھوں نے یہ بھی احساس کیا کہ وہ اپنی زندگی کے اصل منبع سے بالکل ناواقف ہیں۔ اس بارے میں انھوں نے ایک بڑے دریا کی ایک زیادہ عقل مند مچھلی کی طرف رجوع کیاتو اس فلسفی مچھلی نے انھیں ان الفاظ میں مخاطب کیا۔ ’’اے زندگی کی گرہ کو کھولنے کی سعی کرنے والی مچھلیوں! اگرچہ تم وحدت میں پیدا ہوتی ہو تاہم تم غیر حقیقی جدائی کے خیال میں مرجاتی ہو۔ تم ساحل سمندر پر پیاسی ہو! خزانے کی مالک ہونے کے باوجود تم کنگال ہو کر مررہی ہو!۔‘‘ علامہ اقبال مندرجہ بالا گروہ صوفیا کے وجودی تصورات کی بحث کے ضمن میں ہجرو وصال اور مولانا روم کے نوافلاطونی نظریئے کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ ’’فراق کا سارا احساس جہالت ہے اور تمام ’’غیریت‘‘ محض ایک نمودِ خواب اور سایہ ہے۔ ’’غیریت‘‘ کا فرق خدائے مطلق کے عرفانِ ذات کے اصل تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ اس مکتبِ فکر کا عظیم مبلغ مولانا رُوم ہے جسے ہیگل ’’رفیع الشان‘‘ رومی کہتا ہے۔ اس نے ہستی کے مختلف مدارج کے ذریعے کام کرنے والی آفاقی روح کے نوافلاطونی نظریے کو اپنایا اور اسے اتنے جدید انداز میں بیان کیا کہ کلوڈ (Clodd) نے اسے اپنی کتاب داستان تخلیق میں شامل کیا ہے۔‘‘ رومی کے کلام کے اس حصے کو علامہ اقبال جدید تصور ارتقا کا پیش رو خیال کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں کلام رومی کا یہ حصہ اس کی مثالیت یا عینیّت (Ideolism) کا حقیقت پسندانہ پہلو ہے۔ وہ اس کا انگریزی ترجمہ کرکے اپنی اس کتاب میں بڑے فخر کے ساتھ اسے شامل کرتے ہیں۔ رومی کے اس کلام کا مطلب درج ذیل ہے: سب سے پہلے انسان بے جان اشیا کے درجے میں ظاہر ہوا۔ اس کے بعد وہ اس درجے سے گزر کر نباتات کے درجے میں داخل ہوا۔ کئی سالوں تک اس نے پودوں کی حیثیت سے زندگی گزاری اور اسے اپنی سابقہ حالتِ جمادات کے بارے میں کچھ بھی یاد نہ رہا۔ اسی طرح جب وہ نباتاتی حالت سے حیوانی حالت میں آیا تو اسے اپنی گزشتہ نباتاتی حالت کے بارے میں اس کے علاوہ کچھ اور یاد نہ رہا کہ اس کو اب بھی عالم نباتات سے خصوصاً بہار اور عطر بیز پھلوں کے وقت ایسی ہی رغبت محسوس ہوتی ہے جیسی کہ بچوں کو اپنی مائوں سے ہوا کرتی ہے اور جو یہ نہیں جانتے کہ ان کو سینۂ مادر سے کیوں اتنی رغبت ہے۔ بعدازاں جیسا کہ تمھیں معلوم ہے خالق اکبر نے انسان کو مرتبہ حیوانیت سے نکال کر مرتبہ انسانیت میں پہنچایا۔ اس طرح انسان فطرت کے مختلف مدارج طے کرتا ہوا موجودہ دانائی، علم اور طاقت کا مالک بن گیا۔ اسے اپنی پہلی روح یاد نہیں رہی اور وہ دوبارہ اپنی موجودہ روح سے بدل کر کچھ اور ہو جائے گا۔‘‘ علامہ اقبال نے اپنی اس کتاب میں مولانا روم کے اشعار کا صرف ترجمہ ہی پیش کیا ہے اور متعلقہ اشعار نہیں دیے۔ قارئین کی آگاہی اور دل چسپی کے لیے میں وہ متعلقہ اشعار یہاں درج کیے دیتا ہوں تاکہ ہمیں حکمت آموز اور ارتقائی خیالات کا کچھ اندازہ ہوسکے۔ مولانا روم انسانی تخلیق کے مختلف مدارج کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آمدہ آول بہ اقلیم جماد

از جمادی در نباتی او فتاد سال۔ہا اندر نباتی عمر کرد

نامدش حالِ نباتی ہیچ یاد جز ہماں میلے کے دارد سوئے آں

خاصہ در وقتِ بہار و ضیمراں ہم چنیں اقلیم تا اقلیم رفت

ہم ازیں عقلش تحول کرد نیست عقل ہائے اوّل اُورا یاد نیست

ہم ازیں عقلش تحول کرد نیست تا رہد زیں عقلِ پر حرص و طلب

صد ہزاراں عقل بیند بو العجب (مثنوی، جلد چہارم از رومی) رومی کے نظریہ ارتقا اور تصوف و نوافلاطونیت کے موضوع کی روشنی میں علامہ اقبال صوفیانہ نظریہ خدا اور نوافلاطونی تصور خدا کے تقابلی مطالعہ کے اس پہلو کو دل چسپ اور تعلیم آموز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ نوافلاطونیت کا پیش کردہ خدا تمام کائنات پر محیط (Immanent) بھی ہے اور کائنات سے ماورا (Transcendant) بھی۔ اس ضمن میں وہ ویٹاکر (Whitta Ker) کی کتاب نوافلاطونیت سے بطور دلیل یہ اقتباس پیش کرتے ہیں: تمام اشیا کی علت ہونے کی حیثیت سے یہ ہستی ہر جگہ موجود ہے لیکن غیر شے ہونے کے باعث کہیں بھی نہیں ہے۔ اگر یہ ’’ہرجگہ‘‘ ہے اور ’’کہیں اورنہیں‘‘ تو لامحالہ یہ ہر شے میں ہے۔ (ویٹاکر، نوافلاطونیت، صفحہ ۵۸) تاہم صوفی مختصر مگر جامع انداز میں یہ کہتا ہے کہ خدا ہر شے میں موجود ہے۔ نوافلاطونیت پرست مادے کے خاص دوام اور جمود کا قائل ہے لیکن اس مکتب فکر کے حامی صوفیا تمام خارجی تجربات کو خواب و خیال قرار دیتے ہیں۔ ان کا قول ہے کہ محدودیت کی زندگی خوابیدہ ہے اور اس کے برعکس موت بیداری کا دوسرا نام ہے۔ تاہم غیر شخصی بقا کا اُصول جو صحیح طور پر مشرقی روح پر مبنی ہے، اس صوفیانہ دبستان خیال کو نوافلاطونیت سے ممیّز کرتا ہے۔ اس بارے میں ویٹاکر کی یہ رائے ملاحظہ ہو: عام انسان عقل کی غیر شخصی بقا کے بارے میں فلسفہ عرب کے اس واضح اُصول کا جب ارسطو کے فلسفیانہ نظام اور نوافلاطونیت کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ عربی نظریہ بنیادی طور پر جدت خیال کا حامل دکھائی دیتاہے۔ (ویٹاکر، نوافلاطونیت، صفحہ۵۷) مندرجہ بالا مختصر صراحت سے پتا چل جاتا ہے کہ اس انداز فکر کے تین بنیادی تصورات یہ ہیں کہ: (الف) حقیقت مطلقہ کو ہم شعور کی نفسانیت سے پاک حالت کے ذریعے جان سکتے ہیں۔ (ب) حقیقت مطلقہ غیر شخصی ہے۔ (ج) حقیقت مطلقہ واحد ہے۔ ان تین تصورات کے عین مطابق یہ نظریات بھی ملتے ہیں: (الف) بارھویں صدی عیسوی کے شاعر عمر خیام کا بیان کردہ لاادریت (Agnosticism) پر مبنی ردعمل۔ عمر خیام جس نے اپنی ذہنی مایوسی سے مجبور ہو کر یہ کہا تھا: نشاط طلب انسان جو بلا کے بادہ نوش ہیں اور مسجد میں شب بیداری کی زحمت اٹھانے والے نیک لوگ یہ سب یکساں طور پر سمندر میں غرق ہیںاور انھیںکوئی کنارہ نہیں ملتا۔ صرف خدا کی ذاتِ واحد بیدار ہے اورباقی سب محوِ خواب ہیں۔ علامہ اقبال نے عمر خیام کی جس رباعی کا یہاں محض ترجمہ پیش کیا ہے وہ رباعی یہ ہے: آں ہانکہ محیطِ فضل و آداب شدند در کشفِ علوم شمعِ اصحاب شدند رہ زیں شبِ تاریک بزدند بروں گفتند فسانہ و در خواب شدند (رباعیات) (ب) تیرھویں صدی عیسوی میں ابن تیمیہ اور اس کے مقلدین کا توحید پرستانہ رد عمل۔ (ج) تیرھویں صدی عیسوی میں واحد محمود کا کثرت الوجود (Pluralism) پر مبنی ردعمل۔ (دبستان باب، نمبر۸) خالصتاً فلسفیانہ نقطۂ نگاہ سے واحد محمود کی تحریک اپنے اندر بہت زیادہ دل چسپی کا سامان رکھتی ہے۔ تاریخِ فلسفہ اس امر کو واضح کرتی ہے کہ ترقی کے چند عام قوانین مختلف لوگوں کی ذہنی اور فکری تاریخ کے بارے میں بھی درست ثابت ہوتے ہیں۔ اس تصور کی تائید میں علامہ اقبال کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں۔ جرمن توحید پرستانہ نظام ہائے فکر نے ہربرٹ (Herbart) کی کثرت پرستی کو مدد کے لیے بلایا جب کہ سپینوزا (Spinoza) کے ہمہ اوست نے لائبنز (Leibniz) کی وحدت جواہر کے فلسفہ سے مدد چاہی۔ اسی اُصول کے عمل کے تحت واحد محمود نے اپنے دور کی وحدت وجود کی صداقت کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ حقیقتِ مطلقہ وحدت کی بجائے کثرت کی حامل ہے۔ لائبنز سے کافی عرصہ بیشتر اس نے کہا تھا کہ کائنات افراد یعنی ان بنیادی اکائیوں یا سادہ غیر تقسیم پذیر مادی ذرات کا مجموعہ ہے جو ازل سے موجود اور عطیہ حیات کے مالک ہیں۔ حضرت علامہ واحد محمود کے نظریہ تخلیق کائنات کی دل چسپ بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ واحد محمود کی رائے میں قانون کائنات پست سے اعلیٰ حالتوں کی طرف مسلسل سفر کرنے والے بنیادی مادے کی ارتقائی تکمیل پر مشتمل ہے۔ بنیادی اکائیاں جس قسم کی خوراک کو جذب کرتی ہیں اسی طرح کی حالتیں معرض وجود میں آتی ہیں۔ اس کے نظریہ تخلیق کا ہر دور آٹھ ہزار سالوں پر مشتمل ہے اور ایسے آٹھ ادوار کے بعددنیا کی ترکیب کی اکائیاں الگ ہو کر نئی دنیا کی تشکیل کے لیے دوبارہ آپس میں متحد ہو جاتی ہیں۔ اپنے ان فلسفیانہ خیالات کی بنا پر واحد محمود ایک ایسا فرقہ بنانے میں کامیاب ہوگیا جسے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اور انجام کار شاہ عباس نے اس کا وجود ہی ختم کردیا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مشہور ایرانی شاعر حافظ شیرازی اس فرقے کے نظریات میں اعتقاد رکھتا تھا۔ حقیقت نور اور فکر کی حیثیت سے حقیقت مطلقہ کی نوعیت سے متعلق صوفیا نے زیادہ تر تین بنیادی نظریات بیان کیے ہیں جنھیں علامہ اقبال اس باب کا اہم موضوع تصور کرتے ہیں۔ اس سے قبل وہ خدا تعالیٰ کے بارے میں صوفیا کے دو اساسی تصورات… باشعور مشیت اور حسن ازلی… کو بیان کرچکے ہیں۔ اب وہ اس کے تیسرے بنیادی تصور… نور یا فکر… پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ تصوف کا یہ تیسرا عظیم دبستان حقیقت کاملہ (خدا) کو نور یا فکر سمجھتا ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے ذات خداوندی اپنے وجود اور گوناگوں صفات کے اظہار کے لیے فکر و نور کی متقاضی ہے۔ تصوف کے پہلے دومدرسہ ہائے فکر نے نوافلاطونیت کو چھوڑ دیا تھا جب کہ اس آخری مکتب خیال نے تو افلاطونیت کو نئے فکری نظاموں میں تبدیل کردیا تھا۔ تاہم اس صوفیانہ مکتبِ خیال کی مابعدالطبیعیات کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو صحیح طور پر ایرانی سپرٹ کا حامل ہے اور اس کا دوسرا پہلو زیادہ تر عیسائی انداز فکر سے متاثر ہے دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ تجرباتی کثرت حقیقتِ مطلقہ کی نوعیت میں اُصول مغائرت کو لازم بنا دیتی ہے۔ /…//…/

حقیقتِ نور کی حیثیت… الاشراقی

ایرانی ثنویت کی طرف رجعت اَلْاَشْعَرِی کے آغاز کردہ تنقیدی جائزے کی روح پر مشتمل اسلامی الہیات میں یونان کے فلسفہ جدلیات کا عمل دخل ہوا۔ اس یونانی جدلیات کا مکمل اظہار الغزالی کی تشکیک پرستی میں پایا گیا۔ عقل پرستوں کے گروہ میں چند ایسے تنقیدی اذہان مثلاً نظام وغیرہ تھے جن کا فلسفہ یونان کے ساتھ رویہ غلامانہ اطاعت پذیری کی بجائے آزادانہ تنقید کا حامل تھا۔ اُصول مذہب کے حامیوں … الغزالی، الرازی، ابوالبرکات اور العمیری نے فلسفہ یونان کی ساری ساخت پر پے در پے حملے کیے جب کہ ابو سعید صیرافی، قاضی عبد الجبار، ابوالمعالی، ابوالقاسم اور آخرکار زیرک ابن تیمیہ اسی قسم کے الہیاتی مقاصد کے تحت یونانی منطق کی ساخت میں مخفی کمزوری کا پردہ چاک کرتے رہے۔ فلسفہ یونان سے متعلق ان مسلم حکما کی تنقید کو چند فاضل صوفیا مثلاً شہاب الدین سہروردی کی تائید و نصرت بھی ملی۔ شہاب الدین سہروردی نے اپنی کتاب یونانی حماقتوں کی پردہ کشائی میں یونانی افکار کی تردید کرکے عقل خالص کی بے چارگی کو ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ علامہ اقبال عقلیت کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے خلاف اشاعرہ کی فکری سرگرمیوں اور آزاد تنقید کی افادیت کے بارے میں یہ فرماتے ہیں: عقلیت کے خلاف اشاعرہ کے رد عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ مابعدالطبیعیات کا ایک ایسا ترقی یافتہ نظام بن گیا جو اپنے چند پہلوئوں میں نہ صرف جدید ترین تھا بلکہ اسی نے ذہنی غلامی کی پرانی زنجیروں کو بھی مکمل طور پر توڑ کر رکھ دیا۔ اپنی کتاب کی پہلی جلد (صفحہ ۳۶۷) میں اردمان (Erdmann) کی یہ رائے معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی فلسفہ طراز روح الفارابی اور بو علی سینا کے ساتھ ہی ختم ہوگئی اور ان کے بعد فلسفہ تشکیک پرستی اور تصوف (Mysticism) کا روپ دھار کر دیوانہ پن کا شکار ہوگیا تھا۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ وہ فلسفہ یونان پر مسلمانوں کی اس تنقید کو نظر انداز کرتا ہے جس نے ایک طرف تو اشاعرہ کی عینیت (Idealism) کو جنم دیا اور دوسری طرف ایرانی فلسفے کی صحیح انداز میں تشکیل جدید کا کام دیا تھا۔ علامہ اقبال کا خیال ہے کہ شروع شروع میں مسلمانوں کے ذہنوں پر یونانی فلسفے کی عظمت اس قدر مرتسم ہوگئی تھی کہ وہ اُصول دین اور مذہبی اعتقادات کوبھی اسی ترازو میں تولنے لگے تھے۔ اگر کوئی عقیدہ فلسفہ یونان کے معیار پر پورا نہ اترتا تو وہ یا تو اسے رد کردیتے یا اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے تھے۔ بعدازاں جب فلسفہ یونان کی مرعوبیت کم ہونے لگی اور مسلمان مفکرین نے اس کی خامیوں کو بے نقاب کردیا تو مسلمانوں میں آزاد تنقید کو فروغ حاصل ہوا یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جب تک بیرونی افکار و نظریات کی غلامی سے نجات نہ پائی جائے اس وقت تک ملکی نظریات اور فلسفے کی جدید تشکیک ممکن نہیں ہوتی۔ اس لیے حضرت علامہ بجا فرماتے ہیں کہ مکمل طور پر ایرانی نوعیت کے فلسفیانہ نظام کی از سر نو تعمیر کے لیے یہ بے حد ضروری تھا کہ پہلے یا تو غیرملکی افکار کو ختم کیا جائے یا ذہن پر اس کی گرفت کو کمزور بنایا جائے۔ ان کے خیال میں اشاعرہ اور اسلامی اُصول و عقائد کے دیگر محافظوں نے فلسفہ یونان کی بربادی کو مکمل کردیا تھا۔ اس کے بعد وہ اس نئے آزاد ماحول میں آنکھیں کھولنے والے ایک بلند پایہ مسلمان فلسفی الاشراقی (Al-Ishraqi) کی فکری عظمت کا ان الفاظ میں تذکرہ کرتے ہیں: حریت کی آغوش میں پلنے والا الاشراقی فلسفے کی نئی عمارت کو بنانے کے لیے آگے بڑھا۔ اگرچہ تشکیل جدید کے دوران میں اس نے پرانے مواد کو مکمل طور پر ردنہیں کیا تھا تاہم اس کا حقیقی ایرانی ذہن تنگ نظرمستند شخصیات کی دھمکیوں سے بے خوف ہو کر آزاد خیالی کے حق کا اثبات کرتا ہے۔ مفکر اسلام علامہ اقبال الاشراقی کے فلسفیانہ نظام پر مزید رائے زنی کرتے ہیں کہ الاشراقی کے نظریات کلیتاً قدیم ایرانی روایات کے آئینہ دار ہیں۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ حکیم الرازی اور الغزالی کی تصانیف اور فرقہ اسماعیلیہ میںبھی ایرانی روایت کا اظہار ہوا ہے مگر ان کا یہ اظہار جزوی ہے۔ اس کے برعکس الاشراقی اپنے پیش رو مفکرین کے فلسفے اور اسلامی الہیات سے آخری تفہیم کی کوشش کرتا ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی ان عظیم المرتبت اور عدیم النظیر مفکرین اور فلاسفہ میں سے ہیں جنھوں نے اپنی گراں قدر علمی اور فکری سرگرمیوں کی بنا پر اسلامی الٰہیات اور فلسفہ اسلام کے میدان میں قابل ستایش خدمات سرانجام دی ہیں۔ عالم اسلام کی یہ نابغہ شخصیت فلسفہ یونان کی زبردست ناقد اور اسلامی تعلیمات و افکار کی مسلمہ مداح تھی۔ شیخ شہاب الدین سہروردی تقلید کو رانہ کے زبردست مخالف تھے اس لیے ان کے آزاد نظریات اس دور کے تقلید پرست اور فکر دشمن نام نہاد علمائے دین کو پسند نہ آئے۔ چنانچہ انھوں نے اس کے خلاف کفر کا فتویٰ عائد کرکے اسے بادشاہ وقت کے ہاتھوں قتل کروا دیا۔ علامہ اقبال اس ذہین و فطین مسلمان مفکر کے بے حد مداح ہیں۔ اس لیے انھوں نے اس کی فکری عظمت کے مختلف گوشوں پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔ سب سے پہلے وہ اُس کے مختصر ترین سوانح حیات اور فلسفہ یونان کے دو اہم نمایندوں یعنی افلاطون اور ارسطو پر اس کی تنقیدی آرا کا ذکر کرنے کے بعد وہ اس کے فلسفیانہ نظام کے چیدہ چیدہ پہلوئوں پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ اس کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال ہمیں بتاتے ہیں کہ شیخ شہاب الدین سہروردی المعروف شیخ الاشراق مقتول بارھویں صدی عیسوی کے وسط کے لگ بھگ پیدا ہوئے انھوں نے مشہور مفسر قرآن الرازی کے استاد مجد جیلی سے فلسفے کا علم حاصل کیا اور جوانی کے دور ہی میں انھیں تمام عالم اسلام میں بے مثال مفکر خیال کیا جاتا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کابیٹا الملک الظاہر اس کا بہت بڑا مداح تھا۔ الملک الظاہر نے شیخ شہاب الدین سہروردی کو حلب آنے کی دعوت دی جہاں اس نوجوان فلسفی نے اپنی آزاد آرا اورنظریات کو ایسے انداز میں بیان کیا جس نے ان کے ہم عصر مذہبی علما کے دلوں میں حسد کے شدید جذبات پیدا کردیے تھے۔ یہ تنگ نظر اور حاسد علما شیخ مقتول کے شاہانہ قرب اور عوامی مقبولیت سے خائف ہوگئے۔ چنانچہ انھوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاں شکایت کرکے انھیں مروا ڈالا۔ علامہ اقبال ان تقلید پرست، حاسد، تنگ نظر اور نام نہاد علمائے دین کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہتے ہیں: مذہبی اجارہ داری نے اپنی حمایت اور اپنی پوشیدہ خامیوں کوچھپانے کے لیے ہمیشہ ہی اپنے پس پشت وحشی اور ظالم قوت کا انتظام کیا ہے۔ اس خون آشام مذہبی دعویداری کے ان زر خرید غلاموں نے سلطان صلاح الدین کو لکھا کہ شیخ شہاب الدین سہروردی کی تعلیمات سے اسلام کو خطرہ لاحق ہے اس لیے مذہب کے مفاد میں اس برائی کو ابھی ختم کردینا ضروری ہے۔ سلطان اس بات پر رضامند ہوگیا تھا۔ چنانچہ ۳۶ سال کی عمر میں اس نوجوان ایرانی مفکر کو قتل کردیا گیا۔ اس قتل نے اسے شہید صداقت بناکر اس کے نام کو حیات جاوداں عطا کردی۔ علامہ اقبال اس بے وقت موت پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ شیخ شہاب الدین سہروردی کے قاتلین بھی وفات پاچکے ہیں اور ان کا نام باقی نہیں رہا مگر شیخ الاشراق مقتول کا وہ فلسفہ جس کی قیمت خون کی شکل میں ادا کی گئی ہے، ابھی تک زندہ ہے اور بہت سے متلاشیان حق اور طالبان صداقت کی کشش کا باعث ہے۔ اشراقی فلسفے کی تاریخ میں شیخ شہاب الدین سہروردی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان کی فلسفیانہ عظمت کے مختلف پہلوئوں سے نقاب کشائی کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں: فلسفہ اشراق کے اس بانی کی بنیادی خصوصیات اس کی ذہنی آزادی، اپنے افکار کو ایک جامع نظام میں پیش کرنے کی مہارت اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کی فلسفیانہ روایات کے ساتھ وفاداری ہے۔ بہت سے بنیادی امور میں وہ افلاطون سے متفق نہیں اور وہ بڑی آزادی کے ساتھ ارسطو کو بھی ہدف تنقید بناتا ہے۔ وہ فلسفہ ارسطو کو اپنے نظام افکار کی صرف تیاری کے لیے استعمال کرتاہے۔ اس کی تنقید کی زد سے کوئی چیز بھی نہیں بچتی۔ وہ تو ارسطو کی منطق کا بھی سخت ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے اس کے چند اُصولوں کے کھوکھلے پن کو ظاہر کردیتا ہے۔ اس کے بعد وہ شیخ شہاب الدین سہروردی اور ارسطو کے نظریات ’’تعریف‘‘ کے اختلافی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ارسطو کے نزدیک ’’تعریف‘‘ (Definition) کا مطلب کسی شے کی جنس اور اختلاف کا اجتماع ہے لیکن شیخ الاشراق اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تعریف کردہ شے کی واضح خصوصیت کسی اور چیز میں معلوم نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ ہمیں اس چیز کے بارے میں کوئی بھی علم نہیں دے گی۔ وہ ’’گھوڑے‘‘ کی مثال دیتے ہوئے اسے ہنہنانے و الا جانور قرار دیتے ہیں۔ اب ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ حیوانیت کیا ہے کیوں کہ بہت سے جانوروں میں یہ صفت پائی جاتی ہے مگر ’’ہنہنانے‘‘ کی صفت کو سمجھنا ممکن نہیں کیوں کہ تعریف شدہ شے کے علاوہ اور کہیں نہیں پائی جاتی۔ جس آدمی نے کبھی گھوڑا دیکھا ہی نہیں اس کے لیے گھوڑے کی یہ عام تعریف بے معنی ہوگی۔ اس نقطہ نگاہ سے سائنسی اُصول کے تحت ارسطو کی یہ تعریف بالکل بے کار ہے۔ علامہ اقبال کی رائے میں ارسطو پر شیخ شہاب الدین کی یہ تنقید اسے وہی موقف اختیار کرنے پر مائل کرتی ہے جو موقف بوزنکے (Bosanquet) نے تعریف (Definition) کے بیان میں اختیار کرتے ہوئے اسے ’’مجموعہ صفات‘‘ کہا تھا۔ شیخ شہاب الدین کے خیال میں کسی چیز کی صحیح تعریف میںاس شے کی ان تمام بنیادی صفات کو جمع کیا جائے گا جو تعریف شدہ چیز میں پائی جائیں اگرچہ وہ دوسری چیزوں میں فرداً فرداً بھی شامل ہوں۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کے مابعدالطبیعی افکار و نظریات کی قدر و قیمت پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ اقبال اس کا یہ قول پیش کرتے ہیں کہ ماورائی فلسفہ (Transcendental Philosophy) کے خالصتاً فکری پہلو کے کامل ادراک کے لیے ہمیں فلسفہ ارسطو، منطق، ریاضیات اور تصوف سے پوری طرح واقف ہونا چاہیے اور ہمارا دماغ کلیتاً تعصب اور گناہ کے داغ سے پاک ہونا چاہیے تاکہ ہم اس باطنی احساس کو بتدریج ترقی یافتہ بناسکیں جو عقلی نظریات کی تصدیق و تصحیح کیا کرتا ہے۔ اس کے بعد علامہ اقبال عقل کے ساتھ ساتھ عشق کی افادیت و عظمت کے بارے میں یہ کہتے ہیں: عقل کی ہمیشہ ’’ذوق‘‘ سے مدد ہونی چاہیے کیوں کہ اس کی تائید سے محروم عقل ناقابل اعتبار ہوتی ہے۔ ’’ذوق‘‘ اصل میں اشیا کے جوہر کے اس پراسرار احساس کا نام ہے جو بے چین روح کو علم اور سکون عطا کرتا ہے اور ہمیشہ کے لیے تشکیک پرستی کو غیرمسلح بنا دیتا ہے۔ ہمارا زیادہ تر تعلق اس روحانی تجربے کے خالص فکر انگیز اور فلسفہ طراز پہلو سے تعلق ہے۔ یہ روحانی تجربہ باطنی احساس کے ان نتائج پر مشتمل ہوتا ہے جنھیں عقل استدلالی ترتیب دے کر خاص نظام افکار کی شکل میں پیش کیا کرتی ہے۔ اس کے بعد فلسفہ اشراق کے مختلف پہلوئوں مثلاً علم حقیقتِ اشیا نظریۂ کائنات اور نفسیات کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے اس طرح علامہ اقبال ہمیں شیخ شہاب الدین سہروردی کے فلسفیانہ نظام کے ان چند اہم گوشوں سے باخبر کرتے ہیں۔ علم حقیقت اشیا اور شیخ الاشراق کائنات کی چیزوں کی ماہیت اور وجود کے بارے میںشیخ شہاب الدین سہروردی نے جو کچھ کہا ہے علامہ اقبال یہاں اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں تاکہ ہمیں شیخ مقتول کے نظریہ حقیقت اشیا کا اجمالی اندازہ ہوسکے۔ اشیائے کائنات اور جملہ مخلوقات کی آفرینش و ابتدا سے متعلق مختلف ادوار میں مختلف فلاسفہ، حکما، اہل دانش و دین نے متعدد نظریات بیان کیے ہیں۔ جہاں تک شیخ شہاب الدین سہروردی کے تصور وجود کا تعلق ہے اس کی اساس نور ایزدی پراستوار ہوتی ہے۔ ان کی رائے میں ہر قسم کی زندگی کا آخری اور اصلی سرچشمہ نور ایزدی ہے جسے وہ ’’نور قاہر‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اس اولین یا ازلی نور مطلق (Primal Absolute Light) کی اصلی نوعیت مستقل تجلیات پرمشتمل ہے۔ الاشراقی کی کتاب حکمۃ الاشراق کی شرح کرتے ہوئے الہروی (Al-Harawi) اپنی تصنیف شرح انواریہ میں لکھتا ہے: نور سے زیادہ اور کوئی چیز زیادہ دیدنی نہیں ہے اور دید کی طاقت کو کسی اور تعریف کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے روشنی کا تقاضا ظہور ہے کیوں کہ اگر ظہور کو روشنی کی متضاد صفت خیال کیا جائے تو پھر نتیجہ یہ نکلے گا کہ روشنی اپنی ذات میں دید کی قوت کی حامل نہیں اور یہ کسی اور چیز کی وساطت سے دیدنی بن جاتی ہے۔ اس بات سے احمقانہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ روشنی کی بجائے کوئی اور چیز زیادہ قابلِ دید ہے۔ اس استدلال سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ شہاب الدین سہروردی خداتعالیٰ کو نور ایزدی اور نور مطلق سمجھتے ہوئے تمام اشیائے کائنات کو اس اولین سرچشمہ حیات اور منبع نور سے فیض یاب قرار دیتے ہیں۔ ان کے اشراقی فلسفے کا خلاصہ یہ ہے: نور اولین اپنی ذات سے ماورا اپنے وجود کے لیے کوئی علت نہیں رکھتا۔ حقیقی اُصول حیات کے علاوہ سب کچھ اس پر منحصر، متصل اور ممکن ہے۔ عدم نور (ظلمت) کوئی ایسی چیز نہیں جو کسی اور خود مختار منبع سے نکلی ہو۔ مجوسی مذہب کے عَلم۔برداروں کی یہ غلطی ہے کہ وہ نور اور ظلمت کو دو مختلف حقیقتیں خیال کرتے ہیں جنھیں دو مختلف تخلیقی عوامل نے پیدا کیا ہو۔ زرتشت کے پیروکاروں اور پروہتوں نے روشنی اور تاریکی کو دو خودمختار سرچشموں کا سبب گردانا کیوں کہ ان کے اُصول کے مطابق ذات واحد ایک سے زیادہ کی مظہر نہیں ہوسکتی۔ یاد رہے کہ ایران کے قدیم فلسفی زرتشت پرستوں کی مانند ثنویت پرست نہیںتھے۔ نور اور ظلمت کا تعلق تخالف کی بجائے ہستی اور نیستی پر مبنی ہے۔ نور کا اثبات لازمی طور پر اپنے اندر اپنی نفی… ظلمت… کو پوشیدہ رکھتا ہے جسے منور کرنا اس کی اپنی ذات میں شامل ہے۔ اس نور ایزدی کے بارے میں یہ الفاظ قابلِ غور ہیں: یہ نور اولین ہرحرکت کا سرچشمہ ہے لیکن یہ حرکت مکان کی تبدیلی نہیں ہے۔ یہ حرکت اس نور افشانی کی وجہ سے ہے جو اس کی ذات کا خاصہ ہے۔ یہ نور اولین تمام اشیائے کائنات کی حرکت اور زندگی کا باعث ہے کیوں کہ یہ ان پر اپنی شعائیں ڈال کر انھیں معرض وجود میں لاتا ہے۔ اس نور ربانی سے خارج ہونے والی تجلّیات کا کوئی شمار ہی نہیں۔ زیادہ روشنی کی حامل تجلّیات دوسری تجلیات کا منبع بن جاتی ہیں اور اس طرح ضوفشانی درجہ بدرجہ اس قدر کم ہو جاتی ہے کہ وہ دیگر تجلیات کو جنم نہیں دے سکتی۔ یہ تمام تجلیات درمیانی ذرائع یا مذہبی اصطلاح میں فرشتے ہیں جن کے سبب زندگی کی غیرمحدود انواع نور اولین سے زندگی اور استحکام پاتی ہیں۔ ارسطو کے متبعین نے غلطی سے اصلی عقول کی تعداد کو دس تک محدود کردیا تھا۔ اسی طرح انھوںنے خیال کے مدارج کے شمار میں ٹھوکریں کھائی تھیں۔ اس نور اولین کے بارے میں یہ الفاظ کس قدر حقیقت کشا اور بصیرت افروز ہیں: نور اولین کے امکانات لامحدود ہیں اور یہ تنوع پسند کائنات اس لامحدودیت اور ابدیت کا صرف ایک جزوی اظہار ہے۔ اس لحاظ سے ارسطو کے بیان کردہ مدارج صرف کسی قدر درست ہیں۔ محدود انسانی عقل ان تمام غیرمحدود اور مختلف تصورات کو سمجھنے سے قاصر ہے جن کے مطابق نور اولین تاریک اشیا کو ضوگیر بناتا ہے۔ اس تمام بحث سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ شیخ شہاب الدین سہروردی اس کائنات کی تمام اشیا اور مخلوقات کی زندگی کو خداتعالیٰ کے نور ایزدی سے فیض یاب خیال کرتے ہیں۔ قرآنِ حکیم نے خالقِ کائنات کو آسمانوں اور زمین کا ۔نور اللّہ نور السمٰوات و الارض کہا ہے۔ اس نور اولین سے لاتعداد انوار کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ جس چیز پر اس نور ایزدی کا عکس پڑتا ہے وہ پردہ عدم سے منصۂ شہود پر آجاتی ہے۔ اس فلسفہ اشراقی کے ضمن میں نور اولین کی دو گونہ تجلیات کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ ایک روشنی کو شیخ شہاب الدین سہروردی نے ’’مجرد روشنی‘‘ اور دوسری قسم کو ’’حادثاتی روشنی‘‘ کہا ہے۔ سب سے پہلے مجرد روشنی (Abstract Light) پر اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ شیخ الاشراق اس مجرد روشنی کو انفرادی اور آفاقی عقل کا نام بھی دیتے ہیں۔ ان کی رائے میں اس کی کوئی شکل و صورت نہیں اور یہ اپنی ماہیت (Substance) کے سوا کسی اور چیز کی صفت نہیں بنا کرتی۔ اس مجرد روشنی سے قدرے باشعور، شعوری اور شعور ذات کی حامل روشنی کی مختلف اشکال خارج ہوتی ہیں جو اپنی ہستی کے آخری منبع سے قرب و بعد کے مطابق ایک دوسری سے چمک دمک کی مقدار میں مختلف ہوتی ہیں۔ انفرادی عقل یا روح سے متعلق شیخ شہاب الدین سہروردی کی رائے یہ ہے: انفرادی عقل یا روح تو صرف ایک مدھم سی نقل ہے یا یہ نور اولین کا ایک بعید عکس ہے۔ نور مجرد اپنی ذات کے ذریعے اپنا عرفان حاصل کرتا ہے اور اسے اپنے آپ تک اپنی ہستی کے اظہار کے لیے کسی غیر خودی (Non-ego) کی حاجت نہیں ہوتی۔ بنابریں شعور یا عرفان ذات مجرد روشنی کا جوہر ہے جو روشنی کی نفی (تاریکی) سے ممیّز ہوتا ہے۔ نور اولین کی دوسری قسم ناگہانی اور حادثاتی نوعیت کی ہوتی ہے۔ یہ ایسی روشنی ہوتی ہے جو شکل رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے سوا کسی اور چیز کی صفت بننے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے مثلاً ستاروں کی روشنی یا دیگر اجسام کی دید۔ یہ حادثاتی روشنی یا دوسرے موزوں تر الفاظ میں قابل حس روشنی مجرد نور کا ایک ایسا بعید پرتو ہے جو دوری کے سبب اپنی شدت یا اپنے منبع کی اصلی نوعیت سے محروم ہوچکا ہے۔ مسلسل عکس کا طریق فی الحقیقت نرم ہونے کا طریقہ ہے۔ بعد میں آنے والی ضوفشانیاں آہستہ آہستہ اپنے نور کی شدت سے محروم ہوتی جاتی ہیں یہاں تک کہ انعکاس کا یہ سلسلہ ہمیں ان تابانیوں تک پہنچا دیتا ہے جومکمل طور پر اپنی آزاد نوعیت کو کھودیتی ہیں اور وہ کسی اور چیز سے الگ رہ کر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی ہیں۔ یہ درخشانیاں حادثاتی روشنی کی تشکیل کرتی ہیں جو ایک غیر خودمختار ہستی کی صفت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے شیخ شہاب الدین سہروردی اس حادثاتی روشنی کو صفت بھی کہتے ہیں۔ مجرد نور اور حادثاتی نور کے باہمی ربط پر وہ یوں روشنی ڈالتے ہیں: حادثاتی نور اور مجرد نور کا باہمی تعلق علت و معلول کا ہے۔ تاہم معلول اپنی علت سے بالکل مختلف بھی نہیں۔ یہ بذاتِ خودایک تبدیلی یا مفروضہ علت کی کمزور ترشکل ہے۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ مجرد نور کے علاوہ کوئی اور چیز (مثلاً روشن ہونے والے جسم کی نوعیت) حادثاتی روشنی کی علت نہیں ہوسکتی کیوں کہ اس کی اپنی روشنی کسی وقت بھی چھینی جاسکتی ہے۔ شرح انواریہ کے مصنف کے قول کے مطابق ہم کسی غیر مؤثر علت کا تصور ہی نہیں کرسکتے۔ مجرد نور اور حادثاتی نور کی بحث کے اختتام پر علامہ اقبال اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مندرجہ بالا بحث سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ شیخ الاشراق یعنی شیخ شہاب الدین سہروردی اشعری مفکرین سے متفق الرائے ہے کہ ارسطو کے بیان کردہ ایک اُصول مادہ اولین (Prima Materia) کی کوئی حقیقت نہیں۔ تاہم وہ روشن ہونے والی شے یعنی نور کی لازمی نفی (ظلمت) کے وجود کو تسلیم کرتا ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی اشاعرہ سے ماہیت (Substance) اور کیفیت (Quality) کے علاوہ دیگر تمام مدارج کی اضافیت کے تصور سے بھی اتفاق کرتا ہے لیکن انسانی علم میں ایک فعال عنصر کے وجود کو تسلیم کرکے وہ اشاعرہ کے نظریہ علم کی تصحیح کرتا ہے۔ اس ضمن میں علامہ اقبال اپنی ذاتی رائے کا بھی ان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں: ہم اور ہماری معلوم شے کا باہمی تعلق صرف غیر فعال ربط نہیں بلکہ ہماری انفرادی روح بذات خود تجلی ہونے کی حیثیت سے حصول علم کے دوران اس شے کو بھی منور کردیتی ہے۔ اس (شیخ شہاب الدین سہروردی) کے نزدیک کائنات فعال تجلی کا ایک عظیم طریق ہے مگر خالصتاً فکری نقطہ نگاہ سے کائنات کی یہ تابانی نور اولین کی لامحدودیت کا صرف جزوی اظہار ہے۔ یہ ازلی نور اشیا کو قوانین کے تحت بھی ضوگیر بناسکتا ہے جوہمارے احاطہ علم سے باہر ہیں۔ خیال کے مدارج غیر محدود ہیںاور ہماری عقل تو محض چند مدارج خیال پر منحصر ہے۔ اس لیے عقل استدلالی کے زاویہ نظر سے شیخ (شہاب الدین سہروردی) جدید مسلک انسانیت سے دور نہیں ہے۔ علم کائنات علامہ اقبال شیخ شہاب الدین سہروردی کے اشراقی تصور کائنات کی بحث کے دوران ارسطو کے نظریہ افادیت، اشاعرہ کے نظریہ جواہر، مادہ و روح، نور و ظلمت اور دیگر متعلقہ امور پر روشنی ڈالتے ہیں تاکہ شیخ الاشراق کی فکری عظمت اور علمی کارناموں سے آگاہ ہوسکیں۔ وہ شیخ شہاب الدین سہروردی کے تصور کائنات کی بحث چھیڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر ’’عدمِ نور‘‘ (Non-Light) اشراقی مفکرین کے الفاظ میں ’’مقدار مطلق‘‘ (Absolute Quantity) یا ’’مطلق مادہ‘‘ (Absolute Matter) ہے۔ ارسطو کے مقلدین کی رائے میں یہ خودمختار اُصول ہے لیکن اشراقی مفکرین کے خیال میں یہ تو صرف روشنی کے اثبات کا ایک اور پہلو ہے۔ ابتدائی عناصر کی ایک دوسرے میں کایا پلٹ کی تجرباتی حقیقت بنیادی مطلق مادے کی نشان دہی کرتی ہے جو اپنی کثافت کے مختلف مدارج کے سبب حیات مادی کے مختلف شعبوں کی تشکیل کرتا ہے۔ تمام اشیائے کائنات کی مطلق اساس کو دو قسموں میں پیش کیا جاتا ہے: (۱) مکان سے ماورا شے جسے ہم مخفی ماہیت (Substance) یا غیر تقسیم پذیر مادی ذرات کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ ان تقسیم نہ ہونے والے مادی ذرات کو اشاعرہ جواہر کہتے ہیں۔ (۲) مکان میں لازمی طور پر موجود شے مثلاً تاریکی کی تمام اشکال جیسے وزن، شامہ اور ذائقہ وغیرہ۔ ان مکانی اور غیر مکانی اشیا کی ترکیب مطلق مادے کی تخصیص کرتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مادی جسم کی نوعیت کیا ہے؟ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے: ’’مادی جسم تاریکی کی شکل اور مخفی ماہیت کا ایسا مجموعہ ہے جسے مجردنور دیدنی یا درخشاں بنادیتا ہے۔ تاریکی کی مختلف اشکال کا سبب کیا ہے؟ روشنی کی اشکال کی طرح یہ تاریک شکلیں بھی اپنے وجود کے لیے مجرد نور کی محتاج ہیں جس کی مختلف تابانیاں ہستی کے مختلف شعبوں میں اختلاف اور تنوع کا باعث بنتی ہیں۔‘‘ اجسام کو ایک دوسرے سے مختلف بنانے والی صورتیں مطلق مادے کی فطرت میں موجود نہیں ہوتیں۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ مطلق مقدار (کمیت) اور مطلق مادہ آپس میں مطابقت رکھتے ہیں۔ اب اگر ان صورتوں کو مطلق مادے کی اصل میں موجود سمجھا جائے تو پھر تمام اجسام تاریکی کی شکلوں کی نسبت سے ایک جیسے ہوں گے۔ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ اس بات کی تردید کرتا ہے۔ اس لیے یہ ماننا پڑ ے گا کہ تاریکی کی صورتوں کی علت مطلق مادہ نہیں ہے۔ چونکہ اشیا کی صورتوں کے اختلاف کی کوئی اور وجہ نہیں ہوسکتی لامحالہ یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ وہ مجرد نور کی مختلف تجلیات کے باعث مختلف ہیں۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کے نظریہ اشراق کی رو سے کائنات کی تمام چیزیں نور خداوندی کی تجلیات سے فیض یاب ہو کرنیست سے ہست ہوتی رہتی ہیں۔ تمام منور اور تاریک اشیا اپنے وجود کے لیے مجرد نور (Abstract Light) کی محتاج ہیں۔ جسم مادی کا تیسرا اہم عنصر یعنی غیر تقسیم پذیر اور تاریک مادی ذرہ یا جوہر (Scence) اثبات نور کے لازمی پہلو کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ بنابریں مجموعی طور پر جسم کلیتاً نور اولین (Primal Light) کا محتاج ہے۔ درحقیقت تمام کائنات نور اصلی پر منحصر زندگی کے تمام مراکز کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ جو چیزیں اس منبع نور کے زیادہ نزدیک ہیں وہ زیادہ روشنی پاتی ہیں اور جو اشیا اس سے دور ہیں وہ کم روشنی حاصل کرتی ہیں۔ یہ سارے حلقے اور ہر حلقے میں زندگی کی انواع ان لاتعداد درمیانی تجلیات کی وساطت سے درخشاں ہوتی ہیں جو باشعور روشنی (انسان، حیوان اور پودے کی حالت) کی مدد سے زندگی کی چند صورتوں کوبرقرار رکھتیں اور وہ بعض صورتوں کو ان کے بغیر محفوظ رکھتی ہیں۔ اس بارے میں معدنیات اور ابتدائی عناصر کی مثال دی جاسکتی ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کے اس تصور کوبیان کرنے کے بعد علامہ اقبال اپنی بھی رائے کا یوں اظہار کرتے ہیں: اختلاف اور تنوع کا یہ عظیم الشان منظر جسے ہم کائنات کا نام دیتے ہیں، نور اولین کی لاتعداد اور مختلف بلاواسطہ اوربالواسطہ، شدید تجلیوں اور شعاعوں کا ایک وسیع پرتو ہے۔ کہنے کامطلب یہ ہے کہ تمام چیزیں اپنی اپنی تجلیات کا مسلسل طواف کرکے نشوونما پاتی ہیں۔ وہ اپنے اصلی چشمہ نور سے زیادہ سے زیادہ سیرابی حاصل کرنے کے لیے ایک عاشق کے جذبے کے ساتھ اس کے گرد حرکت کرتی رہتی ہیں۔ اس لحاظ سے دنیا عشق و محبت کا ایک ازلی ڈرامہ ہے۔ کائنات کی ہستی، رونق اور حرکت کو جذبہ عشق الٰہی کی نمود کاایک حیرت انگیز نظارہ قرار دینے کے بعد علامہ اقبال زندگی کے مختلف مدارج کو ذیل میں یوں تقسیم کرتے ہیں: (الف) نور اولین کا مقام (۱) مقام عقول جو آسمانوں کی تخلیق کا منبع ہے۔ (۲) ارواح کا مقام (۳) اشکال کا مقام (ب) (۱) مثالی اشکال کا مقام۔ (۲) مادی اشکال کا مقام۔ (ج) مقام افلاک۔ (د) مقام عناصر (سادہ عناصر اور مرکبات: عام جمادات، عالم نباتات اور عالم حیوانات) حضرت علامہ نے ہستی کے مختلف مقامات و مدارج کی تقسیم کے موضوع پر مزید کچھ نہیں کہا۔ قارئین کی سہولت کے لیے انھیں عالم بالا اور عالم پست کانام بھی دیا جاسکتا ہے۔ عالم بالا میں لاہوت، جبروت اور ملکوت کے ساتھ ساتھ تمام افلاکی مخلوقات، ارواح اور مثالی صورتوں کے مقامات بھی شامل ہیں۔ عالم پست (ناسوت) اصل میں زیادہ تر مادی اشیا پر دلالت کرتا ہے۔ ہستی کے مختلف مدارج کا اجمالی ذکر کرنے کے بعد علامہ اقبال تخلیق کائنات کا مفصل جائزہ لیتے ہوئے عدم نور (Not-Light) کو مندرجہ ذیل دو حصوںمیں تقسیم کردیتے ہیں: (۱)ازلی حصہ مثلاً عقول، فلکی اشیا کی ارواح، افلاک، سادہ عناصر، وقت اور حرکت۔ (۲)منحصر اور متصل حصہ جیسے مختلف عناصر کے مرکبات۔ مرکب عناصر کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ آسمانوں کی گردش دائمی ہے اور وہ کائنات کے مختلف ادوار کی تشکیل کرتی ہے۔ یہ گردش افلاک فی الاصل تمام انوار کے سرچشمے سے تجلی حاصل کرنے کے لیے روح فلکی کی شدید آرزو کے باعث ہے۔ آسمانوں کی بناوٹ میں کام آنے والا مادہ ان کیمیائی طریقہ ہائے کار کے دائرہ اثر سے ملکی طور پر آزاد ہے جو تاریکی کی کثیف شکلوں کے لیے ضروری ہے۔ ہر فلک اپنے اپنے لیے خاص مادہ رکھتا ہے۔ اس طرح تمام آسمان اپنی گردش کی سمت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس فرق کی حقیقت کی وضاحت یہ ہے کہ محبوب اور قرار بخشنے والی تجلی ہر حالت میں مختلف ہوتی ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کی کتاب حکمۃ الاشراق کے مشہور شارح الہروی نے اپنی کتاب شرح انواریہ میں شیخ الاشراق شہاب الدین سہروردی کے تصورِ کائنات کی تشریح کے دوران حرکت اور وقت کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ کہا ہے: حرکت زمان کا صرف ایک پہلو ہے۔ یہ عناصر زمانی کے مجموعہ کا نام ہے۔ حرکت اصل میں وقت کی خارجی شکل ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل کا امتیاز تو محض سہولت افہام کے لیے ہے اور یہ وقت کی نوعیت میں موجود نہیں ہوتا۔ ہم آغاز وقت کا تصور نہیں کرسکتے کیوں کہ یہ مفروضہ بذات خود وقت کانقطہ بن جائے گا۔ اس لیے وقت اور حرکت دونوں ازلی ہیں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ پانی، مٹی اور ہوا تین اصلی اور قدیم ترین عناصر ہیں۔ اشراقی مفکرین کے نزدیک آگ تو صرف جلنے والی ہوا کا دوسرا نام ہے۔ مختلف آسمانی اثرات کے تحت ان عناصر کی ترکیبات سیال، ٹھوس اور گیس رکھنے والی مختلف شکلیں اختیار کرلیتی ہیں۔ ان ابتدائی عناصر کی تبدیلی ہیئت ’’تعمیر و تخریب‘‘ کے اس طریق کو جنم دیتی ہے جو غیر نور (Non-Light) کے سارے کرے پر حاوی ہو جاتا ہے۔ یہ طریق کار ہستی کی مختلف صورتوں کو بلند سے بلند تر بناکر انھیں روشنی دینے والی طاقتوں کے زیادہ ترنزدیک لے آتا ہے۔ تمام مظاہر فطرت مثلاً بارش، بادل گرج اور شہاب ثاقب حرکت کے اس جاری و ساری اُصول کے مختلف اثرات اور اشیا پر نور ازلی (Primal Light) کے بلاواسطہ اور بالواسطہ نفوذ کا نتیجہ ہیں۔ تجلیات کو کم و بیش حاصل کرنے کی صلاحیت کے مطابق یہ چیزیں ایک دوسری سے مختلف ہو جاتی ہے۔ علامہ اقبال کائنات کی طلب نور کو ان جامع الفاظ میں پیش کرکے کہتے ہیں: مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کائنات ایک متحجر (پتھرائی ہوئی) خواہش اور نور کے حصول کی ایک شفاف آرزو ہے۔ کائنات کے دوام اور عدم دوام کی بحث کے ضمن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے، کیا یہ بھی نور ازلی کی طرح دائمی ہے یا نہیں؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ کائنات نور ازلی کی ضو بخش فطرت اور طاقت کاظہور ہے۔ اس نقطۂ نگاہ سے یہ کائنات محض وجود مستعار کی حامل ہے اس لیے یہ ابدی نہیں۔ مگر دوسرے مفہوم میں یہ بھی ابدیت کی شان رکھتی ہے۔ اس امر کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ ہستی کے مختلف شعبہ جات نور لم یزل کی جب کہ شعاعوںاور تابالیوں کے باعث موجود ہیں۔ کچھ تجلّیات کسی واسطہ کے بغیر دائمی ہیں جب کہ دوسری تجلّیات ان سے قدرے مدّہم ہیں کیوں کہ ان کی خود دوسری تجلّیات اور شعاعوں کے اجتماع پر منحصر ہوتی ہے۔ اس لیے ان ذیلی تجلیات کا وجود اس طرح ازلی و ابدی نہیں ہے جس طرح کہ ان کو جنم دینے والی تجلیات کا ہے۔ اس کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا جاسکتا ہے۔ رنگ کا وجود اس شعاع کے تقابل پر دارومدار رکھتا ہے جو روشن جسم کے سامنے لائی جانے والی کالی چیز کے رنگ کی مظہر ہوتی ہے۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ کائنات اگرچہ اپنے ظہور اور نمود کے لیے کسی اور کی محتاج ہے تاہم یہ اپنے منبع کی ازلی اور ابدی حالت کی بدولت شان ابدیت کی حامل بن جاتی ہے۔ کائنات کے عدم دوام کے نظریئے کے عَلم۔بردار مکمل استقراکے امکان کو مفروضہ بناکر مندرجہ ذیل انداز میں اپنی دلیل پیش کرتے ہیں: (۱) حبشہ کے باشندوں میں سے ہر ایک کالا ہے اس لیے تمام اہل حبشہ سیاہ فام ہیں۔ (۲) ہر حرکت ایک معینہ لمحہ پر شروع ہوئی تھی اس لیے ہر حرکت کا اس طرح آغاز ہونا چاہیے۔ علامہ اقبال کی رائے میں استدلال مذموم ہے۔ اس دلیل کے کبریٰ کا بیان بالکل ناممکن ہے کیوں کہ ہم وقت کے ایک خاص لمحہ پر ماضی، حال اور مستقبل کے تمام اہل حبش کو یکجا نہیں کرسکتے۔ ایسی حالت میں عالم گیر فیصلہ اور استدلال ممکن نہیں۔ اپنے تجربے کے تحت اہل حبشہ کی انفرادی جانچ پڑتال یا حرکت کی خاص مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام حبشیوں کو کالا اور تمام حرکات کو زمانی آغاز پر منحصر قرار دینا ایک عاجلانہ نتیجہ ہوگا۔ شیخ شہاب الدین سہروردی اور نفسیات شیخ شہاب الدین سہروردی نے فلسفیانہ نظام میں نفس انسانی سے متعلق چند اہم گوشوں کو بھی بے نقاب کرنے کی کوشش کی تھی۔ روح و بدن کا مسئلہ اس کے فلسفہ اشراق میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ علامہ اقبال اس کے تصور روح و بدن کی بحث کی تلخیص پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ پست درجے کے اجسام میں حرکت اور روشنی لازم ملزوم نہیں ہوا کرتیں۔ مثال کے طور پر پتھر کا ایک روشن اور دیدنی ٹکڑا خود آغاز کردہ حرکت کی صفت کا حامل نہیں ہوتا۔ جب ہم زندگی کے میزان میں بلند ہوتے ہیں تو ہمیں اعلیٰ اجسام یا اجسام نامیہ ملتے ہیں جن میں حرکت اور روشنی ایک ساتھ شامل ہوتی ہیں۔ مجرد تجلی کا بہترین مسکن انسان میں موجود ہے لیکن سوال اٹھتا ہے کہ انفرادی مجرد تجلی جسے ہم روح انسانی کہتے ہیں اپنی طبعی اور جسمانی رفاقت سے قبل موجود تھی یا نہیں؟ حضرت علامہ فرماتے ہیں کہ فلسفہ اشراق کا بانی اس بارے میں بوعلی سینا کی تقلید میں اس کے بیان کردہ دلائل کے ذریعے یہ ظاہر کرتا ہے کہ انفرادی مجرد تجلیات کو روشنی کی بہت سی اکائیوں کی حیثیت سے حیات ماقبل کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایک یا ایک سے زیادہ مادی مدارج کو مجرد تجلی کا مثیل نہیں ٹھہرایا جاسکتا جو اپنی اصل کے اعتبار سے نہ ہی وحدت اور نہ ہی کثرت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ مجرد تجلی اپنے مادی روابط میں ضوگیری کے مختلف مدارج کے سبب کثرت کی حامل نظر آتی ہے۔ علامہ اقبال اشراقی تصور روح و بدن کے موضوع کی وضاحت کے ضمن میں کہتے ہیں: مجرد تجلی یعنی روح اور بدن کا تعلق علت و ملول پر مبنی نہیں۔ عشق ان دونوں کے درمیان رشتہ وحدت کا کام دیتا ہے۔ تجلی کا خواہش مند جسم اسے روح کی وساطت سے حاصل کرتا ہے کیوں کہ جسم کی نوعیت اسے اپنے اور منبع نور کے درمیان براہ راست ابلاغ کی اجازت نہیں دیتی۔ روح براہ راست حاصل شدہ روشنی کو تاریک اور ٹھوس جسم تک منتقل نہیں کرسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم اپنی صفات کے سبب ہستی کی مخالف سمت میں واقع ہوتا ہے۔ باہمی تعلق کے لیے امین ایک ایسے درمیانی واسطہ کی ضرورت ہوتی ہے جو روشنی اور تاریکی کے درمیان واقع ہو۔ یہ درمیانی واسطہ حیوانی روح یعنی ایک گرم، لطیف اور شفاف بخار ہے۔ جو دل کے بائیں خلا میں اپنا مقام رکھنے کے باوجود جسم کے تمام حصوں میں گردش کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ اشراقی نقطۂ نگاہ سے اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ روشنی کے ساتھ حیوانی روح کی جزوی مطابقت کی وجہ سے تاریک راتوں میں خشکی پر رہنے والے جانور جلتی ہوئی آگ کی طرف دوڑتے ہیں جب کہ بحری جانور چاند کے حسین منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے اپنے آبی اور بحری مساکن سے باہر آجاتے ہیں۔ اس لیے انسان کانصب العین ترازوئے حیات میں بلند تر مقامات کی طرف جاکر زیادہ سے زیادہ تجلی کو حاصل کرنا ہے جو بتدریج اسے عالم صور سے مکمل آزادی دلاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نصب العین کو کیسے حاصل کیا جائے؟ شیخ شہاب الدین سہروردی کا کہنا ہے کہ ہم علم اور عمل کے ذریعے اس اعلیٰ مقصد حیات کو پاسکتے ہیں۔ عقل، ارادہ اور فکر و عمل کے امتزاج میں انقلاب لاکر انسان کا یہ اعلیٰ نصب العین بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ اس امر سے انکار محال ہے کہ جب کائنات کے بارے میں ہمارے تصورات بدل جاتے ہیں اور ہم تبدیلی کے مطابق اپنے نئے لائحہ عمل کو بھی اختیار کرتے ہیں تو ہم اپنے اعلیٰ مقاصد حیات کو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح مادیت کی دلدل سے نجات حاصل کرنے کے لیے روحانی بلندیاں اور ایزدی تجلیات کا قرب بھی لازم ہیں۔ شیخ شہاب الدین سہروردی ہمیں بتاتے ہیں کہ روحانی بلندیوں تک پہنچنے اور ایزدی تجلیات سے فیض یاب ہونے کے لیے ہمیں مندرجہ ذیل ذرائع کو اختیار کرنا ہوگا: (الف) علم جب مجرد تجلی اپنے آپ کو بلند تر جسم نامیہ (Organism) سے مربوط کرلیتی ہے تو وہ خاص صلاحیتوں… روشنی کی طاقتوں اور تاریکی کی قوتوں… کے زیر اثر اپنی نشوونما کا سامان پیدا کرتی ہے۔ روشنی کی طاقتیں پانچ بیرونی حواس اور پانچ اندرونی حواس (پردۂ حس، تصور، تخیل، ادراک اور حافظہ) پر مشتمل ہیں جب کہ تاریکی کی قوتیں، قوت نشو و نما اور قوت انہضام وغیرہ پر مبنی ہے۔ سہولت کی خاطر ان قوتوں کومنقسم کیا گیا ہے۔ شرح انواریہ میں کہا گیا ہے: ’’ایک قوت سارے عمل کا منبع بن سکتی ہے۔‘‘ دماغ کے وسط میں ایک ہی طاقت ہوتی ہے اگرچہ مختلف مقامات توقف کے مطابق اسے مختلف نام دیے جاتے ہیں۔ درحقیقت دماغ ایک ایسی وحدت ہے جسے سہولت کی خاطر کثرت سمجھا جاتا ہے۔ انسان کے اصلی جوہر کی تشکیل کرنے والی مجرد تجلی کو دماغ کے وسط میں رہنے والی قوت سے ممیّز کرنا چاہیے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں شیخ شہاب الدین سہروردی اگرچہ فعال دماغ اور غیر فعال روح کو الگ الگ خیال کرتا ہے تاہم وہ دماغی اور روحانی طاقتوں کے اتحاد کا بھی قائل ہے۔ علامہ اقبال کی یہ رائے ملاحظہ ہو۔ وہ کہتے ہیں: ’’معلوم ہوتا ہے کہ خلقی اشراق فعال ذہن اور بنیادی طور پر غیر فعال روح کے درمیان خط امتیاز کھینچتا ہے تاہم وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کسی پراسرار طریق پر یہ تمام مختلف قوتیں روح کے ساتھ مربوط رہتی ہیں۔‘‘ اشیا کی دِید (Vision) کے بارے میں شیخ شہاب الدین سہروردی نے جو نظریہ پیش کیا ہے، علامہ اقبال اسے اس کے فلسفہ تعقل کا جدت کوش پہلو قرار دیتے ہیں۔ شیخ الاشراق کے نظریہ دید کے مطابق آنکھ سے باہر آنے والی روشنی کی شعاع یا تو جوہر (Substance) ہوگی یا وہ صفت (Quality) ہوگی۔ اگر ہم اسے صفت کہیں تو پھر اسے ایک جوہر (آنکھ) سے دوسرے جوہر (دیدنی جسم) تک منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے برعکس اگر یہ جوہر ہے تو اس کی حرکت شعوری ہے یا اس کی پوشیدہ فطرت کی مجبوری کے تحت ہے۔ اگر اسے شعوری حرکت خیال کیا جائے تو یہ اسے دیگر اشیا کا احساس کرنے والا جانور بنادے گی۔ اس صورت میں احساس کنندہ شعاع ہوگی نہ کہ انسان۔ اگر شعاع کی حرکت اس کی طبیعت کا خاصہ ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ اس کی حرکت تمام اطراف کی بجائے صرف ایک ہی سمت سے مخصوص ہو کر رہ جائے۔ اس لیے روشنی کی شعاع کے بارے میں یہ خیال درست نہیں ہوگا کہ یہ آنکھ سے خارج ہوتی ہے۔ ارسطو کے پیروکاروں کی رائے میں دیکھنے کے عمل کے دوران میں آنکھ پر اشیا کی تصاویر ابھر آتی ہیں۔ یہ نظریہ بھی غلط ہے کیوں کہ بڑی چیزوں کی تصویریں تھوڑی سی جگہ پر نمایاں نہیں ہوسکتیں۔ اس ضمن میں علامہ اقبال کے یہ الفاظ لائق مطالعہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں: سچ تو یہ ہے کہ جب کوئی چیز آنکھ کے سامنے آتی ہے تو ایک روشنی واقع ہو جاتی ہے اور ذہن اس روشنی کے ذریعے اس شے کو دیکھ لیتا ہے۔ جب شے اور عام بصارت کے درمیان کوئی حجاب نہ ہو اور ذہن اس کا احساس کرنے کے لیے آمادہ ہو تو اس وقت دیکھنے کا عمل وقوع پذیر ہونا چاہیے کیوں کہ یہی قانون اشیا ہے۔ برکلے (Berkeley) نے خدا کو تمام تصورات کا منتہی ثابت کرنے اور ہمارے احساسات دید کی اضافیت کو واضح کرنے کے لیے یہ کہا تھا۔ ’’ہر دید ایک تجلی ہے اور ہم باخدا بن کر تمام چیزوں کو دیکھ لیتے ہیں۔‘‘ اشراقی فلسفی کا بھی یہی مقصد ہے اگرچہ اس کا نظریہ دید حقیقت دید کے جدید انداز نظر کی طرح طریق بصارت کی زیادہ وضاحت نہیں کرتا۔ علامہ اقبال ’’ذوق‘‘ اور عشق کو بھی حصول علم کا ایک لازمی ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں کائنات کی خارجی اشیا کا مطالعہ و مشاہدہ اور تاریخ ہی ذرائع نہیں بلکہ باطنی احساس اور جذبہ عشق بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کے نظریۂ دیدِ اشیا کے ضمن میں وہ اپنے تاثرات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’فہم و ادراک کے سوا علم کا ایک اور ذریعہ ہے جسے ’’ذوق‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’ذوق‘‘ ایک ایسا باطنی احساس ہے جو ہستی کے غیرزمانی اور غیرمکانی پہلوئوں کا انکشاف کرتا ہے۔ فلسفہ یا خالص تصورات پر غور و فکر کرنے کی عادت کا مطالعہ نیکی کے کام کے ساتھ مل کر اس پراسرار احساس کی تربیت میں مدد دیتا ہے۔ یہ پوشیدہ احساس عقل کے نتائج کی تصدیق اور تصحیح کیا کرتا ہے۔‘‘ ان الفاظ سے یہ حقیقت بالکل نکھر کر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ عشق و ذوق ایک ایسا باطنی احساس ہے جو عقلی نتائج اور فکری دعاوی کے لیے معیار ثابت ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس طرح یہ بھی حصول علم کا ایک اہم، مفید اورمؤثر ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس نقطۂ نگاہ سے تصور کی اہمیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ (ب)عمل فعال ہستی ہونے کی حیثیت سے انسان درج ذیل محرک قوتوں کا مالک ہے۔ ان قوتوں کے نام یہ ہیں: (۱) عقل یا روحِ ملکوتی: عقل یا روح ملکوتی ذہانت، تمیز اور علم کی محبت کا ذریعہ ہے۔ (۲) وحشی روح: یہ غصہ، جرأت، غلبہ اور حُبِ جاہ کا منبع ہے۔ (۳) روح حیوانی: روح حیوانی شہوت، بھوک اور جنسی جذبے کا سرچشمہ ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی نے انسانی عمل کو عموماً ان تین چیزوں پر مبنی قرار دیا ہے۔ اس کی رائے میں عقل یا روح ملکوتی (Angelic-soul) کا حامل بن کر ہم کو حکمت و دانائی کی نعمت مل جاتی ہے۔ اگر ہماری عقل وحشی روح (Beast-soul) اور روح حیوانی (Animal-soul) پر غلبہ پالے تو پھر ہمیں علی الترتیب بہادری اور عفت کی صفات حاصل ہو جاتی ہیں۔ جب یہ تینوں طاقتیں آپس میں ہم آہنگ ہو جاتی ہیں تو وہ عدل و انصاف کی صفت کو جنم دیا کرتی ہیں۔ نیکی کے ذریعے روحانی ترقی کے امکان سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ دنیا بہترین امکانات کی حامل ہے۔ موجود اشیا اپنی ذات میں نہ اچھی ہیں اور نہ ہی بری ہیں بلکہ ان کا غلط استعمال یا محدود نقطۂ نگاہ انھیں ایسا بنا دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں دنیا میں شر کا وجود ہے مگر یہ نیکی کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ اس کے باوجود بدی کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ شیخ شہاب الدین سہروردی مزید کہتے ہیں کہ شرتاریکی کی دنیا کے حصے سے مخصوص ہے جب کہ کائنات کے دوسرے حصے برائی کے داغ سے بالکل پاک ہیں۔ اس بحث کے دوران وہ انسانی عمل اور خدائی عمل کے تفاوت اور شر کے بارے میں یہ کہتے ہیں: خدا کے تخلیقی فعل کو شر کے وجود سے منسوب کرنے والا تشکیک پرست پہلے سے انسانی اور خدائی عمل کے درمیان مشابہت کو فرض کرلیتا ہے اور وہ اس بات کو نہیں دیکھتا کہ کوئی موجود شے بھی اس مفہوم میں آزاد نہیں ہے۔ جس طرح ہم انسانی فعل کی بعض صورتوں کو شر خیال کرتے ہیں ہم اسی مفہوم میں خدائی فعل کو بدی کا خالق نہیں سمجھ سکتے۔ اس امر کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے کہ علم اور نیکی کے ملاپ سے روح انسانی اپنے آپ کو عالم ظلمات سے آزاد کروالیتی ہے۔ جوں جوں اشیا کی نوعیت کے بارے میں ہمارا علم بڑھتا جاتا ہے توں توں ہمیں عالم نور کے زیادہ قریب کردیا جاتا ہے اور اس دنیا کی محبت زیادہ سے زیادہ شدید ہوتی جاتی ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی عشق اور روحانی ترقی کے مختلف مدارج و مراحل کے قائل تھے۔ خدا کے ساتھ انسانی عشق اور شوق کے جذبات و مدارج لاانتہا ہیں اس لیے روحانی ترقی کے مدارج بھی اسی نسبت سے لامحدود ہیں ان کی رائے میں روحانی ترقی کے بڑے بڑے مدارج مندرجہ ذیل ہیں: (۱)’’مَیں‘‘ کا مقام اس درجہ ’’انا‘‘ میں احساس شخصیت بہت زیادہ غالب ہوتا ہے بنابریں اس درجے پر پہنچ کر انسانی عمل عام طور پر خودغرضی کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔ (۲)’’تُو نہیں ہے‘‘ کا مقام اس مقام پر پہنچ کر انسان اپنے نفس یا من میں اس حد تک مستغرق ہوجاتا ہے کہ وہ باہر کی ہرچیز کو مکمل طور پر بھلا دیتا ہے۔ (۳)’’مَیں نہیں ہوں‘‘ کا مقام یہ مرحلہ پہلے مرحلے کا لازمی نتیجہ ہے۔ جب انسان اپنے من میں بہت زیادہ ڈوب جاتا ہے تو اسے باہر کی دنیا کی کچھ بھی خبر نہیں رہتی۔ ایسی حالت میں اسے اپنی ہستی کی نفی کا بھی احساس ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ پکار اٹھتا ہے۔ ’’میں نہیں ہوں۔‘‘ (۴)’’تُو ہے‘‘ کا مقام یہ ’’میں‘‘ کی مکمل نفی اور ’’تو‘‘ کے اثبات کا مرحلہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ خدا کی مرضی کے سامنے مکمل طور پر سرتسلیم خم کرنے کے مترادف ہے۔ اس مرحلے پر انسان کو اپنی ذات کی نفی اور خدا کی ذات کے اثبات کا احساس ہوتا ہے اس لیے وہ خدا کو کہتا ہے کہ میں تو موجود نہیں ہوں مگر تو ضرور موجود ہے۔ (۵)’’مَیں نہیں ہوں‘‘ اور ’’تُو نہیں ہے‘‘ کا مقام یہ دونوں فکری اصطلاحات کی مکمل نفی کا مرحلہ ہے۔ اس طرح یہ کائناتی شعور کی حالت ہے۔ ایسی حالت میں انسان کو ’’من و تو‘‘ کی بجائے خدا کی ہمہ گیریت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی روحانی ترقی کے ان مراحل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر مقام پر کم و بیش شدید تجلیات کا ظہور ہوتا ہے جن کے بعد چند ناقابل بیان آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ بعدازاں وہ روحانی تربیت سے فیض یافتہ روح کی بقا کے بارے میں فرماتے ہیں: موت روح کی ترقی کا خاتمہ نہیں کرتی۔ موت کے بعدانفرادی ارواح ایک ہی روح کے ساتھ متحد نہیں ہو جاتیں بلکہ وہ ایک دوسری سے اپنے فرق کو جاری رکھتی ہیں۔ روحانی اختلاف کا یہ تسلسل اس روحانی تجلی کے تناسب سے ہوتا ہے جسے انھوں نے جسمانی رفاقت کے دوران حاصل کیا ہوتا ہے۔ شیخ الاشراق یعنی شیخ شہاب الدین سہروردی کے ان الفاظ سے صاف عیاں ہے کہ وہ روحوں کی مکمل یگانگت کے قائل نہیں تھے۔ ان کے بعد ایک مغربی مفکر لائبنز (Leibniz) نے ’’غیرممیّز اشیا کی مطابقت‘‘ (Identity of Indiscernibles) کا اُصول پیش کیا تھا۔ علامہ اقبال لائبنز اور شہاب الدین سہروردی کا موازنہ کرتے ہوئے شیخ الاشراق کواس کا پیش رو خیال کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: فلسفیِ اشراق نے لائبنز کے اُصولِ مطابقتِ غیر ممیّز کی پیش بینی کی ہے اور اس کی رائے میں کوئی سی بھی دو روحیں آپس میں مکمل طور پر یکساں نہیں ہوسکتی ہیں۔ علامہ اقبال نے یہ نظریہ بیان کرتے وقت شرح انواریہ کو مدنظر رکھا تھا۔ وہ شیخ شہاب الدین سہروردی کو کبھی ’’شیخ الاشراق‘‘ کہتے ہیں اور کبھی ’’فلسفیِ اشراق۔‘‘ فلاسفہ اور صوفیا نے فلسفہ و تصوف میں جسم و روح کی بحث کے دوران اس امر پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ مرنے کے وقت جسم اور روح کا سابقہ تعلق کیسا تھا اور آیندہ کیسا ہوگا۔ بعض حضرات کی رائے میں مرنے کے بعد روح سابقہ جسم میں دوبارہ داخل ہوگی جب کہ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ موت کے بعد روح کو نیا جسم ملے گا۔ شیخ شہاب الدین سہروردی نے اس مشکل مسئلے پر جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان کا خلاصہ یہ ہے: روح بتدریج تجلی کو حاصل کرنے کی غرض سے جسم مادی کو اختیار کرتی ہے۔ اپنے اس روحانی سفر کے دوران جب وہ اس مادی مشینری کو بالکل ختم پاتی ہے تو وہ اپنا سفر ختم نہیں کرتی بلکہ اسے جاری رکھنے کے لیے ایک اور جسم کو سواری کے طور پر استعمال کرنے لگتی ہے۔ اس لیے جسم کو اختیار کرتے وقت وہ اپنی گزشتہ زندگی کے تجربات کو ضرور مدنظر رکھتی ہے۔ اس کے بعد وہ ہستی کے مختلف مراحل میں بلند سے بلند تر ہوتی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ وہ ان مراحل کے مطابق خاص صورتیں اپناتی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنی آخری منزل مقصود یعنی مکمل نیستی اور نفی کی حالت تک پہنچ جاتی ہے۔ اپنی کمی کو پورا کرنے کے لیے غالباً بعض ارواح اس دنیا میں واپس آجاتی ہیں۔ (شرح انواریہ)۔ اُصول تناسخ کو نہ تو ثابت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی خالصتاً منطقی نقطہ نظر سے اس کی تردید کی جاسکتی ہے۔ تاہم روح کی آیندہ تقدیر کے لیے اسے ایک ممکن مفروضہ سمجھا جاسکتا ہے۔ اس طرح تمام ارواح اپنے اس مشترک منبع کی طرف مسلسل سفر کررہی ہیں جو اس سفر کے اختتام پر تمام کائنات کو اپنی طرف بلالے گا اور وہ تمام سابقہ ادوار کی تاریخ کو دہرانے کے لیے زندگی کا ایک اور دور شروع کردے گا۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کے نظریہ روح کی یہ تلخیص دل چسپ بھی ہے اور متنازعہ بھی۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کے فلسفیانہ اور صوفیانہ خیالات کی بحث کو ختم کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ علامہ اقبال نے اس تمام بحث سے کیا نتائج حاصل کیے ہیں اور ان کے ذاتی افکار کی نہج کیا ہے۔شیخ شہاب الدین سہروردی کی علمی خدمات کے بارے میں علامہ اقبال کے نظریات کا ماحصل یہ ہے کہ شیخ الاشراق کا فلسفہ کئی جہات سے خاصا اہم اور انقلاب خیز ہے۔ وہ انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس عظیم ایرانی شہید کا خلاصۂ فلسفہ ابھی بیان کیا گیا ہے۔ صحیح طور پر وہ پہلا ایرانی فلسفی ہے جو ایرانی افکار کے تمام پہلوئوں میں صداقت کے عناصر کو تسلیم کرکے انھیں اپنے فکری نظام میں بڑی مہارت کے ساتھ یکجا کردیتا ہے۔ وہ اپنے تصورِ خدا کے سبب ہمہ اوستی ہے کیوں کہ وہ خدا کو تمام حسی اور مثالی وجود کا مجموعہ قرار دیتا ہے۔ وہ اپنے بعض پیش رو صوفیا کے برعکس اس دنیا کو حقیقی اور انسانی روح کو واضح انفرادیت کا حامل سمجھتا ہے۔ راسخُ العقیدہ علمائے دین سے متفق ہو کر وہ نور مطلق کو تمام مظاہر کی علت غائی مانتا ہے جو نور مطلق اپنی تجلی کے ذریعے کائنات کے ہرایک جوہر کی تشکیل کرتا ہے۔ علامہ اقبال اس کے بعد شیخ شہاب الدین سہروردی پربو علی سینا، ارسطو اور افلاطون کے فکری اثرات کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگرچہ شیخ شہاب الدین سہروردی نفسیات کے میدان میں بو علی سینا کی پیروی کرتا ہے تاہم اس نے بو علی سینا کی نسبت اسے زیادہ منظم اور تجرباتی طور پر بیان کیا ہے۔ ایک اخلاق پرست فلسفی کی حیثیت سے وہ ارسطو کا مقلد ہے جس کے اُصول اعتدال کو وہ بڑی شرح و بسط کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر وہ روایتی نوافلاطونیت میں تبدیلیاں پیدا کرکے اسے ایک ایسے مکمل ایرانی نظام فکر میں پیش کرتا ہے جو نہ صرف فلسفہ افلاطون کی حدود کو چھوتا ہے بلکہ وہ قدیم ایرانی ثنویت (Persian Dualism) کو روحانیت میں رنگ دیتا ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی سے بڑھ کر کوئی اور دوسرا ایرانی مفکر اپنے اساسی اُصولوں کے حوالے سے معروضی وجود (Objective Existence) کے تمام پہلوئوں کی وضاحت کی ضرورت سے زیادہ آگاہ نہیں ہے۔ علامہ اقبال اس کے فلسفیانہ نظام کی معروضیت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ شیخ الاشراق مسلسل خارجی تجربات کو مرکز توجہ بناکر اپنے نظریۂ اشراق (Throry of Illumination) کی روشنی میں مظاہر فطرت اور طبعی حوادث کی تشریح کی سعی کرتا ہے۔ اس سے قبل انتہا پسندانہ ہمہ اوست کی موضوعی (Subjective) نوعیت کی شدت نے خارجیت (Objectivity) کو پوری طرح ہڑپ کرلیا تھا مگر شیخ شہاب الدین سہروردی کے فلسفیانہ نظام میں مفصل جانچ پڑتال کے بعد اسے جائز اور جامع مقام مل گیا ہے۔ علامہ اقبال اس کو مزید سراہتے ہوئے یہ فرماتے ہیں: اس میں کوئی تعجب نہیں کہ یہ ذہین و فطین مفکر فکر اور احساس کومکمل طور پر ہم آہنگ اور متحد کرکے ایک ایسے فلسفیانہ نظام کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوگیا ہے جس نے اذہان کوبہت زیادہ مسحور بنا دیا ہے۔ اس کے تنگ نظر معاصرین نے اسے ’’مقتول‘‘ (یعنی قتل کردہ) کا خطاب دیا جس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اسے ’’شہید‘‘ خیال نہ کیا جائے۔ لیکن صوفیوں اور فلسفیوں کی بعد میں آنے والی نسلوں نے اسے ہمیشہ ہی بہت ادب و احترام دیا ہے۔ علامہ اقبال آخر میں نَسَفی کی کتاب مقصدِ اقصی کا حوالہ دیتے ہوئے کمتر روحانی نوعیت کی حامل اشراقی زاویہ فکر کا ذکر کرتے ہیں۔ نَسَفی کے حوالے سے وہ فرماتے ہیں: نسفی صوفیانہ افکار کے اس مرحلے کوبیان کرتا ہے جس میں مانی کی قدیم مادہ پرستانہ ثنویت کو دوبارہ اختیار کیا گیا تھا۔ اس مکتب فکر کے حامیوں کی نظر میں روشنی اور تاریکی کا وجود ایک دوسرے کے لیے لازمی ہے۔ درحقیقت تاریکی اور روشنی ان دو دریائوں کی مانند ہیں جو تیل اور دودھ کی طرح آپس میں مل جاتے ہیں اور جن کے باہمی اختلاط سے اشیا کی کثرت اور اختلاف جنم لیتے ہیں۔ انسانی عمل کا نصب العین تاریکی کے داغ سے چھٹکارا پانا ہے۔ تاریکی سے روشنی کی آزادی کا مطلب روشنی کی حیثیت سے روشنی کا شعور ذات ہے۔ اسی اقتباس کے ساتھ شیخ شہاب الدین سہروردی شہید کے نظام فکر کے اہم پہلوئوں کی بحث ختم ہوجاتی ہے۔ حقیقت فکر و خیال کی حیثیت سے… الجیلی (Al-Jili) الجیلی کے تصور انسان کامل کو دنیائے فلسفہ و تصوف میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب انسان کامل میں انسان کامل کی گوناگوں صفات اور کمالات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ علامہ اقبال نے اس کے نظریہ حقیقت مطلقہ کو تو بالتفصیل بیان کیا ہے مگر اس کے حالات زندگی پر زیادہ روشنی نہیں ڈالی۔ بہرحال انھوں نے الجیلی کے مختصر ترین سوانح حیات اور اس کے افکار پر مشہور صوفی مصنف شیخ محی الدین ابن عربی (Muhy-al-Din Ibn Arabi) کے اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ الجیلی ۷۶۷ھ میں متولد ہوا اور اس نے ۸۱۱ھ میں وفات پائی تھی۔ الجیلی نے اپنے ایک شعر میں خود اپنی تاریخ پیدایش ۷۶۷ ہجری بتائی ہے۔ اگرچہ وہ شیخ محی الدین ابن عربی کی مانند زیادہ تصانیف کا مالک نہیں تھا تاہم ابن عربی کے انداز فکر نے اس کی تعلیمات پر بہت گہرا اثر ڈالا تھا۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ اس کی ذات شاعرانہ تخیل اور فلسفیانہ ذہانت کا مجموعہ تھی اس کے باوجود اس نے شعر و سخن کو صرف اپنے صوفیانہ اور مابعدالطبیعی اُصولوں کو بیان کرنے کا ذریعہ بنایا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کی طرح اس نے بھی شاعری کو اپنے مخصوص نظریات کے لیے ذریعہ ابلاغ بنانے پر اکتفا کیا تھا۔ اس کی تصانیف میں شیخ محی الدین ابن عربی کی مشہور کتاب الفتوحات المکیہ کی شرح اور اس کی دوسری تصنیف انسان الکامل کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ شیخ محی الدین ابن عربی نے بسم اللہ کی تشریح کرنے کے لیے الفتوحات المکیہ لکھی تھی جسے اس کے صوفیانہ اور فلسفیانہ نظریات کے ابلاغ کا آج بھی شاہکار خیال کیا جاتا ہے۔ الجیلی نے اپنے مخصوص نظریہ حیات کی روشنی میں اس کی شرح کی تھی۔ الجیلی کے مندرجہ بالا مختصر سوانحی اور فکری پس منظر کا تذکرہ کرنے کے بعد علامہ اقبال اس کے فلسفیانہ نظام کے ایک اہم موضوع… نظریہ ہست و نیست پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بقول الجیلی خالص اور سادہ جوہر (Essence) وہ شے ہے جس سے اسما و صفات کو منسوب کیا جاتا ہے خواہ وہ چیز حقیقی یا مثالی طور پر موجود ہو۔ الجیلی کی رائے میں موجود اور ہست کی دو قسمیں ہیں: (۱) وجود مطلق یا وجود خالص جسے ہم ہستی خالص یا خدا بھی کَہ سکتے ہیں۔ (۲) نیستی سے ملی ہوئی ہستی جسے ہم تخلیق یا نیچر کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ الجیلی نے اپنی کتاب انسان الکامل (جلد نمبر، صفحہ۱۰) میں وجود و عدم (ہستی و نیستی) کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایزدی جوہر (The Essence of God) یا فکرِخالص (Pure Thought) کو سمجھا نہیں جاسکتا اور نہ ہی اسے الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ تمام نسبتوں سے ماورا ہے۔ علم بھی چونکہ اشیا کی باہمی نسبت پر منحصر ہوتا ہے اس لیے خدا علم کی حد سے بھی پرے ہے۔ عقل خالی اور اتھاہ فضا میں سے پرواز کرتی ہوئی اور اسما و صفات کے پردے کو چاک کرنے کے بعد وسیع کرہ زمان کو عبور کرتی ہے۔ اس کے بعد وہ غیر موجود کی حدود میں داخل ہو کر فکر خالص کے جوہر کو ہستی اور نیستی (Non-Existence) کا حامل پاتی ہے۔ اس لحاظ سے فکر خالص کا جوہر تضادات کا مجموعہ بن جاتا ہے کیوں کہ اس میں بیک وقت ہستی اور نیستی کی صفات ہوتی ہیں۔ یہ دو حوادث پر مشتمل ہے… گزرے ہوئے وقت میں حیات لازوال اور آنے والے زمانے میں زندگی جاوداں۔ اس کی دو صفات ہیں یعنی خدا اور تخلیق۔ اس کی دو تعریفات ہیں یعنی تخلیقی صلاحیت سے محرومی اور خلاقی صفت۔ اس کے دو نام ہیں… خدا اور انسان۔ اس کے دو رخ ہیں… مظہر (یہ مادی دنیا) اور غیر مظہر (عالم آخرت)۔ اس کے دو اثرات ہیں… احتیاج اور امکان۔ اس کے دو نقطہ ہائے نظر ہیں… ایک نقطہ نگاہ سے تو یہ اپنی ذات کے لیے غیر موجود (Non-Existent) ہے لیکن غیر ذات کے لیے یہ موجود ہے۔ دوسرے نقطہ نظر سے یہ اپنی ذات کے لیے تو موجود ہے مگر غیر ذات کے لیے غیر موجود ہے۔ اس عبارت سے یہ امر بالکل واضح ہے کہ الجیلی فکر خالص کے جوہر کو دو متضاد صفات کا حامل تصور کرتا ہے۔ علامہ اقبال الجیلی کے فلسفہ اسم و مسمی کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ الجیلی کے قول کے مطابق کسی چیز کا اسم (نام) مسمی کو ہمارے ادراک میں نصب کرتا ہے اور ہمارے دماغ میں اس کی تصویر بنا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ نام دی گئی شے (مسمّٰی) کوہمارے تخیل میں پیش کرکے اسے ہمارے حافظہ میں محفوظ کردیتا ہے۔ اس طرح نام کسی بیان کردہ چیز کا بیرونی حصہ یا اس کا چھلکا ہوتا ہے جب کہ وہ چیز اس کا باطنی حصہ یا گودا ہوتی ہے۔ الجیلی کا کہنا ہے کہ بعض نام فی الحقیقت موجود نہیں ہوتے مگر ان کا نام ضرور موجود ہوتا ہے جیسے عنقا جوایک فرضی پرندہ ہے۔ عنقا پرندے کا نام تو ہے لیکن وہ حقیقت میںکوئی وجود نہیں رکھتا۔ عنقا کلیتاً غیر موجود ہے۔ اس کے برعکس خدا مطلقاً موجود ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اسے چھوااور دیکھا نہیں جاسکتا۔ عنقا تو صرف ہمارے خیال میں موجود ہوتا ہے جب کہ خدا کا نام اپنے مسمی یعنی خدا کے حقیقی وجود پر دلالت کرتا ہے جسے اس کے اسمائے حسنہ اور صفات کاملہ کے ذریعے جانا جاسکتا ہے۔ الغرض الجیلی کی رائے میں خدا کا نام ہستی مطلق (Absolute Being) کے تمام اسرار و رموز کے انکشاف کا آئینہ ہے۔ اس لحاظ سے نام ایک ایسی روشنی ہے جس کی وساطت سے خدا اپنا دیدار کرتا ہے۔ علامہ اقبال الجیلی کے اس نظریۂ خدااور اسماعیلی تصور خدا میں مشابہت پاتے ہوئے یہ کہتے ہیں: الجیلی کا یہ نظریہ اسماعیلی تصور سے ملتا جلتا ہے جس کی رو سے ہمیں مسمّٰی کو اسم کے ذریعے تلاش کرنا چاہیے۔ اسم اور مسمّٰی کی بحث سے زیادہ آگاہی حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ہستی خالص یا ہستی مطلق (خدا) کے تین اہم مدارج کو بھی مدّنظر رکھیں۔ الجیلی کہتا ہے کہ وجود مطلق یا ہستی خالص (Absolute Existence or Pure Being) جب اپنی مطلقیت کو چھوڑتی ہے تو وہ تین مراحل اختیار کرتی ہے… (۱)مقام احدیت (One-ness)۔ (۲)مقام ہو (He-ness)۔ (۳)مقام انانیت (I-ness) اگرچہ مرحلہ اول میں صفات اور تعلقات کا فقدان ہوتا ہے تاہم اسے واحد ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے توحید مطلقیت سے ایک قدم دور ہوتی ہے۔ مرحلہ دوم میں ہستی خالص تمام ظہور و نمود سے آزاد ہوتی ہے۔ جب کہ مرحلہ سوم یعنی انانیت کا مقام مقام ھو کا خارجی ظہور ہے جسے ہیگل (Hegel) کے الفاظ میں انفصال ذات باری کہا جائے گا۔ یہ تیسرا مرحلہ خدا کے نام کا مقام ہے جہاں ہستی خالص کی ظلمت میں تنویرجنم لیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں فطرت آگے نمایاں ہو جاتی ہے اور ہستیِ مطلق یہاں پہنچ کر باشعور ہوگئی ہے۔ الجیلی مزید کہتا ہے کہ اللہ کا نام الوہیت (Divinity) کے مختلف مدارج کے تمام کمالات کا منبع ہے اور ہستی خالص کی ترقی کے دوسرے مرحلہ میں خدائی انفصال (برائی) کی نتیجہ خیزی کو اس نام کی زبردست گرفت میں مضبوطی سے شامل کیا گیا تھا۔ اس ترقی کے تیسرے مرحلہ میں یہ نام خود معروضیت کی شکل میں ڈھل کر ایک ایسا آئینہ بن گیا جس میں خدا نے اپنا عکس ڈالا تھا۔ اس طرح خدا نے اپنی جلوہ گری سے ہستی مطلق کی تمام تاریکی کافور کردی تھی۔ ہستی مطلق کے ان سہ گونہ مدارج و مقامات سے ظاہر ہے کہ الجیلی نے خدا اور کائنات کے باہمی ربط کو اپنے مخصوص فلسفیانہ نظریات کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش ہے۔ وہ کائنات کو خدائی صفات و تجلیات کا آئینہ دار قرار دیتا ہے۔ علامہ اقبال نے اس کے اس نظریے پر اپنی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ہستی مطلق کے تین مراحل و مراتب کا تذکرہ کرنے کے بعد علامہ اقبال نے مرد کامل (Perfect Man) کی روحانی تربیت کے بھی تین مراحل ہی کو بیان کیا ہے۔ جس طرح ہستی مطلق کی ترقی کے تین مراحل ہیں اسی طرح انسان کامل کی ترقی کے بھی اتنے ہی مدارج ہیں لیکن ان دونوں کی ترقی کا طریق ایک دوسرے کے طریق سے مختلف اور برعکس ہے۔ انسان کی ترقی پستی سے بلندی کی طرف ہوتی ہے۔ جب کہ ہستی مطلق (Absolute Being) نے بنیادی طور پر بلندی سے پستی کی طرف جانے والا طریق اختیارکیا تھا۔ الجیلی کے خیال کے مطابق انسان کامل اپنی روحانی ترقی کے مرحلہ میں اول خدا کے نام پر غور و فکر کرکے فطرت کا مطالعہ کرتا ہے جس پر اس کے نام کی مہر لگی ہوئی ہے۔ اپنی روحانی ترقی کے مرحلہ دوم میں پہنچ کر وہ خدائی صفات کے میدان میں قدم رکھتا ہے اور مرحلہ سوم میں آکر وہ خلاصہ کائنات (Essence) کی حد میں داخل ہو جاتا ہے۔ انسان کامل کے ان تین روحانی مراحل ترقی کا ذکر کرنے کے بعد الجیلی انسان کامل (Perfect Man) کے افعال کو خدائی افعال کا مترادف اور عکاس قرار دیتے ہوئے اس کے مقام رفیع کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے: روحانی ترقی کے تیسرے مرحلے میں پہنچ کر آدمی انسان کامل بن جاتا ہے۔ اس کی آنکھ خدا کی آنکھ، اس کی بات خدا کی بات اور اس کی زندگی خدا کی زندگی کا روپ دھار لیتی ہیں۔ یہ انسان کامل فطرت (Nature) کی عام زندگی میں شریک ہو کر اشیائے کائنات کی زندگی کا راز پالیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کا مسئلہ فلسفہ و تصوف اور دین و دانش کے اہم اور دقیق موضوعات میں سے ہے الجیلی نے اپنے فلسفیانہ نظام میں اس مسئلے پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ بعض مفکرین اور حکما کائنات کو حقیقت مطلقہ کا خارجی پہلو تو تسلیم کرتے ہیں مگر وہ اس کے حقیقی وجود کے قائل نہیں چنانچہ وہ اس دل چسپ عالم رنگ و بو کو سراب، وہم اور مایا قرار دیتے ہیں۔ الجیلی کو اس نقطہ نگاہ سے سخت اختلاف ہے۔ علامہ اقبال انسان کامل کے تین روحانی مراتب ترقی کے ذکر کے فوراً بعد الجیلی کے نظریہ ذات و صفات کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ ان کی رائے میں اس مشہور مسلمان فلسفی کے نظریات اس بارے میں بے حد دل چسپ اور اہم ہیں۔ اس کا یہ تصور ہندو عینیت یا مثالیت (Idealism) سے اساسی طور پر مختلف ہے۔ انسان الکامل(جلد اول، صفحہ ۲۲) کی روشنی میں وہ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں: وہ (الجیلی) صفت کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو ہمیں اشیا کی حالت سے متعلق علم دیتا ہے۔ وہ ایک اورمقام پرکہتا ہے کہ پسِ پردہ چھپی ہوئی حقیقت سے یہ اختلاف صفت صرف میدان مظاہر میں درست ہے۔ کیوں کہ ہر صفت، حقیقت کے غیر میں مخفی خیال کی جاتی ہے۔ یہ غیریت مظاہر کے میدان میں اشیا کی ترتیب و انتشار کے سبب ہوتی ہے لیکن عالم غیب کے لیے یہ امتیاز درست نہیں کیوں کہ وہاں اشیا کی ترکیب اور انتشار کا وجود نہیں ہوتا۔ علامہ اقبال الجیلی کے نظریہ کائنات اور ہندو عینیت پرستوں کے تصور کائنات میں زمین و آسمان کا فرق پاتے ہیں۔ دنیا کو دھوکا، سراب اور غیرحقیقی قرار دینے والوں سے الجیلی کو شدید اختلاف ہے کیوں کہ وہ حقیقت مطلقہ کے اس خارجی پہلو کو حقیقت پر مبنی تصور کرتا ہے۔ علامہ اقبال ’’مایا‘‘ کے تصور اور الجیلی کے کائناتی نظریات کے فرق کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ دیکھنا چاہیے کہ الجیلی ’’مایا‘‘ کے اُصول کے حامیوں سے کتنا بڑا اختلاف رکھتا ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ مادی دنیا حقیقی وجود کی حامل ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ یہ مادی دنیا حقیقی ہستی کا بیرونی چھلکا ہے لیکن یہ خارجی چھلکا بھی کچھ کم حقیقی نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے خیال میں الجیلی اس عالم مظاہر کے سبب کو مجموعہ صفات کے پس پردہ اصل وجود کی بجائے ذہن کا تراشا ہوا تصور سمجھتا ہے تاکہ اس مادی دنیا کے ادراک میں کوئی دشواری نہ رہے۔ یہاں تک تو برکلے (Berkeley) اور فشٹے (Fichte) الجیلی سے اس بارے میں متفق ہیں لیکن پھر اس کا یہ نظریہ ہمیں ہیگل (Hegel) کے نمایاں ترین اُصول یعنی خیال و وجود کی مطابقت تک لے جاتا ہے۔ بعدازاں حضرت علامہ الجیلی کی تصنیف انسان الکامل (جلد دوم، صفحہ ۲۶) کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فرماتے ہیں: انسان الکامل کی دوسری جلد کے سینتیسویں باب میں الجیلی واضح طور پر کہتا ہے کہ یہ کائنات خیال کی پیداوار ہے اس لیے فکر، خیال اور تصور اس کی ساخت کا مواد مہیا کرتے ہیں۔ وہ اس نظریے پرزور دیتے ہوئے یہ سوال پوچھتا ہے ’’کیا تو اپنے عقیدے کی حقیقت پر غور نہیں کرتا؟۔ وہ حقیقت کہاں ہے جس میں یہ نام نہاد خدائی صفات پوشیدہ ہیں؟۔ یہ سب خیال کے سو اکچھ بھی نہیں۔‘‘ اس لحاظ سے کائنات صاف و شفاف خیال کے ماسوا کچھ نہیں۔ علامہ اقبال الجیلی کے تصور کائنات کی بحث کے دوران جرمنی کے ایک مشہور و معروف فلسفی کانٹ (Kant) کی ایک اہم تصنیف… تنقید عقل محض (Critique of Pure Reason) کا تذکرہ بھی چھیڑ دیتے ہیں تاکہ ان دونوں مفکروں کے نظریات کا کسی قدر موازنہ و مقابلہ بھی کیا جائے۔ حضرت علامہ کی رائے میں الجیلی کانٹ کی اس کتاب کے فکری نتائج کو تو قبول کرتا ہے مگر وہ کانٹ کے برعکس اپنے اس خیال کو کائنات کا جوہر بنا دیتا ہے کانٹ کا ’’شے بذات خود‘‘ (Ding an Sich) اس کے نزدیک عدم محض ہے کیوں کہ وہ مجموعہ صفات کے پیچھے کچھ بھی موجود نہیں پاتا۔ وہ صفات کو اصل اشیا تصور کرتا ہے۔ اس کی رائے میں مادی دنیا وجود مطلق (Absolute Being) کی معروضی اورخارجی شکل ہے۔ وجود مطلق کی اپنی ذات میں اُصول اختلاف پر اس غیر کا وجود منحصر ہے اس لحاظ سے نیچر خدا کا خیال ہے۔ یہ ایک ایسا خیال ہے جس کی بدولت خدا کو اپنی ذات کا علم حاصل ہوتا ہے۔ علامہ اقبال ہیگل اور الجیلی کا دوبارہ تقابل کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہیگل اپنے نظریے کو وجود اور خیال کی یکسانیت کہتا ہے جب کہ الجیلی اسے حقیقت و صفت کی یک رنگی قرار دیتا ہے۔ الجیلی نے اس دنیا کو عالم صفات کہا ہے۔ علامہ اقبال ہمیں بتاتے ہیں کہ مادی دنیا سے متعلق الجیلی کے ان الفاظ کا استعمال کسی حد تک گمراہ کن ہے۔ ان الفاظ سے اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ صفت کی حامل حقیقت کا یہ امتیاز مختص ظاہری ہے اور اشیا کی نوعیت میں وہ کہیں بھیموجود نہیں۔ یہ حقیقی تو نہیں البتہ ہمارے اردگرد کی دنیا کے آسان فہم کے لیے یہ مفید ضرور ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ الجیلی تجرباتی عینیت (Empirical Idealism) کی صداقت کو محض نظریے کے طور پر مانتا ہے اور وہ اس فرق کی مطلقیت کا قائل نہیں۔ شاعر مشرق اور حکیم الامت علامہ اقبال ایک غلط فہمی کا یوں ازالہ کرتے ہیں: ان الفاظ سے ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ الجیلی کسی شے کی بذات خود معروضی حقیقت میں یقین نہیں رکھتا۔ وہ اس میں ضرور اعتقاد رکھتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کی وحدت کی وکالت کرتے ہوئے وہ مادی دنیا کو اس شے کا ’’غیر‘‘ اور خارجی اظہار قرار دیتا ہے۔ ہیگل کا تصور ’’شے بذات خود‘‘ (Ding an Sich) اور اس کا خارجی اظہار یا اس کی پیداوار دراصل آپس میں ہم آہنگ اور یکساں ہیں اگرچہ کائنات کو آسان انداز میں سمجھنے کے لیے ہم ان کے درمیان تمیز کرتے ہیں۔ الجیلی کہتا ہے کہ اگر ان میں کامل مطابقت نہیں تو پھر ایک شے دوسری شے کی مظہر کیسے ہوسکتی ہے۔ علامہ اقبال الجیلی کے اس تصور کی تلخیص اپنے ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: قصہ مختصر۔ ہیگل کے الفاظ Ding an Sich (شے بذات خود) کا مطلب الجیلی کی رائے میں خالص اور مطلق ہستی ہے جسے وہ اس کی نمود یا خارجی اظہار کے ذریعے تلاش کرتا ہے۔ الجیلی کا قول ہے کہ جب تک ہم حقیقت و صفت کی یکسانیت کو محسوس نہیں کرتے اس وقت تک مادی دنیا یا دنیائے صفات حجاب دکھائی دیتی ہے۔ لیکن جب ہم اس اُصول کو جان لیتے ہیں تو یہ پردہ دور ہو جاتا ہے اور ہم جوہر کو ہر جگہ دیکھ لیتے ہیں۔ اس وقت ہمیں پتا چلتا ہے کہ صفات اصل میں ہم ہیں اور فطرت اپنے اصلی رنگ میںنمایاں ہوجاتی ہے، تمام غیریت دور ہوجاتی ہے اور ہم فطرت کے ساتھ متحد ہو جاتے ہیں۔ بقول الجیلی جب غیریت کے تمام پردے دورہوجاتے ہیں تو اس وقت ہمارے ذوق تجسّس کا چبھتا ہوا کانٹا دور ہو جاتا ہے اور ہمیں ذہنی سکون حاصل ہوجاتا ہے۔ ذہنی سکون کے حصول کے بعد ہمارا فلسفیانہ جذبہ استفسار بھی سرد پڑجاتا ہے۔ جس شخص کو اس یک رنگی کا حساس ہوجاتا ہے اس کے لیے سائنسی اکتشافات و ایجادات نئی اطلاعات کی آئینہ دار نہیں ہوتیں کیوں کہ وہ اس سے بیشتر ہی اشیائے کائنات کی تہ میں پوشیدہ وحدت اور فطرتی حقائق سے بے خبر ہو چکاہوتا ہے۔ اس طرح مذہب اپنے مافوق الفطرت اختیار کے باوجود اس ضمن میں کچھ نہیںکہتا۔ اسے ہم روحانی آزادی سے تعبیر کرتے ہیں۔ آیئے اب ہم اس امر کا جائزہ لیں کہ الجیلی ان مختلف ایزدی اسما و صفات کی کس طرح درجہ بندی کرتا ہے جن کا فطرت یا صاف و شفاف الوہیت (Divinity) میں اظہار ہوتا ہے۔ اس کی یہ تقسیم درج ذیل ہے: (۱) خدا کے ذاتی اسما اور صفات مثلاً اللہ، احد، فرد، نور، حق، سبحان اور حی۔ (۲) خدا کے وہ نام اور صفات جو ہر قسم کی شان کا سرچشمہ ہیں مثلاً اکبر، متعال اور قادر۔ (۳) خدا کے وہ اسما و صفات جو تمام کمالات پر دلالت کرتے ہیں جیسے خالق، رحمن، اول اور آخر۔ (۴) حسن و جمال کے مظہر اسما و صفات مثال کے طور پرناقابل خلق، مصور، رحیم اور مبدا کل۔ الجیلی نے خدا کے مختلف اسما اور صفات کی جو تقسیم کی ہے اس کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے علامہ اقبال یہ کہتے ہیں: خدا کے یہ اسما و صفات خاص خاص تاثیر کے حامل ہیں۔ ہر ایک کا ذاتی اثر مرد کامل کی روح اور فطرت کو منور کرتا ہے۔ الجیلی نے اس بات کی تشریح نہیں کی کہ یہ ایزدی تجلیات کیسے وقوع پذیر ہوتی ہیں اور وہ کس طرح روح تک پہنچتی ہیں۔ ان دونوں امور کے بارے میں اس کی خاموشی اس کے نظریات کے صوفیانہ پہلو سے متعلق طمانیت بخشتی ہے اور وہ روحانی انتظام کی ضرورت پر دال ہے۔ خدا کے مخصوص ناموں اور صفات کے بارے میں الجیلی کے تصورات پر غور کرنے سے قبل ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مندرجہ بالا درجہ بندی کی رو سے اس کا نظریہ خدا جرمن فلسفی شامائر ماخر (Schleier Macher) کے نظریہ خدا سے ملتا جلتا ہے۔ جرمنی کا یہ ماہر الہیات تمام ایزدی صفات کا خلاصہ صفت طاقت قرار دیتا ہے جب کہ الجیلی خدا کو تمام صفات سے عاری سمجھنے میں خطرہ محسوس کرنے کے باوجود شامائر ماخر سے متفق ہے کہ خدا اپنی ذات میں غیر تغیر پذیر وحدت ہے اور اس کی مختلف صفات انسانی نظریات کی عکاس ہیں۔ خدا کے تصور سے متعلق اس جرمن مذہبی فلسفی کے یہ الفاظ قابل غور ہیں: خدا کی صفات خدا کے بارے میں مختلف انسانی مواقف اور نظریات سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ خدا کی غیر تغیر پذیر ذات واحد ہماری محدود عقل کے سامنے مختلف مظاہر پیش کرتی ہے۔ دراصل یہ وہ مظاہر ہوتے ہیں جنھیں ہم روحانی منظر کی مختلف سمتوں سے دیکھتے ہیں۔ (Matheson's Aids to the Study of German Philosophy 43.) الجیلی کے نقطہ نظر سے خدا اپنے مطلق وجود میں اسما و صفات کی حدود سے بالاتر ہے لیکن جب وہ اپنے آپ کو خارجی طور پر ظاہر کرتا ہے اور اپنی مطلقیت کو خیرباد کہتا ہے یا جب نیچر معرض وجود میں آتی ہے تو اس وقت نام اور صفات فطرت کی ساخت پر مرتسم دکھائی دیتے ہیں۔ اب ہم اس امر پر غور کریں گے کہ الجیلی ہمیں ایزدی اسما و صفات کی ضمن میںکیا بتاتا ہے۔ خدا کا سب سے اہم اوربنیادی نام اللہ (الوہیت) ہے جس کا مطلب ہے وجود اور زندگی کے تمام حقائق کا مجموعہ اپنے اپنے مخصوص نظام کے ساتھ۔ دوسرے لفظوں میں حیات کے تمام حقائق کا مجموعہ اس کے وجود کا آئینہ دار ہے۔ یہ تمام حقائق اپنے اپنے مخصوص نظام کے حامل ہیں۔ اس لحاظ سے خدا کا اسم اعظم ’’اللہ‘‘ حیات و کائنات کی تمام حقیقتوں کے مجموعی نظام کا مظہر ہے۔ خدا کے ساتھ اس نام کی نسبت خدا کی لازمی اورواحد ذات کی غماز ہے۔ الوہیت (Divinity) ہستی خالص (Pure Being) کا اعلیٰ ظہور ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ہستی خالص کو تو ہم آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں مگر اس کا ’’این‘‘ (کہاں) ناقابل دید ہے۔ اس کے برعکس الوہیت کے آثار تو دیدنی ہیں مگر الوہیت خود نظر نہیں آتی۔ نیچر اور الوہیت سے متعلق الجیلی کے تصورات کا خلاصہ ان الفاظ میں یہاں درج کیا جاتا ہے۔ حضرت علامہ کا قول ہے: اگرچہ فطرت صاف و شفاف الوہیت کا درجہ رکھتی ہے تاہم وہ اصلی الوہیت نہیں ہے۔ بنابریں الوہیت خود تو قابل دید نہیں مگر نیچر کی شکل میں اس کے نشانات آنکھوں سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ الجیلی اس بات کی توضیح کرتے ہوئے الوہیت کو پانی سے اور نیچر کو آئینے کی مانند شفاف اورمنجمد پانی یا برف سے تشبیہ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ برف پانی نہیں ہے اگرچہ یہ پانی پر مبنی ہوتی ہے۔ علامہ اقبال الجیلی کے اس تصور پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ الجیلی کی رائے میں جوہر (Essence) کی صفات کا ہمیں علم تو نہیں ہوتا تاہم وہ ہماری آنکھوں کے لیے قابل دید ہیں۔ یہ چیز الجیلی کی نیچرل عینیّت (Natural Idealism) یا مطلق عینیت (Absolute Idealism) کا ثبوت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی صفات کی نوعیت سے ہم آگاہ نہیں ہوتے مگر ہم ان کے اظلال یا آثار کا علم حاصل کرسکتے ہیں مثال کے طور پر خیرات بذات خود غیرمعلوم ہوتی ہے صرف اس کا اثر یا غربا کو خیرات دینے کی حقیقت سے ہم باہر ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ صفات جوہر (Essence) کی اپنی فطرت میں شامل ہوتی ہیں۔ اگر صفات کا اظہار اپنی اصلی فطرت میں ممکن ہوتا تو جوہر سے اس کی جدائی بھی ممکن ہوتی۔ خدا تعالیٰ کے چند اوربنیادی اسما بھی ہیں مثلاً مطلق احدیت (Absolute One ness) اور سادہ احدیت (Simple One ness)۔ جہاں تک کہ مطلق احدیت کا تعلق ہے وہ (ویدانت کی باطنی یا اصلی مایا) تاریکی سے فکر خالص (Pure Thought) کے نمود کی روشنی کی طرف پہلا قدم ہے۔ اگرچہ اس حرکت اور تبدیلی کے سبب خارجی مظاہر جنم نہیں لیتے تاہم یہ حرکت ان سب کو کھوکھلی آفاقیت کے تحت جمع کردیتی ہے۔ الجیلی اسے دیوار کی مثال سے واضح کرتا ہے علامہ اقبال اس تصویرپر یوں روشنی ڈالتے ہیں: مصنف (الجیلی) کہتا ہے کہ تم دیوار پر نظر ڈالو۔ تم ساری دیوار کو تو دیکھ سکتے ہو مگر اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والے مواد کے ٹکڑوں کو الگ الگ نہیں دیکھ سکتے۔ اس لحاظ سے دیوار ایک ایسی وحدت ہے جو کثرت کو بھی اپنے اندر شامل رکھتی ہے۔ پس ہستی خالص ایک ایسی وحدت ہے جو کثرت کی روح ہے۔ ہستی مطلق کی تیسری حرکت سادہ احدیت ہے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس میں خارجی نمود شامل ہوتی ہے۔ مطلق احدیت تمام خاص اسما اور صفات سے آزاد ہے۔ اس کے علی الرغم سادہ احدیت اسما و صفات کو اختیار کرلیتی ہے لیکن ان صفات کے درمیان کوئی فرق نہیں کیوں کہ ہر ایک صفت دوسری صفت کا جوہر ہوتی ہے۔ الوہیت سادہ احدیت کی مانند ہے لیکن اس کے اسما وصفات ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متضاد بھی ہیں جیسے لفظ فیاض لفظ ’’انتقام گیر‘‘ کی ضد ہے۔ علامہ اقبال الجیلی کے اس تصور اور ہندو دھرم کے متعلقہ تصور کے بارے میں اپنی ذاتی رائے کا یوں اظہار کرتے ہیں: الجیلی کا یہ نظریہ ویدانت کے مظاہری براہما کے نظریے کی مانند دکھائی دے گا۔ ذاتی خالق یا ویدانت کا پراجی پتی (Praji Pati) ہستی مطلق یا غیر مظاہری براہما کا تیسرا اقدام ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ الجیلی براہما کی دو قسموں کو مانتا ہے۔ سمکرا (Samkara) اور بدرایانہ (Badarayana) کی طرح صفات کے ساتھ یا صفات کے بغیر۔ اس کے نزدیک طریق تخلیق بنیادی طور پر فکر مطلق کا نزول ہے۔ مطلق ہونے کی حیثیت سے یہ اَسَت (Asat) ہے مگر ظہور پذیر اور محدود نہ ہونے کے سبب یہ سَتْ (Sat) ہے۔ اس مطلق وحدت جوہر کے باوجود وہ راما نوجا (Rama Nuja) کے تصور کی طرف مائل ہے۔ انفرادی روح کی حقیقت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ وہ سَمْکرا کے برعکس اس بات کو ماننے کی جانب میلان رکھتا ہے کہ ایشور اور اس کی عبادت اعلیٰ علم کے حصول کے بعد بھی ضروری ہیں۔ یہ تیسرا مرحلہ اور اقدام ہیگل کے الفاظ میں ’’سفر ہستی‘‘ ایک اور صفت (رحم) کا حامل ہے۔ اس کے بعد الجیلی کہتا ہے کہ خدا کا پہلا رحم و کرم اس کی ذات سے کائنات کا ارتقا اور اس کے انفصال ذات کے نتیجہ میں ہر ذرے میں اس کی ذات کا ظہور ہے۔ الجیلی اپنے نظریہ خدا اور نظریہ کائنات کو واضح کرنے کے لیے پانی اور برف کی مثال دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ نیچر (فطرت) منجمد پانی ہے اور خدا پانی کی مانند ہے۔ نیچر کا اصل نام خدا (اللہ) ہے اوربرف یا منجمد پانی تو صرف ایک مستعار نام ہے۔ وہ اپنی کتاب میں کسی اور جگہ پانی کو علم، عقل، ادراک، فکر اور خیال کی اصل قرار دیتا ہے۔ علامہ اقبال کی رائے میںالجیلی کی یہ مثال اسے اس غلطی سے محفوظ رکھتی ہے کہ خدا نیچر پر محیط کل ہے یا وہ حیات مادی کے میدان میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ بقول الجیلی سرایت کا مطلب وجود کے اختلاف پر دلالت کرتاہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر ہم یہ کہیں کہ خدا کائنات کے ذرے ذرے میں جاری و ساری ہے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ حیات مادی اور خدا دونوں کا الگ الگ وجود ہے۔ الجیلی تو خدا کو ہی حیات حقیقی کا مالک قرار دیتے ہوئے مزید کہتا ہے: خدا تعالیٰ ہر جگہ جاری و ساری نہیں کیوں کہ وہ تو خود حیات ہے۔ خارجی زندگی خدا تعالیٰ کی ذات کا دوسرا پہلو ہے۔ کائنات کے ظہور کے ذریعے وہ اپنی ذات کا دیدار کرتا ہے۔ جس طرح کسی نظریے کا موجد اس میں موجود ہوتا ہے اس طرح خدا بھی نیچر میں موجود ہے۔ ہم کَہ سکتے ہیں کہ خدا اور انسان میں فرق یہ ہے کہ خدا کے نظریات خودبخود عملی شکل اختیار کرلیتے ہیں جب کہ ہمارے نظریات اس خوبی سے عاری ہیں۔ الجیلی کے ان خیالات پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال اس کے اور جرمن فلسفی ہیگل کے استدلال میںمشابہت پاتے ہیں۔ ان کی رائے میں ہیگل بھی وحدۃ الوجود کے الزام سے نجات پانے کے لیے اس قسم کی دلیل سے کام لیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی صفت رحم اور صفت ربوبیت (The Attribute of Providence) کے باہمی گہرے تعلق کی تعریف کرتے ہوئے الجیلی کہتا ہے کہ ربوبیت اور رزاقی سے خدا کی وہ صفت مراد ہے جو تمام موجودات اور مخلوقات کی ضروریات زندگی کی بطریق احسن کفالت کرتی ہے۔ اپنی اس بات کو مزید وضاحت کے لیے وہ پودوں کی مثال دیتا ہے جو اس خدائی صفت کی بدولت پانی جیسی نعمت عظمیٰ سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال الجیلی کے اس نظریے کی تائید کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں ایک فطرت پرست فلسفی اس بات کو مختلف انداز میں بیان کرتے ہوئے اسے فطرت کی کسی خاص طاقت کی سرگرمی کا نتیجہ قرار دے گا۔ الجیلی اسے خدائی ربوبیت کی نمود کہے گا اور فطرت پرست فلسفی کے برعکس اس رزاق طاقت کو معلوم تصور کرے گا۔ فطرت پرست فلسفی اس طاقت کے علم سے معذوری کا اظہار کرے گا جب کہ الجیلی اس کے وجود کا معترف ہوگا۔ الجیلی کے خیال میں فطرت کے پس پردہ کوئی اور طاقت نہیں بلکہ یہ خود ہستی مطلق ہے۔ علامہ اقبال الجیلی کے نظریہ اسما و صفات ایزدی کی بحث کے بعد اب ایک اور اہم مشکل فلسفیانہ اور صوفیانہ موضوع یعنی تخلیق اشیا سے ماقبل کی نوعیت کے بارے میں الجیلی کے تصورات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ مذہب، فلسفہ، سائنس اور تصوف نے اپنے اپنے انداز میں اس امر کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ کائنات کی آفرینش سے پہلے کیا تھا اور اس وقت مادے (Matter)، وقت، زمان و مکان اور خدا کی کیا حالت تھی۔ اس بارے میں الجیلی کا نظریہ یہ ہے کہ تخلیق کائنات سے بیشتر خدا ’’اعمیٰ‘‘ (ازلی تاریکی اور موجودہ اصطلاح حالتِ لاشعور) میں تھا۔ اپنی اس بات کی تائید میں وہ ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تخلیق کائنات سے پہلے خدا کی حالت کے بارے میں جب رسول عربیؐ سے سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ارض وسما کی پیدایش سے قبل خدا ’’اعمیٰ‘‘ (اندھا پن یعنی لاشعوری حالت) میں تھا۔ علامہ اقبال اس اعمیٰ یا ازلی ظلمت کی نوعیت کا جائزہ دل چسپ انداز میں لیتے ہیں۔ ان کی رائے میں اس لفظ اعمیٰ کو ہم جدید اسلوب بیان میں ادا کرتے ہوئے ’’لاشعوری حالت‘‘ (Unconsciousness) کہیں گے۔ وہ الجیلی کی دور اندیشی کی داد دیتے ہیں کہ اس نے جدید جرمنی کے مابعدالطبیعیاتی اُصولوں کی طرف کافی عرصہ پہلے بلیغ اشارہ کردیا تھا۔ وہ الجیلی کے اس تصور کا لب لباب یہ پیش کرتے ہیں: الجیلی کہتا ہے کہ لاشعور تمام حقیقتوں کی حقیقت ہے۔ یہ کسی نزولی حرکت کے بغیر ہستی خالص ہے۔ یہ ہستی خالص خدائی صفات اور عمل تخلیق سے آزاد ہونے کی حیثیت سے کسی نام یا صفت کی محتاج نہیں کیوں کہ یہ عالم تعلقات سے ماورا ہے۔ یہ مطلق احدیت سے ممیّز ہے کیوں کہ مطلق احدیت وہ نام ہے جو ہستی خالص کو اس وقت دیا جاتا ہے جب وہ اپنی نمود کے لیے بلندی سے نیچے آتی ہے۔ اس کے بعد حضرت علامہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جب ہم خدا کے تقدم اور تخلیق کے تاخر کی بات کرتے ہیں تو ہمارے الفاظ سے زمان کا مفہوم مترشح نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ خدا اور اس کے عمل تخلیق کے دوران میں مرور زمان اور جدائی کا وجود نہیں ہوسکتا۔ وہ زمان و مکان کی حقیقت کو ان الفاظ کا جامہ پہناتے ہوئے فرماتے ہیں: زمان کا تسلسل اور مکان بذات خود مخلوق ہیں۔ ایک ذرۂ تخلیق خدا اور اس کے تخلیقی علم کے درمیان کیسے رکاوٹ بن سکتا ہے؟ اس لیے ہمارے ان الفاظ… قبل، بعد، کہاں وغیرہ ہرگز زمان و مکان مراد نہیں ہونی چاہیے۔ خدا کے عمل تخلیق کی حقیقت انسانی تصورات کی گرفت سے باہر ہے یہی وجہ ہے کہ حیات مادی کا کوئی درجہ بھی اس پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ کانٹ کے الفاظ میں اس عالم شہود کے قوانین کو عالم غیب کے بارے میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ زمان و مکان کے الفاظ انسانی ذہن کے پید اکردہ سانچے اورمعیار ہیں اس لیے خدا کی ذات پر ان کا اطلاق کسی طرح بھی درست نہ ہوگا۔ اس سے قبل علامہ اقبال خدا اور انسان کے تین اہم مدارج کا تذکرہ کرچکے ہیں اب وہ دوبارہ اس موضوع کو زیر بحث لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کمال اور ترقی کی طرف جاتے ہوئے انسان کو تین مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے مرحلہ میں انسان خدا کے نام پر غور و فکر کرتا ہے جسے الجیلی تجلی اسما قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے: جب خدا کسی خاص انسان کو اپنے ناموں کی روشنی سے منور کرتا ہے تو وہ انسان اس خدائی نام کی خیرہ کرنے والی تجلی کے نیچے آکر مٹ جاتا ہے۔ الجیلی کہتا ہے کہ : ایسی حالت میں تو اگر خدا کو پکارے تو وہ تیری پکار کا جواب دے گا۔ بقول الجیلی خدائی تجلی کے زیر اثر آکر وہ انسان اس وقت خدائی رنگ اختیارکرلیتا ہے۔ علامہ اقبال کے خیال میں بقول شوپنہار (Schopenhauer) اس خدائی تابانی کا اثر فرد کی مرضی کی بربادی ہوگا وہ ہمیں متنبہ کرتے ہیں کہ فرد کی اس مرضی کو طبعی موت کے مترادف خیال کرنا غلط ہوگا کیوں کہ کپلا (Kapila) کے الفاظ میں پراکرتی (Prakriti) سے متحد ہو کر بھی فرد زندہ ہوتا ہے اور وہ چرخے کی مانند حرکت کرتا رہتا ہے۔ یہی وہ مقام اتحاد ہے جہاں فرد وحدۃ الوجود کی حالت میں پکار اٹھتا ہے: محبوبہ اور میں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح متحدہ ہوگئے تھے کہ کوئی ہمیں جدا کرنے والا نہ تھا۔ (انسان الکامل، جلد اول صفحہ۴۰) مرد کامل کی روحانی ترتیب کے دوسرے مرحلہ کو الجیلی تجلی صفت کا نام دیتا ہے۔ یہ تجلی ایزدی انسان کامل کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ خدائی صفات کو ان کی اصلی نوعیت میں اپنی استعداد قبولیت کے مطابق حاصل کرلیتا ہے۔ اس خدائی تجلی کی مقدار اور حصول کے مطابق انسان کی روحانی ترقی کا تعین ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے بعض انسان زندگی کی خدائی صفت سے ضوگیر ہو کر روح کائنات کے حصہ دار بن جاتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر علامہ اقبال الجیلی کے انسان کامل کی چند کرامات کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں: اس خدائی تجلی کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کامل ہوا میں اڑتا ہے، وہ پانی پر چلتا ہے اور اشیا کی جسامت و ضخامت کو تبدیل کردیتا ہے (جیسا کہ حضرت عیسیٰؑ اکثر کیا کرتے تھے۔) اس طرح انسان کامل تمام خدائی صفات کی تجلی سے فیض یاب ہو کر اور اسم و صفت کی حد کو عبور کرتے ہوئے عالم جوہر یعنی حیات مطلق کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔ انسان کامل کی روحانی تربیت و ترقی کے تین مراحل کو بیان کرنے کے بعد علامہ اقبال حیات مطلق کا دوبارہ ذکر کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب ہستی مطلق اپنی مطلقیت کو چھوڑتی ہے تو وہ تین نزولی سفر اختیار کرتی ہے۔ یاد رہے کہ مرد کامل کی ترقی کاسفر نیچے سے اوپر کی طرف مگر ہستی مطلق کا سفر اوپر سے نیچے کی جانب ہوتا ہے۔ ہستی مطلق یا حیات مطلق کا ہر ایک نزولی سفر دراصل جوہر مطلق (Absolute Essence) کی آفاقیت محض یا عمومیت کو خصوصیت کا حامل بنا دیتا ہے۔ اس کی ہر ایک حرکت ایک ایسے نئے لازمی اسم (Essential Name) کے تحت نمودار ہوتی ہے جو انسانی روح پر خاص نورانی اثر ڈالتی ہے۔ حضرت علامہ فرماتے ہیں کہ یہاں پہنچ کر الجیلی کی روحانی اخلاقیات کی بحث کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اس آخری روحانی منزل پر جاکر انسان کامل بن گیا ہے اور وہ ہستی مطلق میں مدغم ہوگیا ہے۔ ہیگل کی زبان میں ہم کَہ سکتے ہیں۔ کہ اس مقام پر پہنچ کر انسان کامل نے فلسفہ مطلق (The Absolute Philosophy) سیکھ لیا ہے۔ الجیلی مرد کامل کے اس مقام رفیع کو یوں بیان کرتا ہے: انسان کامل روحانی ترقی کے آخری مقام پر جاکر مجموعہ کمالات بن جاتا ہے۔ وہ معبود اور کائنات کامحافظ بھی ہو جاتا ہے۔ (انسان الکامل، جلد اول صفحہ۴۸) الجیلی کے قول کے مطابق انسان کامل ایک ایسا نقطہ ہے جہاں انسانیت (عبدیت) اور خدائی (معبودیت) مل جاتی ہیں اور اس کا نتیجہ مرد خدا (God-Man) کی پیدایش کی شکل میں نکلتا ہے۔ انسان کامل کو الجیلی نے بہت سے کمالات، کرامات اور خدائی صفات کا حامل اور مکمل نمونہ تو قرار دے دیا ہے لیکن بقول اقبال اس نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ یہ مرد کامل کس طرح روحانی ارتقا کا کمال حاصل کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ روحانی ترقی کے تمام مراحل کو خاص تجربات سے مملو پاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ روحانی ارتقا کے ہر مرحلے پر مرد کامل کو ایک ایسا خاص تجربہ ہوتا ہے جو اس کے دل و دماغ میں کسی قسم کا شک اور اضطراب باقی رہنے نہیں دیتا۔ روحانی تجربات کے اس ذریعے کو الجیلی قلب (دل) کا نام دیتا ہے۔ علامہ اقبال کی رائے میں قلب کا لفظ آسانی سے شرمندہ معنی نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود وہ الجیلی کی افادیت قلب کے تصور سے متفق ہیں۔ قلب (دل) کی اہمیت و افادیت کو واضح کرنے کے لیے الجیلی نے اپنی کتاب انسان الکامل میں ایک صوفیانہ نقشہ بھی دیا ہے جس کی رو سے وہ دل کو ایک ایسی باطنی آنکھ قرار دیتا ہے جو بتدریج خدائی ناموں، خدائی صفات اور ہستی مطلق کو دیکھ لیتی ہے۔ یہ چشم باطن اپنے وجود کے لیے روح اور دماغ کی پراسرار ترکیب کی محتاج ہے اور بعدازاں اپنی فطرت کے مطابق یہ زندگی کی اعلیٰ حقیقتوں کی معرفت کا آلہ بن جاتی ہے۔ علامہ اقبال یہاں دل اور عقل کا موازنہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جو کچھ دل (ویدانت کے مطابق اعلیٰ علم کے حصول کا سرچشمہ) منکشف کرتا ہے فرد اسے اپنی ذات سے کوئی الگ یا مخالف چیز نہیں سمجھتا کیوں کہ یہ دلی انکشاف تو اس کی اپنی اصلیت اور اس کی گہری زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ قلبی ذریعے کی یہ خصوصیت اسے عقل سے ممیّز کرتی ہے۔ عقل کا مقصد اسے استعمال کرنے والے انسان کی ذات سے ہمیشہ مختلف اور جداگانہ نوعیت کا ہوتا ہے۔ عقل پر دل کو ترجیح دینے کے باوجود علامہ اقبال صوفیا کے اس مدرسہ فکر کا تذکرہ کرتے ہیں جو روحانی تجربے کے دوام اور روحانی بصیرت اور قلبی دید کے لمحات کو انسانی اختیار کا نتیجہ خیال نہیں کرتے۔ اس ضمن میں انھوں نے ایک مشہور برطانوی شاعر اور نقاد میتھیو آرنلڈ (Matthew Arnold) کے درج ذیل شعر کا حوالہ بھی دیا ہے۔ میتھیو آرنلڈ نے کہا تھا: We cannot Kindle,when we will the fire which in hearts resides. ہم اپنی مرضی اور ارادے کے مطابق اس آگ کو روشن نہیں کرسکتے جو دلوں میں جاگزین ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے علامہ اقبال روحانی تجربے کی اہمیت کے تو قائل ہیں مگر وہ اسے ایک اختیار اور دائمی عمل تصور نہیں کرتے۔ ان کی رائے میں اگر یہ روحانی تجربہ دائمی ہو جاتا تو اس سے عظیم اخلاقی قوت کا ضیاع واقع ہوتا اور معاشرتی نظام تہ و بالا ہو جاتا۔ مستقل طور پر من کی دنیا میں ڈوبے رہنا اور زندگی کے معاشرتی مسائل اور انسانی روابط کو نظر انداز کردینا کسی طرح بھی مفید نہیں ہوسکتا۔ اس لیے علامہ اقبال نے اس یک طرفہ عمل کے دوام پر تنقید کی ہے۔ اس کے بعد وہ مزید کہتے ہیں: بندۂ خدا وہ ہے جس نے اپنی زندگی کے راز کو جانا ہے اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ محسوس کیا ہے۔ لیکن جب وہ خاص روحانی احساس ختم ہو جاتا ہے تو انسان (عبد) انسان رہتا ہے اور خدا (معبود) خدا باقی رہتا ہے۔ خدا اپنے اعلیٰ مدارج سے نیچے آنے کے باوجود خدا ہی رہنا چاہیے اور اسی طرح انسان روحانی مراحل طے کرنے کے بعد بھی انسان ہی خیال کرنا چاہیے۔ الجیلی نے انسان کامل کی روحانی تربیت کے تین مراحل اور اسی طرح اس نے خدا کے بھی تین مدارج بیان کیے ہیں۔ الجیلی کے اس نظریے کو اُصول تثلیث یا نظریہ ثلاثہ یا اُصول سہ گونہ (Doctrine of the Trinity) کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال اس سے بیشتر حیات مطلق کی تین حرکات یا ہستی خالص کے اولین تین مدارج کو بیان کرچکے ہیں۔ وہ الجیلی کے تصور مرد کامل پر مزید اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا کی تیسری حرکت خارجی ظہور کی معیت میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ یہ خدائی تجلی دراصل خدا اور انسان میں جوہر کی ذات کا اِنفصال ہے۔ اس جدائی کے خلا کو انسان کامل پر کرتا ہے جو انسانی اور خدائی صفات کا حامل ہوتا ہے۔ الجیلی کے اس نظریے کی توضیح کرتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں: انسان کامل خدائی اور انسانی صفات میں شریک ہوتا ہے۔ الجیلی کی رائے میں انسان کامل کائنات کا محافظ ہے اس لیے اس کی نگاہ میں انسان کامل کا ظہور فطرت کے تسلسل کے لیے لازمی شرط ہے۔ اس موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ اس بات کو سمجھنا دشوار نہیں کہ ہستی مطلق جب اپنی مطلقیت کو چھوڑتی ہے تو وہ اس بندۂ خدا (God-Man) میں عود کرآتی ہے۔ اگر بندہ خدا نہ ہوتا تو وہ ایسا نہ کرسکتی تھی اور ایسی حالت میں نیچر نہ ہوتی اور نہ ہی نتیجہ کے طور پر کوئی روشنی ہوتی جس کے ذریعے خدا اپنی ذات کا خود دیدار کرتا۔ جس نور کی وساطت سے خدا اپنی ذات کا دیدار کرتا ہے وہ ہستی مطلق کی فطرت میں اُصول اختلاف کے سبب ہے۔ الجیلی اس اُصول اختلاف کو اپنے مندرجہ ذیل اشعار میں بیان کرتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: اگر تم یہ کہو کہ خدا واحد ہے تو تم درست کہتے ہو لیکن اگر تم اسے دو کہو تو یہ بھی درست ہے۔ اگر تم اسے تین قرار دو تو یہ بھی ٹھیک ہوگا کیوں کہ یہ انسان کی اصل فطرت ہے۔ (انسان الکامل،جلد اول صفحہ ۸) اس نقطہ نظر سے الجیلی انسان کامل کو رشتہ اتحاد یا ایک سے زیادہ کو آپس میں ملانے والی کڑی خیال کرتا ہے کیوں کہ ایک طرف تو وہ خدا کے تمام اصلی ناموں سے تجلی حاصل کرتا ہے اور دوسری طرف تمام خدائی صفات اس کی شخصیت میں دوبارہ ظاہر ہوتی ہیں۔ انسان کامل کی چند خدائی صفات کا ذکر کرتے ہوئے الجیلی ان کی یوں تقسیم کرتا ہے: (۱) آزاد زندگی یا وجود۔ (۲) علم جو زندگی ہی کی ایک شکل ہے۔ الجیلی ایک آیہ قرآنی کا حوالہ دیتے ہوئے اسے ثابت کرتا ہے۔ (۳) مشیّت… اُصول تخصیص یا ظہو رہستی (The Manifestation of Being)۔ الجیلی اس کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مشیّت یا ارادہ (Will) جوہرکے تقاضوں کے مطابق خدا کے علم کی تجلی ہے۔ اس لیے یہ علم کی خاص صورت ہے۔ یہ نو تجلیات کی حامل ہے جو سب عشق و محبت کے مختلف نام ہیں۔ اس کی آخری شکل محبت ہے جس میں محب و محبوب (عاشق و معشوق) اور عالم و معلوم آپس میں اس طرح مدغم ہو جاتے ہیں کہ ان میں مکمل یکسانیت پیدا ہو جاتی ہے۔ الجیلی عشق و محبت کی اس شکل کو جوہر مطلق (Absolute Essence) کہتا ہے جیسا کہ عیسائیت خدا کو محبت قرار دیتی ہے۔ الجیلی کے اس تصور عشق و محبت پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت علامہ یہ کہتے ہیں: الجیلی ہمیں مشیّت و ارادہ کے انفرادی عمل کو غیر معلول سمجھنے کی غلطی سے بچاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آفاقی مشیّت کا عمل ہی کسی علت کے بغیر عمل پذیر ہوا کرتا ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے وہ ہیگل کے اُصول آزادی پر دلالت کرتا ہے اور یہ رائے پیش کرتا ہے کہ انسانی اعمال میں جبر و اختیار دونوں شامل ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں تمام انسانی اعمال علت و معلول کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں صرف خدائی عمل ہی اس پابندی سے بے نیاز ہوتا ہے۔ ہمارے کام کبھی ہماری ذاتی مرضی کی پیداوار ہوتے ہیں اور کبھی وہ جبریت (Determinism) پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس خدائی اعمال خدائی مشیّت کے اختیار کی دلیل ہوتے ہیں۔ (۴)اپنی تخلیق کی مظہر طاقت الجیلی شیخ محی الدین ابن عربی کی اس رائے کو درست نہیں مانتا کہ کائنات اپنی تخلیق سے قبل خدا کے علم میں موجود تھی۔ اسے ابن عربیؐ کے اس نظریے سے اتفاق نہیںکیوں کہ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ خدا نے کائنات کو نیستی سے ہست نہیں کیا تھا۔ الجیلی کا ذاتی خیال یہ ہے کہ کائنات اپنی آفرینش سے بیشتر ذات خداوندی میں ایک تصور کی حیثیت سے موجود تھی۔ (۵)کلام یا نور ایزدی کا عکس الجیلی خدا کے کلام کو امکان خیال کرتا ہے۔ اس لیے وہ نیچر (کائنات) کو کلام اللہ کی عملی اور خارجی شکل قرار دیتا ہے۔ خدا کے اس خارجی پہلو کے مختلف نام ہیں۔ مثلاً ٹھوس دنیا، انسانی حقائق کا مجموعہ، نظام الوہیت، وحدت کی کثرت، غیر معلوم ہستی (خدا) کا اظہار، مراتب حسن، خدا کے اسما و صفات کا نشان اور خدائی علم کا مدعا۔ (۶)ناشنیدنی چیزوں کو سننے کی طاقت (۷)نادیدنی اشیا کو دیکھنے کی قوت (۸)حسن کائنات میں جو چیزیں کم حسین نظر آتی ہیں وہ اپنے اصلی وجود میں حسین و جمیل ہیں۔ حسن کائنات اگرچہ خدا کے حسن و جمال کا عکس ہے تاہم یہ حقیقی بھی ہے اور حسین بھی۔ الجیلی کا تصور حسن او رنظریہ خیر (نیکی) آپس میں مربوط ہیں۔ الجیلی کی رائے میں شر ایک اضافی چیز ہے اس لیے اس کا اپنا آزادانہ وجود نہیں۔ اسی طرح وہ گناہ کو بھی ایک اضافی بدصورتی اور قباحت قرار دیتا ہے۔ علامہ اقبال اس کے اس تصور کی ایک جھلک ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔ الجیلی کہتا ہے: ’’شر صرف ایک اضافی امرہے۔ اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔ اسی طرح معصیت محض ایک اضافی بدصورتی کے مترادف ہے۔‘‘ جس چیز کو ایک شخص برا خیال کرے لازم نہیں کہ دوسرا شخص بھی اسے برائی سمجھے۔ (۹) شدید قسم کی شوکت اَور خوبصورتی (۱۰) کمال کمال خدا کا نہ معلوم ہونے والا جوہر ہے اس لیے یہ غیر محدود اور لاانتہا ہے۔