Actions

موج دریا

From IQBAL

موج دریا

مضطرب رکھتا ہے میرا دل بے تاب مجھے
عین ہستی ہے تڑپ صورت سیماب مجھے

موج ہے نام مرا، بحر ہے پایاب مجھے
ہو نہ زنجیر کبھی حلقہء گرداب مجھے

آب میں مثل ہوا جاتا ہے توسن میرا
خار ماہی سے نہ اٹکا کبھی دامن میرا


میں اچھلتی ہوں کبھی جذب مہ کامل سے
جوش میں سر کو پٹکتی ہوں کبھی ساحل سے

ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے
کیوں تڑپتی ہوں، یہ پوچھے کوئی میرے دل سے

زحمت تنگی دریا سے گریزاں ہوں میں
وسعت بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں