Actions

غیر اسلامی تصوف اور اس کے ادبی نصب العین سے بغاوت

From IQBAL

اقبا ل نے غیر اسلامی تصوف اور اس کے نصب العین سے کیوں بغاوتکی خود ان کی زبانی سن لیجیے: ’’عجمی تصوف سے لٹریچر میں دلفریبی اور حسن و چمک پیدا ہوتا ہے۔ مگر انسان کے طبائع کو پست کرنے والا ہے۔ اسلامی تصوف دل میں قوت پیدا کرتا ہے اور اس قوت کا اثر لٹریچرپر ہوتا ہے ۔ میرا تو یہی عقیدہ ہے کہ مسلانوں کا لٹریچر تمام ممالک اسلامیہ میں قابل اصلاح ہے۔ یاسیہ لٹریچر کبھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ قوم کی زندگی کے لیے اس کا اور اس کے لٹریچر کا رجائیہ ہونا ضروری ہے۔ اسرار خودی میں حافظ پر جو کچھ لکھا گیا ہے اس کو خارج کر کے اور اشعار لکھے ہیں جن کا عنوان یہ ہے درحقیقت شعر و اصلاح ادبیات اسلامیہ ان اشعار کو پڑھ کر مجھے یقین ہے کہ بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی اور میرا اصل مطلب واضح ہو جائے گا‘‘۔ لسان العصر کو مفصل جوابات لکھنے کے بعد تیسری مرتبہ لکھتے ہیں: ’’زیادہ کیا عرض کروں سوائے اس کے کہ مجھ پر عنایت فرمائیے۔ عنایت کیا رحم کیجیے اور اسرار خودی کو ایک دفعہ پڑھ جائیے۔ جس طرح منصور کو شبلی کے پتھر سے زخم آیا اور اس کی تکلیف سے اس نے آہ و فریاد کی اسی طرح مجھ کو آپ کا اوعتراض تکلیف دیتا ہے۔‘‘ عجمی ادب و تصوف کے مسلمانوں کی زندگی پر اثرات کے سلسلہ میں مولوی سراج الدین پال صاحب کو لکھتے ہیں: ’’مسلمان مردہ ہیں انحطاط ملی نے ان کے تمام قویٰ شل کر دیا ہے اور انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہے کہ وہ اپنے صید پر ایسا اثر ڈالتا ہے کہ جس سے انحطاط کا مسحور اپنے قاتل کو اپنا مربی تصور کرنے لگ جاتا ہے یہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہے مگر ہمیں اپنے ادائے فرض سے کام ہے ملامت کا خوف رکھنا ہمارے مذہب میں حرام ہے‘‘۔ مولوی سراج الدین پال صاحب ہی کوحافظ پر ایک مضمون لکھنے کی ترغیب دیتے ہیں اور متعدد خطوط میں ان کی رہنمائی کے لیے کتابوں رسالوں اور اخباروں کے حوالے دیتے ہیں جن سے ان کی علم دوستی اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے محولہ بالا خط میں لکھتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ کسی مذہب یا قوم کے دستور العمل و شعار میں باطنی معانی تلاش کرنا یا باطنی مفہوم پیدا کرنا اصل میں ا س دستور کو مسخ کر دینا ہے۔ یہ ایک نہایت سٹل طریق تنسیخ کا ہے ۔ اور یہ طریق وہی قومیں ایجاد یا اختیار کرتی ہیں جن کی فطرت گو سفندی ہو… تاہم وقت پا کر ایران کا آبائی اور طبعی مذاق اچھی طرح سے ظاہر ہوا۔ ان شعراء نے نہایت عجیب و غریب اور بظاہر دلفریب طریقوں سے شعائر اسلام کی تردید و تنسیخ کی ہے۔ اور اسلام کی ہر محمود شے کو ایک طرح سے مذموم بیان کیا ہے اگر اسلام افلا س کو بر ا کہتا ہے تو حکیم سنائی اسکے اعلیٰ درجہ کی سعادت قرار دیتا ہے۔ اسلام جہاد فی سبیل اللہ کو حیات کے لیے ضروری تصور کرتا ہے تو شعرائے عجم ا س شعار میں کوئی اور معنی تلاش کرتے ہیں مثلاً:

غازی زپئے شہادت اندر تگ و پوے ست

غافل کہ شہید عشق فاضل ترازوست

در روز قیامت ایں بہ او کے ماند

ایں کشتہ دشمن است و آں کشتہ دوست

یہ رباعی شاعرانہ اعتبار سے بہت عمدہ ہے اور قابل تعریف ۔ مگر انصاف سے دیکھا جائے تو جہاد اسلامیہ کی تردید میں اس سے زیادہ دلفریب اور خوب صورت طریقہ اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ شاعر نے کمال یہ کیا ہے کہ جس کو اس نے زہر دیا ہے اس کو احساس بھی اس امر کا نہیں ہو سکتا کہ کسی نے مجھے زہر دیا ہے۔ بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ مجھے آب حیات پلا دیا گیا ہے۔ آہ مسلمان کئی صدیوں سے یہی سمجھ رہے ہیں‘‘۔ حافظ اور تصوف سے متعلق حافظ محمد اسلم جیراجپوری کے نام بھی اقبال کا مکتوب لائق توجہ ہے لکھتے ہیں: ’’پیرزادہ مظفر الدین صاحب نے میرا مطلب مطلق نہیں سمجھا۔ تصوف سے اگر اخلاق فی العمل مراد ہے (اور یہی مفہوم قرون اولیٰ میں اس کا لیا جاتا تھا) تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ ہاں جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وج سے نظام عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات سے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔ میں نے ایک تاریخ تصوف کی لکھنی شروع کی تھی مگر افسوس کہ مسالہ نہ مل سکا اور ایک دو باب لکھ کر رہ گیا۔ تصوف اور خودی کے مسائل پر مولوی ظفر احمد صاحب صدیقی کو لکھتے ہیں: ’’غلام قوم مادیات کو وروحانیات پر مقدم سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اور جب انسان میں خوئے غلامی راسخ ہو جاتہے تو وہ رہ ایسی تعلیم سے بیزاری کے بہانے تلاش کرتا ہے جس کا مقصد قوت نفس اور روح انسانی کا ترفع ہو… بہرحال حدو د خودی کے تعین کا نام شریعت ہے او ر شریعت اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔ جب احکام الٰہی خودی میں اس حد تک سرایت کر جائیں کہ خودی کے پرائیویٹ امیال و عواطف باقی نہ رہیں اور صرف رضائے الٰہی اس کا مقصود ہو جائے تو زندگی کی اس کیفیت کو بعض اکابر صوفیائے اسلام نے فنا کہا ہے۔ بعض نے اسی کا نام بقا رکھا ہے۔ لیکن ہندی اور ایرانی صوفیا نے اکثر نے مسئلہ فنا کی تفسیر فلسفہ ویدانت اور بدھ مت کے زیر اثر کی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مسلمان اس وقت عملی اعتبار سے ناکارہ محض ہے میرے عقیدہ کی رو سے یہ تفسیر بغداد کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک تھی او ر ایک معنی میں میری تمام تحریریں اسی تفسیر کے خلاف ایک قسم کی بغاوت ہیں‘‘۔ حافظؒ کے متعلق مولوی سراج الدین پال کے نا م ایک خط میں اپنا نظریہ اور طریق تحقیق بیان کرتے ہیں جس کی صحت اور دانش و مصلحت آج سورج کی طرح روشن اور مسلم ہے: ’’… اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ حافظ کے معاصرانہ تاریخ کو غور سے دیکھیے مسلمانوں کی دماغی فضا کس قسم کی تھی اور کون کون سے فلسفیانہ مسائل اس وقت اسلامی دماغ کے سامنے تھے۔ مسلمانوں کی پولیٹکل حالت کیا تھی۔ پھر ان سب باتوں کی روشنی میں حافظ کے کلام کا مطالعہ کیجیے… اور سب سے آخر میں شاعر حافظ ہے (اگر اسے صوفی سمجھاجائے) یہ حیرت کی بات ہے کہ تصوف کی تما م شاعری مسلمانوں کے پولیٹکل انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوئی اور ہونا بھی یہی چاہیے تھا کہ جس قوم میں طاقت و توانائی مفقود ہو جائے جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہو گئی تو پھر اس قوم کا نقطہ نگاہ بدل جایا کرتاہے ان کے نزدیک ناتوانی ایک حسین و جمیل شے ہو جاتی ہے اور ترک دنیا موجب تسکین اس ترک دنیا کے پردے میں قومیں اپنی سستی و کاہلی اور اس شکست کو جو ان کو تنازع للبقا میں ہو چھپایا کرتی ہیں خو د ہندوستان کے مسلمانوں کو دیکھیے کہ ان کے ادبیات کا انتہائی کمال لکھنو کی مرثیہ گوئی پر ختم ہوا‘‘۔