Actions

دین ومذہب

From IQBAL

(۱)’’ وھائٹ ہیڈ کے بقول ’’دین اپنے اُصولوں کے لحاظ سے ان عام حقائق کا نظام ہے جنہیں اگر کامل خلوص کے ساتھ مانا اور واضح طور پر سمجھا جائے تو وہ ہمارے کردار کی کایا پلٹنے میں موثر ثابت ہوتے ہیں‘‘۔ ( پہلا خطبہ) (۲)’’ دین وایمان کو عقل کی روشنی میں دیکھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اُن پر فلسفے اور عقل کے تفوق کو تسلیم کرلیا جائے‘‘ ( ایضاً) (۳)’’ دین ایک شعبہ جاتی معاملہ نہیں‘نہ ہی یہ محض فکر اور نہ ہی صرف جذبہ وتاثر ہے اور نہ یہ صرف عمل کانام ہے بلکہ یہ انسان کی مکمل زندگی کا اظہار ہے‘‘ ( ایضاً) (۴)’’ ینگ کا خیال ہے کہ مذہب کی ماہیت تجزیاتی نفسیات کے دائرہ عمل سے باہر ہے‘‘ (ساتواں خطبہ) (۵)’’ جدید نفسیات نے ابھی تک مذہبی وجدان کی بیرونی حد کو بھی نہیں چھوا‘‘ ( ایضاً) (۶)’’ مذہب کلی حقیقت کا مطالبہ کرتا ہے۔اُسے حقیقت مطلقہ کے جزوی نقطہ نگاہ یعنی سائنس سے خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ (دوسرا خطبہ) دین و مذہب کو ہماری انفرادی اورا جتماعی زندگی میں نمایاں حیثیت دیجاتی ہے۔ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ ان کے بغیر زندگی کی اعلیٰ قدریں‘ انسان دوستی کے زرّیں اُصول‘معاشرتی روابط کے گہرے احساسات اور خدا شناسی کے پاکیزہ جذبات بے بنیاد اور غیر اہم ہوجاتے ہیں۔ مذاہب عالم کی تاریخ پر نظر ڈالیے تو حیرت ہوتی ہے کہ مذہب نے ہر دور میں لاتعداد انسانوں کے افکار واعمال اور سیرت وکردار کی تشکیل میں کتنا قابل قدر کردار ادا کیا ہے۔اگر مذہب کے اُصولوں اور دین کے عقائد میں اتنی کشش اور دل پسندی کا غالب عنصر نہ ہوتا تو لوگوں کے دل ودماغ ہرگز ان کی طرف راغب نہ ہوتے اور نہ ہی وہ اپنے اپنے مذہب کے تحفظ وفروغ کے لیے جانی اور مالی قربانیاں دیتے۔اگر انسان کسی چیز پر اپنا مال اور جان نچھاور کرنے کے لیے تل جاتا ہے تو لازماً اس کی نظر میں وہ چیز اسے جان ومال سے زیادہ عزیز ہے۔کہا جاتا ہے کہ’’مال نثارِ جاں‘جاں نثارِ آبرو‘‘۔(مال جان پر قربان ہے اور جان آبرو پر نچھاور ہے)۔ جب انسان مذہب کی قربان گاہ پر مال اور جان کے علاوہ اپنی آبرو بھی قربان کردے تو پھر دین ومذہب کی ہمہ گیریت اور قدرتی جاذبیت میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا ۔ ان اُمور کی روشنی میں مشہور انگریز فلسفی اور ریاضی دان پروفیسر وہائٹ ہیڈ(۱۹۴۷۔۱۸۶۱) کے اس قول کی صداقت کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ اگر دین ومذہب کے عام حقائق کو اچھی طرح سمجھ کر پورے خلوص کے ساتھ عملی جامہ پہنایا جائے تو وہ انسانی کردار کی کایا پلٹنے میں موثر ثابت ہوتے ہیں۔علامہ اقبالؒ نے پروفیسر وہائٹ ہیڈ کے نظریہ مذہب کے پردے میں دراصل اپنے تصور دین کی تائید وحمایت کی ہے۔اُن کے خیال مین دین ایک پرائیویٹ اور جزوی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی مکمل زندگی کا اظہار ہے جس میں محض خیال اور جذبہ شامل نہیں بلکہ اس کا عمل پر بھی انحصار ہوتا ہے۔فلسفہ اورشاعری ہماری زندگی کی مکمل رہنمائی نہیں کرسکتے کیونکہ فلسفہ کی صرف خیالات اور شاعری کی الہام اور جذبات پرستی پر بنیاد ہوتی ہے۔ اس کے برعکس دین ہمارے خیالات اور احساسات کے علاوہ ہمارے اعمال کی بھی شیرازہ بندی کرکے کامل ہدایت وفلاح کا ضامن بن جاتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے دین اسلام کی اس بے مثال اور عالمگیر وحدت کو اپنے خطبہ الہٰ آباد میں یوں بیان کیاہے:۔ "In Islam it is the same reality which appears as the church looked at from one point of view and the state, from another. It is not true to say that the church and the state are two sides or facets of the same thing"

 مذہب نہ صرف فرد کی منتشر قوتوں کو متحد ومنظم کرتا ہے بلکہ وہ افراد ملت کے لیے بھی موثر اور پائیدار ذریعہ ثابت ہوتا ہے جیسا کہ شاعر مشرق  ؒ اپنی نظم’’فردوس میں ایک مکالمہ‘‘ میں کہتے ہیں:

مذہب سے ہم آہنگی افراد ہے باقی دیں زخمہ ہے،جمعیت ملت ہے اگر ساز

بنیاد  لرز  جائے  جو دیوار چمن کی      ظاہر ہے کہ  انجام گلستان کا  ہے آغاز

(بانگ درا،کلیات اقبال،ص ۲۴۵) علامہ اقبالؒ کی رائے میں اسلامی حقائق اور قرآنی معارف کو سمجھنے کے لیے عقل وخرد کے استعمال کی اجازت ہے مگر عقل کو لازمی طور پر الہامی صداقتوں کا آخری اور یقینی معیار قرار نہیں دیا گیا۔عقل انسانی حقیقت مطلقہ کے ظاہری اور خارجی پہلوئوں کے انکشاف کا ایک اہم وسیلہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے بار بار مطالعہ کائنات اور مشاہدہ فطرت پر زور دیا ہے۔عقل اپنے علم کے لیے ظاہری حواس اور مادی دنیا کے مظاہر پر انحصار رکھتی ہے اور وہ خیال آرائی اور ظن وقیاس سے کام لیتی ہے۔اس کے برعکس دین وایمان کا خارجی عالم کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے اور باطنی دنیا کے ساتھ بھی۔علاوہ ازیں یہ خیال آرائی اور شکوک وشبہات کا حامل نہیں ہوتا۔ کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ کوئی انسان بھی محض خیال پرستی اور ظن وتخمین پر اپنی زندگی کی زیادہ عرصہ تک بنیاد نہیں رکھ سکتا؟اگر وہ ایسا کرے تو وہ یقینی اور حتمی افکار اور ٹھوس اعمال سے محروم ہوکر صحیح منزل حیات سے آشنا نہیں ہوسکتا۔ عقل انکشاف حقیقت کے لیے بڑی دیر لگاتی ہے اور یہ بھی لازمی نہیں کہ وہ آخر میں حقیقت کو پاسکے۔علامہ اقبالؒ ظن وتخمین پر مبنی عقل کی راہنمائی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اپنی مختصر نظم’’وحی ‘‘ میں یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں:۔ عقل بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں راہبر ہو ظن وتخمیں تو زبوں کارِ حیات (ضرب کلیم،کلیات اقبال، ص۵۰)

سائنس اور مذہب کی آویزش کا معاملہ اہل دانش سے مخفی نہیں ہے۔ سب سے پہلے یہ مسئلہ اہل کلیسا اور سائنس دانوں کے درمیان وجہ نزاع بنارہا۔ بعد میں اسے مسلمانوں کے درمیان بھی موضوع بحث بنایا گیا۔علامہ اقبالؒ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت اور حقیقت رسی کے منکر نہیں ہیں لیکن وہ اسے کلی حقیقت تسلیم نہیں کرتے۔اُنکی رائے میں مادی دنیا کے خارجی اور حّسی پہلوئوں کا عمیق مطالعہ اور گہرا مشاہدہ اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں کیونکہ قرآن حکیم کی لاتعداد آیات میں اس پر زور دیا گیا ہے۔ یہ اسی قرآنی تعلیم کا لازمی اور منطقی نتیجہ تھا کہ ہمارے متقدمین نے مختلف علوم وفنون میں حیرت انگیزنظریات پیش کئے جو بعدازاں یورپی ترقی کا سبب بنے تھے۔سائنس صرف ظاہری دنیا کو لائق توجہ قرار دیتی ہے مگر اسلام باطنی دنیا کو بھی قابل قدر تصور کرتا ہے۔سائنس حقیقت شناسی کا محض جزوی پہلو ہے لیکن اسلام تو حیات انسانی کے مختلف گوشوں پر محیط ہے۔اسی لیے علامہ اقبالؒ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اسلام کے ٹھوس حقائق کو سائنس کے جزوی نقطہ نگاہ سے ڈرنے کی قطعاًضرورت نہیں۔وہ تو قرآنی حقائق کو آنے والے ادوار کا بھی پیش رو خیال کرتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں قطعی اور ناقابل تردید معلومات بھی حاصل نہیں ہیں۔ وہ قرآن کو سائنسی حقائق کا معیار اور راہنما خیال کرتے ہیں۔اُن کا مندرجہ ذیل شعر قرآنی صداقتوں کے امین مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے:۔
صد جہانِ تازہ در آیاتِ اُوست   عصر ہا پیچیدہ در آنات اُوست

(جاوید نامہ،کلیات اقبال،ص۶۵۴)

کارل ینگ(۱۹۶۱۔۱۸۷۵) سوئٹزرلینڈ کا شہرہ آفاق نفسیات دان تھا جس نے ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ(۱۹۳۹۔۱۸۵۶) کے ساتھ مل کر تجزیاتی نفسیات کی بنیاد ڈالی تھی۔ علامہ اقبال ؒنے ینگ کے اس نظریے سے کامل اتفاق کیا ہے کہ تجزیاتی نفسیات دین ومذہب کی ماہیت اور کنہ سے ناواقف ہے۔مذہبی مشاہدات اور وجدانی کیفیات کا تعلق اگرچہ انسان کے باطن یعنی روح‘ دل اور دماغ سے ہے تاہم وہ نفسیاتی تجزیے کے دائرہ عمل سے باہر ہیں۔ ماہرین نفسیات ہمارے افکار وخیالات کو جاننے کی کوشش میں ہمارے اعمال اور ظاہری حرکات وسکنات کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔ وجدان اور مذہب جس طرح انسان کی شخصیت میںحیرت انگیز انقلاب پیدا کرتے ہیں وہ جدید نفسیات دانوں کے ادراک میں ابھی تک نہیں آسکے۔ علامہ اقبالؒ اس ضمن میں بندہ مومن کی نگاہ اور مرد حق کی صحبت کے اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دراصل اسی نفسیاتی وانقلابی معجزے کوبیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔

؎ من نمے دانم چہ افسوں می کند روح را درتن دگرگوں می کند ؎ نگاہ مردمومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں