Actions

تیسراباب:اسلام میں عقل پرستی کا عروج و زوال

From IQBAL

اسلام میں عقل پرستی کا عروج و زوال

I-عقلیت کی مابعدالطبیعیات مفکراسلام علامہ اقبال نے اس طویل باب میں بہت سے اہم امور پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے مطالعہ کے ذہنی نتائج درج ذیل ہیں: ۱- ایران میں جب اسلام کا ظہور ہوا تو اس کا وہاں ابتدائی دور ان فلسفیانہ موشگافیوں اور نکتہ طرازیوں سے خالی تھا جنھوں نے بعدازاں اسلام کے چشمۂ صافی کو گدلا کردیا تھا۔ ۲- اسلام کے زیر اثر ایرانیوں نے داخلیت (دنیائے باطن) کو وقتی طور پر چھوڑا اور انھوں نے خارجی حالات میں دل چسپی لی۔ بعد میں آہستہ آہستہ انھوں نے اپنے طبعی رجحانات سے مجبور ہو کر دروں بینی اختیار کرلی اور وہ عقلیت (Rationalism) میں گم ہوگئے۔ ۳- عقل پرستی کانتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی تعلیمات اور عقائد کے بارے میں ایمان کمزور ہوتا گیا۔ عقل پرستی نے تشکیک پرستی کو جنم دیا اور اس نے تصوف اور الحاد کی راہیں پیدا کیں۔ کچھ عقل پرست کوچہ تصوف میں آنکلے اور انھیں قلبی سکون مل گیا۔ جن کو یہ پناہ نصیب نہ ہوئی وہ الحاد کی وادیوں میں بھٹکتے رہے۔ ۴- جب مذہبی امور فلسفیانہ زبان میں بیان ہونے لگے تو متکلمین کا گروہ پیدا ہوگیا۔ اشاعرہ اور معتزلہ مکاتب فکر کی عقلی بحثوں سے کون واقف نہیں ہے۔ اس طرح جبریہ اور قدریہ مسالک بھی دینی حقائق کو عقل کی ترازو میں تولنے لگے۔ ۵- فکر آزاد کی عَلم۔بردار اسماعیلی تحریک عجمی افکار و نظریات کی پیداوار تھی۔ اس تحریک نے اسلامی تعلیمات میں عجیب و غریب تبدیلیاں پیدا کی تھیں۔ ۶- معتزلی مفکرین کے برعکس اشاعرہ نے اسلام کو غیر اسلامی عناصر سے پاک کرنے کی سعی کی تھی۔ ۷- امام غزالی عالم اسلام کی ایک نابغہ شخصیت تھے۔ ان کے نظریات کا پرتو ہمیں مسلم اور غیر مسلم فلاسفہ کی تحریروں میں نمایاں طورپر دکھائی دیتا ہے۔ اس باب کے شروع میں علامہ اقبال نے مسلمان مفکرین اور فلاسفہ کی عقل پرستانہ مابعدالطبیعیات خصوصاً فلسفیہ یونان کے زیر اثر ان کی فلسفیانہ موشگافیوں کے لازمی نتائج مثلاً عقل پرستی، تشکیک پرستی، تصوف اور ملحدانہ افکار کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کی عقل پرستانہ سرگرمیاں دراصل ان کی خارجیت و داخلیت کی کشمکش کا رد عمل تھیں۔ اسلامی تعلیمات دین و دنیا اور فکر و عمل کے باہمی ملاپ کی مظہر ہیں اس لیے نظام حیات میں انسان کی داخلی اور خارجی ضروریات کی تکمیل پر زور دیا گیا ہے۔ علامہ اقبال اپنی اس کتاب کے آغاز میں یہ امر واضح کرچکے ہیں کہ ایرانی قوم زیادہ تر فکر آرائی اور خیال پیمائی کی عادی ہے اس لیے اس قوم کی ذہنی سرگرمیاں ہی اس کا طرۂ امتیاز ہیں۔ جب ایران میں اسلام کا ظہور ہوا تو اسلامی تعلیمات کے زیر اثر اہل ایران دنیائے باطن سے باہر آکر زندگی کے خارجی احوال اور مظاہر فطرت کے مطالعہ و مشاہدہ میں بھی نمایاں دل چسپی لینے لگے تھے۔ جب اسلامی فتوحات کا غلغلہ ذرا کم ہوا تو انھوں نے اسلام کے عقائد و نظریات میں بتدریج ایرانی نظریات سمونے شروع کردیے۔ بعدازاں وہ جب اپنی فطری عادت کے مطابق آفاق سے منہ موڑ کر انفس کی طرف متوجہ ہوئے تو ان کی داخلیت خارجیت پر حاوی ہوگئی۔ وہ ظاہری دنیا کی ہماہمی اور علمی کشاکش سے بھاگ کر عقل کی دنیا میں عزلت گزین ہوگئے تھے۔ خارج سے باطن کی طرف یہ گریز عقل پرستی کے جنم کا سبب بن گیا۔ عقل و فکر کی دنیا میں پناہ ڈھونڈنے کے بعد انھوں نے اپنے گزشتہ خارجی احوال اور عصری مسائل کا جائزہ لینے کے لیے عقل کو اپنا راہبر بنالیا۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جب کوئی انسان عمل کی بجائے عقل ہی کو ہر بات میں اپنا راہ نما تسلیم کرلے تو پھر وہ نادیدنی حقائق اور الہامی صداقتوں کو بھی عقلی معیار پر پرکھنے لگتا ہے۔ عالم مادی سے ماورا امور (مابعدالطبیعیات) بھی عقل وحی کے مسلمہ اُصولوں اور بنیادی عقائد کو بھی شک و شبہ کی نظر سے دیکھنے لگ جاتی ہے اس طرح دل و دماغ میں زبردست کشمکش کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ کشمکش فی الحقیقت ہماری تشکیک پرستی کی پیداوار ہوتی ہے اور ہماری تشکیک پرستی کو عقل پرستی جنم دیا کرتی ہے۔ بعض انسان عقل کی بھول بھلیوں سے نکل کر تصوف کی دنیا میں آجاتے ہیں اور بعض ان میں گم ہو کر الحاد کی منزل کی جانب چل پڑتے ہیں۔ عقل کا زناری عموماً حق و صداقت کے خارجی معیارات کو مسترد کردینے کا حامی بن جاتا ہے۔ دل و دماغ اور فکر و عمل کی اس دل چسپ چپقلش کا خلاصہ علامہ اقبال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: نئے سیاسی ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے بعد ایرانی ذہن فوراً اپنی فطرتی آزادی کو دوبارہ برقرار رکھ کر باطن کی جانب لوٹ جاتا ہے… فلسفہ یونان کے مطالعہ سے پہلے آفاق میں گم ہونے والا دماغ غور و فکر شروع کردیتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ اب اپنے آپ کو حق و صداقت کا ثالث تصور کرتا ہے۔ اس طرح داخلیت غلبہ پاکر ہر طرح کی خارجی حاکمیت کو اکھاڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ کسی قوم کی فکری تاریخ میں اس طرح کا زمانہ اصل میں عقل پرستی، تشکیک پرستی، تصوف اور الحاد کا دور ہوا کرتا ہے۔ ایسے حالات میں انسانی دماغ داخلیت کی بڑھتی ہوئی قوت سے مغلوب ہو کر سچائی کے تمام خارجی معیاررد کردیتا ہے۔ اس اقتباس سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ ظاہر و باطن کی یہ رزم آرائی عموماً انتہا پسندی پر منتج ہوجاتی ہے۔ انسان یا تو عالم خارجی میں منہمک ہو کر مادہ پرست بن جاتا ہے یا وہ دنیائے باطن میں مقیم ہو کر محض روحانیت پرست ہو جاتا ہے۔ قرآن اور اسوہ رسولؐ اس یک طرفہ طریق زندگی کے مخالف ہیں۔ قرآن تو ہمیں دنیوی ترقی کے ساتھ روحانی ترفع، عقل و عشق، انفس و آفاق اور فکر و عمل کے صحیح امتزاج کی تلقین کرتا ہے۔ ہمارے ہادی اعظم حضرت محمدؐ نے اپنے عمل سے زبردست اور بے مثال معاشرتی اور اخلاقی انقلاب لاکر ثابت کردیا ہے کہ دین میں دنیوی معاملات اور معاشرتی فلاح کا عنصر بھی شامل ہے۔ داخلیت و خارجیت کے موضوع پر گفتگو کرنے کے بعد علامہ اقبال نے اموی دور حکومت اور عہد عباسیہ میں عقلیت کے فروغ خصوصاً معتزلہ عقائد پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے معتزلہ تصور خدا اور نظریہ مادہ کو یہاں کافی تفصیل سے بیان کرکے ہمیں اس کے تاریخی پس منظر اور آیندہ اثرات سے روشناس کرایا ہے۔ ان کی رائے میں ایران میں جب اسلام کا ظہور ہوا تو وہ فلسفیانہ، عجمی، عیسائی، مانی، یونانی اور بدھ مت اثرات سے خالی تھا۔ بعدازاں اس میں ان مذاہب اور مکاتب فکر کے کافی تصورات شامل کردیے گئے۔ اس آمیزش کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب اسلام خالص اسلام نہ رہا اور اس کے عقائد کو فلسفیانہ انداز میں پیش کرنے کی طرف زیادہ توجہ مبذول کی گئی۔ بنو امیہ کے دور حکومت میںنئے نئے مسائل اور غیر متوقع تغیرات نے مسلمانوں کو مجبو رکردیا کہ وہ ان نئے حالات اور اسلامی تعلیمات میں مطابقت پیدا کریں۔ چنانچہ یہ دور دراصل اسلام اور حالات نو کے درمیان مطابقت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کا زمانہ تھا۔ اس مطابقت کے باوجود اسلام کافی حد تک اپنی اصلیت اور پاکیزگی کو برقرار رکھ سکا لیکن جوں ہی عباسیہ دور میں فلسفۂ یونان کو فروغ حاصل ہوا ایرانیوں کی دبی ہوئی ذہنی فکر لاوے کی مانند اچانک پھوٹ پڑی۔ اس ذہنی تبدیلی نے اعمال اور خیالات کے مختلف شعبہ جات میں حیرت انگیز گل کھلائے۔ فلسفہ یونان کے گہرے مطالعہ اور ذوق نے ایرانی مفکرین کے اندر اسلامی توحید پرستی کا تنقیدی رجحان پیدا کردیا۔ مذہب اور فلسفہ کی اس آمیزش نے مسلمان فلسفیوں اور اہل مذہب کو اس بات پر آمادہ کردیا کہ وہ اسلامی تعلیمات و نظریات کو فلسفیانہ اصطلاحات کے رنگ میں بیان کریں۔ جب تمام مذہبی امور کو زبان فلسفہ میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ علم کلام کا روپ دھار کر انسان کو عمل سے بے نیاز کردیا کرتے ہیں۔ آٹھویں صدی عیسوی میں معتزلہ تحریک نے ایران کے بہترین دماغوں کو عقلیت کا پرستار بنا کر ایسے ہی حالات پیش کردیے تھے۔ معتزلہ تحریک کا بانی واصل ابن عطا ایرانی نژاد عقل پرست مفکر تھا۔ واصل ابن عطا ایک مشہور صوفی منش عالم حسن بصری کا شاگرد تھا۔ اس نے ایک عقل پرستانہ تحریک شروع کی جسے معتزلیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے مذہبی علما اور ذہین مسلمان اس تحریک سے متاثر ہوکر مذہبی مباحثوں مابعدالطبیعیاتی مناظروں میں حصہ لے کر اپنی توانائیوں کو ضائع کرنے لگے۔ بصرہ اور بغداد کے مکاتب فکر کی رزم آرائیاں اس سلسلہ کی اہم کڑیاں ہیں۔ علامہ اقبال اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: اپنی تجارتی حیثیت کے سبب بصرہ کا مشہور شہر مختلف طاقتوں کی آماج گاہ بن گیا تھا۔ فلسفہ یونان، تشکیک پرستی، عیسائیت، بدھ مت کے نظریات اور مانی کے تصورات نے اس زمانے کے متجس ذہنوں کے لیے کافی روحانی غذا مہیا کرکے عقل پرست مسلمانوں کی خاطر ذہنی ماحول پیدا کردیا تھا۔ عہد قدیم میں عراق کا مشہور شہر بصرہ مختلف قوموں کی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا اس لیے وہاں ہر قوم کے لوگ میل جول کے ذریعے ایک دوسرے کے خیالات و عقائد سے متاثر ہوتے تھے۔ ایران، یونان، ہندوستان اور عرب ممالک کے لوگوں کے ساتھ اہل عراق کے تجارتی روابط نے ان کے خیالات میں تنوع اور وسعت پیدا کی جس کا لازمی نتیجہ آزادی افکار تھا۔ میکڈونلڈ کی کتاب اسلامی الہیات (Muslim Theology) علامہ اقبال کے استاد پرفیسر ٹی،ڈبلیو آرنلڈ کی تصنیف المعتزلہ (Al-Mutazila) ایک اور علمی کتاب فہرست (Fihrist) میں مذکورہ بالا مذہبی مباحثوں اور غیر اسلامی نظریات کے نفوذ کا تذکرہ ملتا ہے۔ علامہ اقبال اس خیال کے حامی ہیں کہ تاریخ اسلام کا شامی دور ان مابعدالطبیعیاتی نازک خیالیوں سے مبرا تھا جو ہمیں اس کے ایرانی دور میں نظر آتی ہیں۔ فلسفہ یونان کے مسلم مقلدوں نے یونانی افکار کی روشنی میں اپنے مذہب پر غور و فکر شروع کیا جسے معتزلی مفکرین نے مابعدالطبیعیات کی حدود میں داخل کردیا تھا۔ کیا معتزلہ تحریک عجمی ذہن کی پیداوار تھی یا اس میں ایرانی علما کے علاوہ غیر عجمی مفکرین بھی شامل تھے؟ علامہ اقبال نے اس ضمن میں چند حکمائے مغرب کی تصانیف کو مدنظر رکھ کر ذاتی رائے کا اظہار کیا ہے۔ وہ پروفیسر ای۔جی۔ برائون کی بلند پایہ کتاب تاریخ ادبیات ایران (Literary History of Persia) کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ معتزلہ مفکرین مختلف قوموں اور ملکوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اگرچہ ان میں سے بیشتر نسل یا سکونت کی وجہ سے ایرانی تھے۔ فرقہ معتزلہ کا بانی واصل ابن عطا ایرانی تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور مغربی عالم وان کریمر (Von Kremer) معتزلیوں کی اصل اموی دور کے مذہبی مباحثوں میں تلاش کرتا ہے۔ پروفیسر ٹی، ڈبلیو، آرنلڈ کی غالب رائے میں معتزلہ تحریک کے بڑے بڑے نمایندے زیادہ تر شیعہ حضرات تھے۔ پروفیسر ای، جی، برائون (E.G.Brown) بھی اس بارے میں ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ شیعی حضرات معتزلہ عقائد کے سب سے بڑے دشمن اور اشاعرہ کے سرخیل یعنی حسن الاشعری کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ اشاعرہ اور معتزلہ کی بحث میں علامہ اقبال کانقطہ نظر درج ذیل ہے: معتزلہ تحریک بنیادی طور پر ایرانی تحریک نہیں تھی لیکن بقول پروفیسر برائون درحقیقت اکثر اوقات شیعی اور قادری تصورات ہم آہنگ تھے اور ایران کا مروجہ اُصول کئی پہلوئوں سے معتزلا نہ ہی ہے … یہ مزید کہا جاسکتا ہے کہ معتزلہ مکتب خیال کے بڑے بڑے عَلم۔بردار شیعہ مذہب کے حامل تھے مثلاً ابو الہذیل۔ اس کے برعکس الاشعری کے بہت سے پیروکار ایرانی تھے (دیکھیے ابن عساکرکے اقتباسات مرتبہ از مہران) اس لیے اشعری افکار کو خالصتاً سامی تحریک قرار دینا قطعاً جائز نہیں۔ معتزلہ اور اشاعرہ کی تحریکوں کا مختصر حال بیان کرنے کے علاوہ علامہ اقبال اسلام کے بارے میں معتزلہ عقائد کی مابعدالطبیعیاتی گتھیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ یہاں عقلیت کے دو خاص پہلوئوں… تصور خدا اورنظریۂ مادہ… کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ معتزلی فلسفی بڑے پر پیچ جدلیاتی طور سے خدا کی وحدت کے تصور تک پہنچتا ہے۔ یہ تصور عام راسخ العقیدہ مسلمانوں کے تصور خدا سے بنیادی حیثیت سے مختلف ہے۔ معتزلہ کی رائے میں خدا کی ذات اور اس کی صفات جدا نہیں ہیں بلکہ وہ ذات خداوندی کا خلاصہ ہیں۔ ایک معتزلی مفکر ابو الہٰذیل کہتا ہے۔ ’’خدا علیم، قدیر اور حیّ ہے۔ خدا کا علم، اس کی قدرت اور حیات اس کی ذات میں شامل ہیں۔‘‘ خداتعالیٰ کی وحدت خاص کی تشریح کے لیے یوسف البصیر مندرجہ ذیل پانچ اُصول وضع کرتا ہے: ۱- جوہر ذرہ اور حادثے کا مفروضہ۔ ۲- خالق کا لازمی مفروضہ۔ ۳- خدا کے احوال کا لابدی مفروضہ۔ ۴- خدا کے بارے میں نامناسب صفات کا رد۔ ۵- صفات خداوندی کی کثرت کے باوجود خدا کی وحدت کا تصور۔ خدا کی وحدت کے تصور میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں یہاں تک کہ معمر اور ابو ہاشم کے ہاتھوں میں آکر یہ ایک مجرد امکان بن گیا جس کے بارے میں آسانی سے علم حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ معتزلی کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بارے میں علم حاصل نہیں کرسکتے کیوں کہ علم خدا کی ذات سے الگ نہیں۔ اگر ہم خدا اور علم کو ایک ہی خیال کریں تو ہمیں فاعل اور مفعول میں مطابقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اس کے برعکس اگر ہم انھیں الگ الگ سمجھیں تو پھر ہمیں خدا کی ذات میں دوئی (ثنویت) کو ماننا پڑے گا۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں۔ نظام کے دو پیروکار احمد اور فضل خدا کی ذاتی دوئی کے قائل تھے۔ یہ دونوں دو حقیقی خالقوں (اُصول ازلی یعنی خدا اور اُصول متصل یعنی کلمۃ اللہ عیسیٰؑ) کے وجود میں یقین رکھتے تھے۔ دور آخر کے ایرانی صوفیا نے کلمۃ اللہ کو مزید وسعت دی تھی۔ علامہ اقبال معتزلی نظریہ خدا کے ضمن میں اپنی ذاتی رائے کا ان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں: بنابریں یہ بدیہی ہے کہ بعض عقل پرستوں نے غیر شعوری طور پر بعد کے دور کے مسئلہ ہمہ اوست کی بیرونی حد کو چھو لیا تھا۔ اس لحاظ سے انھوں نے اپنے اس تصور خدا اور اپنی مشترکہ سعی کی بدولت آئین مطلق کی سخت خارجیت کو باطنی بنانے کے لیے راہ ہموار کردی تھی۔ معتزلہ کے تصور وحدت و کثرت پر اظہار خیال کرنے کے بعد علامہ اقبال ان کے نظریہ کائنات کو بیان کرتے ہیں۔ مادہ اور جوہر کی بحث اہل فلسفہ کی بہت زیادہ دل چسپی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ مفکرین کا ایک گروہ مادے کی ازلی حیثیت کا قائل ہو کر اس کی بے پایاں تقسیم پذیری کو اس کی بقا قرار دیتا ہے۔ بعض انتہا پسند تو روح کو بھی مادے کی لطیف شکل سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس اہل فکر و دانش کا دوسرا طبقہ مادے کو ازلی اور باقی خیال نہیں کرتا۔ بہرحال ہر ایک مکتب خیال اپنی اپنی رائے کے مطابق اس مشکل ترین مسئلے کو الفاظ و بیان کا جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاں تک اعتزال پرست فلسفیوں کا تعلق ہے وہ مادے کی قدامت و بقا کے عَلم۔بردار ہیں۔ مابعدالطبیعیاتی افکار کے میدان میں عقلیت کے حامیوں کا سب سے بڑا کارنامہ ان کا نظریہ مادہ ہے۔ (Nazzam) نظام اور (Al-Jahiz) الجاحظ چونکہ مادہ کی تقسیم پذیری میں پختہ یقین رکھتے تھے اس لیے وہ کائنات میں صرف خدا کی مشیت کو کارفرما نہیں دیکھتے بلکہ وہ خدا کے بنائے ہوئے مخصوص قوانین کو بھی غیر متبدل انداز میں جاری و ساری تصور کرتے ہیں۔ مفکر اسلام علامہ اقبال معتزلی مفکرین خصوصاً نظام اور الجاحظ کے نظریات مادہ و کائنات کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: عقل پرستوں کا سب سے عظیم کام ان کا وہ تصور مادہ ہے جسے ان کے مخالفین یعنی اشاعرہ نے کسی قدر تبدیل کردیا تاکہ اسے ان کے مخصوص نظریاتِ ذاتِ خدا کے مطابق بنایا جاسکے۔ نظام کی زیادہ تر دل چسپی یہ تھی کہ وہ فطرت کے منظم طریق سے ہر طرح کی بے اُصولی کو خارج کردے۔ اسی فطرت پرستی سے مجبور ہو کر الجاحظ نے مشیت ایزدی کی منفی انداز میں تعریف کی۔ اگرچہ عقل پرست مفکرین خدا کی ذاتی مشیت کے تصور کو خیرباد کہنے کے خواہش مند نہیں تھے تاہم انھوں نے مظاہر قدرت کی انفرادی آزادی کے لیے ٹھوس بنیاد کا سراغ لگانے کی کوشش کی۔ یہ بنیاد انھیں مادے کی ذات میں مل گئی تھی۔نظام نے اسی بنا پر مادے کی غیر محدود تقسیم پذیری کی تعلیم دے کر اصل اور حادثے کے فرق کو مٹا دیا۔ وجود کو ایک ایسی خاصیت قرار دیا گیا جسے خدا نے پہلے سے موجود مادی ذرات پرٹھونس دیا ہو۔ اس خاصیت کے بغیر ان ازلی مادی ذرات کا وجود ناقابل ادراک رہتا۔ معتزلی فلاسفہ اس بات کے بھی حامی تھے کہ اپنی قدیم حالت میں مادہ موجود تو تھا مگر وہ چند ظاہری صفات کے بغیر معرض تخلیق میں نہیں آسکتا تھا۔ اس لحاظ سے وہ مادے کے وجود کو قدیم سمجھتے تھے۔ اگر ان کی یہ بات تسلیم کرلی جائے تو پھر مادہ بھی خدا کی مانند ازلی بن جاتا ہے۔ یہ تصور مادہ ہی مادہ پرستی کے جنم کا سبب بنا ہے۔ یہ مادہ پرست فلسفی مادے کے ظاہری روپ کو اس کی اصل نہیں سمجھتے بلکہ وہ اسے اپنی موجودہ خارجی حالت سے پہلے بھی موجود قرار دیتے ہیں۔ (Ibn Hazm) ابنِ حزم نے ایک معتزلی شیخ محمد ابن عثمان کے تصور مادہ کو موضوع بحث بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مادے کو موجودہ ظاہری حالت سے پہلے بھی موجود اور مجسّم خیال کرکے اسے اپنی قدیم شکل میں غیر متحرک اور غیر مخلوق مانتا تھا۔ اس طرح وجود، ذائقہ، خوشبو اور رنگ کی ان صفات کا مجموعہ بن جاتا ہے جو بذات خود مادی امکانات کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں روح ایک قسم کا لطیف مادہ اور علمی طریقے محض ذہنی تحریکات ہو جاتے ہیں۔ اس مادی تصور کے مطابق تخلیق ظاہری حالت سے پہلے موجود امکانات کا خارجی ظہور (طُفرہ) قرار پاتی ہے۔ خارجی اور قابل ادراک اشیا کا مجموعہ جسے ہم کائنات کہتے ہیں وہ مادی نقطہ نگاہ سے کسی ادراک کے بغیر آزادانہ وجود کا حامل تصور ہوتا ہے۔ علامہ اقبال اس معتزلی تصور خدا پر اپنی رائے کا یوں اظہار کرتے ہیں۔ ان مابعدالطبیعیاتی نازک خیالیوں کا مقصد خالصتاً مذہبی ہے۔ عقل پرستوں کے نزدیک خدا ایک ایسی مطلق وحدت ہے جو کسی طرح کی کثرت کی قائل نہیں۔ اس طرح خدا محسوس کثرت یعنی کائنات کے بغیر موجود رہ سکتا ہے۔ خدا کی فعالیت صرف یہ ہے کہ وہ ذرۂ مادی کو محسوس شکل عطا کردیتا ہے۔ یہ مادہ پرست اور عقل کو معیار کل قرار دینے والے فلسفی اورمفکر مادی ذرات کی چند باطنی اور ذاتی صفات میں پختہ یقین رکھتے ہوئے خدا کی خلاقی صفت کو ان کی خارجی حالت کا سبب سمجھتے تھے۔ العطار بصری اور بشر ابن موتمر رنگ، طول، عرض، ذائقہ اور شامہ کو بذات خود اجسام کی سرگرمیاں تصور کرتے تھے۔ ان کی رائے میں خدا ان صفات کا خالق نہیں کیوں کہ وہ اجسام کی ذاتی خصوصیات ہیں۔ اس بارے میں وہ یہ مثال دیتے تھے کہ اگر ایک پتھر کواوپر پھینکا جائے تو وہ اپنی ذاتی پوشیدہ خصوصیت کے باعث خودبخود نیچے آجاتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے ذرہ مادی کے یہ خواص طبعی ہوتے ہیں۔ بشر ابن الموتمر نے اپنے عقیدے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اجسام کی ایک اور خصوصیت ’’تولد‘‘ یعنی اجسام کے باہمی رد عمل کا بھی ذکر کیا ہے اس کی رائے میں خدا کواشیائے کائنات کی تعداد کا بھی کچھ علم نہیں۔ جب انسانی عقل وحی خداوندی کی جائز پابندیوں اور حدود شریعت سے بالکل آزاد ہو جائے توراہِ راست سے بھٹک کر ذہنی ژولیدگی اور فکری گمراہی کا باعث بن جاتی ہے بقول اقبال: ؎؎ گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد مولانا روم بھی عقل پرستی کی یوں مذمت کرتے ہیں: ع زیر کی ز ابلیس و عشق از آدم است علامہ اقبال ان عقل پرست معتزلہ کے بارے میں اپنی حتمی رائے ظاہر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ یہ عقل پرست مفکرین فلسفیانہ لحاظ سے مادہ پرست اور مذہبی طور پر دین فطرت کے معتقد تھے۔ مندرجہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ معتزلہ مفکرین کی رائے میں ذرہ مادی اور وجود آپس میں یکساں ہیں کیوں کہ یہ حضرات جوہر کو مکانیت کا حامل ہونے کے علاوہ خاص سمت، طاقت اور زندگی کو اس کی حقیقی ذات کے عناصر ترکیبی تصور کرتے ہیں۔ یہ اس کی شکل کو مربع نما کہتے ہیں کیوں کہ اگر اسے گول سمجھا جائے تو پھر مختلف مادی ذرات (جواہر) کی ترکیب ناممکن ہوجائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جوہریت کے شارحین جوہر کی نوعیت کے بارے میں کافی اختلاف رکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض جواہر کو ایک جیسا خیال کرتے ہیں جب کہ دوسرا مکتب فکر ان کو یکساں اور مختلف بھی قرار دیتا ہے۔ علامہ اقبال اس ضمن میں ایک بلند پایہ معتزلی فلسفی ابو القاسم بلخی کے نظریہ جوہر و ماہیت کی تلخیص ان الفاظ میںبیان کرتے ہیں: ابوالقاسم بلخی ناقابل تقسیم مادی ذرات کو آپس میں یکساں اور غیر یکساں تصور کرتا ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ دو چیزیں آپس میں ملتی جلتی ہیں تو ہمارا لازماً یہ مفہوم نہیں ہوتا کہ وہ اپنی تمام خصوصیات میں یکساں ہیں۔ ابوالقاسم ذرہ مادی کی بقا کی وکالت کرتے ہوئے نظام (Nazzam) سے مزید اختلاف کرتا ہے۔ وہ یہ تو مانتا ہے کہ ایٹم کا وقت میں آغاز ہوا تھا مگر وہ اس کی مکمل نیستی کا قائل نہیں۔ ابوالقاسم کہتا ہے صفت بقا (مسلسل زندگی) اسے زندگی کے علاوہ کوئی نئی خوبی عطا نہیں کرتی اس لیے تسلسل حیات قطعاً اضافی صفت نہیں۔ خدائی سرگرمی نے ذرہ مادی اور اس کی مسلسل زندگی دونوں کو پیدا کیا ہے۔ ابو القاسم تاہم اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ بعض مادی ذرات کو شاید حیات مسلسل کے لیے تخلیق نہیں کیا گیا ہے۔ وہ مختلف ذرات کے درمیان حائل ہونے والے مکان کے وجود کا منکر ہے۔ وہ دوسرے معتزلی مفکرین کے برخلاف اس امر کا حامی ہے کہ جوہر یا ایٹم نیستی کی حالت میں جوہر نہیں رہ سکتا تھا۔ ابو القاسم بلخی عام معتزلہ کے اس عقیدے کو مبنی برتضاد خیال کرتا ہے کہ نیستی کی حالت میں ماہیت ماہیت رہ سکتی تھی حالانکہ ماہیت زندگی کی صفت کے سبب ظاہر ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کی ماہیت ہستی اور نیستی دونوں میں موجود تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ اگر مادے کو ہست ہونے سے قبل نیستی کے عالم میں بھی موجود خیال کیا جائے تو یہ کھلا تضاد نہیں تو اور کیا ہے۔ علامہ اقبال کی رائے میں ابوالقاسم کا یہ نظریہ اشاعرہ کے تصور علم سے جا ملتا ہے جنھوںنے عقل پرستانہ نظریہ مادہ پر ضرب کاری لگائی ہے۔ علامہ اقبال کی وسیع النظری ملاحظہ ہو کہ وہ اپنے نظریہ جوہریت کے لیے آرتھربرام (Arthur Biram) کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مسلمان عقل پرستوں کی جوہریت کو بیان کرنے کے لیے میں نے آرتھر برام کی تصنیف کتاب المسائل فی الخلاف مبین البَصَرِین (اہل بصرہ اور اہل بغداد کے درمیان اختلافی مسائل کی کتاب) سے استفادہ کیا ہے۔ اس کے لیے میں اس کا ممنون ہوں۔ ۲-فکر کی عصری تحریکیں معتزلہ تحریک نے عقل پرستی کی بنیاد رکھ کر مسلمان حکما کے اندر آزادی خیال کا جذبہ بیدار کردیا تھا۔ اس آزادی فکر کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بہت سے مسلمان مفکرین اپنے قدیم مذہبی اعتقادات کا عقلی جائزہ لینے لگے۔ اس طرح بہت سے نئے مذہبی اور فلسفیانہ رجحانات کو فروغ حاصل ہوا۔ اسلام میں فکری جمود کو توڑنے کے لیے معتزلیت نے نمایاں حصہ لیا تھا۔ معتزلہ تحریک کے سبب مندرجہ ذیل اہم فکری مکاتب معرض وجود میں آگئے تھے۔ اس عقل پرستانہ تحریک کی کوکھ سے جنم لینے والے درج ذیل مسالک کی اہم خصوصیات کاتذکرہ بے حد دل چسپ اور معلومات افزا ثابت ہوگا۔ (ا) تشکیک پرستی جب تمام مذہبی مسلمات اور مقبولِ عام عقائد کو منطق و فلسفہ کی ترازو میں تولنے کی کوشش کی جاتی ہے تو انسانی عقل ہمارے ان عقائد کو عموماً متزلزل کرکے ہمیں شک و شبہ میں مبتلا کردیتی ہے اسلام عقل و ایمان کا مجموعہ ہے۔ اس میں شہود کے علاوہ غیب پر بھی ایمان لانا پڑتا ہے۔ قرآن حکیم جابجا مناظر فطرت کے عمیق مطالعہ و مشاہدہ کی تلقین کرنے کے علاوہ بعض نادیدنی حقائق کو بھی تسلیم کرنے پر کافی زور دیتا ہے۔ غیب و شہود کا یہ امتزاج اسے انتہا پسندانہ مذاہب سے ممیّز کردیتا ہے۔ خارجی حقائق اور غیبی امور دونوں ہی ہمارے ایمان کے ضروری اجزا ہیں۔ ظاہری امور کے علاوہ اگر عقل کی دسترس سے باہر رہنے والے معاملات کو بھی عقل کا غلام بنانے کی سعی کی جائے تو اس کا نتیجہ عدمِ یقین اور قلبی اضطراب کی شکل میں رونما ہوگا۔ عقل اور دل کی یہ چپقلش کسی طرح بھی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نکھار کا باعث نہیں ہوسکتی۔ اگر یہ دونوں اپنے اپنے حلقہ اثر میں کام کرتے رہیں تو ذہنی کشمکش پیدا نہیں ہوگی۔ علامہ اقبال شک پرستانہ مکتب خیال کے بارے میں اپنے خیالات ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں: عقل پرستی کے خاص منطقی طریق کا قدرتی نتیجہ شک آمیز رجحان تھا۔ اگرچہ ابن اشرص (Ashras) اور الجاحظ ظاہراً عقل پرستوں کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے مگر حقیقتاً وہ تشکیک پرست تھے۔ الجاحظ کا فطرت پرستانہ موقف اپنے عصر کے ایک مہذب انسان کا نقطہ نظر تھا نہ کہ ایک پیشہ ور مذہبی عالم کا مطمحِ خیال۔ اس میں اپنے پیش روئوں کی مابعدالطبیعیاتی موشگافیوں کے خلاف رد عمل اور ایمانیات پر غور و فکر کرنے سے عاری ان پڑھ لوگوں کے لیے مذہبی علم کے دائرے کو وسیع کرنے کی آرزوئیں جلوہ گر ہیں۔ عقل پرستی اور شک پرستی کے درمیان پائی جانے والی یگانگت کو بڑے اجمالی طور پر بیان کرنے کے بعد علامہ اقبال معتزلہ تحریک کی دوسری پیداوار یعنی تصوف کے بارے میں اپنے خیالات کو ظاہر کرتے ہیں۔ (ب) تصوف اس باب میں علامہ اقبال تصوف کے مختلف پہلوئوں پر کوئی بحث نہیں کرتے کیوں کہ اس موضوع پر تفصیلی بحث انھوں نے اس کتاب کے پانچویں باب میں کی ہے۔ یہاں وہ صرف یہ کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ذوالنون مصری نے تصوف کو حصول علم کا اعلیٰ سرچشمہ قرار دیا اور بعدازاں یہ اہل شریعت کی روش اور اشاعرہ کی عقل پرستی کامخالف بن گیا تھا۔ عقل پرست خدا کی معرفت کے لیے عقل استدلالی کے غلام بن کر فکر و خیال کی تاریک وادیوں میں سرگرداں ہوگئے لیکن اہل عشق عشق ذوفنون کی بدولت منزل جاناں تک جاپہنچے۔ تاریخ اسلام میں اہل تصوف اور ارباب شریعت کے علمی مناظرے اور نزاعی مباحثے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ شریعت و طریقت کی غلط تفریق اب بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ عقل کے زناری عقل کو حصول علم کا بہترین ذریعہ خیال کرتے ہیں ہیں اس کے برعکس عشق کے پرستار دل کو یہ مقام دیتے ہیں۔ علامہ اقبال یہاں تصوف کے اس پہلو پر یوں روشنی ڈالتے ہیں۔ تصوف علم کے ایک برتر منبع کی جانب توجہ کا نام ہے جسے سب سے پہلے ذوالنون نے باقاعدہ شکل دی تھی۔ تصوف اشاعرہ کی خشک عقلیت کے مقابلے میں علمائے شریعت کی روش کے خلاف آہستہ آہستہ زیادہ عمیق ہوتا گیا۔، تصوف کے اس مختصر تذکرے کے بعد برصغیر پاک و ہند کا یہ شہرہ آفاق مفکر اسلام اسماعیلی تحریک کے برگ و بار پر تفصیلی نگاہ ڈالتا ہے۔ (ج) سند و اختیار کا احیا اسماعیلی تحریک اسلامی تاریخ کا ایک قدیم اور اہم موضوع ہے۔ عام طور پر اسے شیعی مسلک کی شاخ تصور کیا جاتا ہے۔ اسماعیلی فرقہ کے پیروکار ہندوستان، پاکستان، ایران اور عرب ممالک کے علاوہ افریقہ اور دیگر علاقوںمیں بھی آباد ہیں۔ اسماعیلی عقائد و نظریات ارباب دانش و فکرکے مطالعہ و مشاہدہ کا دل چسپ موضوع رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے علامہ اقبال نے اس پر یہاں سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔ تشکیک پرستی اور عقل پرستی کی مانند اسماعیلیت اور عقلیت میں بھی گہرا باہمی ربط ہے۔ علامہ اقبال اس تحریک کے پس منظر اور فکری اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: اسماعیلی تحریک خالصتاً ایک عجمی تحریک ہے جو فکر آزاد کی تردید کرنے کی بجائے اس کے ساتھ مفاہمت اختیار کرتی ہے۔ اگرچہ اس تحریک کا اپنے زمانے کے مذہبی مناظروں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تاہم آزادی افکار کے ساتھ اس کا بنیادی ربط ہے۔ اسماعیلی مبلغین اور تنظیم اخوان الصفا (پاکیزگی کے برادران) کے حامیوں کے طریقِ کار کی یکسانیت ان دونوں تحریکوں کے مابین ایک طرح کے خفیہ تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ اس تحریک کے بانیوں کا مقصد کچھ بھی کیوں نہ ہو اس کے فلسفیانہ ظہور کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ امریاد رکھنا چاہیے کہ تفکر خیز سرگرمی کا لازمی نتیجہ عموماً مذہبی اور فلسفیانہ نظریات کی کثرت ہوا کرتا ہے۔ عقل کی کارفرمائیوں کی بدولت لوگوں کے دل و دماغ میں آزادی فکر جنم لے کر گوناگوں مذہبی اور فکری مکاتب کے فروغ کا سبب ہو جاتی ہے۔ اسی قسم کی صورت حالات ایران میں بھی پیدا ہوگئی تھی۔ عقل کو اپنا خضر راہ اور دمساز بناکر مسلمان حکما بھی کئی فلسفیانہ اور مذہبی تحریکوں کے عَلم۔بردار بن گئے تھے۔ جب ایسے خطرناک حالات پیدا ہو جائیں تو اس کثرت نظریات کے خلاف شدید رد عمل کے طور پر بعض قوتیں رونما ہو جاتی ہیں۔ جو اس انتشار پرور کثرت کو روکنے کے لیے برسرپیکار ہوتی ہیں۔ جب ہم اٹھارہویں صدی کے فلسفہ یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم کو پتا چلتا ہے کہ فشٹے (Fichte) نے مادے کی نوعیت کے بارے میں شک آمیز تحقیقات کا آغاز کیا مگر اس کا انجام عقیدۂ ہمہ اوست کی صورت میں رونما ہوا۔ شامائر ماخر عقل کی بجائے ہمیں ایمان کا سہارا ڈھونڈنے کی تلقین کرتا ہے۔ جیکبی (Jacobi) ہمیں بتاتا ہے کہ عقل سے بڑھ کربھی ایک سرچشمۂ علم ہوتا ہے۔ ایک اور یورپی مفکر کامٹے ہر قسم کی مابعدالطبیعیاتی تحقیق کو ترک کرکے تمام علوم کو حسی ادراک تک محدود کردیتا ہے۔ اسی طرح ڈی میسٹر اور شلیگل مکمل طور پر معصوم (گناہ سے پاک) پوپ کے اختیار و سند میں پناہ لیتے ہیں۔ عقلی تحقیقات کافی حد تک شک و شبہ پر منحصر ہوتی ہیں کیوں کہ عقل اُصول اور ہر چیز کے بارے میں کیا، کیوں، کب اورکہاں وغیرہ الفاظ استعمال کرکے انسانی ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کردیتی ہے۔ ایسا استدلالی طریقہ اطمینان قلب عطا کرنے کی بجائے دلی اضطراب اور فکری انتشار کو جنم دے کر ہمیں قوت عمل سے بے نیاز کرنے لگتا ہے۔ عمل سے بیگانہ ہو کر حیات انسانی کے مختلف شعبہ جات میں آثار انحطاط ظہور پذیر ہو جاتے ہیں۔ یہ چیز انجام کار فرد اور قوم کی رسوائی، غلامی اور کمزوری کا باعث بن جاتی ہے۔ علامہ اقبال ڈی میٹر کے تصورات اور اسماعیلیت میں اشتراک و اختلاف کے دو پہلوئوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’اُصول امامت کے حامی ڈی میٹر کی مانند یکساں انداز میں سوچتے ہیں مگر یہ بڑی عجیب بات ہے کہ اسماعیلی حضرات نے امامت کے تصور کو اپنے مسلک کی اساس بنانے کے باوجود ہر طرح کے خیالات کی کھلی چھٹی دے دی تھی۔‘‘ جس طرح عیسائیوں کا ایک فرقہ پیر کلیسا یعنی پوپ کے بارے میں یہ خیال رکھتا ہے کہ وہ کوئی گناہ نہیں کرتا اسی طرح مسلمانوں کا یہ فرقہ اپنے امام کی معصومیت کا قائل ہے۔ پیر کنشت کی عصمت اَور امام زمان کی معصومیت دونوں فرقوں میں مشترک بات ہے مگر بقول اقبال اسماعیلی بزرگوں نے امام کی تقلید کے ساتھ ساتھ فکر کو بھی آزاد کر دیا تھا۔ اس آزادیِ فکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کی اصلی تعلیمات کو تبدیل کرنے کا عقلی مشغلہ بھی جاری رہا۔ بعض مورخین کی رائے میں ایران کے بہت سے ملحدانہ فرقے اسلام کی حقیقی اور سادہ تعلیمات میں عجمی افکار و نظریات کی آمیزش کے ذمہ دار ہیں۔ یہ عجمی افکار دراصل غیر اسلامی نظریات ہیں جنھوں نے حقیقت کو خرافات میں تبدیل کرکے اسلام کی قوت و آفاقیت کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ قرطبہ کے ایک فاضل مورخ ابن حزم (Ibn Hazm)نے اپنی کتاب کتاب الملل میں ایران کے زندیقی اور الحاد پرست فرقوں کے وجود کو عرب اقتدار کے خلاف مسلسل جنگ قرار دیا تھا۔ اس کے خیال میں مکار ایرانیوں نے عربوں کے سیاسی تفوق کو ختم کرنے کے لیے فرقہ پرستی کی شکل میں یہ پرامن فکری حربے استعمال کیے تھے تاکہ وہ اسلام کی اصل صورت کو مسخ کرکے مسلمانوں کو قوت عمل سے محروم کرتے جائیں۔ ایک مغربی مصنف وان کریمر (Van Kremer) نے اپنی تصنیف میں جابجا ابن حزم کی مندرجہ بالا کتاب کے اقتباسات دے کر اس عجمی سازش کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ علامہ اقبال اس ضمن میں ان دونوں مورخوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں: ابن حزم اپنی تصنیف کتاب الملل میں ایران کے الحاد پرست فرقوں کو عربوں کے اقتدار کے خلاف ایک لگاتار جدوجہد تصور کرتا ہے جس کی بنا پر پرفریب ایرانیوں نے پرامن ذرائع سے اسے متزلزل کرنے کی کوشش کی۔ اس نقطہ نگاہ سے اسماعیلی تحریک اسلام کے مذہبی اور سیاسی نصب العین کے خلاف آزاد خیال ایرانیوں کی مسلسل جنگ کا ایک پہلو دکھائی دیتی ہے۔ اسماعیلی فرقہ بنیادی طور پر (ہمیشہ حلول کرنے والی آفاقی عقل) خدا کا اوتار بن کر اپنے زمانے کی عقلی ترقی کے مطابق بتدریج اپنے ماننے والوں کو اسماعیلی تحریک کے مختلف پہلوئوں سے روشناس کراتا رہتا ہے۔ انسانی عقل وحی خداوندی کی راہ نمائی سے محروم ہو کر لاتعداد فکری صلاحیتوں اور عملی گمراہیوں کا باعث بن جایا کرتی ہے۔ عقل بڑی عیار اور زمانہ ساز ہوتی ہے۔ یہ اپنی مطلب برآری اور مقبولیت کے لیے کئی بھیس بنالیتی ہے۔ اس کے برعکس جذبہ خلوص و عشق جرأت و ہمت کا مظہر ہوتا ہے بقولِ شاعرِ مشرق: عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے عشق بیچارہ نہ زاہد ہے، نہ ملا، نہ حکیم [کلیات اقبال، ص ۳۵۲] اسماعیلی تحریک کے بارے میں اس سے بیشتر ابن حزم اور وان کریمر کا حوالہ دیا جاچکا ہے۔ ایک مغربی عالم میکڈونلڈ (Mcdonald) ان دونوں کے نظریات سے اتفاق کرتے ہوئے اسماعیلیت کو عربوں کے سیاسی غلبہ کے خلاف ایک سازش اور قاتلوں کی تنظیم قرار دیتا ہے۔ اس کی رائے میں یہ ایران کی ایک ہنگامی تحریک تھی جس کا اولین مقصد مذہب و تصوف کے پردے میں عربوں کو حکومت سے محروم کرکے خود سیاسی غلبہ حاصل کرنا تھا۔ علامہ اقبال کو میکڈونلڈ کی اس انتہا پسندانہ رائے سے اختلاف ہے۔ وہ اپنی متوازن رائے کا اظہار کرتے ہوئے اسے مقامی اور ہنگامی تحریک کی بجائے ایک دور رس اور آفاقی تنظیم تصور کرتے ہیں۔ اگر یہ تحریک مقامی ہوتی تو آج اس کے پیروکار ایران سے باہر بھی موجود نہ ہوتے۔ علاوہ ازیں اگر اسے ہنگامی تحریک خیال کیا جائے تو موجودہ دور میں اس کی وسعت و مقبولیت کا کیا جواز پیش کیا جائے گا؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہر دور کے معیارات خیر و شر یکساں نہیں ہوتے؟ عہد گزشتہ میں مذہب سے انحراف کرنے والوں اور اس کے دشمنوں کے قتل کو نہ صرف ناقابل اعتراض بلکہ جائز تصور کیا جاتا تھا مگر موجودہ دور میں اس کی وہ نوعیت نہیں رہی۔ کیا تاریخ عیسائیت میں ایسی مثالیں موجود نہیں جب کہ رومن کیتھولک کے مخالفوں کو بے دریغ ظلم و قتل کا نشانہ بنا دیا گیا تھا؟ کیا پاپائے روم نے سینٹ بار تھولومیو (Saint Bartholomew) کے قتل کو درست قرار نہیں دیا تھا؟ علامہ اقبال کبھی اپنے ہاتھ سے اعتدال کادامن نہیں چھوڑتے۔ وہ اس تحریک کے بارے میں لکھتے ہیں: اسماعیلی تحریک اصل میں شیعی مسلک کی ایک شاخ ہے جسے عبد اللہ ابن میمون نے عالم گیر حیثیت دے دی تھی۔ عبد اللہ ابن میمون مصر کے فاطمی خلفا کا غالباً مورث اعلیٰ اور پیش رو تھا جو اس وقت متوفی ہوا جب کہ آزادی فکر کا سب سے بڑا مخالف یعنی اشعری پیدا ہوا تھا۔ عبد اللہ ابن میمون بہت چالاک شخص تھا۔ اس نے بڑی چابکدستی سے مختلف مذاہب و افکار سے اپنے فکری نظام کو ترتیب دیا تھا تاکہ اسرار پسند ایرانی ذہن کو مسحور کیا جائے۔ اس معجون مرکب کو خوش ذائقہ بنانے کے لیے اس نے عیسائیت، مانی نظریات، فلسفہ یونان، عقلیت، تصوف اور الحاد پرست فرقوں سے مواد حاصل کیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ اس کی تعلیمات میں خدا کے اوتار اور حلول کا عقیدہ بھی شامل ہوگیا۔ جب فکر کو ہر بند سے آزاد کیا جائے تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب یہ اپنے اساسی تصورات کے لیے خطرۂ عظیم بن جاتا ہے۔ اسماعیلیت میں آزادی فکر کے ساتھ ساتھ امام زمان کی حاکمیت کوبھی مضبوط بنیاد کی حیثیت سے اختیار کیا جاتا ہے۔ ایک طرف تو آزادی فکر کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور دوسری طرف ایک متضاد بات یعنی تقلید پرستی کو بھی روا خیال کرتے ہیں۔ فکر آزاد اور امامت کا نظریہ ایک بنیادی تضاد کی علامت ہے۔ علامہ اقبال اسماعیلی تحریک اور عبد اللہ ابن میمون کی فکری سرگرمیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس عجیب و غریب شخص نے ایک ایسا وسیع منصوبہ بنایا جس میں اس نے مختلف رنگوں کے بے شمار دھاگوں کو یکجا کرکے بڑی ہوشیاری سے لفظی ہیر پھیر کا فکری نظام متشکل کردیا۔ یہ فلسفیانہ نظام اپنی پراسرار نوعیت اور فیثاغورث (Pyhthagoras) کے مبہم فلسفے کی بنا پر ایرانیوں کے لیے باعث کشش بن گیا۔ اخوان الصفا تنظیم کی نقل کرتے ہوئے اس نے اُصول امامت (سند و اختیار) کے مقدس لبادے میں اپنے عہد کے تمام مقبول و غالب تصورات کو آپس میں ملانے کی کوشش کی تھی۔ فلسفہ یونان، عیسائیت، عقل پرستی، تصوف، مانی کے افکار اور ایرانی ملحدانہ خیالات اور عقیدۂ حلول نے اسماعیلیت کے بے باکانہ نظریات کو فروغ دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ’’امام‘‘ کے جن پہلوئوں سے علامہ موصوف کو اختلاف ہے وہ انھیں بلاجھجک بیان کردیتے ہیں لیکن جہاں اس کی کچھ خوبیاں نظر آتی ہیں وہ ان کا بھی بڑی فراخ دلی سے اعتراف کرتے ہیں۔ کسی کی مخالفت میں اندھا ہو کر اس کے اوصاف کو بیان نہ کرنا بھی بے انصافی اَور تنگ نظری کی دلیل ہے۔ علامہ اقبال آنکھیں بند کرکے مغربی حکما کی ہر تنقید کو قبول کرنے کے حق میں نہیں یہی وجہ ہے انھوں نے اسماعیلی تحریک کے بارے میں اپنے متوازن خیالات کو ظاہر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: اس تحریک کا اپنے دور کی سیاست سے تعلق بدقسمتی ہے۔ اس سیاسی تعلق کی بنا پر بہت سے علما اور فضلا کو غلط فہمیاں ہوگئی ہیں۔ میکڈونلڈ کی طرح وہ علما اسماعیلی تحریک کو ایران میں عربوں کے سیاسی اقتدار کے خاتمہ کے خلاف ایک طاقت ور سازش کے سوا کچھ بھی نہیں سمجھتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں بہت سے ذہن اور مخلص ترین مسلمان بھی شامل تھے۔ اس کے باوجود اس تحریک کے مخالفین نے اس کی مذمت کرکے اسے تاریک دل قاتلوں کا ایک ایسا ٹولہ کہا ہے جو ہمیشہ دوسروں کو قتل کرنے کے درپے رہتا تھا۔ اسماعیلی لوگوں کے کردار کا جائزہ لیتے وقت ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ بے حد وحشیانہ مظالم اور مذہبی جنون کا نشانہ بننے کے بعد یہ لوگ ترکی بہ ترکی جواب دینے پر مجبور ہوئے تھے۔ تمام سامی النسل لوگ مذہبی مقاصد کے لیے قتل و غارت کو نہ صرف ناقابل اعتراض بلکہ شاید جائز تصور کرتے تھے۔ سولہویں صدی کے نصف آخر میں سینٹ بارتھولومیو کے خوفناک قتل عام کو روم کے پوپ نے بھی منظور کیاتھا۔ علامہ اقبال مزید کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں مذہبی جوش کے تحت کیے جانے والے قتل کو جرم قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں گزشتہ نسلوں کے معیار حق و باطل کو جدید پیمانوں سے نہیں ناپنا چاہیے۔ ان کے خیال میں جس عظیم مذہبی تحریک نے ایک وسیع و عریض سلطنت کی بنیاد ہلاکر رکھ دی اور وہ ظلم و الزام کے مختلف مراحل سے کامیاب ہو کر نکلی وہ سیاسی سازش اور ہنگامی عارضی بنیاد پر ہرگز استوار نہیں ہوسکتی تھی۔ علاوہ ازیں وہ اس تحریک کو صدیوں تک سائنس اور فلسفہ کی حامی قرار دیتے ہوئے اس کے علمی کارناموں کا اعتراف کرتے ہیں۔ آج بھی ہندوستان، پاکستان، ایران، وسطی ایشیا، شام اور افریقہ میں اسماعیلیت کے اخلاقی نصب العین کے عَلم۔بردار بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ وہ اس تحریک کے بطن سے جنم لینے والی ایک جدید تحریک، بابیت کے بارے میں کہتے ہیں: فلسفۂ ایران کا آخری اظہار یعنی بابی مسلک بنیادی طور پر اسماعیلی نوعیت کا حامل ہے۔ فرقہ اسماعیلیہ کے فلسفیانہ تصورات خصوصاً اس کا نظریۂ خدا اور عقیدۂ وحدت و کثرت یہاں بحث کے موضوعات بنتے ہیں۔ علامہ اقبال نے بڑے اجمالی انداز میں اس دقیق اور مشکل مسئلے کو چھیڑ کر اس کے تاریخی پس منظر کو بھی کسی قدر بیان کیا ہے۔ اسماعیلی نظریہ خدا کی رو سے خدا کی ذات اور اس کی گوناگوں صفات میں کوئی جدائی نہیں پائی جاتی۔ چونکہ خداتعالیٰ واحد ہے اس لیے اس کی ذات کو مختلف صفات میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں خدا کی ذات ہمہ صفات سے تمام تضادات کا صدور ہوتا ہے اور بعدازاں تمام متضاد چیزیں اس کی ذات میں جاکر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس کتاب کے شروع میں ایران کے ایک قدیم شہرہ آفاق فلسفی زرتشت کے تصور خیر و شر کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ وہ نور اور ظلمت کو نیکی اور بدی کا سرچشمہ خیال کرتے ہوئے اہرمن ویزدان کو ثنویت کا قائل تھا۔ وہ نیکی اور بدی کی طاقتوں کو الگ الگ سمجھتا تھا مگر اسماعیلی مفکرین توحید پرست ہونے کے لحاظ سے دو جداگانہ طاقتوں کو تسلیم نہیں کرسکتے تھے۔ وہ کائنات کی مختلف طاقتوں اور متضاد صفات کا مبدا و منتہا خدا کو خیال کرتے ہوئے زرتشت کی طرح ذہنی الجھن کا شکار نہیں ہوئے۔ علامہ اقبال اسماعیلی نظریہ خدا کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: انھوں نے اپنا تصور خدا بعد میں آنے والے عقل پرستوں سے اخذ کیا تھا۔ ان کی تعلیم یہ ہے کہ خدا (زندگی کا اولین اُصول) کوئی صفات نہیں رکھتا۔ خدا کی فطرت کوئی نسبت قبول نہیں کرتی۔ جب ہم اس کی ذات سے طاقت کو منسوب کرتے ہیں تو ہمارا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ خدا طاقت عطا کرنے والا ہے۔ اس طرح جب ہم اس سے بقا منسوب کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد قرآنی ’’امر‘‘ (کلام اللہ) ہے جو اس سے متصل ’’خلق‘‘ (خدا کی تخلیقی سرگرمی) سے ممیّز ہے۔ خدا کی ذات میں تمام تضادات تحلیل ہو جاتے ہیں اور اس سے تمام تضادات خارج ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ تو ذات واحد ہے پھر کائنات میں کثرت کیسے پیدا ہوگئی ہے؟ کیا اس کثرت کا خالق خدا کے سوا کوئی اور بھی ہے؟ اسماعیلی فلاسفہ اس سوال کا یہ جواب دیتے ہیں کہ وحدت سے صرف وحدت ہی پیدا ہوتی ہے۔ جسے ہم کثرت کہتے ہیں وہ دراصل وحدت ہی کا ظہو رہے۔ وحدت ازلی نے اپنے آپ کو کثرت میں تبدیل کرکے عقل اول (آفاقی عقل) اور بعدازاں آفاقی روح کو پیدا کیا تھا۔ اس روح کائنات نے اپنے آپ کو اپنے اصل منبع سے ہم آہنگ کرنے کے لیے حرکت اور قوت حرکت کے حامل جسم کی ضرورت کو محسوس کیا۔ اس وصال کے لیے روح نے اپنی ہدایت کے مطابق دوری حرکت کرنے والے آسمانوں کو تخلیق کیا۔ اس روح نے عناصر کو بھی پیدا کیا جنھوں نے مل کر ظاہری کائنات کی تشکیل کی۔ اسماعیلی مفکرین اس مادی اور نظر آنے والی کائنات کو جلوہ گاہِ کثرت خیال کرتے ہیں جس میں سے گزر کر روح اپنے اولین منبع کی جانب رجوع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ انفرادی روح کو اس تمام کائنات کا خلاصہ تصور کرتے ہیں جو روح کی درجہ بدرجہ تعلیم کے لیے معرض وجود میں آئی ہے۔ آفاقی روح وقتاً فوقتاً اپنے آپ کو ’’امام‘‘ کی شخصیت میں ڈھال لیتی ہے۔ یہ امام روح کو اس کے تجربے اور ادراک کے تناسب سے منور کرتا ہے اور اسے بتدریج مظاہر کثرت سے گزار کر ابدی وحدت کی دنیا تک راہ نمائی کرتا ہے۔ جب آفاقی روح اپنی منزل یا اپنی عمیق ہستی کی طرف آتی ہے تو الگ تھلگ ہونے کا عمل جاری ہو جاتا ہے۔ کائنات کی تشکیل کرنے والے ذرات ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں۔ نیکی کے ذرات حقیقت (خدا) یعنی مظہر وحدت کی طرف چلے جاتے ہیں اور بدی کے ذرات غیر حقیقت (شیطان) یعنی مظہر کثرت کی جانب واپس ہو جاتے ہیں۔ یہ ہے اسماعیلی فلسفے کا لب لباب۔ شہرستانی اسے فلسفیانہ اور مانی کے تصورات کا ملغوبہ قرار دیتا ہے جن کے ذریعے اسماعیلی پیروکاروں کو روحانی آزادی کے اس مقام پر لایا جاتا ہے جہاں پہنچ کر مذہب کے ظواہر ختم ہو جاتے ہیں اور قیود کا پابند مذہب مفید اور باضابطہ دروغ گوئی کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ علامہ اقبال اس بحث پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ اسماعیلی نظریہ اپنے دور کے فلسفہ اور کائنات کے بارے میں ایرانی تصور کو ملانے اور اسلام کو قرآن کی تمثیلی تفسیر کے ذریعے بیان کرنے کی پہلی کوشش ہے۔ اس تمثیلی طریق کار کو بعدازاں صوفیا نے اختیار کرلیا تھا۔ اس کی نگاہ میں زرتشتی اہرمن (شیطان) اشیائے بد کا بدخواہ خالق نہیں بلکہ یہ ایک اُصول ہے جو ازلی وحدت کو توڑ کر اسے نظر آنے والی کثرت میں تقسیم کردیتا ہے۔ یہ نظریہ کہ ہستی مطلق کی ذات میں کوئی اُصولی اختلاف ضرور فرض کرنا چاہیے تاکہ ظاہری کثرت کا جواز پیش کیا جائے، مزید تغیرات کا حامل بن گیا تھا۔ یہ نظریہ اس حد تک تبدیل ہوگیا کہ اسماعیلی مسلک کی ایک ذیلی شاخ حروفی فرقے نے چودھویں صدی عیسوی میں ایک طرف اس دور کے تصوف کو چھولیا اور دوسری طرف عیسائی تثلیث کو۔ حروفی فرقہ کے ماننے والوں کی رائے میں ’’کن‘‘ خدا کا ازلی اور غیر مخلوق لفظ ہے جو مزید تخلیق کا باعث بن کر ظاہری روپ دھار لیتا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے اگر لفظ ’’کن‘‘ نہ ہوتا تو ذات الٰہی کا عرفان ناممکن ہو جاتا کیوں کہ خدا حواس و ادراک کی پہنچ سے باہر ہے۔ ’’اس لیے یہ لفظ مریم کے رحم میں آکر گوشت بنا، تاکہ آسمانی باپ کا ظہور ہوسکے۔ علامہ اقبال نے فرقہ حروفی کی مزید وضاحت کے لیے اہم کتاب جادوان کبیر کے چند مختصر اقتباسات کی روشنی میں اظہار خیال کیا ہے۔ حروفیوں کے خیال میں یہ ساری کائنات خدا کے لفظ ’’کن‘‘ کی جلوہ گری ہے اس لیے خدا اس میں نہاں ہے۔ وہ ہر ذرہ حیا ت کو بقائے دوام کا نغمہ خواں اور ہر آواز کو خدا میں پنہاں تصور کرتے ہیں۔ جو طالبان حقیقت اشیائے کائنات کی کنہ کو پانے کے خواہاں ہیں انھیں ’’اسم کے ذریعے مسمی‘‘ کو تلاش کرنا چاہیے کیوں کہ خدا کی ذات ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔ قرآن حکیم میں خدا تعالیٰ کے طریق تخلیق کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اِذَآ اَرَادَ اللّٰہ شَیْئاً اَنْ یَّقُوْلَ لَہُ کُنْ فَیَکُوْنُ۔ [یسٓ:۸۲]’’جب اللہ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے ہو جا پس وہ معرض وجود میں آجاتی ہے۔‘‘ بعض لوگ اس دنیا کو خدا تعالیٰ کے اسمائے حسنہ کا خارجی روپ خیال کرتے ہیں اس لیے وہ ان اسما کے ذریعے خدا کی معرفت کے قائل ہیں۔ اسماعیلی مسلک کی یہ شاخ (حروفی فرقہ) بھی اسی تصور کی حامی ہے۔ ۳- عقلیت کے خلاف رد عمل… اشاعرہ اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر خلفائے عباسیہ نے تحریک عقلیت کو مسلم ممالک کے بیشتر علمی حلقوں میں پروان چڑھانے میں کافی مدد دی تھی۔ دور عباسیہ کے آغاز میں مختلف علوم و فنون اور فلسفہ یونان کے تراجم نے عقل پرستی کی کافی حوصلہ افزائی کی تھی۔ ہر کمانے را زوال کے مصداق نویں صدی عیسوی کے نصف اول میں ایک بلند پایہ مفکر ابوالحسن الاشعری (پیدایش ۸۷۳ سنہ) نے اس کے خلاف زبردست ردعمل کو جنم دیا۔ ابوالحسن الاشعری نے عقل پرست اساتذہ کے زیرِ نگرانی تعلیم حاصل کرکے ان کے منطقی ہتھیاروں سے کام لے کر ان پر ہی تنقیدی حملے شروع کردیے۔ عقل پرست فلاسفر نے اپنے افکار کی جس عمارت کو بڑی محنت سے فلک بوس بنایا تھا اس کو ابوالحسن الاشعری نے پیونہ زمین کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ معتزلیت کے ایک چھوٹے سے مکتبِ خیال کے نمایندے الجبائی بصری کے سامنے الاشعری نے زانوئے تلمذطے کیے تھے۔ بعدازاں الاشعری نے اپنے استاد سے کئی امور میں اختلاف رائے کرتے ہوئے علمی مباحثے کیے۔ جب ان علمی مباحثوں نے طول پکڑا تو ابوالحسن الاشعری اور الجبرئی کے دوستانہ تعلقات منقطع ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ الاشعری نے معتزلہ فلاسفہ کو خیرباد کَہ دیا۔ الاشعری کا دور دراصل مذہبی اور فکری طور پربے حد دل چسپ تھا۔ اس نے اپنے دور کے تمام مروجہ مذہبی اور فلسفیانہ رجحانات کا اثر قبول کرکے اپنے آپ کو ایک اہم مفکر بنا دیا تھا۔ وہ بچپن میں راسخ العقیدہ لیکن جوانی میںمعتزلی نظریات کا حامل تھا۔ علامہ اقبال الاشعری کے مقام رفیع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: معتزلہ کے افکار (مثلاً الجاحظ کے نظریات) میں مکمل طور پر آزاد ہونے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ بعض حالات میں تو وہ محض منفی خیالات کے جنم کا باعث بن گئے تھے۔ الاشعری کی جاری کردہ تحریک نہ صرف اسلام کو ان غیر اسلامی عناصر سے پاک کرنے کی ایک سعی تھی جو اسلام میں بڑی خاموشی سے داخل ہوئے تھے بلکہ یہ مذہبی شعور اور اسلام کے مذہبی خیالات کو بھی ہم آہنگ کرنے کی کوشش تھی۔ عقلیت (Rationalism) دراصل حقائق کو صرف عقلی پیمانوں سے ناپنے کی تحریک تھی۔ عقل پرستی نے مذہبی عقائد و حقائق کو فکر خالص کی اصطلاحات یعنی فلسفیانہ تصورات میں بیان کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس نے زیادہ تر انسانی فطرت کے حقائق کو نظر انداز کردیا تھا۔ علاوہ ازیں اس فکر آزاد نے تنقید و شک پرستی کی فضا پیدا کرکے مذہب اسلام کے استحکام کو نقصان پہنچانا شروع کردیا اس لیے عقل پرستی کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوگیا۔ ابوالحسن الاشعری اس زبردست ردعمل کا محرک تھا۔ عقل پرست تو عقل کو مذہبی تنقید کے لیے استعمال کرتے تھے لیکن اشاعرہ عقل کے ذریعے مذہبی احکام اور اسلامی نظریات کی برتری کو ثابت کیاکرتے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اشاعرہ کا رد عمل وحی و الہام کی صداقتوں کی برتری ثابت کرنے کے لیے فلسفہ و منطق کے طریق کار کی تبدیلی پر مبنی تھا۔ معتزلہ کی عقل پرستی اور اشاعرہ کی دین پرستی کے درمیان پائی جانے والی اس چپقلش کی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے علامہ اقبال صفات ایزدی اور جبر و قدر کے مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہیں کہ عقل پرستوں کے برعکس اشاعرہ خدا کی صفات کے حامی تھے۔ جہاں تک نظریہ قدر کا تعلق ہے انھوں نے قدما کی انتہا پسندانہ تقدیر پرستی اور عقل کے پرستاروں کی انتہا پسندانہ آزادی کے مابین راستہ اختیار کیا۔ مشہور مفسر قرآن امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر قرآن میں کھلم کھلا نظریہ جبر اختیار کرکے فلسفے پر زبردست تنقید کی ہے۔ وہ آزادی انتخاب اور اکتساب عمل کے حق میں نہیں تھے۔ طوسی اور قطب الدین نے امام فخر الدین رازی کے تصور جبر کی شدید مخالفت کی تھی۔ علامہ اقبال اشاعرہ کے نظریہ جبر و قدر پرستی پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں: اشاعرہ کی تعلیم یہ ہے کہ انتخاب کی طاقت اور تمام انسانی اعمال کا خالق خدا ہے۔ خدا تعالیٰ نے انسان کو مختلف طریقہ ہائے کار کو اختیار کرنے کی طاقت عطا کی ہے… الاشعری کے برخلاف منصور ماتریدی کی تعلیم یہ ہے کہ انسان کو اپنی سرگرمی پر مکمل اختیار ہے اور اس کا یہ اختیار اس کے اعمال کی نوعیت کو متاثر کرتا ہے۔ منصور ماتریدی سمرقند کے نواح میں ایک علاقہ ماترید کا باشندہ تھا۔ اس نے عقل پرستوں کے خلاف ایک مذہبی مکتبِ فکر کی بنیاد ڈالی تھی جسے ماتریدیہ کہا جاتا ہے۔ منصور ماتریدی تھا تو عقل پرستوں کا مخالف مگر مسئلہ جبر و قدر میں وہ ان کا ہم نوا تھا۔ بعض حضرات اس بات کے حامی ہیں کہ انسان بالکل مجبور اور بے بس ہے اس لیے وہ کوئی کام بھی خدا کی مرضی اور علم کے بغیر نہیں کرسکتا۔ یہ حضرات عموماً قرآن حکیم کی یہ آیت پیش کیا کرتے ہیں: ان اللّٰہ علی کل شیٔ قدیر۔’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے۔‘‘ ان کا استدلال یہ ہے کہ جب خدا ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے تو ہمیں اختیار کہاں سے ملا۔ ان کے برعکس فلاسفہ کا دوسرا گروہ اس امر کی وکالت کرتا ہے کہ خدا نے انسان کو کلی اختیارات دیے ہیں۔ وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ مفکرین کا تیسرا طبقہ اعتدال کی راہ پر چلتے ہوئے انسان کو مجبور اور مختار تسلیم کرتا ہے۔ بہرحال معتزلہ انسانی اختیار کے قائل تھے اور اشاعرہ جبر و قدر دونوں کے حامی تھے۔ معرکہ عقل و دین اور مناظرہ جبر و قدر سے قطع نظر کرکے مفکر اسلام علامہ اقبال اشاعرہ کے نظام فکر کے ایک اور اہم پہلو کو موضوع بحث بناتے ہیں۔اس موضوع کا تعلق اشاعرہ کے تصور علم سے ہے۔ اگرچہ اشاعرہ کا نصب العین خالصتاً مذہبی نوعیت کا تھا تاہم حقیقت مطلقہ کا حوالہ دیے بغیر ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ عقل و الہام کو آپس میں ہم آہنگ کرسکیں۔ اس لیے باقلانی نے اس بارے میں چند مابعدالطبیعی مفروضات کو اپنی مذہبی تحقیقات میں بیان کرکے اشعری مکتب فکر کے لیے مابعدالطبیعیاتی بنیاد مہیا کی ہے۔ اپنے ہم عصر فلاسفہ اور مفکرین کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے لیے بھی لازمی تھا کہ وہ چار و ناچار فلسفہ طرازی سے کام لے کر اپنا مخصوص نظریہ علم وضع کریں۔ اشاعرہ کے تصور علم کو بیان کرنے سے بیشتر ان کے چند مذہبی عقائد اور مابعدالطبیعی مفروضات پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنا بے محل نہ ہوگا۔ باقلانی نے درج ذیل مابعدالطبیعی مفروضات بیان کیے ہیں: (الف) جوہر ایک منفرد وحدت ہے۔ (ب) خاصیت، خاصیت میں موجود نہیں ہوسکتی۔ (ج) مکمل خلا ممکن ہے۔ اشاعرہ نے اس راسخ عقائد کا دفاع کیا تھا: (i) قرآن غیر مخلوق ہے۔ (ii) خدا کا دیدار یہاں ممکن ہے۔ اشاعرہ کے تصور علم کا ان کے تصور خدا کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اشاعرہ کی رائے میں خدا تعالیٰ وہ آخری لازمی وجود ہے جس کی ’’صفات اس کی ذات میں پنہاں ہیں‘‘ اور جس کا وجود اور ماہیت یکساں ہیں۔ اشاعرہ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے مندرجہ ذیل دلائل کا سہارا لیتے ہیں: ۱- اپنے وجود کے ظاہری لحاظ سے تمام اجسام ایک ہیں مگر اس وحدت کے باوجود ان کی صفات ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متضاد ہیں۔ اس اختلاف کی لازمی طور پر کوئی علت غائی ہونی چاہیے۔ ۲- ہر منحصر ہستی کو اپنے وجود کے لیے کسی علت کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ اس کائنات کا وجود ذاتی نہیں ہے اس لیے اس کے وجود کی بھی کوئی علت لازمی ہے۔ یہ علت خدا ہے۔ وہ کائنات کے وجود کو خدا کا عطا کردہ عطیہ قرار دیتے ہوئے جوہر اور خاصیت کے باہمی ربط کی اہمیت کے قائل ہیں۔ ان کے خیال میں جوہر کے بغیر خاصیت اور خاصیت کے بغیر جوہر کا وجود ممکن نہیں ہے۔ خاصیت کو وہ محض ایک حادثہ سمجھتے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی نے اپنی بلندپایہ تصنیف علم الکلام اور پروفیسر میکڈونلڈ نے اپنی کتاب الٰہیات اسلامیہ (Muslim Theology) میںاشاعرہ کے ان تصورات پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے انھوں نے جوہر یا ایٹم کے خارجی وجود کو بڑے مبہم انداز میں بیان کیا ہے اور خدائی تخلیق کے تصور کی حمایت کرتے ہوئے کائنات کو معروضیت کا ایک منظم تماشا بنا دیا ہے۔ ان کی مقدس خواہش یہ تھی کہ وہ کائنات کی پیدایش کو مشیت ایزدی کا معجزہ قرار دیں۔ علامہ اقبال کے قول کے مطابق انسانی علم کا جائزہ لیتے ہوئے جرمنی کے شہرہ آفاقی فلسفی کانٹ نے علم کو طریق کار کی بجائے پیداوار تو قرار دیا مگر وہ اس خیال (Dingan Sich) پر آکر رک گیا۔ اس کے برعکس اشاعرہ نے زیادہ گہرائی میں جاکر یہ تصور دیا کہ اشیا میں چھپی ہوئی ماہیت کا وجود جاننے والے کے تعلق پر منحصر ہے۔ وہ اشاعرہ لوزے (Lotze) اور برکلے (Berkeley) کے نظریات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: اشاعرہ کا نظریۂ جواہر (جواہریت) (Atomism) لوزے کے تصور تک جاپہنچتا ہے۔ خارجی حقیقت کو بچانے کی خواہش کے باوجود لَوزے نے کائنات کو مکمل طور پر تصوریت بنا کر رکھ دیا۔ لوزے کی طرح اشاعرہ اپنے جواہر کو لامحدود ہستی قدیم کا باطنی فعل نہ مان سکے کیوں کہ خالص واحدانیت میں ان کی دل چسپی بہت محکم تھی۔ مادے کے تجزیے کا لازمی نتیجہ برکلے کی طرح ان کی کلی عینیت ہے۔ شاید ان کی فطرتی حقیقت پرستی اور ان کی جوہری روایت کے زور کا امتزاج ان کو لفظ ’’جوہر‘‘ (ایٹم) استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے جس کی وساطت سے وہ اپنی تصوریت کو حقیقت پسندانہ رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اشاعرہ دراصل بہت زیادہ مذہب پرست تھے۔ بنابریں انھوں نے خالص فلسفیانہ خیالات کو ہدف تنقید بناکر اپنا مخصوص فلسفہ اور مابعدالطبیعیاتی نظام وضع کیا تھا۔ اشاعرہ کے نظریہ علم کی اس مختصر سی بحث کو ختم کرنے سے پہلے علامہ اقبال نے لوزے کے تصور جوہریت پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے جوہر پرست تو مانا ہے لیکن وہ اس کی جوہریت کو مادی نہیں کہتے۔ تمام حسّی خصوصیت کی طرح جواہر باہمی عمل کے ذریعے وسعت پذیر ہوتے ہیں۔ اس طرح لَوزے جواہر کو غیر محدود ہستی قدیم کا باطنی فعل سمجھتا تھا۔ علامہ اقبال اشاعرہ کے تصورات علم و خدا کو بیان کرنے کے بعد ان کے نظریہ معجزات پر بھی اظہار خیال کرتے ہیں۔ ان کی اس رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ اشاعرہ کے مابعدالطبیعی افکار کا زیادہ اہم اور زیادہ معنی خیز پہلو ان کا قانون علت و معلول کے بارے میں رویہ ہے۔ عقل پرستوں کے علی الرغم انھوں نے بصریات کے تمام اُصولوں کو رد کردیا تھا تاکہ وہ یہ ثابت کرسکیں کہ خدا کی وسعت ناپذیری کے باوجود اس کا دیدار کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح معجزات کے امکان کی مدافعت کرتے ہوئے انھوں نے مکمل طور پر علت و معلول کے نظریے کے تصور کی تردید کردی تھی۔ تقلید پرست مسلمان معجزات میں بھی یقین رکھتے تھے اور علت و معلول کے عالم گیر قانون میں بھی۔ ان کٹر مسلمانوں کی رائے یہ تھی کہ ظہور معجزہ کے وقت خدا اس قانون کے اثر و نفوذ کو معطل کردیا کرتاتھا۔ اشاعرہ کو ان راسخ العقیدہ مسلمانوں کی اس رائے سے اتفاق نہیں تھا۔ وہ کہتے تھے کہ علت و معلول کو ہمیشہ ایک جیسا ہونا چاہیے۔ ان کی تعلیم یہ تھی کہ اگر خدا کو قانون علت و معلول کا سختی سے پابند تصور کیا جائے تو پھر معجزات ممکن نہیں ہوسکتے۔ اس طرح توخدا کی طاقت کا نظریہ بے معنی بن جاتا ہے کیوں کہ مظاہر فطرت کا نظام خدا کے لگے بندھے اُصولوں کا پابند ہو جاتا ہے۔ اگرچہ عام مسلمان اب بھی معجزات میں پختہ ایمان رکھتے ہیں تاہم ایک گروہ ان کا منکر ہے۔ یہ گروہِ مسلمین عقل پرستوں اور فطرت پرستوں پر مشتمل ہے۔ اس تصور حیات کے حامی کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس کائنات کو چلانے کے لیے کچھ خاص عالم گیر قوانین بنائے ہیں جو ہر دور اور ہر ملک میں ہمیشہ یکساں نتائج پیدا کیا کرتے ہیں۔ وہ قرآن کی متعدد آیات اپنے نقطہ نگاہ کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ ایک قرآنی آیت ملاحظہ ہو۔ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ[الروم: ۳۰]۔ ’’خدا کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں‘‘۔ اگر ان کی یہ دلیل تسلیم کرلی جائے تو پھر قرآن میں بیان کردہ چند معجزات کا جواز کیا ہوگا؟ حضرت آدم کا طریق پیدایش، حضرت ابراہیم کے لیے آگ کا ٹھنڈا ہو جانا، حضرت موسیٰؑ کے یدبیضا، عصا کا سانپ بن جانا اور حضرت عیسیٰؑ کی پیدایش اور ان کے چند معجزات اور رسول کریمؐ کا واقعہ معراج وغیرہ قانون علت و معلول کے پابند نظر نہیں آتے۔ اشعری مابعدالطبیعیات کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال عالم اسلام کی ایک ممتاز ترین علمی شخصیت امام غزالی کو نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ امام غزالی کی بلند و بالا ہستی کے نمایاں کارناموں کا مختصر تعارف کراتے ہوئے انھیں بہت زیادہ خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے نثر کے علاوہ اپنی شاعری میں بھی ان کا جابجا ذکر کرکے ان کی فکری عظمت اور اسلامی خدمت کو سراہا ہے۔ وہ انھیں چند ممتاز مسلمان حکما مثلاً ’’شہرستانی، رازی اور اشراقی کا پیش رو سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ فرماتے ہیں: اگرچہ بہت سے تقلید پسند مذہبی علما نے الغزالی (متوفی ۱۱۱۱ئ) کوغلط سمجھا ہے تاہم انھیں ہمیشہ اسلام کی عظیم ترین شخصیات میں شمار کیا جائے گا۔ زبردست ذہنی استعداد رکھنے والا یہ تشکیک پرست اپنے فلسفیانہ طریق کار کی بدولت ڈیکارٹ کا پیش رو بنا اور ’’ہیوم سے سات سو سال بیشتر اس نے اپنی منطق کی دھار سے علت و معلول کے بندھن کو کاٹ کر رکھ دیا تھا۔‘‘ وہ پہلا شخص تھا جس نے فلسفہ کا باقاعدہ ابطال کرکے کٹر مسلمانوں کے لیے عقل پرستی کے ہوا کا خاتمہ کردیا۔ یہ صرف اس کا اثر تھا کہ لوگوں نے مذہبی عقائد اور مابعدالطبیعیات کا ایک ساتھ مطالعہ شروع کردیا۔ آخرکار اس کے نظام تعلیم نے شہرستانی، الرازی اور الاشراقی جیسے انسان پیدا کیے۔ ایک مغربی مصنف لیوس (Lewes) نے اپنی کتاب تاریخ فلسفہ میں عالم اسلام کی اس نابغہ اور مایہ ناز شخصیت یعنی امام غزالی کو خراج عقیدت پیش کرتے اور اعتراف حقیقت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر غزالی کی کتاب احیائے علوم الدین اور ڈیکارٹ کی ایک تصنیف کو سامنے رکھا جائے تو دونوں میں حیرت انگیز مطابقت نظر آتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر امام غزالی کی کتاب کا ڈیکارٹ کے زمانے میں انگریزی ترجمہ کیا جاتا تو پھر ہر شخص ڈیکارٹ پر عملی سرقہ کا فتویٰ صادر کردیتا۔ امام غزالی کے فکری طریق کار سے متعلق علامہ اقبال نے ان کی کتاب المتقذ سے ایک اقتباس دیا ہے جس کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ امام غزالی مخصوص موضوعات و مسائل سے متعلق کس طرح اپنی رائے قائم کیا کرتے تھے۔ انھوں نے بچپن ہی سے موروثی عقائد، آبائی نظریات، مقبول عام مذہبی تصورات اور معاشرتی اقدار کا تنقیدی جائزہ لیناشروع کردیا تھا تاکہ وہ بذات خود ان کی اصلیت سے عقلی طور پر آگاہ ہوسکیں۔ عوام الناس تو دید کی بجائے شنید پر عمل کیا کرتے ہیں لیکن طالبان حقیقت سنی سنائی باتوں اور مسلمہ نظریات و عقائد کے قائل نہیں ہوتے۔ وہ علم، غور و فکر اور مطالعہ و مشاہدہ کی بنا پر اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ امام غزالی کی داستان فکر خود ان کے الفاظ میں یہ ہے : بچپن سے میں اس بات پر مائل تھا کہ چیزوں کے بارے میں، میں خود غور و فکر کروں۔ اس غور و فکر کے طریق کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ میں نے سند و اختیار کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور عہد طفولیت سے میرے دماغ میں جو عقائد راسخ ہوگئے تھے اب وہ تمام میرے لیے بنیادی طور پر بے اہمیت ہوگئے۔ میں نے یہ خیال کیا کہ سند و اختیار پر مبنی ایسے اعتقادات تو یکساں طور پر یہودیوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں میں بھی موجود ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ حقیقی علم سے تمام شکوک و شبہات کا استیصال ہو جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دس کا ہندسہ تین سے بڑا ہوتا ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص چھڑی کو سانپ کی شکل میں بدلنے کی طاقت کا حامل ہونے کی بنا پر تین کے ہندسے کو دس سے بڑا ظاہر کرنے کی کوشش کرے تو اسے یقین کا درجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ اس کا یہ طریق عمل حیرت انگیز دکھائی دے گا۔ اس اقتباس سے امام غزالی کی فکری عظمت اور تحقیق پسندی کا پتا چلتا ہے۔ وہ طلسم، شعبدہ بازی اور کرامات کو حیرت انگیز تو قرار دیتے ہیں مگر وہ انھیں بطور سند تسلیم کرنے کے حق میں نہیں کیوں کہ اس طرح قانون قدرت کی خلاف ورزی ظاہر ہوتی ہے۔ وہ اس دنیا کو عالم اسباب سمجھتے ہوئے اسے خدا کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق رواں دواں کہتے ہیں۔ جو یقین ذاتی مشاہدے سے حاصل ہوتا ہے وہ سنی سنائی باتوں اور طلسم و کرامت سے نہیں مل سکتا۔ بہرحال علامہ اقبال کی رائے میں بعدازاں امام غزالی نے تمام طالبان صداقت اور جویان حقیقت کے دعویٰ کی جانچ پڑتال کے بعد تصوف کی دنیا میں یقین کی دولت پائی۔ وہ امام غزالی کی زندگی کے ابتدائی دور کی ناقدانہ عادت اور ان کے آخری دور حیات کی تصوف پسندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بعدازاں امام غزالی نے ’’علم الیقین‘‘ کے مختلف دعویداروں کی آرا کا بغور جائزہ لیا اور انجام کار یقین کو تصوف میں پالیا۔ روح کی حقیقت کا مسئلہ مسلم منکرین کی بھی علمی موشگافیوں کا باعث بنارہا ہے۔ آج تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا کہ روح کیا ہے اور اس کا خدا تعالیٰ کی ذات کے ساتھ تعلق کیا ہے۔ قرآنِ حکیم نے روح کے بارے میں سوالات کرنے والوں کو صرف یہ جواب دے کر خاموش کردیا ہے کہ یہ ’’امر ربی‘‘ ہے۔ احادیث میں بھی اس کی کنہ معلوم کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی کیوں کہ اس کی اصلیت انسانی فہم و ادراک سے ماورا ہے۔ علامہ اقبال امام غزالی اور اشاعرہ کے تصورات روح پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ اشاعرہ سخت قسم کے توحید پرست ہو کر جوہرکی نوعیت کے بارے میں میں جو نظریہ رکھتے تھے اس کے پیش نظر وہ انسانی روح کی نوعیت سے متعلق کوئی حتمی بحث نہ کرسکے۔ صرف امام غزالی نے بڑی سنجیدگی سے اس امر پر بحث کی تھی۔ اس کے باوجود ہم صحیح طور پر خدا کی نوعیت کے بارے میں اس کے تصور کو آسانی سے بیان نہیں کرسکتے۔ جرمنی کے دو مفکرین بورگر اور سولگر (Borger and Solger) کی مانند غزالی کے خیال میں صوفیانہ وحدۃ الوجود اور اشعری اُصول ذات آپس میں ہم آہنگ دکھائی دیتے ہیں۔ اس امتزاج کی رو سے یہ کہنا مشکل ہوگیا ہے کہ امام غزالی وحدۃ الوجودی تھے یا وہ لوزے (Lotze) کی طرح وحدۃ الوجودی تھے۔ مفکر اسلام علامہ اقبال غزالی کے نظریۂ روح کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: غزالی کی رائے میں انسانی روح اشیا کا ادراک کرتی ہے مگر ادراک کی یہ خاصیت تمام جسمانی صفات سے مکمل طور پر آزاد ہوکر صرف جوہر یا ماہیت میں موجود ہوسکتی ہے۔ انھوں نے اپنی تصنیف المدنون میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ رسول کریمؐ نے روح کی نوعیت کا انکشاف کرنے سے کیوں منع کردیا تھا۔ اس کتاب میں وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں دو قسم کے انسان ہوتے ہیں… معمولی انسان اور مفکرین۔ اول الذکر قسم کے انسان چونکہ مادہ کو لازمہ حیات سمجھتے ہیں اس لیے وہ کسی غیرمادی جوہر کا تصور ہی نہیں کرسکتے۔ موخر الذکر انسانوں کا منطقی تصور روح، خدا اور انفرادی روح کے درمیان پائے جانے والے تمام اختلافات کو ختم کردیتا ہے۔ الغزالی نے اپنی تحقیقات کے وحدۃ الوجودی رجحان کا احساس کرتے ہوئے روح کی آخری نوعیت کے بارے میں خاموش رہنے کو ترجیح دی ہے۔ امام غزالی کے اس نظریہ روح پر متحدہ ہندوستان کی ایک نامور علمی شخصیت سرسید احمد خاں نے اپنی ایک کتاب النظر فی بعض مسائل الامام ابو حامد الغزالی میں تنقید کی ہے۔ ایسے علمی مسائل میں اختلاف رائے کا ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ ہر مفکر اپنے مخصوص تصور زندگی کے مطابق اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے وہ تو بُزِ اَخفش کی مانند شنید پر عمل کیا کرتے ہیں۔ عارفین تو حقیقت کی دید کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن عام لوگ شنید کے راستے پر گامزن ہوتے ہیں۔ اگرچہ عام طور پر عالم اسلام کی اس جید شخصیت یعنی امام غزالی کو اشاعرہ کے مکتب فکر کا نمایندہ تصور کیا جاتا ہے لیکن علامہ اقبال انھیں کٹر اشعری نہیں سمجھتے۔ وہ اشاعرہ کے افکار و نظریات سے ہمدردی رکھنے کے باوجود ان کے اندھا دھند مقلد نہیں تھے۔ ان کی یہ روش شک و شبہ کا باعث بن گئی ہے۔ بعض مسلم حکما کو ان کے نظریات سے اس قدر سخت اختلاف تھا کہ وہ اُنہیں ’’گمراہ‘‘ قرار دینے کے علاوہ ان کی کتابوں کو نذر آتش کرنے کے بھی حق میں تھے۔ اس بارے میں علامہ اقبال کی یہ رائے لائق مطالعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: اگرچہ غزالی نے یہ تسلیم کیا تھا اشعری طریق فکر عوام الناس کے لیے بہت عمدہ ہے تاہم انھیں صحیح معنوں میں اشاعرہ کا متبع قرار نہیں دیا جاسکتا۔ شبلی نے کہا (علم الکلام صفحہ ۶۶) ’’مذہب کے راز کو منکشف نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے غزالی نے اشعری الٰہیات کی توضیح و تشریح کی حوصلہ افزائی کی مگر ساتھ ہی اس نے یہ احتیاط کی کہ بعد میں آنے والے اپنے مقلدوں کو اس کے ذاتی افکار کے نتائج شائع کرنے سے منع کردیا۔اشعری الٰہیات کے بارے میں ایسے رویے اور فلسفیانہ زبان کے مستقل استعمال کے اختلاط نے شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ ابن جوزی، قاضی عیاض اور دوسرے مشہور کٹر مذہبی علما نے علی الاعلان اسے گمراہ قرار دے کر ہدف ملامت بنایا۔ قاضی عیاض تو اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ اس نے اسپین میں غزالی کی موجود فلسفیانہ اور مذہبی تصانیف کو تباہ و برباد کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ اس بحث سے علامہ اقبال یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس معرکہ عقل ودیں نے انتہا پسندی کی صورت اختیار کرلی تھی۔ عقل پرستوں نے اپنی عقلی بحثوں کی بدولت ذات خداوندی کے صحیح تصور کو دھندلا دیا اور ان کے مخالفین نے مذہب کی حمایت میں کائنات کی خارجی حقیقت کو نظر انداز کردیا تھا۔ ایک گروہ باطن کو چھوڑ کر خارج کا فریفتہ ہوگیا جب کہ دوسرا طبقہ ظاہر سے منہ موڑ کرباطنی دنیا میں چلا گیا۔ ایک گروہ خارجی فطرت کو بچانے کے جنون میں مذہب کے اصل نظریہ خدا سے دور ہوگیا مگر دوسرے گروہ مفکرین نے خدا کے تصور کو بچانے کے لیے فطرت کو قربان کردیا۔ اس کے بعد علامہ اقبال عقل پرستوں کے نظریہ جواہر کو آزادانہ اور معروضی سمجھتے ہیں لیکن وہ اشاعرہ کے تصور کو مشیت ایزدی کا لمحہ گریزاں تصور کرتے ہیں۔ علامہ اقبال اس دقیق بحث کے بارے میں اپنے نتائج فکری کو ان الفاظ کا جامہ پہناتے ہوئے رقم طراز ہیں: عقلیت کی منطق نے ذاتِ ایزدی کے تصّور کو ختم کرکے اسے محض ناقابلِ بیان آفاقیت میں بدل دیا تھا۔ عقل پرستی کی مخالف تحریک نے ذاتِ خداوندی کے نظریے کو تو محفوظ رکھا مگر اس نے فطرت کی خارجی اصلیت کو برباد کردیا۔ نظام (Nazzam) کے نظریہ ’’تجسیم جوہری‘‘ کے باوجود عقل پرستوں کی رائے میں جوہر ایک آزاد اور معروضی حقیقت کا حامل ہے جب کہ اشاعرہ کے خیال میں جوہر خدائی مشیت کا ایک لمحہ گزراں ہے۔ ان مسلم مفکرین کا ایک طبقہ مذہب کے بیان کردہ خدا کو چھوڑ کر فطرت کو بچاتا ہے لیکن ان کا دوسرا گروہ خدا کے مروجہ قدیم نظریے کو بچانے کی خاطر فطرت کو قربان کردیتا ہے۔ یہاں اس با ت کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ ابن حزم (Ibn Hazm) نے نظام کے مندرجہ بالا تصور کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ فلاسفہ اور مفکرین کی ان بحثوں اور مناظروں سے دور رہ کر صوفیا نے باطن اور ظاہر دونوں کو روحانی رنگ عطا کرکے کائنات کو جلوہ خداوندی کا مظہر قرار دیا۔ امام غزالی کے حالات زندگی پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ عرصہ دراز تک عقل وہ خرد کی وادیوں اور صحرائوں میں گھومنے کے بعد آخرکار تصوف کے گرویدہ بن گئے تھے۔ ان کی مضطرب روح اور بے چین عقل کو آخرکار تصوف کی دنیا میں سکون نصیب ہوا اس لیے وہ تصوف کو علم کا برتر سرچشمہ خیال کرنے لگے تھے۔ علامہ اقبال نے اپنی ایک اور بلندپایہ کتاب تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (The Reconstruction of Religious Throught in Islam) میں امام غزالی اور جرمنی کے معروف فلسفی کانٹ سے موازنہ و مقابلہ کرتے ہوئے تصوف کو امام غزالی کی آخری پناہ گاہ قلب و نظر کہا ہے۔ کانٹ تو عقل و خرد کی محدودیت کا پردہ چاک کرنے کے بعد وہیں رک گیا لیکن غزالی کوچہ تصوف میں آکر تسکین قلب کی دولت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ عقل و خرد کی پرستش کا ایک لازمی نتیجہ شک پرستی ہے اس لیے جب تک امام غزالی عقل و دانش کی قیادت میں چلتے رہے وہ تشکیک پرست رہے۔ جوں ہی انھوں نے عقل پرستی کو چھوڑ کر تصوف کا راستہ اختیار کیا وہ اس ذہنی بیماری سے نجات پاگئے۔ امام غزالی کے اس روحانی سفر کا تذکرہ علامہ اقبال ہی کے ان قابل یادگار الفاظ میں پڑھیے۔ وہ فرماتے ہیں: الغزالی کی بے چین روح نے خشک عقلیت (Rationalism) کے سنسان ریگستان میں طویل اور مایوس کن صحرانوردیوں کے بعد انسانی جذبے کے پرسکون بحر میں اپنا آخری مقام پایا۔ بعدازاں اس کی شک پرستی کا رخ اسلامی الٰہیات کے اُصولوں کے دفاع کے علاوہ علم کے ایک عظیم ترمنبع کی ضرورت کو ثابت کرنے کی طرف مڑگیا۔ اس لیے تصوف اس دور کے تمام مخالف فکر ی رجحانات پر خاموش فتح حاصل کرلیتا ہے۔ غالباً علامہ اقبال کے اندر خود جب اسی قسم کی ذہنی پریشانی پیدا ہوئی تو وہ بے اختیار پکار اُٹھے: تو اے مولائے یثربؐ! آپ میری چارہ سازی کر مری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زناری وہ اسلامی تصوف کی اہمیت و افادیت کے زبردست قائل تھے کیوں کہ ان کی رائے میں کائنات کی اساس مادی نہیں بلکہ روحانی ہے۔ انھوں نے اپنے خطبات میں بھی اسی طرح کے خیالات ظاہر کیے ہیں۔ علامہ اقبال نے تصوف کے ایک افادی پہلو کو یوں بیان کیا ہے۔ وہ امام غزالی کی تصوف پرستی کے ضمن میں اپنی اس کتاب ایران میں ارتقائے مابعدالطبیعیات (The Development of Metaphyics in Persia) میں کہتے ہیں: خدا مست صوفی جو اپنے عہد کے مذہبی مناظروں سے دور کھڑا ہوتا ہے وہ حیات کے دونوں پہلوئوں کو بچاتا ہے اور انھیں روحانی رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ وہ تمام کائنات کو خدا تعالیٰ کی نمود ذات کا عکاس خیال کرتے ہوئے اپنے پیش روئوں کی مخالف حدود کو آپس میں ملا دیتا ہے۔ اس لحاظ سے تصوف ایک اعلیٰ نظریہ ہے۔ ایک صوفی کے قول کے مطابق لکڑی کی ٹانگیں رکھنے والی عقل پرستی کا آخری اظہار شک پرست غزالی میں نظر آتا ہے۔ علامہ اقبال نے یہاں جس صوفی کے قول کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ مولانا رومی ہیں جنھوں نے عقل پرستوں کے بارے میں یہ بلند شعر کہا تھا: پائے استدلالیاں چوبیں بوَد پائے چوبیں سخت بے تمکیں بوَد ]استدلال سے کام لینے والوں کے پائوں چوبی ہوتے ہیں جو بے حد کمزور ثابت ہوتے ہیں۔[ امام غزالی کی جلیل القدر شخصیت نے فلسفہ اسلام کو نئی راہوں سے آشنا کرکے مسلمانوں کے دلوں میں عرفان کی شمع روشن کرنے کی ہر ممکن سعی کی تھی۔ انھوں نے اپنی ایک مختصر مگر بے حد اہم کتاب مشکوۃ الانوار میںنور کے گوناگوں پہلوئوں کو بڑے حکیمانہ انداز میں بیان کرکے فلسفہ اشراق میں کافی وسعت پیدا کی۔ قرآن حکیم نے خداتعالیٰ کو آسمانوں اور زمین کا نور قرار دیتے ہوئے اسے منبع حیات اور سرچشمۂ تخلیق کا رتبہ دیا ہے۔ اس نور ایزدی نے اپنی حقیقت کو کئی پردوں میں مستور رکھنے کے باوجود اشیائے کائنات کو اپنی تجلیات کا مظہر بنایا ہے۔ اگرچہ ایرانی افکار میں ظلمت و نور کا تذکرہ اس سے پہلے بھی تھا مگر عالم اسلام کی اس نابغہ شخصیت نے اسے اپنے مخصوص انداز میں بیان کرکے زیادہ دل چسپ اور مفصل بنا دیا ہے۔ علامہ اقبال ان کے اس فکری پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: اپنے ملک کے فلسفہ کے میدان میں الغزالی کا مثبت حصہ اس کی چھوٹی سی کتاب مشکوۃ الانوار میں پایا جاتا ہے۔ جس کا آغاز وہ اس قرآنی آیت سے کرتا ہے: اللّٰہ نور السِّمٰوٰاتِ وَ الْارَضِ۔ ’’اور بعدازاں جبلی طور پر اس ایرانی تصور کی طرف واپس آجاتا ہے جس کا زبردست شارح الاشراقی بن گیا تھا۔ اس کتاب میں وہ یہ بتاتا ہے کہ نور ہی اصلی وجود ہے اور عدم سے بڑھ کوئی اور تاریکی بڑی نہیں ہوتی۔ اس کی نظر میں نور کا خاصہ ظہور ہے۔‘‘ اپنے اس نظریے کی حمایت میں امام غزالی ایک حدیث رسولؐ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ شروع شروع میںہر جگہ تاریکی ہی تاریکی تھی۔ خدا تعالیٰ نے اس ظلمت پر اپنا نور بکھیر کر کائنات کو تاریکی سے نکال کر پیدا فرمایا تھا۔ کائنات کے مختلف حصے بنائے اور جو حصہ ایزدی نور کے زیادہ قریب رہا وہ زیادہ منور ہوگیا اور جو حصہ اس کائنات نور اولین سے دور رہا اسے کو کم تابانی نصیب ہوئی۔ جس طرح جسموں میں تفاوت پایا جاتاہے اسی طرح انسانوں کے بھی مختلف مراتب ہیں۔ بعض انسان نور ایزدی سے بالکل دور رہتے ہیں اور بعض اس کے قریب۔ جو انسان جس قدر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے گا وہ اسی قدر ضوگیر بن جائے گا۔ یہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جو چیز تاریکی میں رہے وہ روشنی سے محروم رہتی ہے اور جو چیز روشنی میں آجائے وہ تاریک نہیں رہتی۔ قرآن حکیم نے چونکہ خدا تعالیٰ کو آسمانوں اور زمین کا نور کہا ہے اس لیے اس نور کی قربت روشنی کا باعث ہوگی اور اس سے دوری تاریکی کا موجب بن جائے گی۔ علاوہ ازیں بعض خوش نصیب اور نیک لوگ اس نور ایزدی سے بدرجہ کمال فیض یاب ہو کر دوسرے انسانوں کو بھی منور کرنے لگتے ہیں۔ ان کا فیض نور دوسرے انسانوں کے دل و دماغ میں بھی اس روشنی کو عام کردیتا ہے۔ امام غزالی اس عارفانہ حقیقت کو ان الفاظ میں صراحت کرتے ہیں: جس طرح تاریک، مبہم، منور اور نور افشاں ہونے کی حیثیت سے اجسام ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اسی طرح انسان بھی ایک دوسرے سے ممیّز ہیں۔ کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جو دوسرے انسانوں کو روشنی عطا کرتے ہیں۔ اسی بنا پر قرآن میں رسول کریمؐ کو ’’سراجاًمنیرا‘‘ کہا گیا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ روشن چراغ سے کئی اور چراغ روشن کیے جاسکتے ہیں؟ کیا دوسروں کو روشن کرنے کے بعد اصل چراغ کی روشنی کم ہوجاتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں دیا جائے گا۔ رسولِ کریمؐ کو قرآنِ مجید نے ’’روشن چراغ‘‘ کہا ہے۔ ان کے وجود مسعود کی روشنی نے کروڑوں انسانوں کو نور ایمان عطا کردیا ہے۔ ان کا یہ فیضان ابد الاباد تک قائم و دائم رہے گا کیوں کہ وہ رحمۃ اللعالمین ہیں۔ ان کی رحمت کی روشنی صرف انسانوں کی دنیا تک ہی محدود نہیں ہے۔ سعدی شیرازی نے کیا خوب کہا ہے: بلغ العلی بکما لہ کشف الدجی بجمالِہٖ حسنت جمیع خصالہٖ صلوا علیہ وآلہٖ مشکوۃ الانوار میں امام غزالی نے دیدہ ظاہر اوردیدہ باطن کے موضوع پر بھی بڑی فکر انگیز بحث کی ہے۔ جس طرح خارجی اور مادی حقائق کو دیکھنے کے لیے ظاہری آنکھ کی اشد ضرورت ہوتی ہے اسی طرح نادیدنی اور مابعدالطبیعی صداقتوں کو دیکھنے کے لیے باطنی آنکھ لازم ہوا کرتی ہے۔ ہماری ظاہری آنکھ صرف ان چیزوں کو دیکھ سکتی ہے۔ جو ہمیں محسوس ہوتی ہیں۔ نادیدنی حقائق تک اس کی رسائی ناممکن ہے۔ صوفیانہ فلسفہ و ادب میں دیدہ باطن یا چشم بصیرت کی اہمیت کے متعلق بہت کچھ کہا گیا ہے۔ یہ باطنی آنکھ مظاہر خارج کے حجابات کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقتوں کو پالیتی ہے۔ قرآن حکیم نے چشم بصیرت سے کام نہ لینے والوں کو اندھا قرار دیا ہے حالانکہ وہ ظاہری آنکھ کے مالک ہوتے ہیں۔ امام غزالی نے اس باطنی آنکھ کی اہمیت کے متعلق جو کچھ کہا ہے علامہ اقبال اس کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: جسمانی آنکھ نور مطلق یا نور حقیقی کے صرف خارجی ظہور کو دیکھتی ہے۔ انسان کے دل میں ایک باطنی آنکھ ہے جو اشیا کو دیکھنے والی جسمانی آنکھ کے برعکس محدود چیزوں سے آگے بڑھ کر مظاہر کا پردہ چاک کردیتی ہے۔ غزالی کے یہ خیالات صرف بیج کا درجہ رکھتے ہیں جو بعدازاں نشو و نما پاکر الاشراقی کی حکمۃ الاشراق میں بارآور ہوتے تھے۔ الاشراقی نے اپنی ایک بلند پایہ تصنیف حکمۃ الاشراق میں امام غزالی کے اس نظریۂ نور کو بڑی جامعیت سے بیان کرکے فلسفۂ ایران کا ایک لازمی جزو بنا دیا تھا۔ اس باب کے آخر میں علامہ اقبال فلسفہ اشاعرہ کا لب لباب بیان کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ اشعری مفکرین کے رد عمل کا ایک الٰہیاتی نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے اسلامی سالمیت کو پارہ پارہ کرنے والے فکر آزاد کا انسداد کردیا۔ اشاعرہ کے فلسفیانہ افکار کے دو ذہنی نتائج یہ تھے: ۱- فلسفہ اشاعرہ نے فلسفہ یونان کی آزادانہ تنقید کی راہ پیدا کردی۔ ۲- دسویں صدی کے آغاز میں اشاعرہ نے عقلیت کے قلعے کو مکمل طور پر مسمار کردیا تھا۔ اس دورمیں ایرانی ثبویت (Positivism) کے میلان کا سراغ ملتا ہے۔ اشعری مفکرین اور فلاسفہ کا یہ فکری کارنامہ قابل یادگار ہے کہ انھوںنے مسلمان فلاسفہ کو یونانی نظریات کی اندھا دھند تقلید سے آزاد کرانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس سے قبل مسلمان مفکرین فلسفہ یونان سے اس حد تک مرعوب ہوچکے تھے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور قرآنی عقائد کوبھی یونانی افکار کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔ انھوں نے قرآن کو معیار حق و باطل بنانے کی بجائے فلسفہ یونان کو میزان خیروشر بنالیا تھا۔ جہاں تک ایرانی فلسفہ اثبات یا ثبوتیت کا تعلق ہے اس میں صرف ان اشیاکو حقیقی سمجھا جاتا ہے جو قابلِ مشاہدہ ہوں۔ دوسرے لفظوں میں قابلِ تجربہ اور لائقِ مشاہدہ اشیا کے وجود کو درست تسلیم کیا جاتا ہے۔ البیرونی (متوفی ۱۰۴۸ئ) اور ابن ہثیم (متوفی ۱۰۳۸ئ) نے عالم محسوسات سے ماوریٰ اشیا اور امور کی کنہ دریافت کرنے کا رویہ ترک کرکے مذہبی معاملات کے بارے میں خاموشی اختیار کرلی تھی۔ انھوں نے صرف ان چیزوں کو اپنی تحقیقات کا محور بنایا جن کا عالم محسوسات سے تعلق تھا۔ اس لحاظ سے انھیں جدید تجرباتی نفسیات کا پیش رو کہا جاسکتا ہے۔ بور (Boer) نے اپنی کتاب فلسفہ اسلام (Philosophy in Islam) میں البیرونی اور ابن ہیثم کے اثباتی نظریات پر روشنی ڈالی ہے۔ چونکہ یہ دونوں مفکر حسّی حرکات کے وجود ہی کو ثبوتِ زندگی قرار دیتے تھے اس لیے وہ محسوسات کے وجود اور سورج کی روشنی کے درمیان گہرے ربط کے قائل تھے۔ وہی چیز محسوس ہوگی جو روشنی میں ہو۔جو چیز ظلمت کے پردوں میں مستور ہے اسے کیسے محسوس کیا جاسکتا ہے؟ اس استدلال کے سہارے وہ نور اور محسوسات کے درمیان گہرے تعلق میں پختہ یقین رکھتے تھے۔