Actions

بقا

From IQBAL

(۱)’’ بقائے ذات ہمارا پیدائشی حق نہیں بلکہ ہمیں اسے کوشس کی بدولت حاصل کرنا پڑے گا۔انسان اس کے لیے صرف امید وار ہے‘‘ (چوتھا خطبہ) بعض مذاہب کے ماننے والے اور نفی پسند مفکرین اور صوفیا انسانی ذات کی بقاکی بجائے اس کی فنا کے زبردست قائل ہیں۔ ان لوگوں کی نگاہ میں انسانی ذات کا کمال فنا اور ذات خداوندی میں مکمل ادغام ہے۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ انسان کی شخصیت کا منتہائے مقصود خدا تعالیٰ کی ذات میں کامل اتصال کے بعد اپنے آپ کو مٹا دینا ہے۔حضرت علامہ اقبالؒ نفی ذات (self-negation) کی بجائے اثبات ذاتِ(self-assertion) کے سب سے بڑے علم بردار ہیں۔ اثباتِ ذات، بقائے ذات اور استحکام ذات کے تصورات ان کے نظام فکر کی اساس اور جان ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اثباتِ ذات سے مراد خودی کا اثبات ہے۔وہ انسانی ذات کی تربیت واستحکام کے زبردست حامی ہونے کے سبب اسکی بقا میں بھی پختہ ایمان رکھتے ہیں۔اُن کی نظر میں یہی اثبات ذات انسانی خودی کی معراج اور زندگی کی پہچان ہے۔وہ انسانی ذات کو’’انائے محدود‘‘(Limited ego) اورخدا تعالیٰ کی ذات کو’’انائے لامحدود‘‘ (Unlimited Ego) یا ’’انائے مطلق‘‘کہتے ہیں۔وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان اپنی محدود ہستی میں خدائی صفات کا رنگ پیدا کرکے اسے باقی اور دائمی بناسکتا ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ فانی اشیاء اور فانی انسانوں کے ساتھ محبت کرکے انسان خود ہی فانی بن جاتا ہے؟اس کے برعکس اس امر سے انکار نہیں کیا سکتا کہ انسان خدا اور اسکے رسول مقبول ؐ کے عشق کی بدولت بقائے دوام کامستحق بن سکتا ہے۔ اقبالؒ کے مرشدمولانا رومؒ نے اس بات کی یوں صراحت کی ہے۔

 عشق  ہائے کزئپے رنگے  بود       عشق نبود،  عاقبت   ننگے بود
 عشق  را  برحیّ و  بر  قیوم دار      عشق  پرمردہ  نبا شد پائیدار 

(ترجمہ: وہ عشق جو کسی رنگ کے لیے ہو وہ عشق نہیں ہوتا بلکہ وہ تو آخر کار باعث شرم ہے۔ اے مخاطب!تو زندہ اور قائم رہنے والے خدا سے عشق کر کیونکہ کسی مردار کا عشق پائیدار نہیں ہوا کرتا(۔ علامہ اقبالؒ انسانی خودی کی بقا کے تو زبردست قائل ہیں مگر وہ اس کے لیے سعی وعمل کو لازمی شرط قرار دیتے ہیں۔وہ اسے انسان کا پیدائشی حق تصور نہیں کرتے بلکہ وہ انسان کو اس کے لیے امید وار سمجھتے ہیں۔خودی کی بقا سے اُن کی مراد یہ ہے کہ اگر خودی کو مضبوط بنایا جائے تو موت بھی اسے فنا نہیں کرسکتی۔خودی کے استحکام کے لیے یہ دنیا میدان عمل کاکام دیتی ہے۔اس دنیا میں ہی خودی کی تربیت کا فریضہ سرانجام دنیا ہوگا کیونکہ یہ دارالعمل ہے۔اس لحاظ سے کوشش اور عمل اس کے استحکام کی لازمی شرطیں ہیں۔کوشش اور عمل سے پہلے مقاصد کا تعین ضروری ہے۔جب کسی مقصد کے حصول کے لیے دل میں تڑپ اور ولولہ پیدا ہوجائے تو پھر انسان اس کے لیے سرگرم عمل ہوجاتا ہے۔جب خودی عشق ومحبت کی بدولت تربیت یافتہ اور مستحکم ہوجاتی ہے تو موت بھی اس کا خاتمہ نہیں کرسکتی بلکہ یہ اس کے لیے ایک مرحلہ وار حیات کا کام دیتی ہے۔علامہ اقبال ؒنے خودی کی بقا کے بارے میں جو کچھ کہا ہے،اس کا خلاصہ اُن کے اپنے چند اشعار میں یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ وہ اپنی ایک نظم’’ حیات ِابدی‘‘ میں خودی کو زندگی کی معراج خیال کرتے ہوئے اس کے دوام پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:۔

    زندگانی  ہے صدف ‘قطرہ نیساں ہے خودی              
 وہ صدف کیا کہ جو  قطرے کو گہرُ کر نہ سکے           
  ہو  اگر خود نگر  و  خود گر  و  خود گیر  خودی            

یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

(ضرب کلیم،کلیات اقبال ص۴۹۳)
وہ انسانی خودی کا کمال ذات خداندوی سے عشق پر منحصر خیال کرتے ہیں اور اس کی بقا کو انائے مطلق سے وابستہ سمجھتے ہوئے کہتے ہیں:۔

خودی را از و جود ِحق وجودے خودی را از نمودِ حق نمودے

نمید ا نم  کہ  ایں  تابندہ  گوہر         کجا  بودے  اگر  دریا  بنودے

(ارمغان حجاز،کلیات اقبال، ص۱۰۰۳) (ترجمہ: انسانی خودی کی ہستی کا خدا کی ہستی پر دارمدار ہے۔اس خودی کی نمود خدا کی نمود سے وابستہ ہے۔ اگر یہ دریا نہ ہوتا(خدا نہ ہوتا) تو مجھے معلوم نہیں پھر یہ چمکدار موتی(انسان کی خودی) کہاں ہوتی)۔